سیاسی جماعتوں کے لیے ایک مشورہ
کیا پولیس کی کارکردگی صرف ایک ہی صوبے میں خراب ہے؟
NEW DELHI:
عوامی خدمت کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی عموماً سخت تنقید کا نشانہ بنتی ہے، عوام کی خاصی بڑی تعداد بھی اس حوالے سے مختلف جماعتوں سے سخت نالاں دکھائی دیتی ہے۔
اس صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں، تاہم دو وجوہات ان میں سرفہرست ہیں، ایک منتخب نمایندوں کا کرپشن کرنا اور دوسری اہم ترین وجہ ''نان ایشوز'' کی سیاست کرکے وقت ضایع کرنا۔ نان ایشوز سے مراد ایسے مسائل کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر تمام طاقت صرف کردینا جوکہ عوام کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے یا ان مسائل کے حل سے عوام کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی ہو۔
مثلاً ہماری بعض جماعتوں نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کردیے کہ گویا اس مسئلے کے حل ہی سے صوبے کے عوام کو بہت کچھ حاصل ہوجائے گا، کچھ جماعتوں نے کالا باغ ڈیم کا ایشو اس طرح سے پکڑ لیا کہ شاید اس سے بڑا عوامی مسئلہ ہی کوئی اور نہیں، حالانکہ پانی کی تقسیم پر جب پڑوسی ملک سے معاملات و معاہدات طے پاسکتے ہیں تو اس مسئلے پر بھی پاکستان کے صوبوں کے درمیان معاملات طے ہوسکتے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر مخالف جماعتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے اسکینڈل کو بھی اس قدر آڑے ہاتھ لیا جاتا ہے کہ بس اس کو سزا ہوجائے تو پھر کسی کو کرپشن کی جرأت نہ ہوسکے گی اور ملک سے کرپشن جڑ سے ہی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے کہ سب ایک دوسرے کے خلاف کرپٹ کرپٹ اور چور چور کے نعرے لگارہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ملک میں کرپشن اور بدعنوانی صرف اور صرف فلاں فلاں کی وجہ سے ہے، اس کو پکڑ لیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ حالانکہ باخبر اور باشعور عوام جانتے ہیں کہ ان کو سزا ہو بھی جائے تب بھی ملکی مسائل جوں کے توں رہیں گے اور کرپشن بھی چلتی رہے گی، بس بدعنوان لوگوں کے نام بدلتے ہیں گے۔
جس وقت پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ بحالی کی تحریک چل رہی تھی تو ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ اگر سب لوگ مل کر اس تحریک کا ساتھ دیں اور یہ تحریک کامیاب ہوجائے تو سب ٹھیک ہوجائے گا، کچھ سیاسی جماعتوں کا بھی یہی تاثر تھا اور ٹی وی چینلز دیکھنے پر بھی کچھ ایسا ہی تاثر ملتا تھا، ایک معروف سیاست دان اور وکیل تو وکلا کی ریلی میں انقلابی نظم سناتے پھرتے تھے مگر وقت نے دیکھا کہ یہ تحریک کامیاب بھی ہوئی اور عوامی و ملکی حالات بھی وہی رہے۔جس طرح سے سیاسی جماعتوں کی ایک بڑی غلطی نان ایشوز پر آواز بلند کرنا ہے، ویسے ہی ایک بڑی غلطی اس ریاست کے مختلف محکموں کی خراب ترین کارکردگی پر آنکھیں بند کرنا بھی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں ان محکموں کی خراب کارکردگی پر اپنا ردعمل ظاہر کریں تو اس سے عوام اور ملک کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اس طرف سے خاموشی اختیار کرنا دراصل نہ صرف ان اداروں کو مزید تباہ کرنے کے مترادف ہے بلکہ عوام کی مشکلات و مسائل میں مزید اضافے کا بھی باعث بن رہا ہے، مثلاً کے ای ایس سی کی نجکاری پر ہماری سیاسی جماعتیں (سوائے جماعت اسلامی کے، جس نے بہت زیادہ تو نہیں البتہ احتجاج ضرور کیا تھا) خاموش تماشائی بنی رہیں، نجکاری کے بعد لوڈشیڈنگ سے جس طرح عوام بے حال ہوئے اور کاروبار تباہ ہوا، اس سے سب واقف ہیں۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کا جو حشر ہوا اور ان کے ملازمین کا جو حشر ہورہا ہے وہ بھی ایک بڑا المیہ ہے، یہاں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد پچیس ہزار سے زائد ہے، جنھیں چار چار ماہ بعد تنخواہیں ملتی ہیں۔
ان سے وابستہ پچیس ہزار خاندانوں پر کیا گزرتی ہوگی اس کا اندازہ کسی بھی سیاست دان یا جماعت کو نہیں ہے۔ یہ ادارہ جو نہ صرف ان ہزاروں خاندانوں کو ایک اچھا رزق فراہم کر رہا تھا اور ملکی خزانے کو اربوں روپے کا منافع دے رہا تھا اب سفید ہاتھی کہلاتا ہے، مگر اس ادارے کے اس انجام تک پہنچنے کے دوران کسی بھی سیاسی جماعت نے کچھ نہیں کیا، نہ ہی ان ملازمین کے مسائل کو اپنے انتخابی منشور میں کبھی شامل کیا۔ ملک کا ایک اہم کمانے والا ادارہ تباہ ہو جائے اور ہماری سیاسی جماعتیں خاموش رہیں، کیا یہی سیاسی جماعتوں کا 'وژن' ہونا چاہیے؟
ایسے اور بھی بہت سے ادارے ہیں جو تباہی سے دوچار ہیں اور اس کے اثرات عوام اور ملکی معیشت پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔ پولیس کا ادارہ ہمیشہ ہی توجہ طلب رہا ہے، کچھ سیاست دان جیل کی سلاخوں میں مقید ہوئے تو انھوں نے کہاکہ وہ باہر جاکر اصلاحات کریں گے اور اس نظام کو بدلیں گے، مگر کبھی بھی کچھ نہیں ہوا۔ آج قصور میں ایک بچی کے واقعے پر سارا میڈیا اور سیاست دان دھواں دھار خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس بچی کے قاتل کو گرفتار کرکے عبرت ناک سزا دی جائے۔
اس سادگی پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، کیا ہمیں نہیں معلوم کہ صرف پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں پولیس کے محکمے اور اس کی کارکردگی کا کیا حال ہے؟ کیا اس واقعے سے قبل پنجاب کے علاقے ہی سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے معاملے کی ویڈیو منظر عام پر نہیں آئی تھی؟ کیا پنجاب ہی کے شہر میں ایک شخص نے سو بچوں کو قتل کرنے کا خود ہی اعتراف نہیں کیا تھا؟ ایک شہر سے سو بچے اغوا ہوگئے ، ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے تیزاب کے ڈرموں میں ڈال دیا گیا، ہماری پولیس کیا کررہی تھی؟ ہمارے سیاست دان پنجاب حکومت کی اور پولیس کی کارکردگی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔
کیا پولیس کی کارکردگی صرف ایک ہی صوبے میں خراب ہے؟ سند ھ اسمبلی میں خود ایک خاتون رکن انکشاف کر رہی ہیں کہ سال دو ہزار سترہ میں صرف سندھ میں دو ہزار کے قریب بچے لاپتہ ہوئے ہیں۔ ایک بچی کے قتل پر اس قدر احتجاج اور دو ہزار بچوں کے لاپتہ ہونے پر خاموشی؟ سوال یہ ہے کہ کیا ایک زینب کے قاتل کو سزا دینے سے آیندہ کوئی بچہ اغوا یا قتل نہیں ہوگا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ محکمہ پولیس کی کارکردگی وہی پرانی رہے (جس میں ایک تنہا شخص روز کوئی نہ کوئی بچہ اغوا کرنے میں کامیاب ہوجائے اور قتل بھی کردے، ہزاروں بچے صرف ایک ہی صوبے سے اغوا کرلیے جائیں) مگر ایک بچی کے قاتل کو پھانسی دے کر اس محکمے کی کارکردگی درست ہوجائے یا یہ کہ آیندہ ایسے واقعات بالکل ہی نہ ہوں؟ دیگر صوبوں کے سیاست دان اس بچی کے واقعے پر یوں دھواں دھار بیانات دے رہے ہیں کہ جیسے ان کے صوبوں میں چین ہی چین ہو۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے ایک سیاست دان کا بھی اسی قسم کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے نہایت دکھ کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار کیا کہ صوبہ پنجاب میں یہ کیا ہورہا ہے۔ حالانکہ اسی دن ایک اخبار میں یہ خبر بھی شایع ہوئی کہ سندھ کے علاقے تھر میں حالیہ موسمی اثرات اور غذائی قلت کے باعت اٹھارہ بچے ہلاک ہوگئے جب کہ گزشتہ نومبر کے مہینے میں پچاس کے قریب بچے ہلاک ہوئے تھے (اور یہ سلسلہ طویل عرصے سے چل رہا ہے)۔
واضح رہے یہ خبر اخبار نے صوبائی محکمہ کے حوالے سے جاری کیے گئے اعدادو شمار کی روشنی میں دی تھی، یہ کسی مخالف جماعت کے رہنما کا بیان نہیں تھا۔ اس خبرسے محکمہ صحت کی کارکردگی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سرکاری اسپتال بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ محکمہ صحت کی کارکردگی کس قدر خراب ہے۔
یہ مختصر سا تجزیہ ہے، ورنہ تو اس موضوع پر کئی کالم نہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، تاہم راقم کا یہاں توجہ دلانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو محض 'نان ایشوز' پر یا صرف مخالفین کو برا بھلا کہنے پر ہی سار ا وقت اور محنت صرف نہیں کرنا چاہیے بلکہ اصل ایشوز کی طرف بھی آنا چاہیے اور ان اصل ایشوز میں سے ایک یہی ہے کہ عوامی اداروں کی کارکردگی روز بہ روز بدتر ہوتی جارہی ہے، جس کے منفی اثرات معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں اور عوام بھی پریشان و بدحال ہیں۔ زینب کا حالیہ واقعہ بھی اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا، اداروں کی کارکردگی درست کرلیں۔
عوامی خدمت کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی عموماً سخت تنقید کا نشانہ بنتی ہے، عوام کی خاصی بڑی تعداد بھی اس حوالے سے مختلف جماعتوں سے سخت نالاں دکھائی دیتی ہے۔
اس صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں، تاہم دو وجوہات ان میں سرفہرست ہیں، ایک منتخب نمایندوں کا کرپشن کرنا اور دوسری اہم ترین وجہ ''نان ایشوز'' کی سیاست کرکے وقت ضایع کرنا۔ نان ایشوز سے مراد ایسے مسائل کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دے کر تمام طاقت صرف کردینا جوکہ عوام کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے یا ان مسائل کے حل سے عوام کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی ہو۔
مثلاً ہماری بعض جماعتوں نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کردیے کہ گویا اس مسئلے کے حل ہی سے صوبے کے عوام کو بہت کچھ حاصل ہوجائے گا، کچھ جماعتوں نے کالا باغ ڈیم کا ایشو اس طرح سے پکڑ لیا کہ شاید اس سے بڑا عوامی مسئلہ ہی کوئی اور نہیں، حالانکہ پانی کی تقسیم پر جب پڑوسی ملک سے معاملات و معاہدات طے پاسکتے ہیں تو اس مسئلے پر بھی پاکستان کے صوبوں کے درمیان معاملات طے ہوسکتے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر مخالف جماعتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے اسکینڈل کو بھی اس قدر آڑے ہاتھ لیا جاتا ہے کہ بس اس کو سزا ہوجائے تو پھر کسی کو کرپشن کی جرأت نہ ہوسکے گی اور ملک سے کرپشن جڑ سے ہی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے کہ سب ایک دوسرے کے خلاف کرپٹ کرپٹ اور چور چور کے نعرے لگارہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ملک میں کرپشن اور بدعنوانی صرف اور صرف فلاں فلاں کی وجہ سے ہے، اس کو پکڑ لیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ حالانکہ باخبر اور باشعور عوام جانتے ہیں کہ ان کو سزا ہو بھی جائے تب بھی ملکی مسائل جوں کے توں رہیں گے اور کرپشن بھی چلتی رہے گی، بس بدعنوان لوگوں کے نام بدلتے ہیں گے۔
