مجھے بھی گولیوں سے بھون دو
انصاف پسندوں کے سینے بے بس و لاچار ماؤں کے بین سن سن کر پھٹ رہے ہیں۔
TIMERGARA:
نہتے نوجوان کو ویران پارک میں گاڑی سے اتارنے کے بعد گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کے جسم سے خون کے فوارے پھوٹ کر زمین کو سرخ کر دیتے ہیں۔ گولیاں چلانے والوں کی ہمدردی تو دیکھیے کہ سینے یا سر پر گولیاں مارنے کے بجائے اس کی ٹانگوں کو نشانہ بنایا گیا۔
شاید وہ اس بے گناہ کے تڑپنے کا تماشا دیکھنا چاہتے تھے یا اسے بتانا چاہتے تھے کہ بے شک تم کسی بے بس ماں باپ کی اولاد سہی مگرہم بچوں، جوانوں اور بوڑھوں میں کوئی تفریق نہیںرکھتے۔ تڑپتے ہوئے نوجوان کے دل میں اب بھی زندگی کی خواہش انگڑائی لے رہی تھی، وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح اپنی ماں کو یاد کر کے زندگی کی دہائی دے رہا تھا اور گھر والوں سے ملنے کی خواہش میں تڑپ تڑپ کر استدعا کر رہا تھا کہ مجھے اسپتال لے چلو میں بے قصور ہوں، لیکن فائرنگ کرنے والوں کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اس کی زندگی بچانے کا کوئی انتظام کرتے جو آسانی سے بچائی جاسکتی تھی۔
دل کو دہلا دینے والا یہ واقعہ میرے لیے بھی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا اور اس نے مجھے کئی دنوں تک بے چین رکھا ۔ لاکھ چاہا کہ اپنے ذہن کو آزاد کروں، مگر کیسے کرتا کہ مقتول کا بڑا بھائی پچھلے سات سال سے میرے ساتھ کام کر رہا ہے۔
ہم ان بدنصیبوں میں سے ہیں جن کا گھرکے بجائے دفتراور سفر کرنے میں زیادہ وقت گزرتا ہے جس میں مالی وسائل کی کمی کے ساتھ ان ٹوٹے پھوٹے راستوں کی رکاوٹ بھی حائل ہے جسے سندھ حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے عبور کرتے کرتے تین سے چار گھنٹے ضرورصرف ہوتے ہیں۔ میں جب بھی اپنے دفتر میں مقتول کے بھائی سے ملتا اس کے کے بکھرے خیالات اور دکھوں سے بھرا چہرہ پڑھ کر سمجھ جاتا کہ اس چہرے پر اپنے دکھوں کے ساتھ اس گھرکے دکھ بھی درج ہیں جہاں دو ہزار گیارہ سے صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور تلملا کر رہ جاتا۔
ملک بھر سے آنے والی جرائم کی خبریں پڑھتے اور انھیں درست کرکے متعلقہ پروگرام کے لیے تیارکرتے کرتے پچھلے آٹھ سال کے دوران میری آنکھیں کئی دفعہ بھیگیں اور کئی دفعہ اپنا کام چھوڑ کرکمرے سے باہر جانا پڑا۔کبھی ایسی خاتون کی خبر میری آنکھوں کے سامنے آتی جو اپنے تین بچوں کے ساتھ نہر میں کود گئی،کبھی پتہ چلتا کہ قبروں سے مردے نکال کر کھانے والا خاندان پکڑا گیا ہے، کبھی لاہور کے رپورٹرکا مراسلہ ملتا کہ ایک نوجوان چھوٹے چھوٹے بچوں کو مار کر تیزاب کے ڈرم میں جمع کرتا رہا۔
ایسی اور اس سے ملتی جلتی خوفناک خبریں پڑھ کر میری آنکھیں ایک دفعہ نم ضرور ہوتی ہیں، لیکن کچھ خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جو آنکھوں کے ساتھ پورے وجود کو غم میں بھگو دیتی ہیں۔ پولیس مقابلوں کی خبروں کا شمار بھی ایسی ہی خبروں میں کیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
