زینب کا قتل نظام کی ناکامی
بچوں کے خلاف جرائم کی سماعت کرنے کے لیے علیحدہ سے عدالتوں کے قیام کا تصور اس ملک میں نہیں ہے
زینب کا قتل پولیس اورعدالتی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ بچوں اورکم عمر لڑکیوں سے زیادتی شہروں اور دیہی علاقوں میں معمول کی بات ہے ۔ قصور میں چند سال قبل تین سو لڑکوں سے بد فعلی کا ہولناک اسکینڈل سامنے آیا تھا ۔ گزشتہ سال اس علاقے میںگیارہ بچیاں درندگی کا شکار ہوئی تھیں ۔ قصوری عوام کے احتجاج اور ذرایع ابلاغ پر شور شرابے کے نتیجے میں ملزمان گرفتار ہوئے تھے، اس وقت ملزمان بااثر تھے، یوں شدید احتجاج کے بعد چند افراد گرفتار ہوئے مگر پولیس کی ناقص تفتیش اورعدالتی نظام کی بھول بھلیوں کا فائدہ ملزمان کو ہوا ، ان میں سے کچھ مظلوم بن گئے ۔ عمومی طور پر غریبوں کے بچے شیطانیت کا شکار ہوتے ہیں ۔
بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کا واقعہ پہلے تو پولیس اور ذرایع ابلاغ کی توجہ کا مرکز نہیں بنتا ۔ پولیس والے والدین کی شکایت پر توجہ نہیں دیتے، یوں ذرایع ابلاغ کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ شامل نہیں ہوپاتا۔ جب زینب جیسی معصوم کلی قتل ہوجاتی ہے تو بھی متعلقہ پولیس افسر ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ عموماً پولیس افسر کے وقوع پر دیر سے پہنچنے، پوسٹ مارٹم نہ ہونے یا دیر سے ہونے پر ایف آئی آر میں قانونی کمزوریوں کا سارا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔ جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں ، بازار بند ہوتے ہیں اور ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ ہوتی ہے تو پھر الیکٹرونک میڈیا پر بریکنگ نیوز آتی ہے ۔ تھانے سے لے کر صوبے تک کے پولیس افسران متحرک ہوتے ہیں ۔
وزراء اور وزیر اعلیٰ حرکت میں آتے ہیں۔ سیاسی رہنما حکومت پر تنقید کا موقع ملنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، این جی اوز احتجاج کرتی ہیں۔اب تو سوشل میڈیا پر خوب چرچا ہوتا ہے، مگرکچھ عرصے بعد سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے ۔ بچوں پر جنسی تشدد کے مقدمات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ عموماً وہی محرر یا سب انسپکٹرکے درجے والے پولیس والے ان مقدمات کی تفتیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا پہلا ہدف خاندان والے ہوتے ہیں اور پھر محلے والوں کا نمبر آتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ایسے بہت سے واقعات میں خاندان اور محلے سے تعلق رکھنے والے ملوث پائے جاتے ہیں مگر تفتیش کا طریقہ پرانا ہوتا ہے۔ پولیس اہلکارکا اصرار ہوتا ہے کے والدین یا لواحقین اپنا شک ظاہر کریں ۔
پولیس والدین کے شک کی بنیاد پر تفتیش کا آغاز کرتی ہے۔ فنگر پرنٹ، کیمیائی تجزیہ اور ڈی این اے ٹیسٹ اور جیو فینسنگ جیسے سائنٹیفک طریقوں کو استعمال میں نہیں لایا جاتا، جو ملزمان پکڑے جاتے ہیں پولیس کے امیج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو مظلوم ثابت کرتے ہیں ۔ بعض مقدمات میں تو پکڑے جانے والے واقعی مظلوم ہوتے ہیں، پولیس دباؤ کوکم کرنے کے لیے حقیقی ملزمان نہ پکڑے جانے پر غیر متعلقہ افراد کو پکڑ لیتی ہے۔ تھانوں میں روایتی تشدد کے طریقوں سے ملزمان اقبال جرم کرتے ہیں مگر عدالت کے سامنے یہ ملزمان اپنے اقبالی بیان سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ پولیس گواہوں کے بیانات میں سقم چھوڑ دیتی ہے۔ یہ عام سا تاثر ہے کہ پولیس اہلکار جعلی گواہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ گواہ عدالت میں وکیل صفائی کی جرح کا سامنا نہیں کرپاتے اور اپنے پہلے بیان سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ عدالتوں کا نظام انتہائی پیچیدہ اور طویل ہے۔