جس وقت پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ بحالی کی تحریک چل رہی تھی تو ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ اگر سب لوگ مل کر اس تحریک کا ساتھ دیں اور یہ تحریک کامیاب ہوجائے تو سب ٹھیک ہوجائے گا، کچھ سیاسی جماعتوں کا بھی یہی تاثر تھا اور ٹی وی چینلز دیکھنے پر بھی کچھ ایسا ہی تاثر ملتا تھا، ایک معروف سیاست دان اور وکیل تو وکلا کی ریلی میں انقلابی نظم سناتے پھرتے تھے مگر وقت نے دیکھا کہ یہ تحریک کامیاب بھی ہوئی اور عوامی و ملکی حالات بھی وہی رہے۔جس طرح سے سیاسی جماعتوں کی ایک بڑی غلطی نان ایشوز پر آواز بلند کرنا ہے، ویسے ہی ایک بڑی غلطی اس ریاست کے مختلف محکموں کی خراب ترین کارکردگی پر آنکھیں بند کرنا بھی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں ان محکموں کی خراب کارکردگی پر اپنا ردعمل ظاہر کریں تو اس سے عوام اور ملک کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اس طرف سے خاموشی اختیار کرنا دراصل نہ صرف ان اداروں کو مزید تباہ کرنے کے مترادف ہے بلکہ عوام کی مشکلات و مسائل میں مزید اضافے کا بھی باعث بن رہا ہے، مثلاً کے ای ایس سی کی نجکاری پر ہماری سیاسی جماعتیں (سوائے جماعت اسلامی کے، جس نے بہت زیادہ تو نہیں البتہ احتجاج ضرور کیا تھا) خاموش تماشائی بنی رہیں، نجکاری کے بعد لوڈشیڈنگ سے جس طرح عوام بے حال ہوئے اور کاروبار تباہ ہوا، اس سے سب واقف ہیں۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کا جو حشر ہوا اور ان کے ملازمین کا جو حشر ہورہا ہے وہ بھی ایک بڑا المیہ ہے، یہاں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد پچیس ہزار سے زائد ہے، جنھیں چار چار ماہ بعد تنخواہیں ملتی ہیں۔
ان سے وابستہ پچیس ہزار خاندانوں پر کیا گزرتی ہوگی اس کا اندازہ کسی بھی سیاست دان یا جماعت کو نہیں ہے۔ یہ ادارہ جو نہ صرف ان ہزاروں خاندانوں کو ایک اچھا رزق فراہم کر رہا تھا اور ملکی خزانے کو اربوں روپے کا منافع دے رہا تھا اب سفید ہاتھی کہلاتا ہے، مگر اس ادارے کے اس انجام تک پہنچنے کے دوران کسی بھی سیاسی جماعت نے کچھ نہیں کیا، نہ ہی ان ملازمین کے مسائل کو اپنے انتخابی منشور میں کبھی شامل کیا۔ ملک کا ایک اہم کمانے والا ادارہ تباہ ہو جائے اور ہماری سیاسی جماعتیں خاموش رہیں، کیا یہی سیاسی جماعتوں کا 'وژن' ہونا چاہیے؟
ایسے اور بھی بہت سے ادارے ہیں جو تباہی سے دوچار ہیں اور اس کے اثرات عوام اور ملکی معیشت پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔ پولیس کا ادارہ ہمیشہ ہی توجہ طلب رہا ہے، کچھ سیاست دان جیل کی سلاخوں میں مقید ہوئے تو انھوں نے کہاکہ وہ باہر جاکر اصلاحات کریں گے اور اس نظام کو بدلیں گے، مگر کبھی بھی کچھ نہیں ہوا۔ آج قصور میں ایک بچی کے واقعے پر سارا میڈیا اور سیاست دان دھواں دھار خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس بچی کے قاتل کو گرفتار کرکے عبرت ناک سزا دی جائے۔
اس سادگی پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، کیا ہمیں نہیں معلوم کہ صرف پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں پولیس کے محکمے اور اس کی کارکردگی کا کیا حال ہے؟ کیا اس واقعے سے قبل پنجاب کے علاقے ہی سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے معاملے کی ویڈیو منظر عام پر نہیں آئی تھی؟ کیا پنجاب ہی کے شہر میں ایک شخص نے سو بچوں کو قتل کرنے کا خود ہی اعتراف نہیں کیا تھا؟ ایک شہر سے سو بچے اغوا ہوگئے ، ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے تیزاب کے ڈرموں میں ڈال دیا گیا، ہماری پولیس کیا کررہی تھی؟ ہمارے سیاست دان پنجاب حکومت کی اور پولیس کی کارکردگی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔
کیا پولیس کی کارکردگی صرف ایک ہی صوبے میں خراب ہے؟ سند ھ اسمبلی میں خود ایک خاتون رکن انکشاف کر رہی ہیں کہ سال دو ہزار سترہ میں صرف سندھ میں دو ہزار کے قریب بچے لاپتہ ہوئے ہیں۔ ایک بچی کے قتل پر اس قدر احتجاج اور دو ہزار بچوں کے لاپتہ ہونے پر خاموشی؟ سوال یہ ہے کہ کیا ایک زینب کے قاتل کو سزا دینے سے آیندہ کوئی بچہ اغوا یا قتل نہیں ہوگا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ محکمہ پولیس کی کارکردگی وہی پرانی رہے (جس میں ایک تنہا شخص روز کوئی نہ کوئی بچہ اغوا کرنے میں کامیاب ہوجائے اور قتل بھی کردے، ہزاروں بچے صرف ایک ہی صوبے سے اغوا کرلیے جائیں) مگر ایک بچی کے قاتل کو پھانسی دے کر اس محکمے کی کارکردگی درست ہوجائے یا یہ کہ آیندہ ایسے واقعات بالکل ہی نہ ہوں؟ دیگر صوبوں کے سیاست دان اس بچی کے واقعے پر یوں دھواں دھار بیانات دے رہے ہیں کہ جیسے ان کے صوبوں میں چین ہی چین ہو۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے ایک سیاست دان کا بھی اسی قسم کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے نہایت دکھ کے ساتھ اس بات کا بھی اظہار کیا کہ صوبہ پنجاب میں یہ کیا ہورہا ہے۔ حالانکہ اسی دن ایک اخبار میں یہ خبر بھی شایع ہوئی کہ سندھ کے علاقے تھر میں حالیہ موسمی اثرات اور غذائی قلت کے باعت اٹھارہ بچے ہلاک ہوگئے جب کہ گزشتہ نومبر کے مہینے میں پچاس کے قریب بچے ہلاک ہوئے تھے (اور یہ سلسلہ طویل عرصے سے چل رہا ہے)۔
واضح رہے یہ خبر اخبار نے صوبائی محکمہ کے حوالے سے جاری کیے گئے اعدادو شمار کی روشنی میں دی تھی، یہ کسی مخالف جماعت کے رہنما کا بیان نہیں تھا۔ اس خبرسے محکمہ صحت کی کارکردگی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سرکاری اسپتال بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ محکمہ صحت کی کارکردگی کس قدر خراب ہے۔
یہ مختصر سا تجزیہ ہے، ورنہ تو اس موضوع پر کئی کالم نہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، تاہم راقم کا یہاں توجہ دلانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو محض 'نان ایشوز' پر یا صرف مخالفین کو برا بھلا کہنے پر ہی سار ا وقت اور محنت صرف نہیں کرنا چاہیے بلکہ اصل ایشوز کی طرف بھی آنا چاہیے اور ان اصل ایشوز میں سے ایک یہی ہے کہ عوامی اداروں کی کارکردگی روز بہ روز بدتر ہوتی جارہی ہے، جس کے منفی اثرات معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں اور عوام بھی پریشان و بدحال ہیں۔ زینب کا حالیہ واقعہ بھی اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا، اداروں کی کارکردگی درست کرلیں۔