آگے کیا ہونے والا ہے

حضرت نعمت اللہ ولیؒ کی 850 سال قبل کی گئیں پیش گوئیاں۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کی پیش گوئیوں کے قصیدے میں تین مختلف قسم کے ردیف اور قافیہ استعمال ہوئے ہیں۔ فوٹو؛ فائل

اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کے برگزیدہ بندے جو اپنی تمام تر زندگی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی عبادت اور زہد و تقویٰ کے لیے وقف کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جب چاہے اپنی خصوصی عنایت سے ولی، ابدال، قطب اور غوث جیسے اعلیٰ و ارفع روحانی مراتب پر فائز کردیتے ہیں جہاں ان سے خارق عادت اور کشف و کرامات کا ظہور ہوتا ہے اور وہ ہاتفِ غیبی، القاء اور الہام کا ادراک رکھتے ہیں۔

حدیث میں ہے کہ حضور پاکﷺ نے فرمایا ''میری امت کے بعض علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی مثل ہوں گے'' صوفیاء کرام کے نزدیک علماء سے یہی گروہ اولیاء کرام مراد ہے۔ انہی اولیاء کرام میں سے ایک ایران کے جنوب مشرقی صوبے کرمان کے معروف شہر میہان میں آج سے تقریباً آٹھ سو پچاس سال قبل ایک مشہور و معروف صوفیِ باکمال حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ گزرے ہیں۔ جن کے ہزاروں فارسی اشعار پر مشتمل دیوان کے علاوہ ایک قصیدہ بہت مشہور ہے۔ جس میں اس برگزیدہ ولی اللہ نے آنے والے حوادث کی پیش گوئیاں فارسی اشعار کی صورت میں کی ہیں جو آج تک حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں۔ قصیدے کے اشعار مختلف حوالوں سے دو ہزار کے قریب بتائے جاتے ہیں لیکن اب کم و بیش تین سو اشعار سے زیادہ دستیاب نہیں۔

انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے جب ہم حضرت نعمت اللہ ولیؒ کے قصیدے لکھنے کی تاریخ سے 100 تا 700 سال بعد آنے والے برصغیر پاک و ہند کے بادشاہوں کے نام ترتیب وار ان کے قصیدے کے اشعار میں پڑھتے ہیں جبکہ وہ حکمران ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ وہ سب سے پہلے مشہور مغل بادشاہ امیر تیمور کا نام اس کی پیدائش سے تقریباً دو سو سال قبل اپنی پیش گوئیوں کے ایک ابتدائی شعر میں لکھتے ہیں۔ اس کے بعد لودھی خاندان کے حکمران سکندر لودھی اور ابراہیم لودھی کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں۔

پھر ان کے بعد آنے والے ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمرانوں بابر، ہمایوں (درمیان میں شیر شاہ سوری) اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کے نام ان کے اشعار میں آتے ہیں اور یوں خاندان مغلیہ کے تین سو سالہ دور حکومت کی ترتیب وار پیش گوئی کرتے وہ انگریزوں کی ہندوستان آمد تک خاندان مغلیہ کے تقریباً تمام حکمرانوں اور ان کی مدت حکمرانی بیان کردیتے ہیں۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ تمام حجابات سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کرہ ارض پر تاقیامت نمودار ہونے والے قریباً تمام بڑے واقعات اور حوادث کو اپنے قصیدے میں بیان کرتے ہیں جو ماضی کی تاریخ کی روشنی میں بالکل صحیح، واضح اور عام فہم ہے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کی پیش گوئیوں کے قصیدے میں تین مختلف قسم کے ردیف اور قافیہ استعمال ہوئے ہیں۔ بعض کی ردیف ''پیدا شود (پیدا ہوگا)'' اور بعض اشعار میں قافیہ ''زمانہ''، ''بہانہ'' اور ''غائبانہ'' وغیرہ استعمال ہوا ہے۔ حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ عالم غیب کی پردہ کشائی سے قبل کچھ یوں فرماتے ہیں!