بچوں کے خلاف جرائم کی سماعت کرنے کے لیے علیحدہ سے عدالتوں کے قیام کا تصور اس ملک میں نہیں ہے۔ یہ مقدمات جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو ان مقدمات کی فائلیں پہلے سے التواء میں پڑی ہوئی فائلوں کا حصہ بن جاتی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات میں بہت تاخیر ہوتی ہے،اگر پولیس نے ملزمان کوگرفتارکیا ہے اور وہ جیل میں بند ہیں تو اپنے مقدمات ضمانت پر رہائی کے مستحق ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح ملزمان آزاد ہوتے ہی اپنے مقدمے کے مخالف گواہوں سے روابط شروع کردیتے ہیں، یوں گواہوں کو منحرف کرنے یا عدالت میں پیش نہ ہونے کے مراحل شروع ہو جاتے ہیں۔
اسلام آباد میں گزشتہ سال ایک سیشن جج کی اہلیہ نے اپنی کم سن ملازمہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ طیبہ کیس کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے نوٹس لیا، یوں جج کی اہلیہ گرفتار ہوئی مگر پولیس نے چالان پیش کرنے میں مہینوں صرف کردیے۔ سپریم کورٹ نے طیبہ کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ عدالت 6ماہ میں اس مقدمے کا فیصلہ کرے مگر ابھی تک ابتدائی عدالت نے اس مقدمے کو نہیں نمٹایا۔ اس عدالت کے فیصلے کے بعد پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں فیصلوں میں 10 سال تک لگ جاتے ہیں، بنیادی طور پر بچوں کو جنسی تشدد اور درندگی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سب سے پہلے پولیس افسران کی تربیت ضروری ہے۔
متعلقہ پولیس افسر کو ان مقدمات کی تفتیش کے دوران اس مسئلے کی نزاکت کا اندازہ ہونا چاہیے اور جرائم کے انسداد کے جدید طریقوں کو استعمال کرنے کی تربیت وقت کی ضرورت ہے۔ ان بچوں کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے ہر تھانے میں خاتون پولیس افسرکا تقرر اور بچوں کی گمشدگی کی اطلاع پر فوری کارروائی کے لیے ہر تھانے میں ڈیسک قائم ہونا چاہیے۔ اس ڈیسک کی انچارج خاتون پولیس افسر کو ہی ہونا چاہیے۔ پولیس کے محکمے میں اس طرح کا نگرانی کا نظام قائم ہونا چاہیے کہ متعلقہ پولیس افسر اپنے ضلع کے افسروں کے سامنے بچوں کے خلاف جرائم سے متعلق مقدمات کی رپورٹ پیش کرے۔
اس عمل میں منتخب نمایندوں کی شمولیت سے زیادہ مفید نتائج سامنے آسکتے ہیں، اگر ہر ماہ متعلقہ پولیس افسر اور تھانے کا ایس ایچ او ضلع کے پولیس افسر اور منتخب نمایندوں کے سامنے اپنی رپورٹس پیش کرے اور سوالات کے جواب دے اوراس پورے عمل کو ان کی پولیس کے محکمے سے ترقی یا تنزلی سے منسلک کردیا جائے تو پولیس افسروں کے لیے کوتاہی کی گنجائش کم ہوجائے گی۔ بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کی سماعت کے لیے علیحدہ عدالتوں کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اس عدالت کے جج صاحبان اپنا بیشتر وقت ان مقدمات کی سماعت کے لیے وقف کریں اور متعلقہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ان مقدمات کی سماعت کے لیے ایک ایک جج مختص کرے اور 6ماہ کی مدت میں نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک کے تمام مراحل طے ہوجائیں تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
ایک اہم مسئلہ بچوں اور والدین کی تربیت کا ہے۔ اس وقت بچوں کو جنسی تشدد جیسے واقعات کے بارے میں آگہی کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا۔ بچوں کی تربیت سے اس طرح کے جرائم کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے والدین کی کونسلنگ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ والدین کا اس بات پر تیار ہونا ضروری ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی پردہ پوشی نہ کی جائے۔ لڑکیوں حتیٰ کہ لڑکوں کو بھی خاموشی اور بھول جانے کا درس نہ دیا جائے۔ بنیادی طور پر اسکولوں کے نصاب میں جسی بدسلوکی سے متعلق مواد شامل ہونا ضروری ہے۔
