بڑھتا ہوا پرتشدد نفرت انگیز کلچر
ہم ساٹھ ستر سالوں سے علاقائی ، لسانی ، مذہبی اور فروعی اختلافات کو نہ صرف ہوادیتے آئے ہیں
KARACHI:
ہم خود کو خواہ کچھ بھی سمجھتے رہیں لیکن دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے اورکیسے خیالات رکھتی ہے یہ سوال ہمارے لیے اہم ہونا چاہیے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہو سکتا ہے کہ ہمیں اِس کی قطعاً پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا ہمیں کیسا سمجھتی ہے۔جس طرح عام زندگی میں ہم یہ فقرے اور جملے بڑی شد ومد کے ساتھ دہراتے رہتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کی پراہ نہیں کرنی چاہیے۔
لوگوں کی تو عادت ہوتی ہے بلاوجہ اعتراض اورتنقید کرنے کی۔ لیکن عالمی سطح پرباعزت قوموں کے درمیان رہتے ہوئے ہم ایسا ہرگز نہیں کرسکتے۔ ہمیں ہمارے اپنے گرین پاسپورٹ کی فکر ہر وقت لاحق رہتی ہے۔ دنیا عزت و احترام کے کس درجے میں ہم سے سلوک روا رکھتی ہے ہم اِس کی فکر میں پریشان اورہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاستداں حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے ہمیشہ اِسی بات کا طعنہ دیاکرتے ہیں کہ فلاں زمانے میں پاکستان کی اِس قدر عزت افزائی ہواکرتی تھی اور آج یہ حال ہے کہ ہمیں کوئی پوچھتا تک نہیں، لیکن وہ یہ سب کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اِس نئے کردار کے تخلیق اور تشکیل میں ہمارا اپنا حصہ بھی ہے۔
آج اگر ہمارے اندر قوت برداشت جواب دے چکی ہے تو اور ہم چھوٹی اور معمولی سے بات پر مارنے اور مر جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو اِ س میں ہمارے اپنے نام نہاد لیڈروں اور رہبروں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جو ذاتی اور شخصی مفادات کی خاطر قوم کو آپس میں لڑانے کے اپنے مذموم مقاصداور ارادوں کی تکمیل میں یہ سب کچھ کرگزررہے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے وقتی طور پر قوم کو نفرت اور اشتعال انگیزی پر اُکساکر وہ اپنے مکروہ عزائم میں تو کامیاب ہوجائیں لیکن نتیجتاًوہ ایک ایسی قوم کی تشکیل اور ترویج کررہے ہوتے ہیں جو ملک کے ہر قانون سے لاتعلق اور بے بہرہ ہوکر مادر پدر آزادہوکر پھر کسی کے قابو میں بھی نہیں آپائے گی ، جو لوگ آج قوم کے جذبا ت اور احساسات سے کھیل کر انھیں پرتشدد مظاہروں اور ہنگاموںکی جانب راغب کررہے ہیں وہ کسی لحاظ سے اِس ملک کی خدمت نہیں کررہے ہوتے ہیں۔
درحقیقت وہ اپنے چند مخصوص ارادوں اور عزائم کی خاطراِس مظلوم قوم کاسارا اخلاق اور کردار مسخ اور تباہ وبربادکررہے ہوتے ہیں۔ انھیں شاید یہ پتا نہیں کہ وہ اپنے اِس طرز عمل سے اِس قوم کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی بجائے انھیں عدم برداشت، بد اخلاقیت اور لاقانونیت کے ایسے اندھے کنوئیں کی جانب ڈھکیل رہے ہوتے ہیں جہاں سے انھیں پھر کوئی نکال نہیں پائے گا۔گزشتہ کئی سالوں پر محیط سیاسی اور معاشرتی تناؤ اور چپقلش میںہم بحیثیت قوم ایک ایسے بے قابو ہجوم اور گروہ کے شکل اختیار کرتے جارہے ہیں جسے آنے والے دنوں میں ہرکوئی اپنے ناپاک ارادوں اور منصوبوں کی تکمیل کے لیے باآسانی استعمال کرسکے گا۔آج اگر یہ گروہ ہمارے اشاروں پر ملک بھر میں ہنگامے اور فساد برپا کرسکتے ہیں تو کل یہی لوگ ہمارے اپنے خلاف بھی اِسی طرح کسی اور کے اشاروں پر سرگرم اور سرگرداں کھائی دیں گے، پھر یہاں امن وسکون اورآشتی کے بجائے ہر طرف انارکی اور طوائف الملوکی کا راج ہوگا۔ خانہ جنگی اور بر بادی کا عالم ہوگا۔
ملک و قوم کے بدقسمتی ہے کہ اُس نے اپنے ملک میں عرصہ دراز سے جاری دہشتگردی کو تو کسی حد تک نیست ونابود کردیا لیکن خود اپنے یہاں مذہبی اور فروعی اختلافات کو قابو نہ کرپائی۔ جس میں ملک میں مذہبی معاملات میں ذرا ذرا سے بات پر لوگ ایک دوسرے کو جان سے مارڈالنے کے لیے ہروقت تیار اور راضی نظر آتے ہوں وہاں ذمے دار حلقوں کو ایسی باتوں سے یقینا اجتناب کرنا چاہیے جن کے کرنے سے لوگوں میں مزید اشتعال اورنفرت کے پھیلنے کا خدشہ ہو۔بلکہ دانشمندی کاتقاضا تو یہ ہے کہ اگرمعاشرے میں اتفاق سے کوئی ایسا واقعہ رونما ہوگیا ہو تو سوجھ بوجھ کے ساتھ تمام فریقوں کو آپس میں یکجا کرکے اور ایک میز پر بٹھا کر اُسے حل کرنے کی کوشش کریں، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ اِن نازک اور حساس معاملات میںبھی اپنی سیاسی چالوں اور چیرہ دستیوںسے باز نہیں آتے۔بلکہ موقعہ غنیمت جان ہو وہ ایسے واقعات کو اور بھی ہوا دینے لگتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ منظر گزشتہ دنوں قصور شہر میں ایک چھ سالہ بچی زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کردینے کے افسوسناک واقعے کے بعد دیکھا گیا۔بلاشبہ یہ واقعہ ہم سب کے لیے انتہائی افسوس اور الم کا باعث تھااوراِس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ لیکن اِس واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی کسی طور درست اور جائز نہیں تھا۔ہم سب کو مل بیٹھ کر مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے ناکہ اِسے حکومت وقت کی ذمے داری سمجھ کر اوراس سلسلے میں اُس کی ناکامی قرار دیکر لعن و طعن کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے خلاف اِس طرح سرگرم ہوجائیں کہ سارا ملک ہی انتشار اور ہنگاموں کی نذر ہوجائے۔ خد ا کاشکر ہے کہ اُس بچی کے والدین نے اپنے اِس ناقابل برداشت غم میں بھی لوگوں سے املاک نذر آتش نہ کرنے اور توڑ پھوڑ نہ کرنے کی استدعا کی اور یوں یہ ہنگامہ کچھ سازشی عناصرکی اُمیدوں اور حسرتوں کی آماجگاہ نہ بن سکا۔
ہم ساٹھ ستر سالوں سے علاقائی ، لسانی ، مذہبی اور فروعی اختلافات کو نہ صرف ہوادیتے آئے ہیں بلکہ انھیں اپنے مکروہ عزائم کی خاطرپروان بھی چڑھاتے رہے ہیں۔ہمارے یہاں کچھ لوگ اورکچھ ادارے ایسے گروہوں کی تخلیق اور پرورش بھی کرتے رہے ہیں۔لاہور کے حلقہ 120کے ضمنی الیکشن اور فیض آباد کے دھرنے میں ہم نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ہم نے افغانستان کی جنگ میں سویت یونین کے خلاف برسرپیکار گروہوں کو نہ صرف حریت پسند اور مجاہد قرار دیا بلکہ اُن کی درپردہ حمایت اور مدد کرکے انھیں اپنے ملک میں شیلٹر اور پناہ بھی دی۔طالبان کی تشکیل اور تخلیق میں بھی ہمارا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔کراچی شہر میں بھی ہم نے اپنے کچھ ایسے ہی خطرناک گروہوں کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال بھی کیا ، یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں ہے۔
ہم آج بھی وہی کچھ کررہے ہیںتو گزشتہ ستر سالوں سے کرتے آئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج ہمارے اہداف بدل چکے ہیں ، ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں۔آج ایم کیو ایم حقیقی کے بجائے پی ایس پی ہماری ضرور ت بن چکی ہے۔طالبان کی بجائے کوئی اور گروہ ہمارا دوست بن چکا ہے۔اِسی طرح پر تشدد ہنگامہ آرائی پر آمادہ مذہبی عناصر بھی بدل چکے ہیں۔ کچھ نئے لوگ ہماری '' گڈ بک '' میں شامل ہوچکے ہیں۔ہم آج بھی اُنہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جن پرگزشتہ ستر برسوںسے چل رہے ہیں۔ آج گرچہ عالمی صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ عالمی سپر پاور امریکا جس کا ہم برسوں تک اپنے عوام کی مرضی ومنشاء کے برخلاف ساتھ نبھاتے رہے۔اُس کی محبت ودوستی کے گن گاتے رہے ۔ آج مطلب نکل جانے کے بعد وہ ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ہم سے دہشت گردی کی لڑائی میں دیے جانے والے پیسوں کا حساب مانگ رہا ہے۔ ہم پر دھوکہ دینے کا الزام لگا رہا ہے۔
ہمیں تباہ و برباد کردینے کے منصوبے بنارہا ہے اور ہم آپس میں گتھم گتھا ہوئے جارہے ہیں۔اُس کے پاس ہمیں نیست و نابود کردینے کے بہت سے آپشنز ہیں۔وہ چاہے تو ہم پر عراق کی طرح براہ راست حملہ کرکے ہمیں تباہ کرسکتا ہے یا پھر ہندوستان کی مددسے ہم پر ایٹمی جنگ مسلط کرسکتاہے یا پھر بین الاقوامی دباؤ ڈال کر ہم پر اقتصادی اور معاشی پابندیاں بھی لگاسکتا ہے، لیکن اُس کے پاس سب سے آسان اورسہل طریقہ یہی ہے کہ ملک شام کی طرح خانہ جنگی کرکے ہمیں اپنے ہی ہاتھوں تباہ وبرباد کر ڈالے اوربد قسمتی سے ہمارا ملک اُس کے ایسے خطرناک منصوبوں کے لیے بہت سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ ہم علاقائی، سیاسی، مذہبی اور فروعی اختلافات کے اُس دھماکہ خیز مواد اور ذخیرے پر کھڑے ہیں جہاں ایک معمولی سی چنگاڑی سارے ملک کو اپنی آگ میں لپیٹ سکتی ہے۔ ملک میں بڑھتا ہوا عدم برداشت اور پرتشدد نفرت انگیز سیاسی اور مذہبی کلچر ہمیں اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کرڈالے گا۔ پھر ہمیں امریکا جیسے کسی بڑے دشمن کی قطعاً حاجت باقی نہیں رہے گی ۔
ہم خود کو خواہ کچھ بھی سمجھتے رہیں لیکن دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے اورکیسے خیالات رکھتی ہے یہ سوال ہمارے لیے اہم ہونا چاہیے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہو سکتا ہے کہ ہمیں اِس کی قطعاً پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا ہمیں کیسا سمجھتی ہے۔جس طرح عام زندگی میں ہم یہ فقرے اور جملے بڑی شد ومد کے ساتھ دہراتے رہتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کی پراہ نہیں کرنی چاہیے۔
لوگوں کی تو عادت ہوتی ہے بلاوجہ اعتراض اورتنقید کرنے کی۔ لیکن عالمی سطح پرباعزت قوموں کے درمیان رہتے ہوئے ہم ایسا ہرگز نہیں کرسکتے۔ ہمیں ہمارے اپنے گرین پاسپورٹ کی فکر ہر وقت لاحق رہتی ہے۔ دنیا عزت و احترام کے کس درجے میں ہم سے سلوک روا رکھتی ہے ہم اِس کی فکر میں پریشان اورہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاستداں حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے ہمیشہ اِسی بات کا طعنہ دیاکرتے ہیں کہ فلاں زمانے میں پاکستان کی اِس قدر عزت افزائی ہواکرتی تھی اور آج یہ حال ہے کہ ہمیں کوئی پوچھتا تک نہیں، لیکن وہ یہ سب کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اِس نئے کردار کے تخلیق اور تشکیل میں ہمارا اپنا حصہ بھی ہے۔
آج اگر ہمارے اندر قوت برداشت جواب دے چکی ہے تو اور ہم چھوٹی اور معمولی سے بات پر مارنے اور مر جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو اِ س میں ہمارے اپنے نام نہاد لیڈروں اور رہبروں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جو ذاتی اور شخصی مفادات کی خاطر قوم کو آپس میں لڑانے کے اپنے مذموم مقاصداور ارادوں کی تکمیل میں یہ سب کچھ کرگزررہے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے وقتی طور پر قوم کو نفرت اور اشتعال انگیزی پر اُکساکر وہ اپنے مکروہ عزائم میں تو کامیاب ہوجائیں لیکن نتیجتاًوہ ایک ایسی قوم کی تشکیل اور ترویج کررہے ہوتے ہیں جو ملک کے ہر قانون سے لاتعلق اور بے بہرہ ہوکر مادر پدر آزادہوکر پھر کسی کے قابو میں بھی نہیں آپائے گی ، جو لوگ آج قوم کے جذبا ت اور احساسات سے کھیل کر انھیں پرتشدد مظاہروں اور ہنگاموںکی جانب راغب کررہے ہیں وہ کسی لحاظ سے اِس ملک کی خدمت نہیں کررہے ہوتے ہیں۔
درحقیقت وہ اپنے چند مخصوص ارادوں اور عزائم کی خاطراِس مظلوم قوم کاسارا اخلاق اور کردار مسخ اور تباہ وبربادکررہے ہوتے ہیں۔ انھیں شاید یہ پتا نہیں کہ وہ اپنے اِس طرز عمل سے اِس قوم کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کی بجائے انھیں عدم برداشت، بد اخلاقیت اور لاقانونیت کے ایسے اندھے کنوئیں کی جانب ڈھکیل رہے ہوتے ہیں جہاں سے انھیں پھر کوئی نکال نہیں پائے گا۔گزشتہ کئی سالوں پر محیط سیاسی اور معاشرتی تناؤ اور چپقلش میںہم بحیثیت قوم ایک ایسے بے قابو ہجوم اور گروہ کے شکل اختیار کرتے جارہے ہیں جسے آنے والے دنوں میں ہرکوئی اپنے ناپاک ارادوں اور منصوبوں کی تکمیل کے لیے باآسانی استعمال کرسکے گا۔آج اگر یہ گروہ ہمارے اشاروں پر ملک بھر میں ہنگامے اور فساد برپا کرسکتے ہیں تو کل یہی لوگ ہمارے اپنے خلاف بھی اِسی طرح کسی اور کے اشاروں پر سرگرم اور سرگرداں کھائی دیں گے، پھر یہاں امن وسکون اورآشتی کے بجائے ہر طرف انارکی اور طوائف الملوکی کا راج ہوگا۔ خانہ جنگی اور بر بادی کا عالم ہوگا۔
ملک و قوم کے بدقسمتی ہے کہ اُس نے اپنے ملک میں عرصہ دراز سے جاری دہشتگردی کو تو کسی حد تک نیست ونابود کردیا لیکن خود اپنے یہاں مذہبی اور فروعی اختلافات کو قابو نہ کرپائی۔ جس میں ملک میں مذہبی معاملات میں ذرا ذرا سے بات پر لوگ ایک دوسرے کو جان سے مارڈالنے کے لیے ہروقت تیار اور راضی نظر آتے ہوں وہاں ذمے دار حلقوں کو ایسی باتوں سے یقینا اجتناب کرنا چاہیے جن کے کرنے سے لوگوں میں مزید اشتعال اورنفرت کے پھیلنے کا خدشہ ہو۔بلکہ دانشمندی کاتقاضا تو یہ ہے کہ اگرمعاشرے میں اتفاق سے کوئی ایسا واقعہ رونما ہوگیا ہو تو سوجھ بوجھ کے ساتھ تمام فریقوں کو آپس میں یکجا کرکے اور ایک میز پر بٹھا کر اُسے حل کرنے کی کوشش کریں، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ اِن نازک اور حساس معاملات میںبھی اپنی سیاسی چالوں اور چیرہ دستیوںسے باز نہیں آتے۔بلکہ موقعہ غنیمت جان ہو وہ ایسے واقعات کو اور بھی ہوا دینے لگتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ منظر گزشتہ دنوں قصور شہر میں ایک چھ سالہ بچی زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کردینے کے افسوسناک واقعے کے بعد دیکھا گیا۔بلاشبہ یہ واقعہ ہم سب کے لیے انتہائی افسوس اور الم کا باعث تھااوراِس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ لیکن اِس واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی کسی طور درست اور جائز نہیں تھا۔ہم سب کو مل بیٹھ کر مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے ناکہ اِسے حکومت وقت کی ذمے داری سمجھ کر اوراس سلسلے میں اُس کی ناکامی قرار دیکر لعن و طعن کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے خلاف اِس طرح سرگرم ہوجائیں کہ سارا ملک ہی انتشار اور ہنگاموں کی نذر ہوجائے۔ خد ا کاشکر ہے کہ اُس بچی کے والدین نے اپنے اِس ناقابل برداشت غم میں بھی لوگوں سے املاک نذر آتش نہ کرنے اور توڑ پھوڑ نہ کرنے کی استدعا کی اور یوں یہ ہنگامہ کچھ سازشی عناصرکی اُمیدوں اور حسرتوں کی آماجگاہ نہ بن سکا۔
