بیرونی دباؤ سے نکلتی داخلی سیاست
ہم سب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہمارے اندرکے تضادات مخصمانہ حد تک بگڑ جائیں۔
اس مرتبہ میاں صاحب کوکچھ کہے بہت دن بیت گئے کسی خوش فہمی میں تو نہیں رہنا چاہیے مگرگمان یہ ہے کہ چوکا اگر یہ لگاتے ہیں تو چھکا وہ بھی لگاتے ہیں۔ جو بھی ہے سیاست کا میدان اب میدان جنگ نظر آتا ہے۔کچھ دن قبل جو ہم کہتے تھے کہ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے کشیدہ ہیں کہ ہم سب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہمارے اندرکے تضادات مخصمانہ حد تک بگڑ جائیں۔
کل امریکا کی نائب وزیر خارجہ تشریف لائیں، ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد یا یوں کہیے کہ ٹرمپ نے جو ساؤتھ ایشیا پالیسی چند مہینے قبل دی تھی، اس پر یوٹرن نہ سہی مگر بہت حد تک امید افزاء پہل کچھ اس طرح سے ہوئی ہے کہ ہمارے ماضی کا بندھن بالآخر آج کی ٹوٹتی ہوئی لڑیوں کے آگے سینہ تان کھڑا ہوا ہے اور امریکن نائب وزیرخارجہ نے یہ تک کہا کہ جو پاکستان کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔
یوں کہیے کہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں جو بیرونی اثرات تھے وہ دور ہونے لگے ہیں اور یہ بات اب ہمیں سمجھنی چاہیے کہ ہم نے جس کو اپنا اسٹریٹجک ایسٹ (Asset) سمجھا وہ اب اس ملک کے لیے وبال جان ہے۔ ہماری بدنصیبی دیکھیے کہ دنیا میں جب ریاست جمہوری اقداراپناتی ہے تو دو سوچیں جوکہ معاشرے کا عکس ہوتی ہیں وہ کسی دو بڑے گروہوں کا روپ اختیار کرلیتی ہیں، ایک گروہ روایت پسند اور دوسرا گروہ اعتدال پسند ہوتا ہے، مگر اس کے برعکس یہاں پر روایت پسندوں کے جمگھٹے ہی آپس میں گھتم گتھا بھی ہیں۔ مگر نکتہ وہ ہی ہے، روایت پسندی! اب چاہے وہ عمران خان ہوں، نواز شریف ہوں، خادم حسین رضوی ہو یا پھر ڈاکٹر طاہر القادری اوراب رہ گئے باقی بیچارے زرداری۔
یہ جو روایت پرستی کی سیاست ہے، وہ ہے اور رہے گی کیونکہ اس کی اپنی رسد و طلب ہے۔ مرزا غالبؔ کی بات کی مانند۔
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے
زرداری صاحب جس پارٹی کے لیڈر ہیں ستر کی دہائی میں یہ پارٹی نیم اشتراکی Manifesto کے نام پر ابھرکر آئی اور اس زمانے کے مروج پاکستانی بیانیے کے اس اسکول کے ساتھ کھڑی تھی جس کے دھاگے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جڑے تھے۔ اپنے ارتقائی مراحل میں بینظیر کے زمانے میں یہ پارٹی اسٹیبلشمنٹ کو حقیقت تو سمجھتی تھی مگر ہندوستان دشمنی اس کا محور نہ تھا۔
یہ پارٹی پاپولر تھی، بیانیہ اورElectable کی نذر ہو گئی۔کچھ اس طرح سے یہ پارٹی بکھری کہ اس کے روحانی دانشور پروفیسر حسن ظفر عارف جیسے لوگ بدگمان ہوئے۔ میرے خیال میں اس پارٹی کا بنیادی طور پر صرف Electable پر چلے جانا اور بیانیہ چاہے لبرل ہو یا صوفی اس کا ماند پڑ جانا اور اس کے برعکس روایت پرست بیانیے کا محور بننا جو بیانیہ اس پارٹی کا نہ تھا۔