قدرت کرد گار مے بینم

حالت روزگار مے بینم

ترجمہ: میں اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھ رہا ہوں، میں زمانہ کی حالت دیکھ رہا ہوں۔

از نجوم ایں سخن مے گوئم

بلکہ از کرد گار مے بینم

ترجمہ: میں یہ بات علم نجوم کے ذریعے سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ذات باری تعالیٰ کی طرف سے دیکھ رہا ہوں۔

اب حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ پیدا شدد (پیدا ہوگا) کی ردیف میں ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمرانوں کی پیش گوئی کی ابتداء اس شعر سے کرتے ہیں:

راست گوئیم بادشاہ ہے در جہاں پیدا شود

نام او تیمور شاہ صاصبقراں پیدا شود

ترجمہ: میں سچ کہتا ہوں کہ ایک بادشاہ دنیا میں پیدا ہوگا اس کا نام تیمور شاہ ہوگا اور وہ صاحبقران ہوگا۔ تیمور شاہ نے 1398ء میں ہندوستان کے بادشاہ محمد تغلق کو شکست دے کر ہندوستان پر قبضہ کرلیا تھا۔

از سکندر چوں اسد نوبت بر ابراہیم شاہ

ایں یقیں دار فتنہ در ملک آں پیدا شود

ترجمہ: جب سکندر (لودھی) سے ابراہیم (لودھی) تک نوبت پہنچ جائے گی تو اس بات کو یقین سے سمجھ کہ اس کی بادشاہی میں فتنہ پیدا ہوگا۔

ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے بانی ظہیر الدین بابر جو امیر تیمور کی پانچویں پشت میں سے تھے، نے 1526ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی میں لودھی خاندان کے آخری حکمران ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کرلیا تھا۔

بابر کے متعلق حضرت نعمت اللہ شاہ، بابر کے اقتدار میں آنے سے تین سو پچاس سال قبل اپنے ایک شعر میں مندرج تاریخ 570 ہجری بمطابق 1174 عیسوی میں پیش گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

شاہ بابر بعدازاں در ملک کابل بادشاہ

پس بہ دہلی والئی ہندوستان پیدا شود

ترجمہ: اس کے بعد ملک کابل کا بادشاہ بابر دہلی میں ہندوستان کا والی ظاہر ہوگا۔

بابر کے بیٹے ہمایوں اور اس دوران شیر شاہ سوری کے ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

باز نوبت از ہمایوں مے رسد از ذوالجلال

ہم درآں افغان یکے از آسماں پیدا شود

ترجمہ: پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بادشاہی ہمایوں تک پہنچے گی جبکہ اسی دوران قدرت کی طرف سے ایک افغان ظاہر ہوگا۔

تاریخ ہند بتاتی ہے کہ شیرشاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد ہمایوں نے نظام سقّہ کے ذریعے دریائے گنگا پار کرکے جان بچائی اور ایران کے بادشاہ کے پاس پناہ لی جس نے اس کی بڑی قدر و منزلت کی اور چند سال بعد جب شیر شاہ سوری چل بسا تو ہمایوں نے شاہ ایران کی مدد سے 1555ء میں دوبارہ ہندوستان پر قبضہ کرلیا اور یوں کل ملا کر 1530ء تک حکومت کی۔

پس ہمایوں بادشاہ بر ہند قابض مے شود

بعدازاں اکبر شاہ کشور شاہ پیدا شود

ترجمہ: اس طرح ہمایوں بادشاہ ہندوستان پر قبضہ کرلے گا اس کے بعد اس کا بیٹا اکبر ملک کا بادشاہ بن جائے گا۔

چنانچہ جلال الدین محمد اکبر نے تقریباً پچاس سال تک ہندوستان پر بادشاہت کی۔

بعدازاں شاہ جہانگیر است گیتی را پناہ

اینکد آید در جہاں بدر جہاں پیدا شود

ترجمہ: اس کے بعد جہانگیر عالم پناہ ہوگا۔ یہ مہتاب کامل کی طرح تخت پر جلوہ گر ہوگا۔

