صرف پنجاب۔ باقی کہاں ہیں
سندھ کے حکمرانوں کے شہر نواب شاہ، لاڑکانہ اور قلندر کی نگری کے عوام کیوں لاہور اور ملتان جیسی سہولتوں سے محروم ہیں
میڈیا میں روزانہ ہی پنجاب فوڈ اتھارٹی کے صوبے بھر میں مارے جانے والے چھاپوں اور مضر صحت اشیائے خوردنی کی برآمدگی اور اسے تلف کرنے کی خبریں شایع ہورہی ہیں اور ثبوت کے طور پر ٹی وی چینلز پر اس کی فوٹیج دکھائی جارہی ہیں۔ کئی سالوں سے ملک بھر میں میٹرو بسوں کی خبریں عوام کو سننے کو مل رہی ہیں۔
تعلیمی اور صحت کے میدان یا اپنے عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے عملی اقدامات صرف پنجاب میں دیکھنے کو مل رہے ہیں تو عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ سب صرف پنجاب تک محدود کیوں ہیں اور دوسرے صوبوں میں ایسا کیوں نہیں ہورہا؟ یہ بھی درست ہے کہ چالیس سال قبل سیاسی طور پر ابھرنے والے شریف خاندان کا تعلق لاہور اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ہے تو چار بار ملک پر اور پانچ بار سندھ پر حکومت کرنے مگر لاہور سے جنم لے کر اپنی گولڈن جوبلی منانے والی پیپلزپارٹی کی قیادت کا تعلق بھی 1970 سے سندھ سے ہی چلا آرہا ہے۔
پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 5 سال ملک کے وزیراعظم رہے پھر ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو تقریباً چار سال دو بار ملک کی وزیراعظم رہیں۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بے نظیر بھٹو اور ان کے بچے پیدا ہوئے۔ اندرون سندھ سے کم اور کراچی سے زیادہ تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے اصل سربراہ آصف علی زرداری پانچ سال ملک کے سربراہ رہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے 6 وزرائے اعلیٰ جن سب کا تعلق دیہی سندھ سے تھا جب کہ بھٹو دور تک پنجاب بے نظیر دور میں سندھ کے علاوہ بلوچستان اور کے پی کے میں پیپلزپارٹی کے اپنے وزرائے اعلیٰ اور حلیف بھی وزیراعلیٰ رہے مگر پیپلزپارٹی کے انیس سالہ اقتدار میں وہ کچھ کیوں نہیں ہوا جو شریف خاندان کے بھی طویل عرصہ تک اقتدار میں ہوتے ہوئے پنجاب میں ہوا۔
پیپلزپارٹی کے سندھ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار وزرائے اعظم رہے جن میں نو سال سندھ کے اور پانچ سال پنجاب کے دو وزرائے اعظم رہے مگر انھوں نے سندھ اور پنجاب کی حالت کیوں نہیں بدلی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کے آبائی شہر لاڑکانہ نے کسی حد تک ترقی کی تھی جسے سندھ کا پیرس مکمل نہیں کسی حد تک کہا گیا، خود بے نظیر بھٹو نے لاڑکانہ پر خصوصی توجہ دی نہ اپنے پیدائشی شہر کراچی کی حالت بدلنے کی کوشش کی۔ پیپلزپارٹی کے پاس ساڑھے نو سال سے سندھ کا اقتدار ہے جس میں آصف زرداری 5 سال صدر رہے مگر ان کا آبائی شہر نواب شاہ اتنی بھی ترقی نہ کرسکا جتنی ترقی غلام مصطفی جتوئی کے دور میں ہوئی۔ خیرپور، شکارپور اور تعلقہ سیہون شریف جہاں سے پیپلزپارٹی کے چار وزرائے اعلیٰ رہے مگر تینوں شہر ترقی نہ کرسکے۔