ہم ساٹھ ستر سالوں سے علاقائی ، لسانی ، مذہبی اور فروعی اختلافات کو نہ صرف ہوادیتے آئے ہیں بلکہ انھیں اپنے مکروہ عزائم کی خاطرپروان بھی چڑھاتے رہے ہیں۔ہمارے یہاں کچھ لوگ اورکچھ ادارے ایسے گروہوں کی تخلیق اور پرورش بھی کرتے رہے ہیں۔لاہور کے حلقہ 120کے ضمنی الیکشن اور فیض آباد کے دھرنے میں ہم نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ہم نے افغانستان کی جنگ میں سویت یونین کے خلاف برسرپیکار گروہوں کو نہ صرف حریت پسند اور مجاہد قرار دیا بلکہ اُن کی درپردہ حمایت اور مدد کرکے انھیں اپنے ملک میں شیلٹر اور پناہ بھی دی۔طالبان کی تشکیل اور تخلیق میں بھی ہمارا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔کراچی شہر میں بھی ہم نے اپنے کچھ ایسے ہی خطرناک گروہوں کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال بھی کیا ، یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں ہے۔
ہم آج بھی وہی کچھ کررہے ہیںتو گزشتہ ستر سالوں سے کرتے آئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج ہمارے اہداف بدل چکے ہیں ، ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں۔آج ایم کیو ایم حقیقی کے بجائے پی ایس پی ہماری ضرور ت بن چکی ہے۔طالبان کی بجائے کوئی اور گروہ ہمارا دوست بن چکا ہے۔اِسی طرح پر تشدد ہنگامہ آرائی پر آمادہ مذہبی عناصر بھی بدل چکے ہیں۔ کچھ نئے لوگ ہماری '' گڈ بک '' میں شامل ہوچکے ہیں۔ہم آج بھی اُنہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جن پرگزشتہ ستر برسوںسے چل رہے ہیں۔ آج گرچہ عالمی صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ عالمی سپر پاور امریکا جس کا ہم برسوں تک اپنے عوام کی مرضی ومنشاء کے برخلاف ساتھ نبھاتے رہے۔اُس کی محبت ودوستی کے گن گاتے رہے ۔ آج مطلب نکل جانے کے بعد وہ ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ہم سے دہشت گردی کی لڑائی میں دیے جانے والے پیسوں کا حساب مانگ رہا ہے۔ ہم پر دھوکہ دینے کا الزام لگا رہا ہے۔
ہمیں تباہ و برباد کردینے کے منصوبے بنارہا ہے اور ہم آپس میں گتھم گتھا ہوئے جارہے ہیں۔اُس کے پاس ہمیں نیست و نابود کردینے کے بہت سے آپشنز ہیں۔وہ چاہے تو ہم پر عراق کی طرح براہ راست حملہ کرکے ہمیں تباہ کرسکتا ہے یا پھر ہندوستان کی مددسے ہم پر ایٹمی جنگ مسلط کرسکتاہے یا پھر بین الاقوامی دباؤ ڈال کر ہم پر اقتصادی اور معاشی پابندیاں بھی لگاسکتا ہے، لیکن اُس کے پاس سب سے آسان اورسہل طریقہ یہی ہے کہ ملک شام کی طرح خانہ جنگی کرکے ہمیں اپنے ہی ہاتھوں تباہ وبرباد کر ڈالے اوربد قسمتی سے ہمارا ملک اُس کے ایسے خطرناک منصوبوں کے لیے بہت سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ ہم علاقائی، سیاسی، مذہبی اور فروعی اختلافات کے اُس دھماکہ خیز مواد اور ذخیرے پر کھڑے ہیں جہاں ایک معمولی سی چنگاڑی سارے ملک کو اپنی آگ میں لپیٹ سکتی ہے۔ ملک میں بڑھتا ہوا عدم برداشت اور پرتشدد نفرت انگیز سیاسی اور مذہبی کلچر ہمیں اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کرڈالے گا۔ پھر ہمیں امریکا جیسے کسی بڑے دشمن کی قطعاً حاجت باقی نہیں رہے گی ۔