بس بہت ہوگئی
قانون سازی مقننہ کا کام ہے، جس پر فیوڈل اور مراعات یافتہ طبقہ حاوی ہے۔
SUKKUR/KARACHI:
قصور میں معصوم بچی زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعے نے مجھے بالکل نہیں چونکایا ۔ میں جانتا ہوں کہ یہ معاشرہ فکری، ذہنی اور نفسیاتی طور پر مردہ ہو چکا ہے۔اس کے ادارے فرسودگی اور تباہی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں ۔ جب قانون چند با اثر لوگوں کے ہاتھوں بے بس ہوجائے اور قانون نافذ کرنے والے حکمرانوں کے غلام بن جائیں، تو عام آدمی کی عزت و آبرو اور دولت سبھی کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک ہی شہر کے صرف دو تھانوں کی حدود میں محض ایک سال کے دوران کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور موت کے گھاٹ اتارے جانے کے درجن بھر سے زائد واقعات اور ملزمان تک ریاستی اداروں کا نہ پہنچ پانا کیا انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی کی علامت نہیں ہے؟
زینب کے بہیمانہ قتل پر دس برس قبل کراچی میں جنسی تشدد کے بعد ہلاک کی جانے والی کم عمر ترنم ناز یاد آگئی ہے۔ جس کے قاتل گرفتار بھی ہوئے، مگر کرمنل جسٹس سسٹم کی فرسودگی کے باعث آج تک سزا نہ پاسکے۔لہٰذا ایک ترنم ناز یا زینب ہی پہ کیا موقوف، وطن عزیز میں نہ جانے کی کتنی معصوم کلیاں روز وحشتوں کے مارے شیاطین کے ہاتھوں مسلی جاتی ہیںاورکسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہو پاتی۔میری آنکھوں کے سامنے وہ کم سن ہندو لڑکیاں بھی گھوم رہی ہیں، جنھیں اغوا کرکے جبراً مسلمان بنا کر کچھ بااثر حلقے اپنی اسلام دوستی پر ناز کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں کئی سوالات متوشش شہریوںکے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔ سوال یہ کہ کیا زینب کا بلادکار اور قاتل اگر پکڑا جاتا ہے، تو اسے سولی پر لٹکا دینے سے کیا اس قسم کے واقعات کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا؟ اگر نہیں تو پھر اس قسم کے سفاکانہ نفسیاتی جرائم کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر کیا فیصلے اور اقدامات کیے جارہے ہیں؟
یہ طے ہے کہ کسی ایک فرد کو سزا دے دینے سے اس رجحان کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ بلکہ دوکلیدی اقدامات اولین ترجیح ہونے چاہئیں۔ پہلا اقدام، کرمنل جسٹس سسٹم پر نظر ثانی اور اسے جدید خطوط پر استوار کیا جانا ہے۔ دوسرا فوری اقدام آٹھویں درجے سے بارہویں درجے تک بچوں اور بچیوں کو جنسی جبلت کے بارے میں مثبت معلومات اور آگہی کا دیا جانا ہے(اس موضوع پر الگ اظہاریہ میں بات ہوگی) ۔ کرمنل جسٹس سسٹم کے حوالے سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نظام تین درجات پر مشتمل ہوتا ہے۔اول: تعزیراتی قوانین، دوئم: عمل درآمد کا میکنزم، سوئم: نظام عدل۔
ہمارے ہاں جو تعزیراتی قوانین نافذ ہیں۔ وہ تاج برطانیہ نے ڈیڑھ سو برس پہلے نافذ کیے تھے۔ پہلا قانون انڈین پینل کوڈ(IPC)ہے، جسے ابتدائی طور پر لارڈ میکالے نے1835میں ڈرافٹ کیا تھا۔1860میں اسے پورے برٹش انڈیا کے علاوہ سری لنکا اور نیپال میں بھی نافذ کیا گیا۔ پاکستان میں اسے پاکستان پینل کوڈ (PPC)کا نام دے کر من و عن قبول کرلیا گیا۔ اسی طرح کرمنل پروسیجر کوڈ(Cr.PC)جسے 1861 میں برطانوی پارلیمان نے منظورکیا اور1869 میں پورے بر ٹش انڈیا میں نافذ کیا۔اس کوڈ کو بھی پاکستان نے من وعن نافذ کیا۔ 1973 کے آئین میں ان دونوں قوانین کے سیٹ کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا۔
