مضر صحت دودھ کی فروخت
عدالت نے مضر صحت دودھ والی کمپنی کا پورا اسٹاک ضبط کرنے کا بھی حکم دیا۔
PESHAWAR:
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کراچی نے گندے پانی، ڈبے کے دودھ ا ور ماحولیاتی آلودگی کے تین مقدمات کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل لارجر بینچ نے سماعت کی۔
میئر کراچی وسیم اختر، چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سمیت دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈبے کے ناقص دودھ سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ایف آئی اے اور ڈرگ انسپکٹرز کو حکم دیا کہ مارکیٹوں میں چھاپے ماریں اوربھینسوں کو اضافی دودھ کے لیے لگائے جانے والے ٹیکے ضبط کریں۔
عدالت نے مضر صحت دودھ والی کمپنی کا پورا اسٹاک ضبط کرنے کا بھی حکم دیا۔ کمپنیوں نے ڈبوں کے دودھ متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا جس میں کہا گیا کہ کچھ کمپنیاں صرف دودھ اور کچھ ٹی وائٹنرز بناتی ہیں جب کہ ٹی وائٹنرز بھی دودھ ہی سے بنائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وائٹنرز ہرگز دودھ نہیں بلکہ اچھے برانڈکے دودھ بھی ناقص ہوتے ہیں، دودھ کے ڈبوں میں ڈلیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں یہ کون سا دودھ ہوتا ہے، کیا ہم ان کمپنیوں کے مالکان کو یہاں ابھی طلب کرلیں۔
عدالت نے سارے ڈبوں پر (یہ دودھ نہیں) کی عبارت تحریر کرنے کے لیے 4 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے ہر کمپنی سے 50 ہزار روپے لے کر اس کے دودھ کا معائنہ کرانے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ڈبے کے دودھ کا معاملہ حل کریں گے پھر کھلے دودھ کو بھی دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے عدالتی معاون کو حکم دیا کہ دودھ اور ٹی وائٹنرز سب کا معائنہ کرایا جائے اور دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کی جائے، دیکھیں گے کہ کیا یہ دودھ پینے کے قابل ہے بھی یا نہیں، دودھ کے معاملے میں پنجاب میں بہتری آئی ہے، آج اتوار کے دن بھی کام کررہے ہیں اور صرف کراچی کے لوگوں کے لیے بیٹھے ہیں، اگر ہر ہفتے بھی آنا پڑا تو آئیں گے۔
گزشتہ سے پیوستہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ڈبوں میں فروخت ہونے والا دودھ نہیں فراڈ ہے، سندھ حکومت کو خیال نہیں آیا کہ کراچی کے شہریوں کومعیاری دودھ پلائیں، پنجاب میں کروڑوں روپے لگا کر لیب ٹھیک کرائی ہیں، پیکٹ والے دودھ کے تمام برانڈز کی پروڈکٹ ٹیسٹ کے لیے بھیجیں، پنجاب میں انجکشن پر پاپندی ہے، دودھ فروخت ہورہا ہے، دودھ کا معیار جانچنے کے لیے کمیشن بنائیں گے، ناقص دودھ سے چھاتی کا کینسر ہورہا ہے۔
اس روز کی سماعت میں ڈیری فارمز کے وکیل نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے منظور شدہ انجکشن پر پابندی عائدکی ہے، پروڈکشن متاثر ہوئی ہے پابندی ختم کی جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹیکے لگا لگا کر بچوں کو بیمارکرنا چاہتے ہیں، ذرا خیال نہیں آتا، بچوں کی زندگی سے کھیل رہے ہو، مصنوعی طریقے سے دودھ نکالنا چاہتے ہو ،کم از کم اپنے جانوروں کا ہی خیال کرلو، عدالت نے استدعا مسترد کردی۔
دودھ، دودھ ہوتا ہے، بھینس کا ہو یا کہ گائے کا۔ شہر کراچی کے لوگوں کو فروخت کیا جارہا ہے وہ بھی پانی میں دودھ ملا کر، دودھ میں پانی ملا کر نہیں۔ ایک طرف کراچی کی آبادی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف دودھ کی پیدا وار کم پڑ رہی ہے جس کو پورا کرنے کے لیے ڈیری فارمز والے اپنے بھینسوں کو ممنوعہ ٹیکے لگا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ دودھ پیدا کیا جاسکے اور ساتھ ساتھ ہی دودھ کی قیمتیں بھی آئے روز بڑھاتے رہتے ہیں شہری انتظامیہ اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔
کراچی کے شہریوں کو شکایت ہے کہ حکومت سندھ کراچی کو مضر صحت دودھ کی فروخت کی روک تھام میں بھی ناکام ہے، دودھ میں آلودہ پانی اور کیمیائی اجزاکی ملاوٹ سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے لیکن اب سپریم کورٹ میں شنوائی کی صورت میں شہر کراچی لاوارث نہیں رہا، امید کی جاسکتی ہے کہ اب ڈبے میں بنددودھ یا کھلے دودھ کی من مانی قیمتیں وصول نہیں کی جائینگی سرکاری افسران کی ملی بھگت سے شہریوں کو مضر صحت دودھ فروخت ہونا بند ہوجائے گا۔ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے کرپٹ سرکاری افسران اور ڈیری مافیا کے خلاف موثر کارتوائی سے شہری سکھ کا سانس لیں گے۔
اطلاعات کے مطابق شہر کراچی میں قلیل عرصے سے ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کیا رہا ہے۔ بھینسوں کو بوسٹن نامی انجکشن لگایا جاتا رہا ہے جس پر پابندی ہے، اس پابندی کی آڑ میں شہر کراچی میں دودھ کا مصنوعی بحران بھی پیدا کیا جاتا رہا ہے اور اس آڑ میں دودھ کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہی ہیں۔
میڈیا میں یہ بھی اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں کہ بڑے تھوک فروش قیمتوں میں اضافے کے لیے شہر کراچی میں دودھ کا مصنوعی بحران پیدا کرتے رہے ہیں جس سے دودھ کی قیمتیں بڑھتی رہی ہیں اور قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے چھوٹے دکاندار بالخصوص کثیر آبادی والے علاقوں کی دکانوں پر ملاوٹ شدہ اور مکس دودھ فروخت کیا جاتا رہا ہے، جس میں گائے، بھینس، بھیڑ اور اونٹ کا دودھ شامل ہوتا ہے۔ بوسٹن انجکشن بھینس کا دودھ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بعض گوالوں کا کہنا ہے کہ یہ مضر صحت نہیں ہے بلکہ اس کے استعمال سے بھینس کا دودھ زیادہ چوائی کے بغیر ہی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق بوسٹن انجکشن مویشیوں اور ان مویشیوں کا دودھ استعمال کرنے والے انسانوں کے لیے بھی مضر صحت ہے۔
بوسٹن انجکشن پر پابندی سے قبل یہ انجکشن 250 سے350 روپے میں فروخت کیا جاتا رہا ہے سننے میں آ رہا ہے کہ یہ ٹیکہ اب 1200روپے سے زائد کا آرہا ہے۔ یہ انجکشن ہر بھینس کو ایک دن کے وقفے سے لگایا جاتا ہے، دو شیشوں (ایم پیولز) پر مشتمل ایک ٹیکہ7 بھینسوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق دودھ میں آلودہ پانی کے ساتھ بیکٹیریا کو مارنے کے لیے ہائیڈروجن پر آکسائیڈ اور دیگر کیمیائی اجزابھی ملائے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق فوڈ ڈیپارٹمنٹ کا عملہ دکانوں سے نذرانے طے ہونے کی وجہ سے غیر ملاوٹ شدہ دودھ کے سمپل بھرتا ہے اور ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کرنے والی دکانوں کے لیے بھی سمپل بڑی دکانوں یا غیر ملاوٹ شدہ دودھ سے بھرے جاتے ہیں۔اگر بھینس کالونی کے خارجی راستوں پر ناکہ لگا کر دودھ کے سمپل بھرے جائیں تو دودھ میں ملاوٹ اور مضر صحت اجزاکی آمیزش کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے لیے دودھ کی گھریلو یومیہ کھپت 50 لاکھ لیٹر ہے جس میں 30 سے40 فی صد کی نمایاں کمی کو دور کرنے کے لیے فارمز کی سطح پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان دنوں کراچی میں فی لیٹر دودھ 80 سے 90 روپے فروخت ہورہا ہے اس کے باوجود ڈیری فارمز والے دودھ کی قیمت میں مزید اضافے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں جو سراسرظلم ہے۔ اس ضمن میں حکومت سندھ اور شہری انتظامیہ کی ناکامی در ناکامی کے بعد اب کراچی کے شہریوں کی امیدیں سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے سے وابستہ ہیں۔ عوام کو سپریم کورٹ پر پورا بھروسہ ہے جو بھی فیصلہ آئے گا عوام اسے قبول کریں گے۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کراچی نے گندے پانی، ڈبے کے دودھ ا ور ماحولیاتی آلودگی کے تین مقدمات کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل لارجر بینچ نے سماعت کی۔
میئر کراچی وسیم اختر، چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سمیت دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈبے کے ناقص دودھ سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ایف آئی اے اور ڈرگ انسپکٹرز کو حکم دیا کہ مارکیٹوں میں چھاپے ماریں اوربھینسوں کو اضافی دودھ کے لیے لگائے جانے والے ٹیکے ضبط کریں۔
عدالت نے مضر صحت دودھ والی کمپنی کا پورا اسٹاک ضبط کرنے کا بھی حکم دیا۔ کمپنیوں نے ڈبوں کے دودھ متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا جس میں کہا گیا کہ کچھ کمپنیاں صرف دودھ اور کچھ ٹی وائٹنرز بناتی ہیں جب کہ ٹی وائٹنرز بھی دودھ ہی سے بنائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وائٹنرز ہرگز دودھ نہیں بلکہ اچھے برانڈکے دودھ بھی ناقص ہوتے ہیں، دودھ کے ڈبوں میں ڈلیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں یہ کون سا دودھ ہوتا ہے، کیا ہم ان کمپنیوں کے مالکان کو یہاں ابھی طلب کرلیں۔
عدالت نے سارے ڈبوں پر (یہ دودھ نہیں) کی عبارت تحریر کرنے کے لیے 4 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے ہر کمپنی سے 50 ہزار روپے لے کر اس کے دودھ کا معائنہ کرانے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ڈبے کے دودھ کا معاملہ حل کریں گے پھر کھلے دودھ کو بھی دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے عدالتی معاون کو حکم دیا کہ دودھ اور ٹی وائٹنرز سب کا معائنہ کرایا جائے اور دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کی جائے، دیکھیں گے کہ کیا یہ دودھ پینے کے قابل ہے بھی یا نہیں، دودھ کے معاملے میں پنجاب میں بہتری آئی ہے، آج اتوار کے دن بھی کام کررہے ہیں اور صرف کراچی کے لوگوں کے لیے بیٹھے ہیں، اگر ہر ہفتے بھی آنا پڑا تو آئیں گے۔
گزشتہ سے پیوستہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ڈبوں میں فروخت ہونے والا دودھ نہیں فراڈ ہے، سندھ حکومت کو خیال نہیں آیا کہ کراچی کے شہریوں کومعیاری دودھ پلائیں، پنجاب میں کروڑوں روپے لگا کر لیب ٹھیک کرائی ہیں، پیکٹ والے دودھ کے تمام برانڈز کی پروڈکٹ ٹیسٹ کے لیے بھیجیں، پنجاب میں انجکشن پر پاپندی ہے، دودھ فروخت ہورہا ہے، دودھ کا معیار جانچنے کے لیے کمیشن بنائیں گے، ناقص دودھ سے چھاتی کا کینسر ہورہا ہے۔
اس روز کی سماعت میں ڈیری فارمز کے وکیل نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے منظور شدہ انجکشن پر پابندی عائدکی ہے، پروڈکشن متاثر ہوئی ہے پابندی ختم کی جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹیکے لگا لگا کر بچوں کو بیمارکرنا چاہتے ہیں، ذرا خیال نہیں آتا، بچوں کی زندگی سے کھیل رہے ہو، مصنوعی طریقے سے دودھ نکالنا چاہتے ہو ،کم از کم اپنے جانوروں کا ہی خیال کرلو، عدالت نے استدعا مسترد کردی۔
دودھ، دودھ ہوتا ہے، بھینس کا ہو یا کہ گائے کا۔ شہر کراچی کے لوگوں کو فروخت کیا جارہا ہے وہ بھی پانی میں دودھ ملا کر، دودھ میں پانی ملا کر نہیں۔ ایک طرف کراچی کی آبادی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف دودھ کی پیدا وار کم پڑ رہی ہے جس کو پورا کرنے کے لیے ڈیری فارمز والے اپنے بھینسوں کو ممنوعہ ٹیکے لگا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ دودھ پیدا کیا جاسکے اور ساتھ ساتھ ہی دودھ کی قیمتیں بھی آئے روز بڑھاتے رہتے ہیں شہری انتظامیہ اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔
کراچی کے شہریوں کو شکایت ہے کہ حکومت سندھ کراچی کو مضر صحت دودھ کی فروخت کی روک تھام میں بھی ناکام ہے، دودھ میں آلودہ پانی اور کیمیائی اجزاکی ملاوٹ سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے لیکن اب سپریم کورٹ میں شنوائی کی صورت میں شہر کراچی لاوارث نہیں رہا، امید کی جاسکتی ہے کہ اب ڈبے میں بنددودھ یا کھلے دودھ کی من مانی قیمتیں وصول نہیں کی جائینگی سرکاری افسران کی ملی بھگت سے شہریوں کو مضر صحت دودھ فروخت ہونا بند ہوجائے گا۔ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے کرپٹ سرکاری افسران اور ڈیری مافیا کے خلاف موثر کارتوائی سے شہری سکھ کا سانس لیں گے۔
اطلاعات کے مطابق شہر کراچی میں قلیل عرصے سے ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کیا رہا ہے۔ بھینسوں کو بوسٹن نامی انجکشن لگایا جاتا رہا ہے جس پر پابندی ہے، اس پابندی کی آڑ میں شہر کراچی میں دودھ کا مصنوعی بحران بھی پیدا کیا جاتا رہا ہے اور اس آڑ میں دودھ کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہی ہیں۔
میڈیا میں یہ بھی اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں کہ بڑے تھوک فروش قیمتوں میں اضافے کے لیے شہر کراچی میں دودھ کا مصنوعی بحران پیدا کرتے رہے ہیں جس سے دودھ کی قیمتیں بڑھتی رہی ہیں اور قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے چھوٹے دکاندار بالخصوص کثیر آبادی والے علاقوں کی دکانوں پر ملاوٹ شدہ اور مکس دودھ فروخت کیا جاتا رہا ہے، جس میں گائے، بھینس، بھیڑ اور اونٹ کا دودھ شامل ہوتا ہے۔ بوسٹن انجکشن بھینس کا دودھ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بعض گوالوں کا کہنا ہے کہ یہ مضر صحت نہیں ہے بلکہ اس کے استعمال سے بھینس کا دودھ زیادہ چوائی کے بغیر ہی حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق بوسٹن انجکشن مویشیوں اور ان مویشیوں کا دودھ استعمال کرنے والے انسانوں کے لیے بھی مضر صحت ہے۔
بوسٹن انجکشن پر پابندی سے قبل یہ انجکشن 250 سے350 روپے میں فروخت کیا جاتا رہا ہے سننے میں آ رہا ہے کہ یہ ٹیکہ اب 1200روپے سے زائد کا آرہا ہے۔ یہ انجکشن ہر بھینس کو ایک دن کے وقفے سے لگایا جاتا ہے، دو شیشوں (ایم پیولز) پر مشتمل ایک ٹیکہ7 بھینسوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق دودھ میں آلودہ پانی کے ساتھ بیکٹیریا کو مارنے کے لیے ہائیڈروجن پر آکسائیڈ اور دیگر کیمیائی اجزابھی ملائے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق فوڈ ڈیپارٹمنٹ کا عملہ دکانوں سے نذرانے طے ہونے کی وجہ سے غیر ملاوٹ شدہ دودھ کے سمپل بھرتا ہے اور ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کرنے والی دکانوں کے لیے بھی سمپل بڑی دکانوں یا غیر ملاوٹ شدہ دودھ سے بھرے جاتے ہیں۔اگر بھینس کالونی کے خارجی راستوں پر ناکہ لگا کر دودھ کے سمپل بھرے جائیں تو دودھ میں ملاوٹ اور مضر صحت اجزاکی آمیزش کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے لیے دودھ کی گھریلو یومیہ کھپت 50 لاکھ لیٹر ہے جس میں 30 سے40 فی صد کی نمایاں کمی کو دور کرنے کے لیے فارمز کی سطح پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان دنوں کراچی میں فی لیٹر دودھ 80 سے 90 روپے فروخت ہورہا ہے اس کے باوجود ڈیری فارمز والے دودھ کی قیمت میں مزید اضافے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں جو سراسرظلم ہے۔ اس ضمن میں حکومت سندھ اور شہری انتظامیہ کی ناکامی در ناکامی کے بعد اب کراچی کے شہریوں کی امیدیں سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے سے وابستہ ہیں۔ عوام کو سپریم کورٹ پر پورا بھروسہ ہے جو بھی فیصلہ آئے گا عوام اسے قبول کریں گے۔