اس طرح یہ پارٹی دیہی سندھ کے اندر دب کر رہ گئی اور سونے پر سہاگہ پارٹی کے اوپر زرداری صاحب کی چھاپ اور بلاول بھٹوکا تیزی سے ابھرکر بھی لیڈر نہ بننا ایک سوالیہ نشان بن گیا، اور یوں ہوا پھر قصہ تمام اور مارا کون گیا ''لبرل'' اعتدال پسند سوچ کا حامل، جناح کے پاکستان کی بات کرنیوالا، اقلیتوں کے حقوق ہوں یا بچوں اورحقوق نسواں کی بات کرنیوالا بکھرکر رہ گیا۔
ہمارا میڈیا بھی مجموعی طور پر اس سیاسی مخمصے کا شکار ہے کہ جیسے یہ سب اور ہر طرف اور یہی ہے سب اور یہی ہے پاکستان اور اگر اس سے آگے کوئی بات کرے تو وہ غدار اور اس طرح جناح رہے اجنبی اپنے ہی پاکستان میں۔ ہمارے لیے ہمارا وطن کچھ اس طرح ہے کہ جیسے فیضؔ کہتے ہیں
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
ہم نے یا پھر ہماری مجبوریوں نے اس خطے کے اندر اپنے وجود کو برقرار رکھنے لیے ہندوستان دشمنی کو بنیاد بنا لیا۔ یہ دشمنی اتنی گہری ہو گئی ہے کہ اس نے پورے ساؤتھ ایشیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جو نوید تھی وہ یہ تھی کہ چین نے اپنا اثر و رسوخ ساؤتھ ایشیا میں جما دیا ہے اور ہندوستان کو چین کے سپر پاور بننے سے بہت نقصان پہنچا ہے۔
ہندوستان میں کچھ روز قبل اسرائیل کے وزیراعظم آئے اور اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا ہو گا، لیکن پھر بھی مجھے یقین ہے مودی کے برعکس راہول گاندھی کی سوچ Moderate اور اعتدال پسند ہے اور وہ مودی کی اس سوچ کو شکست ضرور دے گا، مگر پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں۔
اگر آئے عمران خان تو بھی وہی روایت پسند سوچ، اگر آئے نواز شریف تو وہ بھی روایت پرست اور ان کو بھی دائیں بازوکی ہائپر ووٹرز کی ضرورت۔ ہم ایک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں زینب کی آہ و فغان سننے میں نہیں آئی ہمارا میڈیا، ٹاک شوز اور اینکرز ریٹنگ لینے کے چکر میں اور سے اور ہائپر ہوئے چلے جاتے ہیں۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نے پائے رکاب میں۔
اور اسی طرح میرا کالم چھپنے تک لاہور میں میدان لگ چکا ہو گا۔ میاں صاحب کیا اب بھی اسی جوش وخروش سے بولتے رہیں گے اور دوسری طرف جو یہ میدان لگا ہے وہ دھرنے کی شکل اختیارکرے گا یا نہیں۔ جب سے وفاق نے سندھ کے آئی جی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے زرداری صاحب آہستہ آہستہ قادری صاحب سے دور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کی دوری کو دیکھ کر خان صاحب بھی کیا کرتے اور پھر سے آواز بلندکی کہ وہ زرداری صاحب کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔
بلوچستان میں نئے وزیر اعلیٰ آ چکے ہیں۔ یہ رکن بلوچستان اسمبلی بنے تھے 544 ووٹ سے اور لیڈر آف دی ہاؤس بنے 41 ووٹ سے اسمبلی میں جس میں کل ارکان کی تعداد 65 ہے۔ مارچ میں ہونیوالے سینیٹ کے الیکشنز میں جو 13 اراکین بلوچستان اسمبلی سے آنیوالے تھے ان میں سے جو اراکین PML-N کے چھ یا سات اراکین ہوتے ہیں وہ اب نہیں ہوں گے۔ میاں نواز شریف کو سینیٹ میں اکثریت پانے کا جو خیال تھا وہ اب ٹوٹ کر بکھر گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو لاہور میں ہونے جا رہا ہے اس دھرنے سے اتنی تاثیر نہیں پھیلے گی کہ شہباز شریف کی حکومت کو کوئی خطرہ ہو۔