یوسف رضا گیلانی نے اپنے شہر ملتان کو ترقی دلائی مگر لاڑکانہ، کراچی اور نواب شاہ ترقی سے کیوں محروم رکھے گئے اور شہروں کی بجائے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ترقی کی اور وہ اربوں کھربوں پتی ہوگئے۔
سندھ میں پیپلزپارٹی مسلسل ساڑھے نو سال سے اقتدار میں ہے اور ان کے دور میں ملک کا سب سے بڑا شہر پی پی حکومت کی لاپروائی اور عدم دلچسپی سے ملک بھر میں کچرے کا شہر بنا ہوا ہے۔ صدر پرویز مشرف کا تعلق بھی کراچی سے ہے انھوں نے اپنے اقتدار میں کراچی کی ترقی پر خصوصی توجہ اور فنڈ دے کر اپنے شہر کا حق ادا کیا تو آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی نو سال سے زائد عرصے کی حکومتوں میں سندھ میں پنجاب جیسی ترقی کیوں نہیں ہوئی۔ ہر شخص کو اپنے آبائی شہر سے محبت ہوتی ہے مگر بے نظیر بھٹو اور بلاول زرداری کے پیدائشی شہر کراچی کو پیپلزپارٹی نے اہمیت کیوں نہیں دی۔
سندھ کے حکمرانوں کے شہر نواب شاہ، لاڑکانہ اور قلندر کی نگری کے عوام کیوں لاہور اور ملتان جیسی سہولتوں سے محروم ہیں۔ آصف زرداری اور ان کا خاندان کراچی میں زیادہ وقت گزارتا ہے مگر وہ کراچی کو اپنا شہر کیوں نہیں سمجھتے اور کراچی سے اپنے تعلق کا حق کیوں ادا نہیں کرتے۔ ملتان یوسف رضا گیلانی اور لاہور شریف برادران کا آبائی شہر ہے مگر کراچی پیپلزپارٹی کی قیادت کا آبائی شہر نہ جانے پی پی نہیں مانتی جب کہ بے نظیر اور بلاول کراچی میں پیدا ہوئے مگر دونوں سے کراچی کو اہمیت نہیں ملی جو ان کے کراچی کو اپنا شہر نہ ماننے کا واضح ثبوت ہے جس کی وجہ کراچی میں پیپلزپارٹی کا واضح ووٹ بینک نہ ہونا ہے جو تین عشروں سے متحدہ کے پاس رہا ہے جس کی سزا پی پی اہل کراچی کو دے رہی ہے۔
پنجاب، صوبہ سرحد اور بلوچستان کے متعدد وزرائے اعلیٰ کا تعلق لاہور، پشاور اور کوئٹہ سے نہیں تھا مگر انھوں نے پی پی کی طرح اپنے صوبے کے دارالحکومتوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ پنجاب کی شہباز حکومت نے ساڑھے نو سالوں میں لاہور، راولپنڈی، ملتان کے شہریوں کو میٹرو بسوں کی سہولت دی جو فیصل آباد کو بھی جلد مل جائے گی جس کا ہوش کے پی کے میں عمران خان کو ساڑھے چار سال بعد آیا اور نو سال انھوں نے لاہور میٹرو پر تنقید میں گزار دیے۔ وفاق نے کراچی میں میٹرو شروع کی تو سندھ حکومت بھی مجبور ہوئی مگر پنجاب میں حکومت نے جس طرح پنجاب فوڈ اتھارٹی سے اپنے صوبے کے لوگوں کو مضر صحت اشیا کے استعمال سے بچایا تو بلوچستان، سندھ اور کے پی کے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی جیسے چھاپے کیوں نظر نہیں آرہے۔ پنجاب جیسی سفری سہولتوں کے علاوہ تعلیم اور صحت جیسی سہولیات کی فراہمی دیگر صوبوں کی حکومتوں نے اپنے عوام کو کیوں فراہم نہیں کیں۔
کے پی کے پولیس اور واقعی غیر سیاسی ہوئی ہے تو دیگر صوبوں نے ایک اچھے کام کی تقلید کیوں نہیں کی، کیا انھیں وفاق نے روکا یا ان کی اپنی نا اہلی نے انھیں مخالف پارٹی کا اچھا کام پسند نہیں آیا۔ اب صوبے با اختیار اورکافی خود مختار ہیں تو قابل تقلید کام پنجاب کے باہر کیوں نہیں ہوئے۔ صوبائی حکمرانوں نے اپنے صوبوں کے عوام کو محض سیاسی مخالفت کے باعث اچھے کاموں سے محروم رکھا جو ان کی نا اہلی اور اپنے عوام سے سراسر زیادتی ہے۔