یہ دونوں قوانین گوکہ جرائم پر قابو پانے کے لیے انتہائی فعال قانونی ڈھانچہ ثابت ہوئے، مگر نوآبادیاتی دور کی یادگار ہیں ۔ جنھیں آزادی کے بعد تبدیل کرنے یا کم ازکم بہتر بنانے کی ضرورت تھی، مگر ستر برس گذرنے کے باوجود ان قوانین پر نظر ثانی اور ان میں اضافے اور ترامیم کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
آج ان میں سے بیشتر قوانین فرسودہ ہوچکے ہیں، مگر حکمران اشرافیہ کی نااہلی کے باعث ان کو بہتر بنانا تو کجا، ان میں مناسب تبدیلیاں تک لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی کچھ معاملہ1861میں متعارف کردہ پولیس آرڈرکا ہے جس کی جگہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پولیس آرڈر2002 لایا گیا۔ مگر جیسے ہی منتخب حکومتیں آئیں، ان میں بیٹھے بااثر فیوڈلز نے اسے ختم کرکے نوآبادیاتی دور کے پولیس آرڈر کو بحال کراکے اپنی ذہنیت کو واضح کردیا۔ چونکہ فیوڈل سیاستدانوں کے لیے تھانہ، پٹواری اور تحصیل دار طاقت کا منبع ہوتے ہیں،اس لیے وہ ان تین انسٹیٹیوشنز میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آنے دے رہے۔
یہی وجہ ہے کہ پولیس کی بھرتی، تقرری اور تعیناتی کا طریقہ کار سیاسی مفادات کی خاطر politicised ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے پولیس میں بغیر میرٹ سیاستدانوں کے پسندیدہ افراد جن میں زیادہ تر جرائم پیشہ افراد شامل ہوتے ہیں، پولیس میں تعینات کیا جارہا ہے۔ لہٰذا تھانہ جو عام شہری کے لیے تحفظ اور عافیت کا مقام ہونا چاہیے،آج اس کے لیے دہشت اور خوف کا عقوبت خانہ بن چکا ہے۔ جہاں عام شہریوں کی عزت اور دولت سبھی داؤ پر لگ جاتی ہے جب کہ پولیس اہلکاروں کی تربیت کا یہ عالم ہے کہ وہ قصور ہو یا کراچی سیدھی گولی چلاکر شہریوں کی زندگی لینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔
کراچی میں ایک نوجوان کی جب کہ قصور میں تین افراد انھی سیدھی لوگوں کا نشانہ بنے۔ پولیس کی انسانی حقوق سے عدم واقفیت کا یہ عالم ہے کہ چند برس قبل لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک ماں اپنی حاملہ بیٹی کو جس نے پسند کی شادی کی تھی، اینٹیں مارکر ہلاک کردیتی ہے، مگر پولیس تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے۔کیونکہ ان کی نظر میں ماں بیٹی کو سزا دے رہی تھی۔چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پولیس کے موجودہ ڈھانچے میں تطہیر انتہائی ضروری ہوچکی ہے۔ جب کہ تقرری اور پوسٹنگ میں میرٹ اور ٹریننگ کے ماڈیولز (Modules)کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔اسی طرح تھانہ کلچر کو تبدیل کیے بغیر سیاسی نظام میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
کرمنل جسٹس سسٹم کا تیسرا اہم جزوعدلیہ ہے۔ عدالتی نظام بھی فرسودگی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ عدالتی نظام میں بہتری کی اب تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ یہ نظام برطانوی نوآبادیاتی نظام سے بھی بدتر حالت اختیار کرچکا ہے۔ کیونکہ اس دور میں ججوں کے تقرر اور ان کی تعیناتی میں میرٹ اور قواعد و ضوابط کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ پر سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے۔ جب کہ ضلعی سطح کی عدالتوں میں مختلف نوعیت کے تعزیری اور دیوانی مقدمات کا انبار لگا ہوا ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے، مسائل و معاملات میں اضافہ اور پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں، مگر نچلی سطح کی عدالتوں کا حال نوآبادیاتی دور سے بھی بدتر۔
اس صورتحال سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ عدالتی نظام کی نچلی سطح تک منتقلی(Devolution)کی جائے، تاکہ عام شہری کو یونین کونسل نہ سہی کم از کم تحصیل(یا ٹاؤن) کی سطح پر ہی انصاف مل سکے ، مگر جس ملک میں ضلع اور یونین کونسل حکومتوں کو ان کے جائز اور ضروری اختیارات دینے میں پس و پیش کی جاتی ہو، وہاں عدالتی نظام کیDevolution کی خواہش محض ایک دیوانے کا خواب ہے۔ حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹاؤن کی سطح پر عدالتیں قائم ہیں۔ جہاں چھوٹے موٹے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں ۔اس طرح ان ممالک میں ضلع اور صوبائی(ہائی کورٹس) وغیرہ پر دباؤ نہیں آتا، مگر ہمارے یہاں سب سے زیادہ دباؤ اعلیٰ عدلیہ پر رہتا ہے۔ عدالتوں میں ججوں کی تعداد بھی مقدمات کے حوالے سے بہت کم ہے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ قانون سازی مقننہ کا کام ہے، جس پر فیوڈل اور مراعات یافتہ طبقہ حاوی ہے۔ جو ایسی کوئی قانون سازی کرنے پر آمادہ نہیں، جس کے نتیجے میں اس کے اقتدار و اختیار میں کوئی کمی واقع ہو جائے۔
دوسری طرف انتظامیہ ہے، جسے مقننہ کے بنائے قوانین پر عمل کرنا ہے، مگر انتظامیہ میں سیاسی جماعتوں کے خوشامدی مختلف ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں، جو اپنے آقاؤں کے اشارے پر نو آبادیاتی دور کے قوانین پر بھی صحیح طورپر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔
اب رہ گئی عدلیہ تو نچلی سطح کی عدالتیں کرپشن اور بدعنوانی کی بد ترین نظیر بنی ہوئی ہیں، جب کہ اعلیٰ عدالتیں جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سیاسی مقدمات میں الجھی ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میں عام آدمی کو انصاف کیسے اورکہاں سے ملے۔ ویسے بھی انصاف کا حصول عام شہری کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ لہٰذا جب تک پورے کرمنل جسٹس سسٹم کی ری اسٹرکچرنگ نہیں کی جاتی، عوام کو انصاف ملنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
قصور میں معصوم بچی زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعے نے مجھے بالکل نہیں چونکایا ۔ میں جانتا ہوں کہ یہ معاشرہ فکری، ذہنی اور نفسیاتی طور پر مردہ ہو چکا ہے۔اس کے ادارے فرسودگی اور تباہی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں ۔ جب قانون چند با اثر لوگوں کے ہاتھوں بے بس ہوجائے اور قانون نافذ کرنے والے حکمرانوں کے غلام بن جائیں، تو عام آدمی کی عزت و آبرو اور دولت سبھی کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک ہی شہر کے صرف دو تھانوں کی حدود میں محض ایک سال کے دوران کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور موت کے گھاٹ اتارے جانے کے درجن بھر سے زائد واقعات اور ملزمان تک ریاستی اداروں کا نہ پہنچ پانا کیا انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی کی علامت نہیں ہے؟
زینب کے بہیمانہ قتل پر دس برس قبل کراچی میں جنسی تشدد کے بعد ہلاک کی جانے والی کم عمر ترنم ناز یاد آگئی ہے۔ جس کے قاتل گرفتار بھی ہوئے، مگر کرمنل جسٹس سسٹم کی فرسودگی کے باعث آج تک سزا نہ پاسکے۔لہٰذا ایک ترنم ناز یا زینب ہی پہ کیا موقوف، وطن عزیز میں نہ جانے کی کتنی معصوم کلیاں روز وحشتوں کے مارے شیاطین کے ہاتھوں مسلی جاتی ہیںاورکسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہو پاتی۔میری آنکھوں کے سامنے وہ کم سن ہندو لڑکیاں بھی گھوم رہی ہیں، جنھیں اغوا کرکے جبراً مسلمان بنا کر کچھ بااثر حلقے اپنی اسلام دوستی پر ناز کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں کئی سوالات متوشش شہریوںکے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔ سوال یہ کہ کیا زینب کا بلادکار اور قاتل اگر پکڑا جاتا ہے، تو اسے سولی پر لٹکا دینے سے کیا اس قسم کے واقعات کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا؟ اگر نہیں تو پھر اس قسم کے سفاکانہ نفسیاتی جرائم کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر کیا فیصلے اور اقدامات کیے جارہے ہیں؟
یہ طے ہے کہ کسی ایک فرد کو سزا دے دینے سے اس رجحان کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ بلکہ دوکلیدی اقدامات اولین ترجیح ہونے چاہئیں۔ پہلا اقدام، کرمنل جسٹس سسٹم پر نظر ثانی اور اسے جدید خطوط پر استوار کیا جانا ہے۔ دوسرا فوری اقدام آٹھویں درجے سے بارہویں درجے تک بچوں اور بچیوں کو جنسی جبلت کے بارے میں مثبت معلومات اور آگہی کا دیا جانا ہے(اس موضوع پر الگ اظہاریہ میں بات ہوگی) ۔ کرمنل جسٹس سسٹم کے حوالے سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نظام تین درجات پر مشتمل ہوتا ہے۔اول: تعزیراتی قوانین، دوئم: عمل درآمد کا میکنزم، سوئم: نظام عدل۔
ہمارے ہاں جو تعزیراتی قوانین نافذ ہیں۔ وہ تاج برطانیہ نے ڈیڑھ سو برس پہلے نافذ کیے تھے۔ پہلا قانون انڈین پینل کوڈ(IPC)ہے، جسے ابتدائی طور پر لارڈ میکالے نے1835میں ڈرافٹ کیا تھا۔1860میں اسے پورے برٹش انڈیا کے علاوہ سری لنکا اور نیپال میں بھی نافذ کیا گیا۔ پاکستان میں اسے پاکستان پینل کوڈ (PPC)کا نام دے کر من و عن قبول کرلیا گیا۔ اسی طرح کرمنل پروسیجر کوڈ(Cr.PC)جسے 1861 میں برطانوی پارلیمان نے منظورکیا اور1869 میں پورے بر ٹش انڈیا میں نافذ کیا۔اس کوڈ کو بھی پاکستان نے من وعن نافذ کیا۔ 1973 کے آئین میں ان دونوں قوانین کے سیٹ کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا۔
یہ دونوں قوانین گوکہ جرائم پر قابو پانے کے لیے انتہائی فعال قانونی ڈھانچہ ثابت ہوئے، مگر نوآبادیاتی دور کی یادگار ہیں ۔ جنھیں آزادی کے بعد تبدیل کرنے یا کم ازکم بہتر بنانے کی ضرورت تھی، مگر ستر برس گذرنے کے باوجود ان قوانین پر نظر ثانی اور ان میں اضافے اور ترامیم کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
آج ان میں سے بیشتر قوانین فرسودہ ہوچکے ہیں، مگر حکمران اشرافیہ کی نااہلی کے باعث ان کو بہتر بنانا تو کجا، ان میں مناسب تبدیلیاں تک لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی کچھ معاملہ1861میں متعارف کردہ پولیس آرڈرکا ہے جس کی جگہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پولیس آرڈر2002 لایا گیا۔ مگر جیسے ہی منتخب حکومتیں آئیں، ان میں بیٹھے بااثر فیوڈلز نے اسے ختم کرکے نوآبادیاتی دور کے پولیس آرڈر کو بحال کراکے اپنی ذہنیت کو واضح کردیا۔ چونکہ فیوڈل سیاستدانوں کے لیے تھانہ، پٹواری اور تحصیل دار طاقت کا منبع ہوتے ہیں،اس لیے وہ ان تین انسٹیٹیوشنز میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آنے دے رہے۔
یہی وجہ ہے کہ پولیس کی بھرتی، تقرری اور تعیناتی کا طریقہ کار سیاسی مفادات کی خاطر politicised ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے پولیس میں بغیر میرٹ سیاستدانوں کے پسندیدہ افراد جن میں زیادہ تر جرائم پیشہ افراد شامل ہوتے ہیں، پولیس میں تعینات کیا جارہا ہے۔ لہٰذا تھانہ جو عام شہری کے لیے تحفظ اور عافیت کا مقام ہونا چاہیے،آج اس کے لیے دہشت اور خوف کا عقوبت خانہ بن چکا ہے۔ جہاں عام شہریوں کی عزت اور دولت سبھی داؤ پر لگ جاتی ہے جب کہ پولیس اہلکاروں کی تربیت کا یہ عالم ہے کہ وہ قصور ہو یا کراچی سیدھی گولی چلاکر شہریوں کی زندگی لینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔
کراچی میں ایک نوجوان کی جب کہ قصور میں تین افراد انھی سیدھی لوگوں کا نشانہ بنے۔ پولیس کی انسانی حقوق سے عدم واقفیت کا یہ عالم ہے کہ چند برس قبل لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک ماں اپنی حاملہ بیٹی کو جس نے پسند کی شادی کی تھی، اینٹیں مارکر ہلاک کردیتی ہے، مگر پولیس تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے۔کیونکہ ان کی نظر میں ماں بیٹی کو سزا دے رہی تھی۔چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پولیس کے موجودہ ڈھانچے میں تطہیر انتہائی ضروری ہوچکی ہے۔ جب کہ تقرری اور پوسٹنگ میں میرٹ اور ٹریننگ کے ماڈیولز (Modules)کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔اسی طرح تھانہ کلچر کو تبدیل کیے بغیر سیاسی نظام میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
کرمنل جسٹس سسٹم کا تیسرا اہم جزوعدلیہ ہے۔ عدالتی نظام بھی فرسودگی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ عدالتی نظام میں بہتری کی اب تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ یہ نظام برطانوی نوآبادیاتی نظام سے بھی بدتر حالت اختیار کرچکا ہے۔ کیونکہ اس دور میں ججوں کے تقرر اور ان کی تعیناتی میں میرٹ اور قواعد و ضوابط کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ پر سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے۔ جب کہ ضلعی سطح کی عدالتوں میں مختلف نوعیت کے تعزیری اور دیوانی مقدمات کا انبار لگا ہوا ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے، مسائل و معاملات میں اضافہ اور پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں، مگر نچلی سطح کی عدالتوں کا حال نوآبادیاتی دور سے بھی بدتر۔
اس صورتحال سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ عدالتی نظام کی نچلی سطح تک منتقلی(Devolution)کی جائے، تاکہ عام شہری کو یونین کونسل نہ سہی کم از کم تحصیل(یا ٹاؤن) کی سطح پر ہی انصاف مل سکے ، مگر جس ملک میں ضلع اور یونین کونسل حکومتوں کو ان کے جائز اور ضروری اختیارات دینے میں پس و پیش کی جاتی ہو، وہاں عدالتی نظام کیDevolution کی خواہش محض ایک دیوانے کا خواب ہے۔ حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ٹاؤن کی سطح پر عدالتیں قائم ہیں۔ جہاں چھوٹے موٹے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں ۔اس طرح ان ممالک میں ضلع اور صوبائی(ہائی کورٹس) وغیرہ پر دباؤ نہیں آتا، مگر ہمارے یہاں سب سے زیادہ دباؤ اعلیٰ عدلیہ پر رہتا ہے۔ عدالتوں میں ججوں کی تعداد بھی مقدمات کے حوالے سے بہت کم ہے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ قانون سازی مقننہ کا کام ہے، جس پر فیوڈل اور مراعات یافتہ طبقہ حاوی ہے۔ جو ایسی کوئی قانون سازی کرنے پر آمادہ نہیں، جس کے نتیجے میں اس کے اقتدار و اختیار میں کوئی کمی واقع ہو جائے۔
دوسری طرف انتظامیہ ہے، جسے مقننہ کے بنائے قوانین پر عمل کرنا ہے، مگر انتظامیہ میں سیاسی جماعتوں کے خوشامدی مختلف ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں، جو اپنے آقاؤں کے اشارے پر نو آبادیاتی دور کے قوانین پر بھی صحیح طورپر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔
اب رہ گئی عدلیہ تو نچلی سطح کی عدالتیں کرپشن اور بدعنوانی کی بد ترین نظیر بنی ہوئی ہیں، جب کہ اعلیٰ عدالتیں جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سیاسی مقدمات میں الجھی ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میں عام آدمی کو انصاف کیسے اورکہاں سے ملے۔ ویسے بھی انصاف کا حصول عام شہری کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ لہٰذا جب تک پورے کرمنل جسٹس سسٹم کی ری اسٹرکچرنگ نہیں کی جاتی، عوام کو انصاف ملنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