چیزیں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہیں جو دھول اڑی تھی وہ بیٹھتی جا رہی ہے۔ اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ سال الیکشن کا سال ہے مگر غالبؔ ہیں جوکہتے ہیں۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
کل امریکا کی نائب وزیر خارجہ تشریف لائیں، ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد یا یوں کہیے کہ ٹرمپ نے جو ساؤتھ ایشیا پالیسی چند مہینے قبل دی تھی، اس پر یوٹرن نہ سہی مگر بہت حد تک امید افزاء پہل کچھ اس طرح سے ہوئی ہے کہ ہمارے ماضی کا بندھن بالآخر آج کی ٹوٹتی ہوئی لڑیوں کے آگے سینہ تان کھڑا ہوا ہے اور امریکن نائب وزیرخارجہ نے یہ تک کہا کہ جو پاکستان کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔
یوں کہیے کہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں جو بیرونی اثرات تھے وہ دور ہونے لگے ہیں اور یہ بات اب ہمیں سمجھنی چاہیے کہ ہم نے جس کو اپنا اسٹریٹجک ایسٹ (Asset) سمجھا وہ اب اس ملک کے لیے وبال جان ہے۔ ہماری بدنصیبی دیکھیے کہ دنیا میں جب ریاست جمہوری اقداراپناتی ہے تو دو سوچیں جوکہ معاشرے کا عکس ہوتی ہیں وہ کسی دو بڑے گروہوں کا روپ اختیار کرلیتی ہیں، ایک گروہ روایت پسند اور دوسرا گروہ اعتدال پسند ہوتا ہے، مگر اس کے برعکس یہاں پر روایت پسندوں کے جمگھٹے ہی آپس میں گھتم گتھا بھی ہیں۔ مگر نکتہ وہ ہی ہے، روایت پسندی! اب چاہے وہ عمران خان ہوں، نواز شریف ہوں، خادم حسین رضوی ہو یا پھر ڈاکٹر طاہر القادری اوراب رہ گئے باقی بیچارے زرداری۔
یہ جو روایت پرستی کی سیاست ہے، وہ ہے اور رہے گی کیونکہ اس کی اپنی رسد و طلب ہے۔ مرزا غالبؔ کی بات کی مانند۔
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے
زرداری صاحب جس پارٹی کے لیڈر ہیں ستر کی دہائی میں یہ پارٹی نیم اشتراکی Manifesto کے نام پر ابھرکر آئی اور اس زمانے کے مروج پاکستانی بیانیے کے اس اسکول کے ساتھ کھڑی تھی جس کے دھاگے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جڑے تھے۔ اپنے ارتقائی مراحل میں بینظیر کے زمانے میں یہ پارٹی اسٹیبلشمنٹ کو حقیقت تو سمجھتی تھی مگر ہندوستان دشمنی اس کا محور نہ تھا۔
یہ پارٹی پاپولر تھی، بیانیہ اورElectable کی نذر ہو گئی۔کچھ اس طرح سے یہ پارٹی بکھری کہ اس کے روحانی دانشور پروفیسر حسن ظفر عارف جیسے لوگ بدگمان ہوئے۔ میرے خیال میں اس پارٹی کا بنیادی طور پر صرف Electable پر چلے جانا اور بیانیہ چاہے لبرل ہو یا صوفی اس کا ماند پڑ جانا اور اس کے برعکس روایت پرست بیانیے کا محور بننا جو بیانیہ اس پارٹی کا نہ تھا۔
اس طرح یہ پارٹی دیہی سندھ کے اندر دب کر رہ گئی اور سونے پر سہاگہ پارٹی کے اوپر زرداری صاحب کی چھاپ اور بلاول بھٹوکا تیزی سے ابھرکر بھی لیڈر نہ بننا ایک سوالیہ نشان بن گیا، اور یوں ہوا پھر قصہ تمام اور مارا کون گیا ''لبرل'' اعتدال پسند سوچ کا حامل، جناح کے پاکستان کی بات کرنیوالا، اقلیتوں کے حقوق ہوں یا بچوں اورحقوق نسواں کی بات کرنیوالا بکھرکر رہ گیا۔
ہمارا میڈیا بھی مجموعی طور پر اس سیاسی مخمصے کا شکار ہے کہ جیسے یہ سب اور ہر طرف اور یہی ہے سب اور یہی ہے پاکستان اور اگر اس سے آگے کوئی بات کرے تو وہ غدار اور اس طرح جناح رہے اجنبی اپنے ہی پاکستان میں۔ ہمارے لیے ہمارا وطن کچھ اس طرح ہے کہ جیسے فیضؔ کہتے ہیں
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
ہم نے یا پھر ہماری مجبوریوں نے اس خطے کے اندر اپنے وجود کو برقرار رکھنے لیے ہندوستان دشمنی کو بنیاد بنا لیا۔ یہ دشمنی اتنی گہری ہو گئی ہے کہ اس نے پورے ساؤتھ ایشیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جو نوید تھی وہ یہ تھی کہ چین نے اپنا اثر و رسوخ ساؤتھ ایشیا میں جما دیا ہے اور ہندوستان کو چین کے سپر پاور بننے سے بہت نقصان پہنچا ہے۔
ہندوستان میں کچھ روز قبل اسرائیل کے وزیراعظم آئے اور اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا ہو گا، لیکن پھر بھی مجھے یقین ہے مودی کے برعکس راہول گاندھی کی سوچ Moderate اور اعتدال پسند ہے اور وہ مودی کی اس سوچ کو شکست ضرور دے گا، مگر پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں۔
اگر آئے عمران خان تو بھی وہی روایت پسند سوچ، اگر آئے نواز شریف تو وہ بھی روایت پرست اور ان کو بھی دائیں بازوکی ہائپر ووٹرز کی ضرورت۔ ہم ایک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں زینب کی آہ و فغان سننے میں نہیں آئی ہمارا میڈیا، ٹاک شوز اور اینکرز ریٹنگ لینے کے چکر میں اور سے اور ہائپر ہوئے چلے جاتے ہیں۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نے پائے رکاب میں۔
اور اسی طرح میرا کالم چھپنے تک لاہور میں میدان لگ چکا ہو گا۔ میاں صاحب کیا اب بھی اسی جوش وخروش سے بولتے رہیں گے اور دوسری طرف جو یہ میدان لگا ہے وہ دھرنے کی شکل اختیارکرے گا یا نہیں۔ جب سے وفاق نے سندھ کے آئی جی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے زرداری صاحب آہستہ آہستہ قادری صاحب سے دور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کی دوری کو دیکھ کر خان صاحب بھی کیا کرتے اور پھر سے آواز بلندکی کہ وہ زرداری صاحب کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔
بلوچستان میں نئے وزیر اعلیٰ آ چکے ہیں۔ یہ رکن بلوچستان اسمبلی بنے تھے 544 ووٹ سے اور لیڈر آف دی ہاؤس بنے 41 ووٹ سے اسمبلی میں جس میں کل ارکان کی تعداد 65 ہے۔ مارچ میں ہونیوالے سینیٹ کے الیکشنز میں جو 13 اراکین بلوچستان اسمبلی سے آنیوالے تھے ان میں سے جو اراکین PML-N کے چھ یا سات اراکین ہوتے ہیں وہ اب نہیں ہوں گے۔ میاں نواز شریف کو سینیٹ میں اکثریت پانے کا جو خیال تھا وہ اب ٹوٹ کر بکھر گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو لاہور میں ہونے جا رہا ہے اس دھرنے سے اتنی تاثیر نہیں پھیلے گی کہ شہباز شریف کی حکومت کو کوئی خطرہ ہو۔
چیزیں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہیں جو دھول اڑی تھی وہ بیٹھتی جا رہی ہے۔ اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ سال الیکشن کا سال ہے مگر غالبؔ ہیں جوکہتے ہیں۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے