عوامی معاشی اور فوجی دفاع دوسرا حصہ

1910 میں بھی انگریزوں نے علاقوں کی انتظامی تبدیلیاں یا جوڑ توڑ جاری رکھا۔

k_goraya@yahoo.com

وائسرائے لارڈ میو کے نام پر اجمیر میں میو کالج ،لاہور میں میو اسپتال اور غلام انڈیا میں ریاستوں، صوبوں میں رؤسا یا جاگیرداروں کی اولادوں کے لیے ''چیفس کالج'' قائم کیے گئے۔ جہاں جاگیرداروں کے بیٹوں کو اپنی اپنی ریاستوں میں عوام پر حکمرانی کے گُر سکھائے جاتے تھے اور 1857 کی جنگ آزادی کے نتیجے میں انگریزوں نے مسلمانوں کو بری طرح نظرانداز کرنا شروع کردیا تھا اور ہندوؤں کو نوازنہ شروع کردیا تھا ۔ اسی کے مدنظر سرسید احمد خان کافی متحرک ہوگئے۔

مسلمانوں کے لیے علیحدہ اسکول،کالج قائم کرنے شروع کردیے تھے۔1857 میں سرسید نے علی گڑھ میں کالج قائم کیا جو بعد میں یونیورسٹی کے درجے پر پہنچا ۔ انگریز مسلسل توسیع پسندانہ عزائم پر کار بند تھے۔ لارڈ ڈفرن 1884 سے 1888 کے دور میں 1886 میں (برما) شمالی میانمارکو برٹش برما میں شامل کیا اسی دور میں اس کی بیوی کے نام پر غلام انڈیا کے مختلف شہروں میں لیڈی ڈفرن اسپتال قائم کیے۔ کراچی میں بھی لیڈی ڈفرن اور ہولی فیملی اسپتال بنایا گیا۔

انگریزوں نے اپنی سرپرستی میں انگریزی اے۔او۔ہیوم کی تجویز پر ''انڈین نیشنل کانگریس'' 1883 میں قائم کی تھی۔ قائد اعظم نے کانگریس میں ایک نیشنلسٹ کی حیثیت سے 1906 میں شرکت کی تھی۔ 1905 میں جب لارڈ کرزن وائسرائے ہند (1899 سے 1905 تک) نے بنگال کی تقسیم کردی اس کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو انگریزوں نے تقسیم منسوخ کردی۔ ہندوؤں کا منافقانہ، فرقہ واریت کے عمل کو دیکھ کر مسلمانوں نے 1906 مسلم لیگ پارٹی بنالی تھی۔ انگریز ملکوں اور صوبوں پر ان لوگوں کو حکمران بناتے تھے جو ان کی حمایت کرتے تھے۔ وائسرائے لارڈ پن1880 سے 1884 تک نے افغانستان میں مداخلت کرکے ایوب خان کو جو کابل کے تخت پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی چڑھائی کر رہا تھا۔ جنرل رابرٹس نے ایوب خان کے لشکر پر حملہ کرکے بھگا دیا اور خاندانی وارث افضل خان کے بیٹے عبدالرحمن کو تخت پر بٹھا دیا جو انگریزوں کا زبردست حامی تھا۔

انگریزوں نے پورے غلام انڈیا میں صوبوں، ریاستوں کے والیان جو عوام و ملک کے غدار تھے ان کی سرپرستی کرتے ہوئے انھیں بادشاہ، نواب، راجے، مہاراجے، اعزازی مجسٹریٹ مقرر کرنا شروع کیا تھا۔ لارڈ میو وائسرائے ہند 1869 اس نے سرکاری عمارتوں کی دیکھ بھال کے لیے محکمہ تعمیرات قائم کیا۔ اس نے برٹش انڈیا کے ہر صوبے میں جیل خانے، پولیس کی بھرتی، تعلیم، سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا انتظام صوبوں کی حکومتوں کے حوالے کردیا۔ صوبوں کے انگریز حکمرانوں کے ذمے لگایا کہ وہ ٹیکسوں کی عوام سے وصولیوں کا تعین خود کریں اور صوبوں کے اخراجات نکال کر باقی شاہی (ٹیکس) لگان ''امپریل ریونیو'' کے نام سے تاج برطانیہ کی حکومت کو ادا کریں۔

لارڈ نارتھ بروک وائسرائے ہند 1872 سے 1876 تک کے دور میں ریاست ''بڑودہ'' کے مہاراجا گائیکواڑ کو انگریز حکومت کی فرمانبرداری، ماتحتی نہ کرنے پر تخت سے اتار کر اسی خاندان کے نوجوان کو گائیکواڑ یعنی مہاراجا بنادیا۔ لارڈ لینسڈاؤن 1888 سے 1894 گورنر جنرل وائسرائے ہند کے دور میں انڈیا کونسل ایکٹ 1892 پاس ہوا۔ غلام ہندوستان کے گورنر جنرل، صوبوں کے گورنرز (گورنران) کچھ صوبوں کے حکمران لیفٹیننٹ گورنرز کی قانونی کونسلوں، صوبوں، میونسپلٹیوں، ضلع کونسوں میں ہندوستانیوں کو ممبرون کو جن کو عوام نے منتخب کیا انھیں انگریزوں کے ساتھ شامل کیا گیا۔


مقامی کونسلوں کے ممبران کا پہلا انتخاب 1893 میں ہوا۔ لارڈ الگن ثانی گورنر جنرل وائسرائے ہند نے سرکاری ملازمتوں میں مقامی لوگوں کو پہلے کی نسبت زیادہ ملازمتیں دی گئیں۔ وائسرائے لارڈ کرزن 1899 سے 1905 تک نے پنجاب کے شمالی و مغربی حصے کو الگ کرکے نیا صوبہ ''شمالی مغربی سرحدی'' بنایا گیا۔ بنگال کے مغربی حصے کے ساتھ آسام کو شامل کرکے صوبہ مشرقی بنگال و آسام بنادیاگیا تھا اس کے خلاف تحریک چلنے کے بعد منسوخ کردیاگیا۔ اس نے نیا محکمہ تجارت و صنعت قائم امیر طبقے اور ریاستوں کے حاکموں کی اولادوں کے فوجی تعلیم و تربیت کے لیے ''امپریل کیڈٹ کورپس) قائم کی گئیں 1901 افغانستان کے حاکم عبدالرحمن کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے حبیب اﷲ کو انگریزوں نے تخت پر بٹھایا۔

کیونکہ باپ کی طرح یہ بھی انگریزوں کا زبردست حامی تھا۔ 1904 میں تبت کے حاکم دلائی لامہ نے انگریزوں کی تجارت میں رخنہ اندازی کی اور روسیوں سے مدد مانگی۔ انگریز کرنیل ینگ ہینڈ نے حملہ کرکے تبت کے دارالخلافہ ''لاسہ'' پر قبضہ کرلیا۔ دلائی لامہ خوف سے میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ انگریزوں نے اس کے بیٹے سے معاہدہ وفاداری کرکے اسے تخت پر بٹھادیا۔ لارڈ منٹو مارے 1905 سے 1910 گورنر جنرل، وائسرائے ہند نے (1)انتظامی کونسل (ایگزیکٹو) (2)قانونی کونسل(لیجسلیٹو) جو قانون سازی کرتی تھی اس نے انڈیا کونسل ایکٹ 1909 کے تحت دونوں انگریزوں کی کونسلوں میں ہندوستانیوں کو زیادہ سیٹیں دیں۔ ان دونوں میں انڈین جاگیردار اور سرمایہ دار ممبر تھے۔ وزیر ہند جو لندن میں تھا۔ اس کی کونسل میں تین ہندوستانیوں کو شامل کیا گیا، ایک مسلمان اور دو ہندو ممبر تھے۔ یہ اصلاحات منٹو مارے کے نام سے مشہور ہیں۔

1910 میں بھی انگریزوں نے علاقوں کی انتظامی تبدیلیاں یا جوڑ توڑ جاری رکھا۔ بہار (مگدھ) اور اڑیسہ کا نیا صوبہ بناکر اس کا صدر مقام پٹنہ رکھا گیا۔ 1911 میں انگریزوں نے غلام ہندوستان کا دارالخلافہ ''دہلی'' کو قرار دیا۔ آسام کے صوبے اور مشرقی بنگال کو توڑ کر اس کے جنوبی حصے مع ڈھاکا کے سابقہ بنگال میں ملادیاگیا اور آسام کو الگ کرکے ایک الگ صوبہ بناکر اسے انگریز چیف کمشنر کے کنٹرول میں دے دیاگیا۔ یاد رہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران غلام انڈیا کی سات سو ریاستوں کے (حاکم) راجوں، مہاراجوں یا والیان ریاست نے تاج برطانیہ کے لیے عملاً اسلحہ، سپاہی، سرمایہ فراہم کیا تھا۔ تاج برطانیہ نے انڈیا کونسل ایکٹ 1909 کی بنیاد پر انتظامی مزید تبدیلی کرکے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919 کے تحت صوبے جات مدراس، بمبئی، صوبہ جات متوسط اور آسام، صوبہ جات متحدہ، پنجاب، بہار اور اڑیسہ آٹھ صوبوں کو ہر ایک صوبے کو انگریز گورنر کے ماتحت رکھا گیا۔

ہر صوبے میں عوام نے جن جاگیرداروں کو منتخب کیا ان نمایندوں میں سے ہر انگریز گورنر نے ہر صوبے کے منتخب شدہ نمایندوں میں سے اپنی مرضی سے وزیر مقرر کیے۔ اس طرح تمام صوبہ جات کے ٹوٹل 776 منتخب جاگیردار، بیوروکریٹس ممبران رکھے گئے۔ مزید ضرورت کے مطابق مزید ممبر گورنر اپنے اپنے صوبے میں نامزد کرسکتے تھے۔ ہر تین سال بعد ان کا انتخاب یا لیجسلیٹو کونسل بنائی جاتی تھی اس انگریز جمہوریت کا خاص پہلو قابل غور ہے کہ صوبے کے ممبروں کو وہ ہی لوگ ووٹ دے سکتے تھے جو شخص مقررہ ذاتی ٹیکس، لگان، انکم ٹیکس، تاج برطانوی یا برٹش انڈیا کو ادا کرتا ہو۔ دوسرے تمام عوام ووٹ دینے کے اہل نہیں تھے اس طرح چھوٹے زمینداروں اور بڑے زمینداروں نے جاگیرداروں کو ووٹ دیے۔ بڑے تاجروں، سرمایہ کاروں نے بڑے سرمایہ کاروں کو ووٹ دیے۔

یاد رہے کہ جنرل ایوب خان نے 1962 کے آئین نے جو بنیادی جمہوریت کا سسٹم بنایا تھا وہ برٹش انڈیا ایکٹ 1919 کی مکمل نقل تھا۔ اس طرح ذاتی ملکیت رکھنے والے چھوٹے زمینداروں نے بڑے جاگیرداروں کو بی ڈی سسٹم میں ووٹ دیے تھے اور یہ اپنی اپنی یونین کونسلوں میں عوام سے ووٹ لے کر بی ڈی ممبر بنے تھے۔پورے پاکستان میں 80 ہزار بی ڈی ممبر تھے۔ 40 ہزار سابقہ مشرقی پاکستان اور 40 ہزار موجودہ پاکستان میں ممبر تھے۔

انھوں نے اپنے اپنے صوبوں اور مرکز کے لیے مہا جاگیرداروں کو ووٹ دیے تھے۔ اس طرح پرت در پرت عوام کو جمہوری و معاشی غلامی میں جکڑدیاگیا تھا۔ انگریزوں نے زمین کو ذاتی ملکیت بناکر بڑے زمیندار چھوٹے زمیندار اور جاگیردار پیدا کیے یا بنائے تھے۔ پھر انھیں اپنے اپنے علاقوں میں اعزازی مجسٹریٹ کے عہدے دے کر عوام کو ان کا مکمل غلام بنادیا تھا۔ انگریزوں نے غلام انڈیا کے عوام کو غلام بنانے کے لیے جاگیردار بنائے۔ انھیں خطابات دیے اس طرح تھانہ، کچہری اور تحصیلداری کلچر میں عوام کو مکمل طور پر قید کردیا۔ انگریز سابقہ ہندوستان میں انگریزی سکھانے، نئے نئے محکمے بنانے کے لیے صرف نہیں آئے تھے۔ (جاری ہے)
Load Next Story