اساتذہ بچوں کو اس بات پر تیارکریں کہ کسی فردکی جانب سے خواہ وہ شخص آپ کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو کی اطلاع والدین اور اساتذہ کو دینا ضروری ہے۔ بچوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کسی عزیزکی کسی ترغیب پر توجہ نہ دیں نہ کسی اجنبی کی بات پر فوری طور پر عمل کے لیے تیار ہوجائیں، اگر نصاب میں ایسا مواد شامل کیا گیا اورتعلیمی اداروں میں اس بارے میں آگہی کے لیے ورکشاپ اور سیمینار وغیرہ کا سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں اس کے مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
قصور بھارت کی سرحد سے متصل شہر ہے۔ یہ شہر سیکیورٹی ایجنسیوں کے نرغے میں رہتا ہے مگر ایک سال میں 11 بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کا قتل قصور اور اطراف کے علاقوں کی معاشرتی ساخت کی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ مردوں خاص طور پر نوجوانوں کی مثبت سرگرمیوں کی کمی اور جنسی تربیت کا نہ ہونا بھی اس صورتحال کو وجوہات میں شامل ہے۔ اب نوجوانوں میں کتب بینی کا رجحان ختم ہوگیا ہے، کھیلوں کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محقق فلک ناز کا کہنا ہے کہ نوجوانوں اور مردوں میں بے روزگاری بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ مردوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر اپنے جرم کو چھپا کر انھیں قتل کرنے سے ایک خاندان تباہ نہیں ہوتا بلکہ اگر مجرم کسی طرح سزا سے بچ جائے تو بھی ساری زندگی یہ بھیانک جرم ان مجرموں کا پیچھا کرتا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدکیا ہے کہ وہ سندھ اور پنجاب میں صاف پانی کا مسئلہ حل کرکے رہیں گے۔ شاید یہ مسئلہ حل ہوجائے مگر پولیس اورعدالتی نظام کی فرسودگی کے خاتمے کے بغیر ملک کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ پنجاب اور سندھ میں صاف پانی کا مسئلہ حل کرکے رہیں گے۔ ان کا یہ بیان اہم ہے۔ شاید اس طرح صاف پانی کا مسئلہ تو حل ہوہی جائے گا مگر عدالتی نظام کی فرسودگی ختم کیے بغیر اس ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کا واقعہ پہلے تو پولیس اور ذرایع ابلاغ کی توجہ کا مرکز نہیں بنتا ۔ پولیس والے والدین کی شکایت پر توجہ نہیں دیتے، یوں ذرایع ابلاغ کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ شامل نہیں ہوپاتا۔ جب زینب جیسی معصوم کلی قتل ہوجاتی ہے تو بھی متعلقہ پولیس افسر ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ عموماً پولیس افسر کے وقوع پر دیر سے پہنچنے، پوسٹ مارٹم نہ ہونے یا دیر سے ہونے پر ایف آئی آر میں قانونی کمزوریوں کا سارا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔ جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں ، بازار بند ہوتے ہیں اور ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ ہوتی ہے تو پھر الیکٹرونک میڈیا پر بریکنگ نیوز آتی ہے ۔ تھانے سے لے کر صوبے تک کے پولیس افسران متحرک ہوتے ہیں ۔
وزراء اور وزیر اعلیٰ حرکت میں آتے ہیں۔ سیاسی رہنما حکومت پر تنقید کا موقع ملنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، این جی اوز احتجاج کرتی ہیں۔اب تو سوشل میڈیا پر خوب چرچا ہوتا ہے، مگرکچھ عرصے بعد سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے ۔ بچوں پر جنسی تشدد کے مقدمات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ عموماً وہی محرر یا سب انسپکٹرکے درجے والے پولیس والے ان مقدمات کی تفتیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا پہلا ہدف خاندان والے ہوتے ہیں اور پھر محلے والوں کا نمبر آتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ایسے بہت سے واقعات میں خاندان اور محلے سے تعلق رکھنے والے ملوث پائے جاتے ہیں مگر تفتیش کا طریقہ پرانا ہوتا ہے۔ پولیس اہلکارکا اصرار ہوتا ہے کے والدین یا لواحقین اپنا شک ظاہر کریں ۔
