سانحۂ قصور سے سیکھے جانے والے سبق
یہ درست ہے کہ عوام محرومیوں اورناانصافیوں کے زخم خوردہ ہیں
قصور کی ننھی زینب معصومہ کے المناک سانحے نے بلاشبہ پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا ہے، ہر شخص غمزدہ ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس طرح کے یا اس سے بڑے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں، ہر جگہ عوام، حکومت اور میڈیا چند روز کی جذباتیت کے بعد ان واقعات سے لاتعلق ہوجاتے ہیں، نہ کبھی کسی نے ورثاء کا پتہ کیا ہے اور نہ کسی نے کیس کی پیروی میں دلچسپی لی ہے۔ اس سانحے کے بعد کم از کم پانچ مختلف چینلوں نے راقم سے تاثرات لینے کے لیے رابطہ کیا، مگر راقم نے متعلقہ پروڈیوسرز سے یہ کہہ کر کہ ''حادثے کی گرد بیٹھ لینے دیں تو پولیسنگ اور کریمنل جسٹس سسٹم کی خامیوں اور ان کی اصلاح پر تفصیلی بات کریں گے'' معذرت کرلی۔
میں جانتا ہوں کہ کچھ چینل کسی سنجیدہ موضوع پر گفتگو کرنا ہی نہیں چاہتے، وہ سامعین کو لاشیں، خون، آگ، جلتی ہوئی گاڑیاں، تباہ ہوتی ہوئی عمارتیں اور گالیاں دکھانا چاہتے ہیں۔ فرض کریں ایسا واقعہ یورپ کے کسی ملک میں ہوا ہوتا تو وہاں کیسا ردعمل ہوتا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ مظلوموں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے نکلتے مگر ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے نہیں، مشعلیں ہوتیں یا پوسٹر ہوتے، وزیرِداخلہ، شہر کا منتخب میئر یا پولیس چیف پوری خوداعتمادی کے ساتھ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو کیس کے کچھ واقعات سے آگاہ کرتا اور بتاتا کہ پولیس کوشش کررہی ہے۔
جونہی کوئی پیش رفت ہوگی پولیس آپ کو آگاہ کردے گی، اِس وقت تفتیش کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں، کوئی صحافی اس جواب پر اعتراض نہ کرتا۔ حکومت کے مخالف سیاستدان بھی اس سانحے پر سیاست بازی کی ہرگز کوشش نہ کرتے بلکہ وہ کہتے کہ اس سانحے پر ہم سب دکھی ہیں اور دعاگوہیں کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے پولیس کی کوششیں جلد کامیاب ہوں۔ میڈیا صرف چند منٹ واقعات بتانے کے بعد بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کا سلسلہ شروع کردیتا اور اس کی وجوہات کاکھوج لگانے کے لیے نفسیات، سماجیات اور جُرمیات کے ماہرین کو بلاکر ان کا نقطہء نظر پوچھتا اور اس کے تدارک کے لیے تجاویز پر گفتگو ہوتی۔ مگر ہمارے ہاں کئی دانشوروں کے بقول کچھ سیاسی لوگ زخموں کی تجارت کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں، حکومت بھی ڈری اور سہمی ہوئی سی لگتی ہے۔
کچھ لوگ آگ لگانے پر اکساتے رہے تو میڈیا اسے غلط کہنے کے بجائے justifyکرتا رہا۔ مہذب معاشروں میں پبلک پراپرٹی تباہ کرنے ، اسے جلانے یا اس پر کسی کو اکسانے میں اگر کسی سیاسی لیڈر کا کردار نظر آجائے تو اس کا سیاسی کیرئیر ختم ہوجاتا ہے۔ سانحہ کتنا ہی سنگین ہو، مہذب ملکوں میں میڈیا آگ لگانے والوں کی مذمّت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کی نشاندہی کرنے میں پولیس کی مدد کرتا ہے اور جج صاحبان دن رات عدالتیں لگا کر (جس طرح لندن کے ہنگاموں میں ہوا تھا) پبلک پراپرٹی جلانے اور تباہ کرنے والوں کو سزا دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری پولیس اپنے طرزِعمل کی وجہ سے عوامی اعتماد سے محروم ہے۔ قصور کے نئے DPOکو پورے اعتماد کے ساتھ میڈیا پر آکر بتانا چاہیے کہ ہم انشااﷲ بہت جلد مجرم کو گرفتار کرلیں گے مگر کسی کو بھی جلاؤ گھیراؤ کی یا قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ ڈپٹی کمشنر کے گن مَینوں کی جلوس پر فائرنگ بالکل غلط اور بلاجواز تھی، اس کی بے لاگ انکوائری ہونی چاہیے، اگر اسکاحکم ڈی سی نے دیا تھا تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہر Stake holderکا طرزِعمل بڑا غیرذمے دارانہ اور مہذب معاشروں کے مقابلے میں پست سطح کا رہا ہے۔ اسی طرزِ عمل کی غمازی کے لیے کسی منچلے نے سوشل میڈیا پر ایک کارٹون بنایا ہوا ہے جس میں پاکستانی قوم امریکی صدر ٹرمپ سے کہہ رہی ہے ''ہمیں دھمکیاں نہ دو تم ہمیں نہیں جانتے، ہمیں غصہ آگیا تو ہم سارے اسکولوں ، بینکوں اور ٹریفک کی بتیوں کے شیشے توڑ دیں گے، تم نے اور دھمکی دی تو ہم اپنی عمارتوں اور گاڑیوںکو جلا کر راکھ کردیں گے۔ ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے تم نے!''۔
یہ درست ہے کہ عوام محرومیوں اورناانصافیوں کے زخم خوردہ ہیں، ایسے واقعات پر وہ فوراً تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں کہ اس میں انھیں اپنے دکھ، کرب اور فرسٹریشن کا مداوا نظر آتا ہے اور ان کے جذبۂ انتقام کو تسکین ملتی ہے مگرسانحے کے دوسرے روز کچھ لوگوں کو ٹارگٹ کرکے ان کے گھروں اور گاڑیوں کو آگ لگانا فوری ردعمل نہیںبلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد کیا جانے والا سنگین مجرمانہ فعل ہے جو مظلومین کے ساتھ ہمدردی کے لیے نہیںبلکہ سیاسی مقاصد کے لیے کیا گیا تھا۔
پولیس سروس میں راقم نے خود اس نوعیّت کے درجنوں کیس ڈیل کیے ہیں، پولیس ایسے مجرموں سے پہلا سوال یہ کرتی ہے کہ''تم نے ایسا گھناؤنا فعل کیوں کیا؟ اس شیطانی فعل کے لیے تم نے اس معصوم بچے /بچی کو کیوں چُنا؟ اور پھر اسے قتل کیوں کردیا؟'' نوّے فیصد سے زیادہ مجرموں کا یہ اعتراف سامنے آتا رہا ہے کہ ''میں بلیو فلم (سیکس مووی) دیکھتا رہاتھا جس سے میرے جنسی جذبات بھڑک اٹھے، مجھ پر شیطانیّت طاری ہوگئی،میں نے فوری طور پر شکار تلاش کرنا شروع کیا تو (محلے یا گلی میں) فوری طور پر آسان شکار (easy target) یہی نظر آیا، میں اسے پیسوں کا لالچ دیکر (کبھی مٹھائی یا چاکلیٹ کا لالچ دیاجاتا ہے) ساتھ لے گیا۔ بچی کے ساتھ بدفعلی کرنے کے بعد مجھے یہ خوف محسوس ہوا کہ یہ تو میرا نام بتادیگی تو میں نے اپنے جرم کے واحد گواہ کو ختم کردینے کا فیصلہ کیا ، لہٰذا میں نے اسے قتل کردیا''۔
میں حیران ہوں کہ کوئی اینکر ، سیاستدان یا کوئی تجزیہ کار اُن عوامل کا ذکر ہی نہیں کررہا جس کے باعث مجرم پر حیوانیت غالب آجاتی ہے۔ مجرموں کے انکشافات اور دیگر شہادتوں کے بعد ماہرین کی رائے میں انٹرنیٹ پر موجود اور آسانی سے دستیابPorn contents اور سیکس موویزبچّوںپر جنسی تشّدد کے واقعات کی بہت بڑی وجہ ہے۔ اسی لیے بہت سے ملکوں نے اسطرح کی قابلِ اعتراض سائٹس بلاک کردی ہیں۔ مجھے یاد ہے سنگاپور میں ایک سینئر سرکاری اہلکار سے میں نے پوچھا کہ آپ نے اسطرح کی سائیٹس کیوں بند کررکھی ہیں ؟، اس نے جواب دیا "ہم نہیں چاہتے کہ ایسے مواد تک کچے ذہنوں کی رسائی ہو، اس سے ہمارے نوجوانوں کے جنسی جذبات بے قابو ہوںگے اور پھر ہمارے چھوٹے بچے اور بچیاں حیوانیت کی بھینٹ چڑھ جائیں گی''۔
اسطرح کے زیادہ تر کیسوں میں مجرم اجنبی نہیں بلکہ بچے کا جاننے والا (Acquainted) ہوتا ہے۔ وہ بچے یا بچی کو زیادہ دور نہیں لے جاتا بلکہ اپنے فعل کے ارتکاب کے لیے قریب ہی کوئی ویرانہ، چھت، کمرہ یا فصل ڈھونڈتا ہے۔ چونکہ victimکی لاش ٹھکانے لگانے کے لیے مجرم کے پاس زیادہ وسائل اور وقت نہیں ہوتا اس لیے وہ جلدی میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے، اسی لیے وہ جلدبازیاب ہوجاتی ہے، ذہانت اور یکسوئی سے کوشش ہو (جو یقیناً قصور میں ہورہی ہوگی) تو مجرم بھی زیادہ عرصہ قانون کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔ مگر کیا اب بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں گی؟ کیا اب بھی حکومت قابلِ اعتراض سائٹس کو بند نہیں کریگی؟۔
اس سانحے کی آڑ میں مختلف این جی اوز اپنا ایجنڈا سامنے لے آئی ہیں، وہ sex educationشروع کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ جسکی اگلی منزل free sex ہوتی ہے۔ اس کے بعد خاندان کے مقدس ادارے (family institution) کو پامال کرنے کے لیے حملہ کیا جاتا ہے اور پھر نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو فیمیلی انسٹی ٹیوشن سے بغاوت پر اکسایا جاتا ہے، تاکہ مشرقی اور اسلامی معاشرے کے ان خوشنما پہلوؤں کا خاتمہ کردیا جائے جس پر یہ معاشرہ فخر کرتا ہے، بچوں اور بچیّوں کو اپنے تحفّظ کے لیے جسم کے حسّاس حصّوں کے بارے میں بڑے غیر محسوس مگر موثر طریقے سےsensitise کیا جانا چاہیے مگر اس کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں میں پاکیزہ خیالات پروان چڑھانے کے لیے والدین اور اساتذہ کوبھرپورکردار ادا کرنا چاہیے۔
باقی اداروں کیطرح پولیس میں بھی quality of command بہت گری ہے، ایسے افسر اب خال خال ہی ملتے ہیں جنکے دامن پر داغ اور دل میں خوف نہ ہو اور وہ مظلوموںسے ہمدردی بھی رکھتے ہوں۔ ٹریننگ، پولیس کا بہت کمزور پہلو ہے، حکومتوں کی بھی اس پر کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ آرمی کیطرح سب سے بہترین پولیس افسروں کو (ایک خاص مدت کے لیے) تربیت گاہوں میں تعینات کیا جانا چاہیے۔ سول اداروں کی تربیت گاہوں میں دو اہم ترین چیزوں کو بالکل نظرانداز کیا جاتا ہے، نہ وہاں Integrity اور رزقِ حلال کی اہمیّت پر زور دیا جاتا ہے اور نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ریاست کے لیے عام شہری کتنا اہم ہے۔ راقم نیشنل پولیس اکیڈیمی میں نوجوان اے ایس پیز کی ٹریننگ کاانچارج رہا ہے۔ ہم نے نوجوان افسروں میں Policing for the people کا نظریۂ متعارف کرایا تھا اور انھیں بتایا تھا کہ سائل، درخواست گزار، مظلوم ، عام شہری اور عوام ہی پولیس کے سب سے بڑے client ہیں اور پولیس کی کوششوں کا محور اور مرکز عام شہری ہونا چاہیے۔
سانحۂ قصور سے اگر واقعی کچھ سبق سیکھنا ہیں توحکومت کو پانچ اقدامات فوری طور پر اٹھاناہونگے 1۔ Porn Sites فی الفور بند کرائی جائیں 2۔ پولیس کی تربیت گاہوںمیں بہترین افسر تعینات کیے جائیں جو Policing for the people پر زور دیں 3۔ ہر ضلعے میں Riot controlکے لیے اعلیٰ تربیت یافتہ اور پورے Equipmentسے لیس فورس تعینات کی جائے۔ 4۔ جدید دور کی ضروریات پوری کرنے والا پولیسنگ سسٹم اور فوری انصاف دینے والاکریمنل جسٹس سسٹم رائج کیا جائے اور5۔ پولیسنگ کے عمل میں شہریوں کی شراکت یقینی بنانے کے لیے ہر تھانے کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں بنائی جائیں ، اس سلسلے میں پولیس افسر گوجرانوالہ ماڈل کا مطالعہ کرلیں۔
نوٹ: ائیرمارشل اصغرخان صاحب کی یاد میں لکھا گیا کالم آج چھپنا تھا مگر اسے اگلے بدھ تک ملتوی کرنا پڑا ہے۔