نور الدین محمد جہانگیر نے 1605ء سے 1627ء تک ہندوستان پر حکمرانی کی۔ جہانگیر اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کا مقبرہ شاہدرہ لاہور میں ہے۔ جس سے دو تین سو گز کے فاصلے پر اس کی بیوی ملکہ نور جہاں کا مزار ہے۔

چوں کند عزم سفرآں ہم سوئے دارالبقاء

ثانی صاحب قرآن شاہجہاں پیدا شود

ترجمہ: جب وہ دارالبقاء کی طرف سے سفر کرے گا تو اس کے بعد اس کا بیٹا شاہجہاں تخت نشین ہوگا۔

بیشتر از قرن کمتر از چہل شاہی کند

تاکہ پسرشی خود بہ پیشش آں زماں پیدا شود

ترجمہ: وہ قرن سے زیادہ اور چالیس سال سے کم بادشاہی کرے گا۔ جبکہ اس کا بیٹا (اورنگزیب) اس کے سامنے ہی اس وقت تخت پر جلوہ افروز ہوجائے گا۔

یہاں یہ بات کسی قدر قابل توجہ ہے کہ قصیدہ ہذا میں جہاں ''پیدا شود'' کی ردیف کے دستیاب اشعار میں امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر سے لے کر خاندان مغلیہ کے آخیر تک تمام حکمرانوں کے ناموں کا ترتیب وار ذکر موجود ہے۔ وہاں صرف محی الدین محمد اورنگزیب کا نام کسی بھی شعر میں نہیں ہے۔ اگرچہ اس کے نام کے بغیر اس کا ذکر اپنے باپ شاہجہاں کے بعد اشعار میں موجود ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اورنگزیب جس نے قریباً پچاس سال تک ہندوستان پر بادشاہی کی واحد مغل حکمران ہے جس نے تخت نشینی کی صدیوں پرانی روایات سے انحراف کیا تھا۔ اورنگزیب کے بعد خاندان مغلیہ کا زوال شروع ہوگیا۔

نادر آید زا یراں مے ستاند تخت ہند

قتل دہلی پس بہ زور تیغ آں پیدا شود

ترجمہ: نادر شاہ ایران سے آکر ہندوستان کا تخت چھین لے گا۔ لہٰذا اس کی تلوار کے زور سے دہلی کا قتل عام ہوگا۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ ایک بار پھر بابر کے دور حکومت کی طرف پلٹتے ہوئے سکھوں کے بانی پیشوا گرونانک کا ذکر بھی کرتے ہیں۔

شاہ بابر بادشاہ باشد پس ازوے چند روز

درمیانش یک فقیر از سالکاں پیدا شود

نام او نانک بود آرد جہاں باوے رجوع

گرم باز او فقیر بیکراں پیدا شود

ترجمہ: بابر بادشاہ جو ہوگا اس کے چند روز بعد بعض سالکوں کے درمیان ایک فقیر پیدا ہوگا۔ اس کا نام نانک ہوگا۔ بہت سے لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔ اس بے اندازہ فقیر کا بازار گرم ہوگا اور چرچا ہوگا۔

گرونانک 1441ء میں پیدا ہوئے اور 1538ء میں ان کا انتقال ہوا۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی آمد کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ لکھتے ہیں

آں راجگان جنگی مئے خود مست بہنکی

درملک شاں فرنگی آئند تاجرانہ

ترجمہ: وہ جنگجو راجے مہاراجے جو شراب اور بھنگ کے نشے میں مست ہوں گے، ان کے ملک میں انگریز تاجرانہ انداز میں داخل ہوں گے۔

ہندوستان پر انگریزوں کا ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں قبضہ کرنے کی شاطرانہ چال تاریخ کا حصہ ہے۔

بعدازاں گیرد نصاریٰ ملک ہندویاں تمام


تاصدی حکمش میاں ہندوستان پیدا شود

ترجمہ: اس کے بعد عیسائی تمام ہندوستان پر قبضہ کر لیں گے اور ایک سو سال تک ان کا حکم ہندوستان پر چلتا رہے گا۔ ہندوستان کے انگریز وائسرائے لارڈ کرزن نے حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کی پیش گوئیوں کے قصیدے کی کتاب پر ہندوستان بھر میں قانونی پابندی محض اس پیش گوئی کی وجہ سے عائد کردی تھی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انگریز ہندوستان پر صرف سو سال تک حکومت کریں گے۔

جنگ عظیم اول و دوئم کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کہتے ہیں

احتوآء ساز و نصاریٰ را فلک درجنگ جیم

نکبت وادیا رایشاں رانشاں پیدا شود

ترجمہ: جنگ جیم یعنی جرمن کی جنگ میں آسمان عیسائیوں کو مبتلا کردے گا اور ان کے لیے تباہی و بربادی کا نشان ظاہر ہوگا۔

جنگ عظیم اول 1914ء سے 1918ء تک رہی۔ پھر اکیس سال بعد دوبارہ 1939ء سے 1945ء تک جنگ عظیم دوئم جرمنوں سے عیسائیوں کی طرف لڑی گئی۔

فاتح گرد و نصاریٰ لیکن از تاراج جنگ

صنف بیحد در نظام، حکم شاں پیدا شود

ترجمہ: اگرچہ اہل برطانیہ جرمنوں پر فتح پالیں گے لیکن جنگ کی تباہ کاریوں سے ان کے نظام حکم میں بہت زیادہ کمزوری پیدا ہوجائے گی۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ انگریزوں کے بارے میں آگے پیش گوئی کرتے ہیں

واگرزند ہند را از خود مگر از مکرشاب

خلفشار جانگسل دا مرد ماں پیدا شود

ترجمہ: اگرچہ انگریز ہندوستان کو خود ہی چھوڑ جائیں گے لیکن وہ اپنے مکرو فن سے لوگوں میں ایک جان لیوا جھگڑا چھوڑ جائیں گے۔

قرائنِ قیاس یہ ہے کہ اس پیش گوئی میں مسئلہ کشمیر کا ذکر ہے۔

قیام پاکستان کا ذکر ان پیش گوئیوں کے قصیدے میں کچھ اس طرح کیا گیا ہے۔

دو حصص چوس ہند گردو، خون آدم شد رواس

شورش و فتنہ فزوں از گماں پیدا شود

ترجمہ: جب ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، انسانوں کا خون بے دریغ جاری ہوگا۔ شورش و فتنہ انسانی سوچ سے بعید ہوگا۔

مومناں پابند اماں در خطۂ اسلاف خوشیں

بعد از رنج و عقوبت بخت شاہ پیدا شوہ پیدا شود

ترجمہ: مسلمان اپنے اسلاف کے علاقے (پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان) میں پناہ حاصل کرلیں گے۔ اس رنج اور معیشت کے بعد ان کی بخت آوری ظاہر ہوگی۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والی 1965ء کی جنگ کی پیش گوئی کرتے ہوئے بتاتے ہیں

از لطف و فضل یزداں بعداز ایام ہفدہ

خوں ریختہ و قربان دادند غازیانہ

ترجمہ: سترہ روز کی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام کے غازی خونریزی کرکے اور قربانی دے کر کامیاب ہوں گے۔

اس شعر میں ''ایام ہفدہ'' (17 دن) کے الفاظ کہہ کر حضرت نعمت اللہ ولیؒ نے 800 سال قبل 6 ستمبر 1965ء کی پاک بھارت کی سترہ روزہ جنگ 'نہ ایک دن کم، نہ ایک دن زیادہ' کی بات کرکے اپنی پیش گوئی کا لوہا منوایا ہے۔ پھر وہ 1971ء کی جنگ کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں

مشرق شود خرابے از مکر حیلہ کاراں

مغرب دہند گریہ برفعل سنگدلانہ

ترجمہ: مشرق (پاکستان) حیلہ کاروں کے فریب سے تباہ ہوگا۔ جبکہ مغرب (پاکستان) والے اپنے سنگدلانہ فعل پر گریہ و زاری کریں گے۔

اہل فہم و فراست پاکستان کے حکمرانوں اور مغربی پاکستان کے بااختیار بیورو کریسی کی معتصبانہ، جانبدارانہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کو مشرق پاکستان کی علیحدگی کی بنیادی وجہ قراردیتے ہیں۔

