من کی نگری گیم آف لارڈز    سارا کھیل نیت کا ہے

زندگی کے میدان میں بھی ہمیں ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے


زندگی کے میدان میں بھی ہمیں ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے ۔ فوٹو : فائل

15 اکتوبر کی شام ہے۔ کرکٹ گراؤنڈ میں بیٹھا ہوں۔ اتوار کا دِن ہے۔ بیٹے کو دو ڈھائی ماہ پہلے کرکٹ اکیڈمی میں داخلہ دِلایا تھا۔ آج Parents میٹنگ کے لیے پانچ بجے آنا ہوا تھا۔ میٹنگ کینسل ہوگئی، مگر اِس بہانے تین کام ہوگئے۔ بہت دِنوں بعد کُھلی فضا اور تازہ ہوا میں ڈیڑھ دو گھنٹے گزارلیے۔ دو بچوں کے ساتھ کافی دیر تک کِرکٹ کھیل لی۔ دس پندرہ اوورز کرالیے اور سانس پُھلالی۔ اور پھر فہیم بھائی کے رجسٹر سے دو صفحے چُراکر اُن کے قلم سے ہی یہ مضمون لِکھنا شروع کردیا۔ ناظم آباد جیمخانہ اور ناظم آباد کرکٹ اکیڈمی نے (سابقہ) انّو بھائی پارک میں کچھ عرصے پہلے ہی بچوں کو باقاعدہ کرکٹ کی ٹریننگ دینا شروع کی ہے، فہیم بھائی کی زیرنگرانی، جِن سے آج پہلی بار تھوڑی بہت گفتگو ہوئی۔

کرکٹ ہو یا کوئی اور ایسا کھیل، جِس میں پورے بدن کی پھُرتی و طاقت درکار ہو، ہر زمانے کے لوگوں کے لیے دل چسپی کا باعث رہا ہے اور اِن کھیلوں میں حصّہ لینے والے نوجوانوں نے اپنے اپنے دور میں بڑی عزّت کمائی ہے۔ یہ اور بات ہے کو لاکھوں کروڑوں کھلاڑیوں میں سے گنتی کے چند سو ہی Lime Light میں آپاتے ہیں، لیکن میدانی و مشقّتی کھیلوں نے لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کی زندگی میں نظم وضبط اور سلیقہ ضرور پیدا کیا ہے۔ جسمانی اور ذہنی صحت کی برقراری کے ساتھ، اِن کھیلوں میں مستقل طور پر ایسی مثبت تبدیلیاں از خود آنے لگتی ہیں۔ جو اُن لوگوں میں کبھی پیدا نہیں ہوپاتیں جو کِسی بھی جسمانی کھیل یا مشقّت کو باقاعدگی کے ساتھ Adopt نہیں کرتے یا نہیں کرپاتے۔

ہر جسمانی کھیل جہاں ایک طرف ہماری Blood Circulation اور Body Metabolism میں اضافہ کرتا ہے۔ وہاں دوسری طرف ہمارے بدن اور دماغ کے اضافی کرنٹ اور طاقت کو Subline کرکے ایک مثبت و توانا Activity میں تبدیل کررہا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ہماری بکھری ہوئی اور بپھری ہوئی سوچوں کو ایک مخصوص نُکتے پر مرتکز کرتا ہے۔ زندگی کے کِسی بھی میدان، کِسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے اور کام یابی حاصل کرنے کے لیے اِن تین اہم باتوں کا ہماری زندگی میں شامل ہونا اور مستقل رہنا ضروری ہے۔ اوّل متحرک و توانا بلڈسرکولیشن اور باڈی میٹابولیزم۔ دوئم نفسیاتی و ذہنی سطح پر ہمہ وقت چاق و چوبند ہمارے دہ اہم دفاعی نظام یا Defence Mechanisms ۔۔۔ سبلیمیشن اور سبٹی ٹیوشن۔ اور سوئم اپنے کام یا Domain میں بھرپور اور مکمل ارتکاز و توجہ یعنی اٹینشن اور کنسنٹریشن۔ اور ہر میدانی کھیل یا مشقّت ہمارے اِن تینوں Areas کو Enhance اور Groom کررہا ہوتا ہے۔

زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ایک اور اہم چیز کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ کوئی بھی شخص تن و تنہا کام یابی کے زینے نہیں چڑھ سکتا۔ ہر کام، ہر معاملے میں اُسے دوسروں کی مدد اور سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔ ٹیم ورک اور ٹیم اسپرٹ نہ ہو تو بڑے بڑے کام، بڑے بڑے پروجیکٹ، بڑے بڑے ادارے، بڑے بڑے منصوبے کچھ ہی عرصے میں زمین بوس نظر آتے ہیں۔ ہاکی، فٹبال اور کرکٹ کی طرح کے کھیل ہمارے اندر ٹیم اسپرٹ اور ٹیم ورک کو سیکھنے، سمجھنے، اور اپنانے کے عملی رنگ پیدا کرتے ہیں۔ اِس نوعیّت کے کھیلوں میں جیت کے لیے بھی ذہنی و جسمانی طور پر تیار رہنا پڑتا ہے۔ ٹیم کا ہر کھلاڑی جب تک اپنی اپنی جگہ، اپنی اپنی پوزیشن پر اچھا Perform نہیں کرتا، مقابلہ جیتا نہیں جاسکتا۔ رائٹ آؤٹ یا لیفٹ اِن یا سنٹر فارورڈ پوزیشن پر کھیلنے والے کھلاڑی مخالف گول پوسٹ پر چھ گول کر بھی دیں۔ لیکن اگر فُل بیکس اور گول کیپر ہائی الرٹ نہیں رہ پاتے یا غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو مِنٹوں میں لوگوں نے کھیل کا پانسہ پلٹتے دیکھا ہے۔

اِسی طرح کِرکٹ کے میدان میں فیلڈنگ کے دوران چار کیچ چُھٹ جائیں تو اسکور بورڈ پر سجی چار سنچریز بھی میچ ہارنے سے نہیں روک پاتیں۔ باؤلرز وکٹیں نہ لے پائے تو مسئلہ۔ فیلڈرز اوور تھرو کریں اور رن آؤٹ نہ کر پائیں اور کیچ ڈراپ کرتے رہیں تو مسئلہ۔ مخالف ٹیم سو رن پر بھی پویلین میں لوٹ جائے اور بیٹسمین اسکور نہ کرپائیں اور نوّے کے اندر ہی آؤٹ ہوجائیں تو مسئلہ۔ ٹیم ورک ہر کھلاڑی، ٹیم کے ہر رُکن کو ذمہّ داری کا احساس دِلاتا ہے اور یہ ذمّے داری عملی زندگی میں ہمیں آگے بڑھنے کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے۔

کرکٹ کے کھیل سے ٹیم ورک کے ساتھ ہم اور بھی بہت سی ایسی خوب صورت باتیں سیکھتے ہیں، سیکھ سکتے ہیں، جو شاید کِسی اور انفرادی یا اجتماعی میدانی کھیل سے نہیں سیکھ سکتے۔ ہاکی اور فٹبال جیسے کھیل ڈیڑھ دو گھنٹوں میں ختم ہوجاتے ہیں اور اِس دوران ہر کھلاڑی کو ہمہ وقت حرکت میں رہنا پڑتا ہے۔ مستعد، چُست، چاق و چوبند اور اِدھر سے اُدھر بھاگتے رہنا پڑتا ہے۔ کِرکٹ کے میدان میں ہر کھلاڑی کو ہر وقت حرکت میں نہیں رہنا ہوتا۔ باری باری جسمانی حرکات میں اضافہ اور کمی ہوتی ہے۔ کِرکٹ ہمیں صبر اور برداشت سِکھاتا ہے، ٹھہرنا سِکھاتا ہے، رُکنا سِکھاتا ہے۔

اپنی باری کا انتظار کرنا سِکھاتا ہے، تحمّل سِکھاتا ہے۔ فیلڈنگ کے وقت ہم اپنی مخصوص پوزیشن پر کھڑے ہوکر گیند کا انتظار کرتے ہیں اور گیند دائیں بائیں، آگے پیچھے سے گزرے تو ہمیں چیتے کی سی پُھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُسے پکڑنا ہوتا ہے اور پھر اُسے کئی فٹ دور نشانہ باندھ کر وکٹوں کی طرف پھینکنا ہوتا ہے۔ جسمانی پھرتی اور ذہنی ارتکاز کی Combination کے بِنا ہم بحیثیت فیلڈر نہ کبھی ڈائیو لگاکر کیچ پکڑ سکتے ہیں اور نہ باؤنڈری سے تھرو کرکے اسٹمپ گِراسکتے ہیں۔ جسمانی پھُرتی اور ذہنی ارتکاز کا یہ مِلاپ ہمیں کرکٹ کھیلنے اور کھیلتے رہنے سے حاصل ہوسکتا ہے، جو ہمیں عملی زندگی میں جگہ جگہ کام آتا ہے۔

بیٹنگ یا بلّے بازی کے وقت ہمیں ایسی کئی باتیں سیکھنے اور سمجھنے کو مِلتی ہیں جو روزمرّہ زندگی میں جگہ جگہ ہماری مدد کرتی ہیں اور ہمیں کام یاب زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ پہلی بات جو ہم سیکھتے ہیں یا سیکھ سکتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر میچ میں ہماری بھی باری آئے۔ خصوصاً اُس وقت جب ہم معتدل اور درمیانے درجے کی زندگی گزاررہے ہوں یا ہمارا Aptitude یا Flavour ، اننگز اوپن کرنے والے Opening بیٹسمین کی طرح کا نہ ہو اور ہم نئی گیند کی چمک اور تیزی کو صحیح طرح کھیلنے کی اہلیت نہ رکھتے ہیں۔ زندگی میں Initiative نہ لے سکتے ہیں۔ ازخود پہلا قدم اٹھا تے ہوئے گھبراتے ہوں۔ اِس صورت، کرکٹ کا کھیل ہمیں ذہنی طور پر تیار کرتا ہے کہ زندگی میں بہت سے مواقع ایسے بھی آئیں گے کہ ہم بیڈز اور کِٹ پہن کر سار ا سارا دِن تیار بیٹھے رہیں لیکن ہمیں بیٹنگ کا موقع ہی نہ مِل پائے۔ شروع کے کھِلاڑی ہی جم جائیں اور میچ جِتوادیں یا اوورز ختم ہوجائیں اور میچ ڈرا ہوجائے۔

کرکٹ کا کھیل ہمیں یہ بھی سِکھاتا ہے کہ بعض اوقات ہم بہت اچھا کھیل کر بھی ہار جاتے ہیں اور کبھی کبھی ہم بہت بُرا کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی گولڈن بال کوئی لکّی شاٹ ہمیں ہارا ہوا میچ جتوادیتا ہے۔ زندگی میں بھی یہی ہوتا ہے۔ کبھی ہم جیتی ہوئی بازی ہار جاتے ہیں اور کبھی ایسی بازی بھی جیت جاتے ہیں جِسے ہم نے ہار کے ڈر سے کھیلنا ہی ترک کردیا ہو۔

کرکٹ سے ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ ہر گیند پر شارٹ نہیں مارا جاتا۔ ہر گیند کو باؤنڈری سے باہر نہیں پھینکا جاسکتا۔ ہر بال پر رن نہیں بنتے۔ ہر بال پر رن نہیں بنائے جاسکتے۔ بہت سی گیندوں، بہت سی باتوں کی محض ٹُک ٹُک کرنا پڑتا ہے۔ کرتے رہنا پڑتا ہے۔ ہر تیز گیند، ہر باؤنسر، ہر تلخ بات پر غصّے میں آکر بلاّ نہیں گھمانا ہوتا۔ رُک رُک کر کھیلنا ہوتا ہے۔ وکٹ بچانا ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ ہر گیند کھیلنے کی نہیں ہوتی۔ جو بال وکٹوں میں آرہی ہو اُسی کو خوب صورتی سے Place کرنا ہوتا ہے۔ باہر جاتی ہوئی گیندوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ باہر جاتی ہوئی ہر گیند کو نہیں کھیلا جاتا۔ ورنہ پیچھے کھڑے ہوئے فیلڈر کیچ لینے میں دیر نہیں کرتے۔ صبر، برداشت اور تحمّل اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنا اور صحیح موقع پر صحیح بات کرنا۔ یہ سب ہم کِرکٹ سے سیکھ سکتے ہیں۔ کب کون سا کام کرنا ہے۔ کب کِس بات کا جواب دینا ہے۔ کب کِس طرح کی بات پر کِس نوعیّت کا ردّعمل ظاہر کرنا ہے۔ کِسی اور کھیل میں یہ سب سیکھنے کے مواقع نہیں ملتے۔

کِسی اور کھیل سے ہم زندگی کا یہ اہم سبق بھی نہیں سیکھ سکتے کہ گیارہ کھِلاڑی اور تین ایمپائرز ہماری اننگز پہ ہمیں ہمہ وقت Out کرنے کے درپے ہیں اور ہمیں ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا کہ باؤلر کی کرائی ہوئی گیند ہمارے Pads سے ٹکرا جائے اور ہم L.B.W ہوجائیں یا گیند ہماری Stumps اُڑادے۔ یا گیند ہمارے بلّے سے ٹکرا کے آگے پیچھے، دائیں بائیں، دور قریب کھڑے کِسی فیلڈر کے ہاتھوں میں پہنچ جائے اور یا پھر یہ ہی نہ ہوکہ ہمارا اپنا ساتھی ہمیں رن آؤٹ نہ کروادے۔ زندگی کے میدان میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ کبھی ہم اپنے سب سے عزیز ساتھی، دوست، رشتہ دار کے ہاتھوں رن آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہم بہت محتاط کھیلتے کھیلتے اچانک وکٹ کیپر کو اپنا کیچ دے بیٹھتے ہیں۔ کبھی سنچری کے قریب پہنچ کر وکٹ گنوا بیٹھتے ہیں اور کبھی Duck پر آؤٹ ہوکر سر جُھکا کے واپس پلٹنا پڑتا ہے۔

زندگی کے میدان میں بھی ہمیں ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک لمحے کو بھی ہماری توجہ اپنے کام سے ہٹی، اُسی لمحے ہمیں اپنی وکٹیں گِرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اپنے Focus of Attention کو بھٹکنے نہیں دینا، اپنی صحت اور اپنے Stamina کو ہر وقت برقرار رکھنا، ہمہ وقت ہوشیار اور چُست و چالاک و چاق و چوبند رہنا، جِن باتوں جِن چیزوں کا براہِ راست ہماری ذات ہمارے کام سے تعلق نہ ہو، اُن سے دور رہنا، اُن کوAttempt کرنے کی کوشش نہ کرنا، ڈسپلن، سسٹم اور ٹیم ورک کے ساتھ اپنے تمام کاموں کو انجام دینا۔ ہیڈ ڈاؤن کرکے صبر، برداشت اور تحمّل کے ساتھ ہر مشکل ہر رکاوٹ کا سامنا کرنا اور ایسے مواقع کا انتظار کرنا جب کُھل کر شاٹس لگائے جاسکیں۔ یہ سب باتیں ہم کرکٹ کے کھیل سے سیکھ سکتے ہیں اور سیکھنے والے سیکھتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم کھیل کو کھیل برائے کھیل کے طور پر نہ لائیں۔

سارا کھیل نیّت کا ہوتا ہے۔ اگر ہم زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ترقی اور کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ آرٹ سیکھنا ہوتا ہے کہ ہم اپنے مشاغل، اپنی دل چسپیوں، اپنی تفریحات، اپنے کھیلوں سے کیا کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں اور پھر مستقل اِس آرٹ کی پریکٹس کرنی ہوگی۔ پھر ہم بظاہر کوئی سا بھی ایسا کام کیوں نہ کررہے ہوں جو کِسی بھی طرح ہمارے بنیادی کام سے Relevant نہ ہو، تب بھی کام کی باتیں ازخود Filter ہوہو کر ہمارے ذہن کے پوشیدہ گوشوں میں جمع ہوتی رہیں گی اور ہمارے کام کے کاموں میں ہماری مدد کرتی رہیں گی۔

کھیل کھیلتے رہیے، کوئی سا بھی کھیل ہو۔ آپ کی ذہنی و جسمانی صحت بہتر اور برقرار رہے گی۔ بچوں اور نوجوانوں کے لیے کھیلوں کے بھرپور مواقع فراہم کرتے رہیے۔ آپ کی، ہماری نسلیں ازخود آگے بڑھنے کے راستے بناتی رہیں گی۔ اور اگر کھیل Game of Lords ہو تو کیا کہنے۔ آپ کے عِلم میں ہوگا ہی کہ کِرکٹ کو ہی لارڈز کا کھیل کہا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں