بلاوجہ تنقید فلم انڈسٹری پھر بحران کا شکار ہونے لگی

پرتنقید کرنے کی بجائے اگراس کی سپورٹ کی جائے اورسب مل کرپاکستانیت کی بات کریں تولوگ اس جذبے کوسراہیں گے۔


ق ۔ الف January 16, 2018
ایسا عمل شروع ہوگیا توپھر حالات بہترہونگے اورفلم انڈسٹری ترقی کرے گی۔ فوٹو : فائل

KARACHI: پاکستانی فلمی اورسنیما انڈسٹری کی بات کریں توکوئی بہتری کے گن گاتا ہے اورکوئی درپیش مسائل کی کہانی سناتا ہے۔ کوئی نوجوان فلم میکرزکی تعریف کرتا ہے اورکوئی ان کے کام پرکڑی تنقید کرتا ہے۔

کوئی سینئرز کے کام کوماضی کا قصہ گردانتا ہے اورکوئی جدید ٹیکنالوجی سے بہتری کی داستان بیان کرتا ہے۔ مگرایک بات جوسب سے زیادہ پریشان کن ہے، وہ یہ ہے کہ سینئر اورجونیئرز کی ایک دوسرے پر تنقید نے شدید بحران کوایک مرتبہ پھر سے '' دعوت '' دینا شروع کردی ہے۔

ایک بارپھرخطرے کے بادل منڈلانے لگے۔ حالانکہ پاکستان میں جدید سنیما گھروں کے قیام کے بعد پاکستانی فلم بین خاص طورسے بہت خوش نظر آئے ، انہیں ایک اچھے ماحول میں فلمیں دیکھنے کو مل رہی تھیں، انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ان سنیماؤں پر بھارتی فلمیں دکھائی جارہی ہیں یا پاکستانی ۔ کیونکہ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے بعد سنیما انڈسٹری کی ترقی کا سفربہت تیزی سے شروع ہوا اور گزشتہ چند سالوں کے دوران ملک بھر میں سنیما گھروں کی تعمیرمیں حیرت انگیزاضافہ ہوا ہے جبکہ ملک بھرمزید نئے سنیما گھروں کی تعمیر کا عمل جاری ہے۔

اسی طرح اگرہم پاکستان میںفلمسازی کی بات کریں تومعیارمیں واقعی ہی بہتری آئی ہے اورجدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت سی نئی چیزیں پاکستانی فلموں کا حصہ بن رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تاحال پاکستانی فلم ، سینما گھروں کے پیٹ کوبھرنے کیلئے ناکافی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ فلموں کی کامیابی کا تناسب بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ ابھی تک بننے والی فلموں میں سے اکثریت کوشائقین نے وہ رسپانس نہیں دیا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اب صورتحال کچھ ایسی ہوتی چلی جارہی ہے کہ کچھ مفاد پرست اپنی خامیوں اورکوتاہیوںکو چھپانے کیلئے لاہوراورکراچی کودوحصوں میں تقسیم کرنے کا راگ آلاپ رہے ہیں، جس کی لپیٹ میں بہت سے لوگ آنے لگے ہیں۔

اگرکراچی میں بننے والی ایک اچھی اورمعیاری فلم کوصرف اورصرف صوبہ پنجاب یا دوسرے صوبوں کے لوگ اس لئے نہ دیکھیں کہ وہ کراچی میں بنی ہے یا اس کوکراچی کے پروڈیوسر ، ڈائریکٹراورفنکاروں نے مل کربنایا ہے تواس سے بڑی ناانصافی کوئی نہیں ہوسکتی۔ اوراسی طرح اگرلاہورمیں بننے والی فلم کوکراچی کے سینماگھروں میں جان بوجھ کر اچھے شونہ ملیں تویہ بھی ہم کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔ ایک طرف تومقابلہ بھارتی فنکاروں اوران کی فلموں سے کرنے کی بات ہوتی ہے لیکن دوسری جانب اپنے ہی ملک میں ایک دوسرے پرتنقید کرکے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ کیا جا رہا ہے۔

دیکھا جائے توپاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات زیادہ ترکشیدہ ہی رہتے ہیں، بھارت کی انتہاء پسند ہندو تنظیموں نے پاکستانی فنکاروں کے خلاف زبردست احتجاج شروع کیا اورپھران کے وہاں کام کرنے پرپابندی عائد کردی گئی۔ کسی کودھکے دے کرنکالا گیا توکسی ودھمکا کر۔ حالانکہ اس صورتحال پردنیابھرمیں تنقید بھی ہوئی لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا اوراب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک کے فنکاربھارت میں کام نہیں کرسکتے۔

ایسے میں پاکستانی سینما مالکان کوچاہئے کہ وہ حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ صرف پاکستانی فلموں کو ہی اپنے سینماگھروں کی زینت بنائیں لیکن ان کے لئے ایسا کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔

کثیرسرمائے سے بننے والے سینماگھروں کے اخراجات کوپورا کرنا ابھی توپاکستانی فلموں کے بزنس سے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے دانشمندی اسی میں ہے کہ وقت اورحالات کے مطابق قدم بڑھایا جائے۔ کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت بھارتی فنکاروںکی امپورٹڈ فلموںکی نمائش روکنے کی نہیں بلکہ آپسی اختلافات کے خاتمہ کی ہے۔ ہمیں اس وقت سب سے زیادہ آپسی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اس میں کامیاب نہیں ہوتے اورایک دوسرے کے کام کوتنقید کا نشانہ بنانا بند نہیں کرتے، اس وقت تک آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔

اس صورتحال پر فلم سے وابستہ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ لاہور، کراچی اورپشاورسمیت ملک کے جس بھی حصے میں فلم پروڈیوس ہوگئی وہ پاکستانی ہی کہلائی جائے گی، اس پرتنقید کرنے کی بجائے اگراس کی سپورٹ کی جائے اورسب مل کرپاکستانیت کی بات کریں تولوگ اس جذبے کوسراہیں گے بلکہ سپورٹ کیلئے فلم کمیونٹی کے ساتھ ہونگے لیکن جب یہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اورتنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں تولوگ ان کا مزاق اڑاتے ہیں اوران کی فلموںکو دیکھنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ایسے میں بہتری اورترقی کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہیں چاہئے کہ سب لوگ مل کرایک پلیٹ فارم پراکھٹے ہوں اورایک دوسرے کوگلے لگائیں۔

ایسا عمل شروع ہوگیا توپھر حالات بہترہونگے اورفلم انڈسٹری ترقی کرے گی۔ یہی وہ ایک حل ہے جس کے ذریعے پاکستانی سینما سے بھارتی فلموںکو دورکیا جاسکتا ہے لیکن ایسا نہ کیا گیا توپھراپنے ہی ملک میں فلم لگانے کیلئے انہیں ترلے واستے کرتے رہنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |