لوح سوا صدی کا سفر
’لوح‘ کے تین شماروں سے اندازہ ہوا کہ ممتاز احمد شیخ کچھ نہ کچھ کرکے رہیں گے
کہانی کہنا، کہانی سننا انسان کا اس وقت سے مشغلہ رہا ہے، جب سے اس نے بولنا اور سننا سیکھا۔ وہ کہانیاں، کہتا رہا، سنتا رہا۔ آفتاب کا رات کی سیاہی میں ڈوبنا اور مہتاب کا تاریکی سے طلوع ہونا ۔کیسے من موہنے منظر اورکیسی پُر ہول راتیں جن میں جھومتے ہوئے پیڑوں پر چڑیلیں جھولتیں اور اگیا بیتال اپنے سروں پر انگارے اٹھائے ناچتے۔ انسان نے اپنی پناہ دیوی دیوتاؤں میں تلاش کی۔
مصر، ہندوستان، بابل، یونان دیس دیس کے قصے۔ کہیں گل گامش کی داستان اورکہیں چاہ بابل کا فسانہ... انسان کوکہانیاں کہنے اور سننے کا کیسا شوق تھا،اس کا اندازہ اس مصری کہانی سے لگایئے جو دنیا کی پہلی مختصر کہانی کہی جاتی ہے اور جو مصر میں دو ہزار برس قبل مسیح یعنی اب سے چار ہزار برس پہلے لکھی گئی۔ پیپرس پر لکھی ہوئی یہ کہانی سند باد جہازی کی کہانیوں کی پیشروکہی جاتی ہے۔ ہمارے بے بدل دانشور اورمحقق ابن حنیف نے اس کہانی سے ہمیں متعارف کرایا۔ اس کہانی کو ماہر مصریات سر ایلن گارڈنر، رڈیارڈ کپلنگ، پال جانسن اور دوسرے ادیبوں نے انسان کا عظیم ادبی سرمایہ قرار دیا اور اسے دنیا کی پہلی کلاسیکی کہانی کے نام سے پکارا ہے۔
کہانی سے یہی وہ عشق ہے جو ہم سب کے دلوں کو چھوتا رہا اور ہم کہانی کہتے رہے، ہرن کی کھال اور پیڑوں کی چھال پر لکھتے رہے اور اپنے بزرگوں کی اس وراثت پر ناز کرتے رہے۔ یہ سرمایہ اردو ادب میں بھی منتقل ہوا اور اسی کا صدقہ ہے کہ انیسویں صدی کے آخر سے اردو میں مختصرکہانی اور افسانے کا چلن ہوگیا تھا۔
شاید دو برس پرانی بات ہے جب لاہور سے ممتاز احمد شیخ کا فون آیا۔ علم و ادب کے رسیا اور اسی حوالے سے ایک ادبی سہ ماہی نکالنے کے لیے بے قرار۔ ان کی باتوں سے اس عشق کی خوشبو آتی تھی جو انھیں لکھے ہوئے حروف سے ہے۔ بات آئی گئی ہوئی اور پھر کچھ دنوں بعد ایک دل کش اور دیدہ زیب مجلہ آن پہنچا۔ ممتاز احمد شیخ نے پہلی منزل سر کرلی تھی اور سہ ماہی ''لوح'' کا پہلا شمارہ نگاہوں کے سامنے تھا۔ اس کی پیشانی پر تحریر تھا، اولڈ راونیز کی جانب سے اسیرانِ ادب کے لیے توشہ ٔ خاص۔
انھوں نے ابتدائی شمارے میں ''لوح'' کو لفظوں کی بچھی ہوئی بساط کہا۔ یہ کوئی تن آسانی کا کام نہیں تھا۔ اس بساط پر بچھنے والی ہر ہر تحریرکو موتیوں کی مالا سمجھ کرکسی ماہر جوہری کی طرح جانچا اور پرکھا گیا۔ تب جا کر صفحات کہیں اس قابل ہوئے کہ لوگوں کی خدمت میں پیش کیے جائیں۔
اگلا شمارہ لے کر ادب دوستوں کی محفل میں گئے تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اداریہ اگر عشق وعاشقی کے جذبوں سے لبریز ہو اور اس میں تھوڑی سی ''میں'' کی تکرار بھی آجائے تو تعلّی کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ کئی بار سوچا کہ اگر اپنے لفظ جذباتِ خفی کے مانند ہی رہیں تو کیا اچھا ہو مگر یہ ایسا مرض ہے کہ جسے بیان کیے بغیرکوئی چارہ نہیں اور قصۂ دروں کے اظہار کے بغیر جی کو قرار نہیں۔ چین و قرار کی تصدیق تو دل سے اس وقت پھوٹتی ہے جب کچھ اچھا ہوجائے اور مسلسل اچھا ہونے کی امید بھی بندھی رہے۔