از گاف شش حروفی بقال کینہ پرور

مفتح شود یقینی از مکر ما کرانہ

ترجمہ: وہ کینہ پرور بنیا (اندرا گاندھی) جس کا نام ''گ'' کے حرف سے شروع ہوگا، اس کے نام کے کل چھ حروف (گ، ا، ن، د، ھ، ی) ہوں گے وہ اپنے مکر اور مکاری سے یقینی طور پر فاتح ہوگی۔

اب ہم حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کی ان پیش گوئیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق پاکستان کے مستقبل سے ہے۔

ماہ محرم آید چوں تیغ با مسلمان

سازند مسلم آندم اقدام جارحانہ

ترجمہ: محرم کے مہینہ میں مسلمانوں کے پاس ہتھیار آجائیں گے۔ مسلمان اس وقت جارحانہ قدم اٹھائیں گے۔

یہ واضح نہیں کہ یہ محرم کا ماہ مقدس کس سن میں آئے گا۔ مگر حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کے مطابق اس محرم الحرام کے مہینے میں پاکستان فوجی لحاظ سے انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہوگا اور دشمن کے لیے شمشیر برہنہ ثابت ہوگا۔

عثمان و عرب و فارس ہم مومنان اوسط

از جذبۂ اعانت آیند و المہانہ

ترجمہ: ترکی، عرب، ایران اور مشرق وسطیٰ والے امداد کے جذبے سے دیوانہ وار آئیں گے۔

چترال، ناگا پربت، باسین، ملک گلگت

پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ

ترجمہ: چترال، ناگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا۔

یکجا شونہ عثمان ہم چینیاں و ایران

فتح کنند ایناں کل ہند غازیانہ

ترجمہ: ترکی، چین اور ایران والے باہم یکجا ہوجائیں گے۔ یہ سب تمام ہندوستان کو غازیانہ طور پر فتح کریں گے۔

غلبہ کنند ہمچوں مورو ملخ شباشب

حقا کہ قوم مسلم گردند فاتحانہ

ترجمہ: یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات غلبہ حاصل کرلیں گے۔ میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ مسلمان قوم فاتح ہوگی۔

ان اشعار کی پیش گوئیوں میں غالباً غزوۂ ہند کا ذکر ہے۔ جن کے بارے میں احادیث مبارکہ میں بھی واضح طور پر بتایا گیا ہے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ نے اپنی طویل پیش گوئیوں کے قصیدے میں بہت سی دیگر پیش گوئیاں بھی کیں ہیں جن میں سائنس کی بے مثال ترقی، ذرائع مواصلات (ٹیلی فون، موبائل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ) ایٹمی ہتھیاروں کی ایجاد اور تباہ کاریاں اور تیسری جنگ عظیم کے بپا ہونے کے بارے میں صاف صاف بتایا گیا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج سے 800 سال قبل کی جانے والی ان پیش گوئیوں میں امریکہ، چین، اٹلی، جاپان اور انگلستان وغیرہ جیسے ممالک کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔ ان پیش گوئیوں کا سلسلہ حضرت امام مہدی آخر الزمانؓ کی آمد اور قیامت تک کے واقعات تک دراز ہے۔

اپنی پیش گوئیوں کے قصیدے کے آخر میں حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ ایک شعر میں کہتے ہیں:

خاموش باش نعمت، اسرار حق مکن فاش

ترجمہ: اے نعمت اللہ شاہ! خاموش ہوجا، رب کے رازوں کو ظاہر نہ کر۔

ان پیش گوئیوں کے بارے میں حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کا غیبی مکاشفہ و مشاہدہ 1153ء تا 1174ء یعنی دو عشروں سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہی عالم الغیوب بہتر جانتا ہے کہ وقت کے پردے میں کیا چھپا ہے۔ وہ قادر مطلق بے نیاز ہے اور جس بھی وقت جو بھی چاہے کرسکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اپنے دین کے سچے راستے پر عملی طور پر گامزن رہیں تو بحیثیت مسلمان اور پاکستانی امت مسلمہ اور پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ انشاء اللہ۔
Load Next Story