کراچی کا ایک پولیس آفیسر تو ایسی وارداتوں کے سلسلے میں بہت ہی مشہور ہے جو کبھی کسی سیاسی جماعت کے نوجوانوں اور کبھی مذہبی تنظیم کے شدت پسندوں کو کچھ دن گزرنے کے بعد مقابلے کے دوران ہلاک کرنا اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ افغان جنگ کے بعد اس ملک میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کے سیاسی نقصانات تو شایدد آدھی صدی گزرنے کے بعد دب ہی جائیں، مگر ہمارا معاشرہ جس انسانی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اسے جوڑنے کے لیے ایک صدی بھی ناکافی رہے گی۔
ہم ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں،ایک دوسرے سے خوفزدہ ہوکر نظریں چرانے لگے ہیں، بس اسٹاپس اور تفریحی مقامات پر کھڑے لوگوں کو دہشتگرد تصور کرنے لگے ہیں اور ہروقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کسی وقت کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے۔ یہ خوف اس وقت انتہا کو چھولیتا ہے جب صحافت کے بنیادی اصولوں سے منہ چھپا کر پولیس مقابلوں کے دوران مارے جانے والوں کے خون میں لت پت چہرے بار بار میڈیا اور سوشل میڈیا پر دکھائے جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں سرفراز شاہ کے قتل میں ملوث ملزمان کی معافی کی خبریں گرم ہوئیں تومقتول کے ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ انصاف پسند شہریوں کے زخموں پر بھی ایک دفعہ پھر نمک چھڑکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک دفعہ پھر وہ وڈیوسامنے آگئی جس نے ماضی میں پورے ملک کو غم، خوف اور سوگ میں مبتلا کر دیا تھا۔
سرفراز شاہ کے مرنے کے بعد ابتدائی طور پریہی بتایا گیا تھا کہ وہ پارک میں ڈکیتی کی غرض سے آیا تھا، مگر چند ہی گھنٹوں کے بعد جب اصل حقائق سامنے آئے تو ملک کے کروڑوں عوام اس زیادتی پر دم بخود رہ گئے تھے اور تب سے لے کر اب تک اس کا خاندان جس عذاب سے گزر رہا ہے ہم اس کے چشم دید گواہ ہیں۔
بوڑھے باپ کو جس ذہنی کرب سے گزرنا پڑا اس کا ذکر کرنا بھی کسی تکلیف سے کم نہیں، مگر ماںجس دکھ سے گزری ہے اسے نہ ہی کوئی قاتل مرد اور نہ ہی عام انسان محسوس کرسکتا ہے کہ فطرت نے کسی مرد کو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت دی ہے اور نہ ہی اس کے دکھ سہنے کی ہمت عطا کی ہے۔
ظلم و بربریت سے بھری ویڈیو دوبارہ سامنے آئی تو ایسا لگا جیسے 2011ء اتنا طویل ہو چکا ہے کہ چھ سال گزرنے کے بعد بھی اپنی جگہ سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ پا رہا۔اب بھی کئی سرفراز شاہ پولیس کے ہاتھوںماورائے عدالت قتل کے دوران ہاتھ جوڑ کر اپنی ماؤں کو یاد کرتے ہوئے یہ فریاد کر تے نظر آتے ہیں کہ جب قانون اور عدالتیں موجود ہیں تو مختلف بہانوں سے ہمارا خون کیوں بہایا جا رہا ہے۔
ہم قانون اور عدالت کے کسی اچھے یا برے فیصلے پر اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کریں گے کہ نہ تو ہم قانون دان ہیں اور نہ ہی قانون کے طالب علم، مگر کوئٹہ کی سڑک پر سگنل کے سامنے کھڑے اس اہل کار کے قاتل کو نہ جانے کیوں باعزت بری کر دیا گیا جس کا گواہ کوئی جانب دار شخص نہیں بلکہ ایک بے جان ویڈیوکیمرہ تھا اورجس نے کچھ بچوں کے یتیم اور ایک خاتون کے بیوہ ہونے کا منظر انتہائی غیر جانبداری سے فلم بند کرلیا تھا۔
اب تو سندھ کے ساتھ پورے ملک میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور انصاف پسندوں کے سینے بے بس و لاچار ماؤں کے بین سن سن کر پھٹ رہے ہیں۔ کلیجہ منہ کو آتاہے جب نوجوان بیٹے کے مرنے پر اس کی سہمی ہوئی ماں کہتی ہے''اب میرے جینے کا کیا فائدہ، مجھے بھی گولیوں سے بھون دو۔''
نہتے نوجوان کو ویران پارک میں گاڑی سے اتارنے کے بعد گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کے جسم سے خون کے فوارے پھوٹ کر زمین کو سرخ کر دیتے ہیں۔ گولیاں چلانے والوں کی ہمدردی تو دیکھیے کہ سینے یا سر پر گولیاں مارنے کے بجائے اس کی ٹانگوں کو نشانہ بنایا گیا۔
شاید وہ اس بے گناہ کے تڑپنے کا تماشا دیکھنا چاہتے تھے یا اسے بتانا چاہتے تھے کہ بے شک تم کسی بے بس ماں باپ کی اولاد سہی مگرہم بچوں، جوانوں اور بوڑھوں میں کوئی تفریق نہیںرکھتے۔ تڑپتے ہوئے نوجوان کے دل میں اب بھی زندگی کی خواہش انگڑائی لے رہی تھی، وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح اپنی ماں کو یاد کر کے زندگی کی دہائی دے رہا تھا اور گھر والوں سے ملنے کی خواہش میں تڑپ تڑپ کر استدعا کر رہا تھا کہ مجھے اسپتال لے چلو میں بے قصور ہوں، لیکن فائرنگ کرنے والوں کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اس کی زندگی بچانے کا کوئی انتظام کرتے جو آسانی سے بچائی جاسکتی تھی۔
دل کو دہلا دینے والا یہ واقعہ میرے لیے بھی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا اور اس نے مجھے کئی دنوں تک بے چین رکھا ۔ لاکھ چاہا کہ اپنے ذہن کو آزاد کروں، مگر کیسے کرتا کہ مقتول کا بڑا بھائی پچھلے سات سال سے میرے ساتھ کام کر رہا ہے۔
ہم ان بدنصیبوں میں سے ہیں جن کا گھرکے بجائے دفتراور سفر کرنے میں زیادہ وقت گزرتا ہے جس میں مالی وسائل کی کمی کے ساتھ ان ٹوٹے پھوٹے راستوں کی رکاوٹ بھی حائل ہے جسے سندھ حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے عبور کرتے کرتے تین سے چار گھنٹے ضرورصرف ہوتے ہیں۔ میں جب بھی اپنے دفتر میں مقتول کے بھائی سے ملتا اس کے کے بکھرے خیالات اور دکھوں سے بھرا چہرہ پڑھ کر سمجھ جاتا کہ اس چہرے پر اپنے دکھوں کے ساتھ اس گھرکے دکھ بھی درج ہیں جہاں دو ہزار گیارہ سے صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور تلملا کر رہ جاتا۔
ملک بھر سے آنے والی جرائم کی خبریں پڑھتے اور انھیں درست کرکے متعلقہ پروگرام کے لیے تیارکرتے کرتے پچھلے آٹھ سال کے دوران میری آنکھیں کئی دفعہ بھیگیں اور کئی دفعہ اپنا کام چھوڑ کرکمرے سے باہر جانا پڑا۔کبھی ایسی خاتون کی خبر میری آنکھوں کے سامنے آتی جو اپنے تین بچوں کے ساتھ نہر میں کود گئی،کبھی پتہ چلتا کہ قبروں سے مردے نکال کر کھانے والا خاندان پکڑا گیا ہے، کبھی لاہور کے رپورٹرکا مراسلہ ملتا کہ ایک نوجوان چھوٹے چھوٹے بچوں کو مار کر تیزاب کے ڈرم میں جمع کرتا رہا۔
ایسی اور اس سے ملتی جلتی خوفناک خبریں پڑھ کر میری آنکھیں ایک دفعہ نم ضرور ہوتی ہیں، لیکن کچھ خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جو آنکھوں کے ساتھ پورے وجود کو غم میں بھگو دیتی ہیں۔ پولیس مقابلوں کی خبروں کا شمار بھی ایسی ہی خبروں میں کیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
کراچی کا ایک پولیس آفیسر تو ایسی وارداتوں کے سلسلے میں بہت ہی مشہور ہے جو کبھی کسی سیاسی جماعت کے نوجوانوں اور کبھی مذہبی تنظیم کے شدت پسندوں کو کچھ دن گزرنے کے بعد مقابلے کے دوران ہلاک کرنا اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ افغان جنگ کے بعد اس ملک میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کے سیاسی نقصانات تو شایدد آدھی صدی گزرنے کے بعد دب ہی جائیں، مگر ہمارا معاشرہ جس انسانی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اسے جوڑنے کے لیے ایک صدی بھی ناکافی رہے گی۔
ہم ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں،ایک دوسرے سے خوفزدہ ہوکر نظریں چرانے لگے ہیں، بس اسٹاپس اور تفریحی مقامات پر کھڑے لوگوں کو دہشتگرد تصور کرنے لگے ہیں اور ہروقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کسی وقت کوئی بھی حادثہ پیش آسکتا ہے۔ یہ خوف اس وقت انتہا کو چھولیتا ہے جب صحافت کے بنیادی اصولوں سے منہ چھپا کر پولیس مقابلوں کے دوران مارے جانے والوں کے خون میں لت پت چہرے بار بار میڈیا اور سوشل میڈیا پر دکھائے جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں سرفراز شاہ کے قتل میں ملوث ملزمان کی معافی کی خبریں گرم ہوئیں تومقتول کے ماں باپ اور بھائیوں کے ساتھ انصاف پسند شہریوں کے زخموں پر بھی ایک دفعہ پھر نمک چھڑکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک دفعہ پھر وہ وڈیوسامنے آگئی جس نے ماضی میں پورے ملک کو غم، خوف اور سوگ میں مبتلا کر دیا تھا۔
سرفراز شاہ کے مرنے کے بعد ابتدائی طور پریہی بتایا گیا تھا کہ وہ پارک میں ڈکیتی کی غرض سے آیا تھا، مگر چند ہی گھنٹوں کے بعد جب اصل حقائق سامنے آئے تو ملک کے کروڑوں عوام اس زیادتی پر دم بخود رہ گئے تھے اور تب سے لے کر اب تک اس کا خاندان جس عذاب سے گزر رہا ہے ہم اس کے چشم دید گواہ ہیں۔
بوڑھے باپ کو جس ذہنی کرب سے گزرنا پڑا اس کا ذکر کرنا بھی کسی تکلیف سے کم نہیں، مگر ماںجس دکھ سے گزری ہے اسے نہ ہی کوئی قاتل مرد اور نہ ہی عام انسان محسوس کرسکتا ہے کہ فطرت نے کسی مرد کو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت دی ہے اور نہ ہی اس کے دکھ سہنے کی ہمت عطا کی ہے۔
ظلم و بربریت سے بھری ویڈیو دوبارہ سامنے آئی تو ایسا لگا جیسے 2011ء اتنا طویل ہو چکا ہے کہ چھ سال گزرنے کے بعد بھی اپنی جگہ سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ پا رہا۔اب بھی کئی سرفراز شاہ پولیس کے ہاتھوںماورائے عدالت قتل کے دوران ہاتھ جوڑ کر اپنی ماؤں کو یاد کرتے ہوئے یہ فریاد کر تے نظر آتے ہیں کہ جب قانون اور عدالتیں موجود ہیں تو مختلف بہانوں سے ہمارا خون کیوں بہایا جا رہا ہے۔
ہم قانون اور عدالت کے کسی اچھے یا برے فیصلے پر اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کریں گے کہ نہ تو ہم قانون دان ہیں اور نہ ہی قانون کے طالب علم، مگر کوئٹہ کی سڑک پر سگنل کے سامنے کھڑے اس اہل کار کے قاتل کو نہ جانے کیوں باعزت بری کر دیا گیا جس کا گواہ کوئی جانب دار شخص نہیں بلکہ ایک بے جان ویڈیوکیمرہ تھا اورجس نے کچھ بچوں کے یتیم اور ایک خاتون کے بیوہ ہونے کا منظر انتہائی غیر جانبداری سے فلم بند کرلیا تھا۔
اب تو سندھ کے ساتھ پورے ملک میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور انصاف پسندوں کے سینے بے بس و لاچار ماؤں کے بین سن سن کر پھٹ رہے ہیں۔ کلیجہ منہ کو آتاہے جب نوجوان بیٹے کے مرنے پر اس کی سہمی ہوئی ماں کہتی ہے''اب میرے جینے کا کیا فائدہ، مجھے بھی گولیوں سے بھون دو۔''