لوح کو ''لوح'' بنانے کا عزم اس لیے مضطرب رکھتا ہے کہ ادبِ عالیہ کے روپ میں ڈھلا ہو اور اس کے مندرجات و مشمولات خوشبو کی طرح روح میں تحلیل ہوں تو شاید چین اور قرارکے معانی سمجھ میں آنے لگیں۔ ابھی تو محض ابتداء ہے۔ ایڑیاں رگڑتے ہوئے کبھی زمینِ ادب سے شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے نکل آئیں تو شاید تشفی ہو۔ ابھی تو اس بے ادب کو دنیائے ادب کے درخشاں ستاروں سے ان کے روشن الفاظ میں پروئی ہوئی تحریریں حاصل کرنے کا ہُنر بھی نہیں آتا۔ ادب کے قرینوں اور سلیقوں کو برتنے کا مکمل یارا ہے نہ آشنائی۔
'لوح' کے تین شماروں سے اندازہ ہوا کہ ممتاز احمد شیخ کچھ نہ کچھ کرکے رہیں گے اور پھر چند مہینوں پہلے 1120 صفحوں پر مشتمل سہ ماہی 'لوح' کا مشترک شمارہ آن پہنچا۔ یہ 'افسانہ نمبر' ہے۔ دریا کوزے میں بند کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ، 'ایک سو پندرہ سالہ افسانوی تاریخ کے اہم اور ناگزیر افسانوں کا انتخاب'۔ لوح کو ممتاز ایک ایسا خواب قرار دیتے ہیں جس کے ساتھ انھوں نے 40 برس صبح و شام بسر کیے اور اب یہ خواب ہر تیسرے چوتھے مہینے ہمیں اپنی جھلکیاں دکھاتا ہے۔ وہ افسانوی ادب کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ داستان سے افسانے تک ایک طویل سفر ہے جو اردو ادب نے طے کیا ہے۔
اس کے منزل بہ منزل سفر کی خبر ہمیں بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی اپنے ادبی رسائل سے ملنے لگی تھی۔ ہمارے کیا ادب پرور اور ادیب گر بزرگ تھے جنہوں نے ہمایوں، مخزن، عالمگیر، نگار، افکار، شاعر، نقوش، ادبی دنیا، فنون، اوراق، سیپ، نقش، بیسویں صدی، اساطیر، تسطیر، ذہن جدید، روشنائی اور دوسرے بہت سے ادبی پرچے دیے جو بیسویں صدی سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک نکلتے رہے۔ کچھ آج بھی دیر سویر نکلتے ہیں لیکن بیشتر دم توڑ چکے۔ یہ ایک ایسی الم ناک صورت حال ہے جس نے ادب، ادیب اور قاری کا رشتہ توڑ دیا۔ ممتاز اسی ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑنے کے ارادے سے کاغذ قلم لے کر بیٹھے ہیں۔ یوں تو 'لوح' کے گزشتہ شمارے بھی خوب تھے لیکن 'افسانہ نمبر' ان حسابوں سب سے آگے ہے کہ انھوں نے 1901 سے 2017 تک افسانوی مجموعوں اور رسائل و جرائد سے کہانیوں کی چھان پھٹک کی ہے اور ہمارے افسانوی ادب کا عطر کشید کرلیا ہے۔
انھوں نے ہماری افسانوی روایت کے باوا آدم سے لوح کا آغاز کیا ہے۔ میر باقر علی جو میر باقر داستان گو کے نام سے مشہور ہیں، ان کی 1901 کی کہانی 'برا خاوند' ہمیں لوح کے ابتدائی صفحے پر اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ سادہ اور برجستہ جملوں میں ایک ایسی کہانی جو داستان کے انداز میں لکھی گئی ہے اور اس کے بعد اختر اور نیوی کی کہانی 'مریض' سے اردو افسانے کی ریل گاڑی چل پڑتی ہے۔ اس میں منشی پریم چند، سدرشن، اعظم کریوی، راشد الخیری، مجنوں گورکھ پوری، سجاد حیدر یلدرم، علی عباس حسینی اور حیات اللہ انصاری کے علاوہ دوسرے بہت سے ہیں جنہوں نے اردو افسانے کو اعتبار بخشا۔ ترقی پسند تحریک کے احمد علی، سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں اپنا سکّہ جماتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، بلونت سنگھ، حجاب امتیاز علی، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر ، غلام عباس اپنے افسانوں سے ہمیں مالا مال کرتے ہیں۔
سریت آمیز افسانوں کی خالق اور خاتم مسز عبدالقادر کو بھی وہ نہیں بھولتے۔ چالیس کروڑ بھکاری والے ابراہیم جلیس، کفارہ والی ممتاز شیریں اور 'صندوقچہ' والی ہاجرہ مسرور اس انتخاب میں اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ انھوں نے نند کشور وکرم، شموئیل احمد، نیئر مسعود، نجم الحسن رضوی اور نیلم احمد بشیر کی کہانیوں کے ذائقے سے بھی ہمیں آشنا کیا اور خالدہ حسین، آصف فرخی ، نیلوفر اقبال، رشید امجد اور سید محمد اشرف لوح کے صفحوں پر ہمیں نظر آتے ہیں۔ قرۃالعین حیدر کا انھوں نے ایک ایسا افسانہ 'ستاروں سے آگے' منتخب کیا ہے جو ان کے پہلے افسانوی مجموعے کی زینت بنا اور جسے نئی نسل کے کم لوگوں نے پڑھا ہے۔ اسی طرح الطاف فاطمہ کا افسانہ 'کمندِ ہوا' زیادہ لوگوں کی نظر سے نہیں گزرا۔ اس میں خدیجہ مستور بھی ہیں اور حیات اللہ انصاری بھی نظر آتے ہیں۔
روایتی کہانی سے جدید افسانے کا سفر انھوں نے بہت سلیقے سے طے کیا ہے اور لوح کے سرنامے پر لکھے ہوئے اس جملے کو سچ کر دکھایا ہے کہ یہ ایک سو پندرہ برس کے اہم اور ناگزیر افسانوں کا انتخاب ہے۔ اس انتخاب کے اختتام پر ممتاز احمد شیخ نے کیا خوب لکھا ہے کہ ''پریم چند کی خارجی حقیقت نگاری اور سادہ بیانیہ، یلدرم کی رومانویت، ترقی پسندوں کی مقصدیت، ساٹھ کی دہائی کی علامت نگاری، ایک طویل سفر کے بعد اردو افسانے کی تاریخ کو ثروت مند بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی رہی ہیں۔ آج اگر حقیقت نگاری کی جارہی ہے تو یہ حقیقت نگاری پریم چند یا ترقی پسندوں کی حقیقت نگاری نہیں اب یہ علامتی حقیقت نگاری ہے۔ اسی طرح بیانیہ بھی اب ماضی کا سادہ بیانیہ نہیں بلکہ اس میں ایک اسلوبی دبازت ہے۔ آج اردو افسانہ، اردو ادب کی مقبول ترین صنف ہے اور ساٹھ کی دہائی کے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ نئے افسانہ نگار بھی اردو افسانے کو بڑھاوا دینے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔''
ممتاز احمد شیخ نے 1120 صفحات میں اردو افسانے کی ایک تاریخ مرتب کردی ہے۔ انھیں اس کی داد ہم اسی طرح دے سکتے ہیں کہ ''لوح'' کو خرید کر اپنے گھر لائیں اور اپنی اس تاریخ پر ناز کریں۔
مصر، ہندوستان، بابل، یونان دیس دیس کے قصے۔ کہیں گل گامش کی داستان اورکہیں چاہ بابل کا فسانہ... انسان کوکہانیاں کہنے اور سننے کا کیسا شوق تھا،اس کا اندازہ اس مصری کہانی سے لگایئے جو دنیا کی پہلی مختصر کہانی کہی جاتی ہے اور جو مصر میں دو ہزار برس قبل مسیح یعنی اب سے چار ہزار برس پہلے لکھی گئی۔ پیپرس پر لکھی ہوئی یہ کہانی سند باد جہازی کی کہانیوں کی پیشروکہی جاتی ہے۔ ہمارے بے بدل دانشور اورمحقق ابن حنیف نے اس کہانی سے ہمیں متعارف کرایا۔ اس کہانی کو ماہر مصریات سر ایلن گارڈنر، رڈیارڈ کپلنگ، پال جانسن اور دوسرے ادیبوں نے انسان کا عظیم ادبی سرمایہ قرار دیا اور اسے دنیا کی پہلی کلاسیکی کہانی کے نام سے پکارا ہے۔
کہانی سے یہی وہ عشق ہے جو ہم سب کے دلوں کو چھوتا رہا اور ہم کہانی کہتے رہے، ہرن کی کھال اور پیڑوں کی چھال پر لکھتے رہے اور اپنے بزرگوں کی اس وراثت پر ناز کرتے رہے۔ یہ سرمایہ اردو ادب میں بھی منتقل ہوا اور اسی کا صدقہ ہے کہ انیسویں صدی کے آخر سے اردو میں مختصرکہانی اور افسانے کا چلن ہوگیا تھا۔
شاید دو برس پرانی بات ہے جب لاہور سے ممتاز احمد شیخ کا فون آیا۔ علم و ادب کے رسیا اور اسی حوالے سے ایک ادبی سہ ماہی نکالنے کے لیے بے قرار۔ ان کی باتوں سے اس عشق کی خوشبو آتی تھی جو انھیں لکھے ہوئے حروف سے ہے۔ بات آئی گئی ہوئی اور پھر کچھ دنوں بعد ایک دل کش اور دیدہ زیب مجلہ آن پہنچا۔ ممتاز احمد شیخ نے پہلی منزل سر کرلی تھی اور سہ ماہی ''لوح'' کا پہلا شمارہ نگاہوں کے سامنے تھا۔ اس کی پیشانی پر تحریر تھا، اولڈ راونیز کی جانب سے اسیرانِ ادب کے لیے توشہ ٔ خاص۔
انھوں نے ابتدائی شمارے میں ''لوح'' کو لفظوں کی بچھی ہوئی بساط کہا۔ یہ کوئی تن آسانی کا کام نہیں تھا۔ اس بساط پر بچھنے والی ہر ہر تحریرکو موتیوں کی مالا سمجھ کرکسی ماہر جوہری کی طرح جانچا اور پرکھا گیا۔ تب جا کر صفحات کہیں اس قابل ہوئے کہ لوگوں کی خدمت میں پیش کیے جائیں۔
اگلا شمارہ لے کر ادب دوستوں کی محفل میں گئے تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اداریہ اگر عشق وعاشقی کے جذبوں سے لبریز ہو اور اس میں تھوڑی سی ''میں'' کی تکرار بھی آجائے تو تعلّی کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ کئی بار سوچا کہ اگر اپنے لفظ جذباتِ خفی کے مانند ہی رہیں تو کیا اچھا ہو مگر یہ ایسا مرض ہے کہ جسے بیان کیے بغیرکوئی چارہ نہیں اور قصۂ دروں کے اظہار کے بغیر جی کو قرار نہیں۔ چین و قرار کی تصدیق تو دل سے اس وقت پھوٹتی ہے جب کچھ اچھا ہوجائے اور مسلسل اچھا ہونے کی امید بھی بندھی رہے۔
لوح کو ''لوح'' بنانے کا عزم اس لیے مضطرب رکھتا ہے کہ ادبِ عالیہ کے روپ میں ڈھلا ہو اور اس کے مندرجات و مشمولات خوشبو کی طرح روح میں تحلیل ہوں تو شاید چین اور قرارکے معانی سمجھ میں آنے لگیں۔ ابھی تو محض ابتداء ہے۔ ایڑیاں رگڑتے ہوئے کبھی زمینِ ادب سے شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے نکل آئیں تو شاید تشفی ہو۔ ابھی تو اس بے ادب کو دنیائے ادب کے درخشاں ستاروں سے ان کے روشن الفاظ میں پروئی ہوئی تحریریں حاصل کرنے کا ہُنر بھی نہیں آتا۔ ادب کے قرینوں اور سلیقوں کو برتنے کا مکمل یارا ہے نہ آشنائی۔
'لوح' کے تین شماروں سے اندازہ ہوا کہ ممتاز احمد شیخ کچھ نہ کچھ کرکے رہیں گے اور پھر چند مہینوں پہلے 1120 صفحوں پر مشتمل سہ ماہی 'لوح' کا مشترک شمارہ آن پہنچا۔ یہ 'افسانہ نمبر' ہے۔ دریا کوزے میں بند کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ، 'ایک سو پندرہ سالہ افسانوی تاریخ کے اہم اور ناگزیر افسانوں کا انتخاب'۔ لوح کو ممتاز ایک ایسا خواب قرار دیتے ہیں جس کے ساتھ انھوں نے 40 برس صبح و شام بسر کیے اور اب یہ خواب ہر تیسرے چوتھے مہینے ہمیں اپنی جھلکیاں دکھاتا ہے۔ وہ افسانوی ادب کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ داستان سے افسانے تک ایک طویل سفر ہے جو اردو ادب نے طے کیا ہے۔
اس کے منزل بہ منزل سفر کی خبر ہمیں بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی اپنے ادبی رسائل سے ملنے لگی تھی۔ ہمارے کیا ادب پرور اور ادیب گر بزرگ تھے جنہوں نے ہمایوں، مخزن، عالمگیر، نگار، افکار، شاعر، نقوش، ادبی دنیا، فنون، اوراق، سیپ، نقش، بیسویں صدی، اساطیر، تسطیر، ذہن جدید، روشنائی اور دوسرے بہت سے ادبی پرچے دیے جو بیسویں صدی سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک نکلتے رہے۔ کچھ آج بھی دیر سویر نکلتے ہیں لیکن بیشتر دم توڑ چکے۔ یہ ایک ایسی الم ناک صورت حال ہے جس نے ادب، ادیب اور قاری کا رشتہ توڑ دیا۔ ممتاز اسی ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑنے کے ارادے سے کاغذ قلم لے کر بیٹھے ہیں۔ یوں تو 'لوح' کے گزشتہ شمارے بھی خوب تھے لیکن 'افسانہ نمبر' ان حسابوں سب سے آگے ہے کہ انھوں نے 1901 سے 2017 تک افسانوی مجموعوں اور رسائل و جرائد سے کہانیوں کی چھان پھٹک کی ہے اور ہمارے افسانوی ادب کا عطر کشید کرلیا ہے۔
انھوں نے ہماری افسانوی روایت کے باوا آدم سے لوح کا آغاز کیا ہے۔ میر باقر علی جو میر باقر داستان گو کے نام سے مشہور ہیں، ان کی 1901 کی کہانی 'برا خاوند' ہمیں لوح کے ابتدائی صفحے پر اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ سادہ اور برجستہ جملوں میں ایک ایسی کہانی جو داستان کے انداز میں لکھی گئی ہے اور اس کے بعد اختر اور نیوی کی کہانی 'مریض' سے اردو افسانے کی ریل گاڑی چل پڑتی ہے۔ اس میں منشی پریم چند، سدرشن، اعظم کریوی، راشد الخیری، مجنوں گورکھ پوری، سجاد حیدر یلدرم، علی عباس حسینی اور حیات اللہ انصاری کے علاوہ دوسرے بہت سے ہیں جنہوں نے اردو افسانے کو اعتبار بخشا۔ ترقی پسند تحریک کے احمد علی، سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں اپنا سکّہ جماتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی، بلونت سنگھ، حجاب امتیاز علی، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر ، غلام عباس اپنے افسانوں سے ہمیں مالا مال کرتے ہیں۔
سریت آمیز افسانوں کی خالق اور خاتم مسز عبدالقادر کو بھی وہ نہیں بھولتے۔ چالیس کروڑ بھکاری والے ابراہیم جلیس، کفارہ والی ممتاز شیریں اور 'صندوقچہ' والی ہاجرہ مسرور اس انتخاب میں اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ انھوں نے نند کشور وکرم، شموئیل احمد، نیئر مسعود، نجم الحسن رضوی اور نیلم احمد بشیر کی کہانیوں کے ذائقے سے بھی ہمیں آشنا کیا اور خالدہ حسین، آصف فرخی ، نیلوفر اقبال، رشید امجد اور سید محمد اشرف لوح کے صفحوں پر ہمیں نظر آتے ہیں۔ قرۃالعین حیدر کا انھوں نے ایک ایسا افسانہ 'ستاروں سے آگے' منتخب کیا ہے جو ان کے پہلے افسانوی مجموعے کی زینت بنا اور جسے نئی نسل کے کم لوگوں نے پڑھا ہے۔ اسی طرح الطاف فاطمہ کا افسانہ 'کمندِ ہوا' زیادہ لوگوں کی نظر سے نہیں گزرا۔ اس میں خدیجہ مستور بھی ہیں اور حیات اللہ انصاری بھی نظر آتے ہیں۔
روایتی کہانی سے جدید افسانے کا سفر انھوں نے بہت سلیقے سے طے کیا ہے اور لوح کے سرنامے پر لکھے ہوئے اس جملے کو سچ کر دکھایا ہے کہ یہ ایک سو پندرہ برس کے اہم اور ناگزیر افسانوں کا انتخاب ہے۔ اس انتخاب کے اختتام پر ممتاز احمد شیخ نے کیا خوب لکھا ہے کہ ''پریم چند کی خارجی حقیقت نگاری اور سادہ بیانیہ، یلدرم کی رومانویت، ترقی پسندوں کی مقصدیت، ساٹھ کی دہائی کی علامت نگاری، ایک طویل سفر کے بعد اردو افسانے کی تاریخ کو ثروت مند بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی رہی ہیں۔ آج اگر حقیقت نگاری کی جارہی ہے تو یہ حقیقت نگاری پریم چند یا ترقی پسندوں کی حقیقت نگاری نہیں اب یہ علامتی حقیقت نگاری ہے۔ اسی طرح بیانیہ بھی اب ماضی کا سادہ بیانیہ نہیں بلکہ اس میں ایک اسلوبی دبازت ہے۔ آج اردو افسانہ، اردو ادب کی مقبول ترین صنف ہے اور ساٹھ کی دہائی کے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ نئے افسانہ نگار بھی اردو افسانے کو بڑھاوا دینے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔''
ممتاز احمد شیخ نے 1120 صفحات میں اردو افسانے کی ایک تاریخ مرتب کردی ہے۔ انھیں اس کی داد ہم اسی طرح دے سکتے ہیں کہ ''لوح'' کو خرید کر اپنے گھر لائیں اور اپنی اس تاریخ پر ناز کریں۔