ایک اور انسانیت سوز سانحہ

پولیس کا محکمہ دیگر تمام محکموں کے مقابلے میں سب سے زیادہ بدنام ہے


Shakeel Farooqi January 16, 2018
[email protected]

NEW DELHI: سانحہ قصور نے انسانی ضمیرکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ ہمارے معاشرے کے ماتھے پر کلنک کا ان مٹ ٹیکہ ہے۔ اس کی مذمت کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سانحہ اس ملک میں رونما ہوا ہے جو اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے اور جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا۔ میں جب بھی زینب بیٹی کی تصویر کو میڈیا پر دیکھتا ہوں میرے دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

پھول تو دو دن بہار ِ جاں فزا دکھلا گئے

حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مرجھا گئے

جب کبھی کسی بچے کے ساتھ زیادتی کی خبر آتی ہے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اتنا سفاک اور شیطان صفت بھی ہوسکتا ہے کہ کسی معصوم کے ساتھ درندوں سے بھی بد تر سلوک کرے۔ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں اس قسم کے واقعات وقفے وقفے سے پیش آتے رہتے ہیں ۔ اسلام میں بچوں کی بڑی حرمت ہے۔ نبی اکرمؐ کا فرمان ہے کہ ''اپنے بچوں کا احترام کرو اور انھیں اچھی تربیت دو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اجر عظیم سے نوازے۔'' سات سالہ معصوم زینب کے ساتھ جو انسانیت سوز بدسلوکی ہوئی وہ ہماری معاشرتی پستی کی انتہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان توکجا کیا ہم انسان کہلانے کے بھی مستحق ہیں؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے گھناؤنے جرائم کرنے والے ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ موجود ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد نے ہمارے معاشرے کو یرغمال بنالیا ہے اور قانون اور اس کے رکھوالے ان مجرموں کے آگے لاچار اور بے بس ہیں۔ یہ صورتحال بری حکمرانی کی غمازی کرتی ہے، اگر حکومت پنجاب نے 2014 میں معصوم لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہوتا تو ہمیں آج یہ دن دیکھنا ہی نہ پڑتا۔ یہ صورتحال صرف صوبہ پنجاب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ملک کے دیگر صوبے بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔ گزشتہ سال بھی بچوں کے اغوا کی کئی وارداتیں ہوئیں لیکن کسی بھی مجرم کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جاسکا۔

معصوم زینب کے والد کو اپنی بیٹی کے ساتھ پیش آنے والے انسانیت سوز سانحے کے سلسلے میں فوج کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس اور حکومت پر سے اس کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں تلخ حقائق کی یاد دلاتا ہے اور وہ حقائق یہ ہیں کہ ننھی زینب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی انوکھا یا اکیلا واقعہ نہیں ہے۔ 2015 میںلاہور میں جب اس طرح کا سانحہ پیش آیا تھا تو بڑا ہاہاکار مچا تھا اور بڑی لے دے بھی ہوئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے مجرموں کوکیفرکردار تک پہنچانے کے دعوؤں کے علاوہ عملاً کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ حالیہ واقعے کی طرح اس وقت بھی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے واقعے کا سختی سے نوٹس لینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس وقت بھی ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جیساکہ اس مرتبہ بھی دی گئی ہے لیکن عملاً ایک پولیس افسر کو معطل کرنے کے علاوہ اورکوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا ۔

حالات انتہائی کشیدہ ہوجانے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے رات گئے مظلوم زینب کے والدین سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ انصاف کا وعدہ کیا ۔ خدا کرے کہ یہ وعدہ پورا ہوجائے اور اصل مجرم کی گرفتاری عمل میں آجائے ۔ تاہم ماضی کا تجربہ مایوس کن ہے کیونکہ اس قسم کے واقعے کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر سیدھے گولی چلادی جس کے نتیجے میں دو انسانی جانیں ضایع ہوگئیں ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں گزشتہ 30 سال سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی ہے اور یہ عرصہ خاصہ طویل ہے، اگر حکومت اس قسم کے جرائم کی بیخ کنی کے لیے سخت اقدامات کرتی تو بہت سے جرائم جڑ سے ہی ختم ہوچکے ہوتے۔ اس سے انکار نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ایک انتہائی متحرک اور فعال شخصیت کے مالک ہیں مگر افسوس کہ ان کے صوبے میں اس نوعیت کے واقعات تسلسل سے پیش آرہے ہیں۔ معصوم زینب کے واقعے نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس انسانیت سوز واقعے پر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ اس واقعے نے اس حقیقت کو اجاگرکردیا ہے کہ جب تک ہمارے پولیس کے محکمے کی اصلاح نہیں ہوتی اس وقت تک جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ قوانین چاہے جتنے ہی کیوں نہ بنا لیے جائیں لیکن جب تک ان پر عملدرآمد نہیں ہوگا تب تک جرائم پر جرائم ہوتے ہی رہیں گے۔

محض پولیس کا محکمہ ہی نہیں ہمارے تقریباً ہر محکمے کا المیہ یہ ہے کہ افراد کا چناؤ میرٹ کے بجائے سفارش اور رشوت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پولیس کا محکمہ دیگر تمام محکموں کے مقابلے میں سب سے زیادہ بدنام ہے۔ اس وقت ہمیں نو سالہ طیبہ یاد آرہی ہے جو ایک جج صاحب کے گھر میں کام کیا کرتی تھی اور جسے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور جس کے ساتھ انصاف ہونا ابھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں چھ سالہ طوبیٰ بھی یاد آرہی ہے جسے کراچی میں اغوا کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور پھر اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے تھے۔ شاید کچھ لوگوں کو آٹھ سالہ عمران بھی یاد ہو جسے فیصل آباد کی ایک درسگاہ کی تیسری منزل سے زیادتی کے بعد پھینک دیا گیا تھا اور جس کی لاش گلی میں پانچ گھنٹے تک پڑی رہی تھی۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ننھی زینب کے سانحے کو بھی فراموش کردیا جائے گا۔

انسانی حقوق خصوصاً بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں سے ہماری اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے آزاد اور جرأت مند میڈیا سے بھی یہ توقع ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنی جانب سے کوئی کسر باقی نہ رکھے گا اور اس معاملے کو اس کے منطقی انجام تک ضرور پہنچائے گا۔ اس کے علاوہ والدین سے بھی ہماری یہ گزارش ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں بلکہ ان کے ساتھ رابطہ رکھنے والے عزیز و اقارب اور دیگر افراد کی بھی سختی سے نگرانی کریں۔ عوام الناس کو بھی چاہیے کہ وہ سڑکوں، محلوں اور گلی کوچوں میں نظر آنے والے بچوں کا خیال کریں اورکسی بھی مشکوک صورتحال کا نوٹس لیں اور اس کی اطلاع بروقت نزدیکی پولیس اسٹیشن کو دیں۔ یہ امر بہت حوصلہ افزا ہے کہ سندھ اسمبلی نے چائلڈ پروٹیکشن کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ تمام متعلقہ ریاستی ادارے بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں اپنا کردار انتہائی فعال انداز میں ادا کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