بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے محتاط رہیں
تصاویر یا ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنا مہنگا بھی پڑسکتا ہے، جیسا کہ اٹلی میں معاملہ سامنے آیا ہے۔
ISLAMABAD:
سوشل میڈیا کی دنیا کے باسی اس جہان میں اپنے ' زندہ' ہونے کا ثبوت تحریری پیغامات یا تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرکے فراہم کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی صارف فیس بُک، ٹویٹر وغیرہ استعمال کرتا ہو اور محبت، نفرت یا جذبات اور خیالات کا اظہار نہ کرے۔
جدید دور کے والدین اپنے بچوںکی تصاویر اور ویڈیوز فیس بُک پر شیئر کرتے رہتے ہیں۔ یہ اقدام اپنی اولاد سے ان کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں جب کہ والدین اور بچوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے، خاص طور سے مغربی معاشرے میں جہاں عمومی طور پر اولاد کے دلوں میں والدین کا احترام نام کو نہیں ہوتا، تصاویر یا ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنا مہنگا بھی پڑسکتا ہے، جیسا کہ اٹلی میں معاملہ سامنے آیا ہے۔ مغرب میں والدین اور اولاد کا رشتہ کمزور پڑگیا ہے تو اس میں پورا مغربی سماج قصوروار ہے، جہاں خونی رشتوں اور ان کی عزت و حرمت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
گذشتہ برس ایک سولہ سالہ اطالوی لڑکے نے اپنی سگی ماں پر مقدمہ کردیا۔ مقدمے کی بنیاد یہ تھی کہ لڑکے کی ماں بیٹے کی اجازت کے بغیر اس کی تصاویر فیس بُک پر شیئر کردیا کرتی تھی۔ لڑکے نے دعویٰ کیا تھا کہ ماں کی اس حرکت کی وجہ سے اس کی سماجی زندگی اتنی بری طرح متأثر ہوئی ہے کہ وہ امریکا منتقل ہونے پر غور کررہا ہے۔
چند روز قبل روم کی سول کورٹ کی جج نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مدعی کی ماں کو حکم دیا کہ سوشل میڈیا پر اس نے بیٹے کی جو بھی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی ہیں وہ سب ہٹا دے، بہ صورت دیگر دس ہزار یورو کا جرمانہ بھرنے کے لیے تیار رہے ! عدالت نے حکم کی تعمیل کے لیے مدعاعلیہ کو یکم فروری تک کی مہلت دی ہے۔
اطالوی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی تفصیل کے مطابق عدالتی دستاویز ظاہر کرتی ہیں کہ نوجوان اور اس کی ماں کے درمیان تعلقات خوش گوار نہیں تھے۔ ماں باپ میں طلاق ہوجانے کے بعد ماں کے ساتھ اس کا کوئی تنازع پیدا ہوگیا تھا، جس کے بعد مبینہ طور پر نوجوان کی ماں اس کی نجی زندگی سے متعلق تصاویر اور تفصیلات فیس بُک پر شیئر کرنے لگی تھی اور اسے ذہنی مریض اور قاتل بھی کہنا شروع کردیا تھا۔ جج نے فیصلے میں کہا کہ ماں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر مدعی سے متعلق تفصیلات ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں اس کا دعویٰ درست ہے۔
اسی نوعیت کا کیس مذکورہ عدالت میں دو سال پہلے بھی پہنچا تھا، جب ایک اٹھارہ سالہ لڑکے نے اپنی سیکڑوں تصاویر فیس بُک پر پوسٹ کرنے پر اپنے والدین کو عدالت میں گھسیٹ لیا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ایسے واقعات کئی ممالک میں ہورہے ہیں، لہٰذا والدین بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا کے حوالے کرنے سے قبل ان کی رضامندی ضرور لے لیں۔
سوشل میڈیا کی دنیا کے باسی اس جہان میں اپنے ' زندہ' ہونے کا ثبوت تحریری پیغامات یا تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرکے فراہم کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی صارف فیس بُک، ٹویٹر وغیرہ استعمال کرتا ہو اور محبت، نفرت یا جذبات اور خیالات کا اظہار نہ کرے۔
جدید دور کے والدین اپنے بچوںکی تصاویر اور ویڈیوز فیس بُک پر شیئر کرتے رہتے ہیں۔ یہ اقدام اپنی اولاد سے ان کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں جب کہ والدین اور بچوں کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے، خاص طور سے مغربی معاشرے میں جہاں عمومی طور پر اولاد کے دلوں میں والدین کا احترام نام کو نہیں ہوتا، تصاویر یا ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنا مہنگا بھی پڑسکتا ہے، جیسا کہ اٹلی میں معاملہ سامنے آیا ہے۔ مغرب میں والدین اور اولاد کا رشتہ کمزور پڑگیا ہے تو اس میں پورا مغربی سماج قصوروار ہے، جہاں خونی رشتوں اور ان کی عزت و حرمت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
گذشتہ برس ایک سولہ سالہ اطالوی لڑکے نے اپنی سگی ماں پر مقدمہ کردیا۔ مقدمے کی بنیاد یہ تھی کہ لڑکے کی ماں بیٹے کی اجازت کے بغیر اس کی تصاویر فیس بُک پر شیئر کردیا کرتی تھی۔ لڑکے نے دعویٰ کیا تھا کہ ماں کی اس حرکت کی وجہ سے اس کی سماجی زندگی اتنی بری طرح متأثر ہوئی ہے کہ وہ امریکا منتقل ہونے پر غور کررہا ہے۔
چند روز قبل روم کی سول کورٹ کی جج نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مدعی کی ماں کو حکم دیا کہ سوشل میڈیا پر اس نے بیٹے کی جو بھی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی ہیں وہ سب ہٹا دے، بہ صورت دیگر دس ہزار یورو کا جرمانہ بھرنے کے لیے تیار رہے ! عدالت نے حکم کی تعمیل کے لیے مدعاعلیہ کو یکم فروری تک کی مہلت دی ہے۔
اطالوی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی تفصیل کے مطابق عدالتی دستاویز ظاہر کرتی ہیں کہ نوجوان اور اس کی ماں کے درمیان تعلقات خوش گوار نہیں تھے۔ ماں باپ میں طلاق ہوجانے کے بعد ماں کے ساتھ اس کا کوئی تنازع پیدا ہوگیا تھا، جس کے بعد مبینہ طور پر نوجوان کی ماں اس کی نجی زندگی سے متعلق تصاویر اور تفصیلات فیس بُک پر شیئر کرنے لگی تھی اور اسے ذہنی مریض اور قاتل بھی کہنا شروع کردیا تھا۔ جج نے فیصلے میں کہا کہ ماں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر مدعی سے متعلق تفصیلات ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں اس کا دعویٰ درست ہے۔
اسی نوعیت کا کیس مذکورہ عدالت میں دو سال پہلے بھی پہنچا تھا، جب ایک اٹھارہ سالہ لڑکے نے اپنی سیکڑوں تصاویر فیس بُک پر پوسٹ کرنے پر اپنے والدین کو عدالت میں گھسیٹ لیا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ایسے واقعات کئی ممالک میں ہورہے ہیں، لہٰذا والدین بچوں کی تصاویر سوشل میڈیا کے حوالے کرنے سے قبل ان کی رضامندی ضرور لے لیں۔