پولیس والدین کے شک کی بنیاد پر تفتیش کا آغاز کرتی ہے۔ فنگر پرنٹ، کیمیائی تجزیہ اور ڈی این اے ٹیسٹ اور جیو فینسنگ جیسے سائنٹیفک طریقوں کو استعمال میں نہیں لایا جاتا، جو ملزمان پکڑے جاتے ہیں پولیس کے امیج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو مظلوم ثابت کرتے ہیں ۔ بعض مقدمات میں تو پکڑے جانے والے واقعی مظلوم ہوتے ہیں، پولیس دباؤ کوکم کرنے کے لیے حقیقی ملزمان نہ پکڑے جانے پر غیر متعلقہ افراد کو پکڑ لیتی ہے۔ تھانوں میں روایتی تشدد کے طریقوں سے ملزمان اقبال جرم کرتے ہیں مگر عدالت کے سامنے یہ ملزمان اپنے اقبالی بیان سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ پولیس گواہوں کے بیانات میں سقم چھوڑ دیتی ہے۔ یہ عام سا تاثر ہے کہ پولیس اہلکار جعلی گواہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ گواہ عدالت میں وکیل صفائی کی جرح کا سامنا نہیں کرپاتے اور اپنے پہلے بیان سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ عدالتوں کا نظام انتہائی پیچیدہ اور طویل ہے۔
بچوں کے خلاف جرائم کی سماعت کرنے کے لیے علیحدہ سے عدالتوں کے قیام کا تصور اس ملک میں نہیں ہے۔ یہ مقدمات جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو ان مقدمات کی فائلیں پہلے سے التواء میں پڑی ہوئی فائلوں کا حصہ بن جاتی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات میں بہت تاخیر ہوتی ہے،اگر پولیس نے ملزمان کوگرفتارکیا ہے اور وہ جیل میں بند ہیں تو اپنے مقدمات ضمانت پر رہائی کے مستحق ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح ملزمان آزاد ہوتے ہی اپنے مقدمے کے مخالف گواہوں سے روابط شروع کردیتے ہیں، یوں گواہوں کو منحرف کرنے یا عدالت میں پیش نہ ہونے کے مراحل شروع ہو جاتے ہیں۔
اسلام آباد میں گزشتہ سال ایک سیشن جج کی اہلیہ نے اپنی کم سن ملازمہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ طیبہ کیس کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے نوٹس لیا، یوں جج کی اہلیہ گرفتار ہوئی مگر پولیس نے چالان پیش کرنے میں مہینوں صرف کردیے۔ سپریم کورٹ نے طیبہ کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ عدالت 6ماہ میں اس مقدمے کا فیصلہ کرے مگر ابھی تک ابتدائی عدالت نے اس مقدمے کو نہیں نمٹایا۔ اس عدالت کے فیصلے کے بعد پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں فیصلوں میں 10 سال تک لگ جاتے ہیں، بنیادی طور پر بچوں کو جنسی تشدد اور درندگی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سب سے پہلے پولیس افسران کی تربیت ضروری ہے۔
متعلقہ پولیس افسر کو ان مقدمات کی تفتیش کے دوران اس مسئلے کی نزاکت کا اندازہ ہونا چاہیے اور جرائم کے انسداد کے جدید طریقوں کو استعمال کرنے کی تربیت وقت کی ضرورت ہے۔ ان بچوں کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے ہر تھانے میں خاتون پولیس افسرکا تقرر اور بچوں کی گمشدگی کی اطلاع پر فوری کارروائی کے لیے ہر تھانے میں ڈیسک قائم ہونا چاہیے۔ اس ڈیسک کی انچارج خاتون پولیس افسر کو ہی ہونا چاہیے۔ پولیس کے محکمے میں اس طرح کا نگرانی کا نظام قائم ہونا چاہیے کہ متعلقہ پولیس افسر اپنے ضلع کے افسروں کے سامنے بچوں کے خلاف جرائم سے متعلق مقدمات کی رپورٹ پیش کرے۔
اس عمل میں منتخب نمایندوں کی شمولیت سے زیادہ مفید نتائج سامنے آسکتے ہیں، اگر ہر ماہ متعلقہ پولیس افسر اور تھانے کا ایس ایچ او ضلع کے پولیس افسر اور منتخب نمایندوں کے سامنے اپنی رپورٹس پیش کرے اور سوالات کے جواب دے اوراس پورے عمل کو ان کی پولیس کے محکمے سے ترقی یا تنزلی سے منسلک کردیا جائے تو پولیس افسروں کے لیے کوتاہی کی گنجائش کم ہوجائے گی۔ بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کی سماعت کے لیے علیحدہ عدالتوں کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اس عدالت کے جج صاحبان اپنا بیشتر وقت ان مقدمات کی سماعت کے لیے وقف کریں اور متعلقہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ان مقدمات کی سماعت کے لیے ایک ایک جج مختص کرے اور 6ماہ کی مدت میں نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک کے تمام مراحل طے ہوجائیں تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
ایک اہم مسئلہ بچوں اور والدین کی تربیت کا ہے۔ اس وقت بچوں کو جنسی تشدد جیسے واقعات کے بارے میں آگہی کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا۔ بچوں کی تربیت سے اس طرح کے جرائم کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے والدین کی کونسلنگ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ والدین کا اس بات پر تیار ہونا ضروری ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی پردہ پوشی نہ کی جائے۔ لڑکیوں حتیٰ کہ لڑکوں کو بھی خاموشی اور بھول جانے کا درس نہ دیا جائے۔ بنیادی طور پر اسکولوں کے نصاب میں جسی بدسلوکی سے متعلق مواد شامل ہونا ضروری ہے۔
اساتذہ بچوں کو اس بات پر تیارکریں کہ کسی فردکی جانب سے خواہ وہ شخص آپ کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو کی اطلاع والدین اور اساتذہ کو دینا ضروری ہے۔ بچوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کسی عزیزکی کسی ترغیب پر توجہ نہ دیں نہ کسی اجنبی کی بات پر فوری طور پر عمل کے لیے تیار ہوجائیں، اگر نصاب میں ایسا مواد شامل کیا گیا اورتعلیمی اداروں میں اس بارے میں آگہی کے لیے ورکشاپ اور سیمینار وغیرہ کا سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں اس کے مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
قصور بھارت کی سرحد سے متصل شہر ہے۔ یہ شہر سیکیورٹی ایجنسیوں کے نرغے میں رہتا ہے مگر ایک سال میں 11 بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کا قتل قصور اور اطراف کے علاقوں کی معاشرتی ساخت کی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ مردوں خاص طور پر نوجوانوں کی مثبت سرگرمیوں کی کمی اور جنسی تربیت کا نہ ہونا بھی اس صورتحال کو وجوہات میں شامل ہے۔ اب نوجوانوں میں کتب بینی کا رجحان ختم ہوگیا ہے، کھیلوں کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محقق فلک ناز کا کہنا ہے کہ نوجوانوں اور مردوں میں بے روزگاری بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ مردوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر اپنے جرم کو چھپا کر انھیں قتل کرنے سے ایک خاندان تباہ نہیں ہوتا بلکہ اگر مجرم کسی طرح سزا سے بچ جائے تو بھی ساری زندگی یہ بھیانک جرم ان مجرموں کا پیچھا کرتا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدکیا ہے کہ وہ سندھ اور پنجاب میں صاف پانی کا مسئلہ حل کرکے رہیں گے۔ شاید یہ مسئلہ حل ہوجائے مگر پولیس اورعدالتی نظام کی فرسودگی کے خاتمے کے بغیر ملک کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ پنجاب اور سندھ میں صاف پانی کا مسئلہ حل کرکے رہیں گے۔ ان کا یہ بیان اہم ہے۔ شاید اس طرح صاف پانی کا مسئلہ تو حل ہوہی جائے گا مگر عدالتی نظام کی فرسودگی ختم کیے بغیر اس ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