رانا عثمان۔۔۔ دہشت کی علامت بالآخر مٹ گئی

ان والدین کے لیے، جو اولاد کو نا روا تحفظ دیتے ہیں۔


راشد بن امیر March 23, 2013
ان والدین کے لیے، جو اولاد کو نا روا تحفظ دیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا البتہ حالات، ماحول اور بڑوں کی طرف سے ملنے والی ناروا رعایتیں اسے حرص و ہوا میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بچے سبز چھڑی کی مانند ہوتے ہیں، شروع ہی میں اسے آپ سیدھا کر لیں تو ٹھیک ورنہ بعد میں جب اس کی تراوٹ ختم ہو جاتی ہے تو اس کا ٹیڑھ نکالنا ناممکن نہیں تو دشوارتر ہو جاتا ہے۔ ذیل میں جرائم کی دنیا سے ایک ایسے ہی کردار کی داستان ہے جسے پہلی غلطی پر والدین اور بہن بھائیوں نے روکنے کے بہ جائے اسے سزا سے بچا کر مزید بڑھاوا دیا اور جب اسے بڑوں سے شہ ملی تو اس نے خوب ہاتھ پاؤں نکالے۔

رانا عثمان راوی کنارے تھانہ تلمبہ کے علاقے گھوپڑی رحمان کے ریاست علی کا بیٹا تھا۔ دنیا بھر میں دریاؤں کے کناروں پر آباد علاقوں کو حکومتیں پرکشش بناتی ہیں تاکہ ملکی اور غیر ملکی سیاح آئیں اور سیروتفریح کریں لیکن پاکستان میں دریاؤں کے کناروں پر واقع آبادیاں ڈاکوں قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کی آماج گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ ریاست علی کے دوسرے بیٹے کا نا م رانا عبدالرحمٰن ہے جو پڑھ لکھ کر وکیل بن گیا۔

وہ عدالتو ں میں مجرموں کے خلاف تو سخت سے سخت دفعات لگوانے اور سزائیں سنوانے کے لیے قانون کی کتابوں سے مختلف حوالے دیتا رہتا تھا کہ یہ ہی بہ طور وکیل اس کا فرضِ منصبی ہے لیکن اس نے اس وقت اپنے فرض سے چشم پوشی کی جب اس کے اپنے بھائی کو 20 جنوری 2005 کو اپنے ساتھیوں کے ہم راہ لوئر باری دوآب پل پر پل چوکیاں والہ کے قریب ناجائز اسلحہ سمیت گرفتار کیا تھا، رانا عبدالرحمٰن نے بھائی کو تحفظ فراہم کیا اور اسے سزا سے بچا لیا اور اس نے وہ وہ گل کھلائے کہ جن پر انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔ رانا عثمان نے جرائم کی مکروہ دنیا میں ڈان کا مرتبہ حاصل کیا۔

اسے ٹاپ ٹین اشتہاریوں کی فہرست میں شامل کر وانے میں چند پولیس افسروں کا بھی ہاتھ رہا ہے، ان پولیس افسروں کو بعد میں رانا عثمان نے بچوں کی طرح مرغا بنا کر تشدد کا نشانہ بھی بنایا، رانا عثمان پر مختلف اضلاع میں قتل اور ڈکیتی جیسی سنگین وارداتوں کے 39 مقدمات درج تھے، جن کی ابتدا تھانہ تلمبہ کے علاقے میں چوکیا ں والہ پل کے قریب ہوئی، جہاں وہ ساتھیوں سمیت ناجائز اسلحہ سمیت پکڑا گیا۔ یہ اس پر پہلا مقدمہ تھا۔

2006 میں رانا عثمان نے ساتھیوں کے ہم راہ شورکوٹ سٹی میں ڈکیتی کی واردات کی جس کی پولیس کو بر وقت اطلاع مل گئی اور وہاں اس کی پولیس سے مدبھیڑ ہوگئی، اس مقابلے میں وہ پولیس سے بچ نکلنے میں کام یاب ہوا، جس سے اس کے حوصلے اور بڑھ گئے۔ 2007 میں اس نے خانیوال کے نواحی علاقے مخدوم پو ر میں ڈکیتی کی ایک کام یاب واردات کی اور اس میں لاکھوں روپے نقدی اور زیورات لوٹے۔ اس کے بعد اس پر ''کام یابیوں'' کے دروازے کھل گئے لیکن گھر والے سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کے جرائم پر پردہ ڈالتے رہے۔

مئی 2007 کے آخری دن سٹی شورکوٹ پولیس ضلع جھنگ کو رانا عثمان کی موجودی کی اطلاع ملی لیکن اس بار بھی قسمت نے اس کا ساتھ دیا۔ پے در پے کام یابیاں اور پولیس مقابلوں میں بچ نکلنے پر اب اس کے حوصلے ہر جاتے دن کے ساتھ بلند سے بلندتر ہوتے گئے۔ اب اس نے اب کوئی بڑی واردات کر نے کی ٹھانی اور منصوبہ بندی کرکے ملتان کے علاقہ تھانہ الپہ کے مسلم کمرشل بینک کو لوٹا اور نکل گیا، اس کے بعد اس نے خانیوال کے علاقہ حویلی کورنگا میں ایک اور کام یاب ڈکیتی کی جس سے اس کا نام جرائم کی دنیا میں تسلیم کر لیا گیاق۔ 2007 میں ہی اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہم راہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تھانہ چٹیانہ میں ڈکیتی کی جس کی اطلاع پر پولیس موقع پر پہنچی تو رانا عثمان اور اس کے ساتھیوں نے پولیس پر براہِ راست فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔

اس کے بعد اس نے ملتان کے علاقہ تھانہ الپہ کی حدود میں دو اور کام یاب ڈکیتیاںکیں اور پھر میاں چنوں کے علاقے میں واردات کی۔ نومبر 2007 میں اپنے خلاف ڈکیتی کے مقدمے میں مدعی کے گھر پر فائرنگ کر کے اپنی دہشت بٹھانے کی کوشش کی اور 2007 کے اختتام تک اس نے تھانہ صدر میاں چنوں کے علاقہ میں مزید ڈکیتیاں کیں اور جھنگ کو زد پر لے لیا، یہاں سے ایک بار پھر ملتان کا رخ کیا اور تسلسل کے ساتھ یہاں وارداتیں کیں۔

اُدھر پولیس کے فرض شناس عناصر نوٹس لے رہے تھے۔ ملتان پولیس کی دن رات محنت کے بعد بالآخر اسے ایک کام یابی ملی اور ایک عورت کو گرفتار کیا جس نے اپنا نام بوبی بتایا۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ رانا عثمان کی بیوی ہے اور گھر وں میں ڈکیتیوں کی وارداتوں میں ریکی کر کے اس کا ساتھ دیتی ہے۔ اس پر پولیس نے رانا عثمان کو گرفتار کرنے کے لیے بہت سے مقامات پر چھاپے مارے مگر قسمت اور اس کے گھر والے اس کا ساتھ دے رہے تھے کیوںکہ وہ ان کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی تھی۔

رانا عثمان نے ایک نئی راہ نکالی اور اپنے پاسپورٹ پر دوبئی کا ملٹی پل ویزا لگوا لیا، اب وہ اب ہر بڑی واردات کے بعد دوبئی فرار ہوجاتا اور وہاں سے لوگوں کو ہراساں کر تا۔ اس نے لوگوں سے بھتا وصولنا بھی شروع کردیا۔ 2008 کے اوائل میں اس نے اپنے ساتھیوں کے ہم راہ احمد پور سیال کے ایک گھر میں واردات کی اور وہاں سے لاکھوں روپے نقدی اور زیورات لوٹے، جنوری 2008 میں ہی تھانہ شورکوٹ میں ایک ڈکیتی میں اڑھائی کلو سونا اور نقدی لوٹی اور سونا فروخت کرنے ملتان پہنچ گیا، اس موقع پر اس کی پولیس سے پھر مڈبھیڑ ہوگئی، اس میں ایک پولیس اہل کار اس کے ہاتھوں شہید ہوا جب کہ ان کا بھی ایک ساتھی اسلم گل مارا گیا۔

اس کے بعد بھی ملتان اور دیگر علاقوں میں اس نے پے درپے وارداتیں کیں جن میں تھانہ گلگشت، تھانہ تلمبہ، تھانہ سٹی میاں چنوں، تھانہ سرائے سدھو شامل ہیں۔ اب اس نے مزید پر پرزے یوں نکالے کہ لوگوں کی زمینیں بھی چھیننا شروع کر دیں۔ کئی اضلاع میں اس کی اتنی دھاک بیٹھ گئی کہ آس پاس کے ڈکیت اس کی پناہ میں آنے لگے، اسے ان کی وارداتوں سے بھی حصہ ملنے لگا۔

جرائم پیشہ عناصر نے اسے اپنا بے تاج بادشاہ مان لیا۔ اس کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ اس نے تھانہ سٹی میاں چنوں کے علاقے میں صراف کو لوٹنے کے بعد اسے قتل کیا اور جائے وقوعہ پر واقع ایک ہوٹل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر سکون سے کھانا کھایا، پولیس کو اطلاع تو ملی لیکن کسی کو اس کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ 2012 میں اس گروہ نے تلمبہ روڑ پر واقع ایک کاٹن فیکٹری میں کیش لے جاتے ہوئے ملازمین سے 18 لاکھ روپے چھینے اور مزاحمت کرنے پر ان تینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

قتل اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں ملوث اس انسا ن شیطانی چہرہ اس وقت سامنے آیا جب اس نے کبیروالہ کے قریب جودھ پور ٹال پلازہ پر ڈائیوو بس لوٹی اور اس بس کی میزبان بچی کی عزت بھی لوٹی، یقیناً اس بے بس کی آہ عرش تک پہنچی ہوگی۔ پنجاب حکومت نے ایک کم عمر اور بڑے ویژن والے دلیر ڈی پی او رائے اعجاز احمد کھر ل کو خانیوال کا چارج سونپا۔ رائے اعجاز نے ضلع بھر کے پولیس افسروں کے ساتھ اجلاس کیا اور ان کو جرائم ختم کر نے کا حکم دیا اس کے ساتھ ہی ان میں جرائم پیشہ افراد سے لڑنے کا حوصلہ بھی دینا شروع کیا۔

انہوں نے خانیوال میں سی آئی اے پولیس کی ازسر نو تشکیل کی اور ایک ہونہار پولیس افسر رحمت علی چھٹہ کو اس کا انچارج بنایا، اسے جدید اسلحہ،گاڑیاں اور بلٹ پروف جیکٹیں بھی فراہم کیں اس کے ساتھ ساتھ کبیروالہ سرکل اور دریا کے علاقوں کے نزدیک بہترین ایس ایچ او، جن میں کرائم فائٹر انسپکٹر رضوان یوسف اور منظو بٹ کو تعینات کیا۔ وہ خود بھی دن بھر دفتر میں بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنتا اور راتوں کو خود تھانوں کو چیک کرنے نکل جاتا۔ اس دوران اس نے پولیس افسروں کو جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کا حوصلہ اور ترغیب دینے کا عمل جاری رکھا جس کے ثمرات صرف تین ماہ بعد ہی سامنے آنا شروع ہوگئے۔

رانا عثمان دوبئی سے ایک بار پھر پاکستان آیا اور آتے ہی اس نے تھانہ بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی کی حدود میں ایک گھر میں ڈکیتی کی واردات کی، لوٹ مار کر کے جاتے ہوئے گھر میں کھڑی ایک سفید رنگ کی کرولا کار ایکس ایل آئی میں اپنے ساتھیوں سمیت فرار ہوگیا، راستے مں انہوں نے ایک کار سوار رجب علی کو بھی لوٹا اور خانیوال کی تحصیل کبیروالہ کے علاقہ قتال پور میں ناکا لگا کر گزرنے والی ہر گاڑے اور لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ پولیس کو اطلاع ملی تو ڈی پی او نے فوری طور پر تھانہ حویلی کورنگا پولیس، سی آ ئی اے پولیس اور کبیروالہ سرکل پولیس کو اس جانب روانہ کیا۔ آخرکا ر وہاں پولیس اور ڈکیتوں کا آمنا سامنا ہوگیا، گولیوں کا زبردست تبادلہ خاصی دیر تک جاری رہا۔

آخرکار پولیس کی ایک ٹیم جس کی قیادت رحمت علی چھٹہ کر رہا تھا، کی فائرنگ سے رانا عثمان کا قصہ تمام ہو ہی گیا البتہ اس کے دوسرے ساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کام یاب رہے۔ خوف و دھشت کی علامت رانا عثمان کی ہلاکت سے جرم کا ایک قبیح باب تو ختم ہوگیا لیکن والدین، بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا کہ آخر ہم اپنے خونی رشتوں کو جرم کی ابتدا ہی میں روکنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی اور پردہ پوشی کرکے رانا عثمان سے رانا عثمان ڈاکو اور قاتل کیوں بنا دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں