بے بنیاد شک۔۔۔
بہن، بھائی سے اور بچے باپ سے محروم ہوگئے۔
کہتے ہیں غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اور انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔
اسلام میں غصے کو اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ غصے کی حالت میں اٹھنے والا قدم اور فیصلہ غلط ہوتا ہے جس سے نہ صرف انسان خود نقصان اٹھاتا ہے بل کہ خاندان تک تباہ برباد ہوجاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
چند روز قبل رحیم یارخان شہر کے علاقہ تھلی روڈ نزد مدرسہ الکلیۃ الاسلامیہ کے نزدیک قتل کی لرزہ خیز واردات نے شہریوں کو افسردہ کردیا جب کہ بہن کی طرف آنے والی موت کو گلے لگا کر چھوٹے بھائی نے قربانی کی ایک نئی مثال قائم کردی۔ یہ المیہ اس وقت پیش آیا جب بدچلنی کے شبہے میں شوہر نے بیوی کو خنجر کے وار کرکے قتل کرنا چاہا لیکن درمیان میں بہن کو بچانے کے لیے اس کا چھوٹا بھائی ڈت گیا۔ واقعات کے مطابق ڈاہر برادری کے اجمل ولد عطاء محمد ڈاہر نے گیارہ سال قبل اپنے ماموں کی بیٹی نسرین سے بڑی دھوم دھام کی ساتھ شادی کی اور ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں۔
اس دوران تین بچوں نے جنم لیا جن میں 10 سالہ بیٹا شیروز خان' 6 سالہ علی رضا خان اور 4 سالہ زہرہ بی بی شامل ہیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی میاں بیوی میں جھگڑا ہونا معمول بن گیا۔ نسرین بی بی، شوہر کے گھر کا خرچ نہ دینے اور نشہ کرنے سے نالاں تھی جب کہ شوہر اس پر بدچلنی کا شبہ کرتا رہا۔ مبینہ اطلاعات کے مطابق نسرین کے شوہر اجمل ڈاہر نے چار سال سے گھر کا خرچ دینا بند کر رکھا تھا تو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے نسرین بی بی گھر کے سامنے گورنمنٹ گرلز اسکول میں ٹیچنگ کرتی اور اہل محلہ کے گھروں میں کام کرکے بچے پال رہی تھی۔
چند روز قبل نسرین کا جواں سال بھائی نوید ڈاہر اپنی بہن کے گھر آیا اور اسے کہا کہ اب وہ ان کے ساتھ رہ کر کام کرے گا اور اپنے بھانجوں اور بھانجی کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گا۔ اس دوران ندیم نے کچھ عرصہ گارمنٹس کی دکان پر کام بھی کیا۔ چند روز قبل اس نے تھلی روڈ پر ہی اپنی دکان حاصل کرلی تھی کہ بدھ اور جمعرات کی سہ پہر اجمل ڈاہر، جو شاہی روڈ پر واقع پہلوان ہوٹل میں ملازم تھا۔
اچانک گھر آیا اور بغل سے بڑی چھری نکال کر بیوی کو قتل کرنے کے لیے حملہ آور ہوا، تیز دھار چھری کا پہلا وار لگتے ہی نسرین کی چیخیں نکل گئیں اور وہ جان بچانے کے لیے کمرے کی طرف دوڑی اور اندر سے کنڈی لگاتے ہوئے مدد کے لیے پکارنے اور رحم کی اپیل کرنے لگی مگر سنگ دل قاتل پر خون سوار تھا، اس نے دروازہ توڑ دیا اس دوران ندیم بہن کی چیخیں سن کر پہنچ گیا اور بہنوئی کو پکڑا اور اسے منع کرنے لگا تو اس نے چھری کے پے در پے وار کرکے اسے قتل کردیا، نسرین بھائی کو زمین پر گرتا دیکھ کر گلی کی طرف بھاگی، قاتل بھی اس کے پیچھے گلی میں پہنچا اور اسے پکڑ کر قتل کرنا ہی چاہتا تھا کہ اس دوران اہل محلہ نے اجمل ڈاہر کو پکڑ کر چھری چھین لی اور یوں نسرین کی جان بچ گئی۔
لوگوں نے ملزم کو موقع پر پہنچنے والے ایس ایچ او تھانہ سی ڈویژن عثمان حیدر گجر اور اہل کاروں کے حوالے کردیا جب کہ ریسکیو 1122 کی ٹیم نے زخمی نسرین بی بی کو موقع پر طبی امداد دینے کے بعد شیخ زید اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ منتقل کردیا جہاں طبی امداد ملنے کے باعث اس کی جان بچ گئی۔ ملزم نے میڈیا کو بتایا کہ اسے بیوی سے محبت تھی مگر اس کی بیوی کسی اور سے محبت کرتی تھی جو مجھ سے برداشت نہیں ہوئی اور غصہ آگیا اس لیے اسے قتل کرنے کا مصمم ارادہ کرکے آیا تھا لیکن اس کی زندگی کے دن باقی تھے، وہ بچ گئی، ندیم کو مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، وہ شریف نوجوان تھا، بے گناہ مارا گیا۔ موقع پر موجود اہل علاقہ نے نسرین بی بی پر بدچلنی کے الزام کو یک سر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاتون ہے، لوگوں کے کپڑے اور برتن دھو دھو کر گزر اوقات کررہی ہے، اس کا شوہر نشے کا عادی ہے، گھر خرچ نہیں دیتا تھا اور بیوی پر ناجائز شبہ کرتا تھا۔
پولیس نے مقتول ندیم کے بہنوئی امداد حسین شاہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ہے جس کے باعث ملزم کو جیل اور عدالت سے یقیناً موت کی سزا کا حکم بھی سنا دیا جائے گا لیکن یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اسے پھانسی پر لٹکایا جائے گا یا بہر سے دیگر مقدمات کی طرح فریقین کے وارثوں کے درمیان راضی نامہ ہو جائے گا، سزائے موت ہونے پر بھائی سے محروم ہونے والی بہن کی طرح معصوم بچے ماموں کی جدائی کے بعد باپ کے سائے سے محروم زندگی گزاریں گے، راضی نامہ ہوا بھی تو کون کس سے معافی مانگے اور کون کسے کس بنیاد پر معاف کرے گا، پیار محبت کی ڈور میں بندھے خونی اور کاغذی رشتے کیا ایک بار پھر جڑ سکیں گے؟ اگر اس کا جواب نہیں میں ہے تو پھر ہمیں ایسا گھنائونا فعل کرنے سے قبل سوچنا اور خود کو روکنا ہے۔
اسلام میں غصے کو اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ غصے کی حالت میں اٹھنے والا قدم اور فیصلہ غلط ہوتا ہے جس سے نہ صرف انسان خود نقصان اٹھاتا ہے بل کہ خاندان تک تباہ برباد ہوجاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
چند روز قبل رحیم یارخان شہر کے علاقہ تھلی روڈ نزد مدرسہ الکلیۃ الاسلامیہ کے نزدیک قتل کی لرزہ خیز واردات نے شہریوں کو افسردہ کردیا جب کہ بہن کی طرف آنے والی موت کو گلے لگا کر چھوٹے بھائی نے قربانی کی ایک نئی مثال قائم کردی۔ یہ المیہ اس وقت پیش آیا جب بدچلنی کے شبہے میں شوہر نے بیوی کو خنجر کے وار کرکے قتل کرنا چاہا لیکن درمیان میں بہن کو بچانے کے لیے اس کا چھوٹا بھائی ڈت گیا۔ واقعات کے مطابق ڈاہر برادری کے اجمل ولد عطاء محمد ڈاہر نے گیارہ سال قبل اپنے ماموں کی بیٹی نسرین سے بڑی دھوم دھام کی ساتھ شادی کی اور ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں۔
اس دوران تین بچوں نے جنم لیا جن میں 10 سالہ بیٹا شیروز خان' 6 سالہ علی رضا خان اور 4 سالہ زہرہ بی بی شامل ہیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی میاں بیوی میں جھگڑا ہونا معمول بن گیا۔ نسرین بی بی، شوہر کے گھر کا خرچ نہ دینے اور نشہ کرنے سے نالاں تھی جب کہ شوہر اس پر بدچلنی کا شبہ کرتا رہا۔ مبینہ اطلاعات کے مطابق نسرین کے شوہر اجمل ڈاہر نے چار سال سے گھر کا خرچ دینا بند کر رکھا تھا تو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے نسرین بی بی گھر کے سامنے گورنمنٹ گرلز اسکول میں ٹیچنگ کرتی اور اہل محلہ کے گھروں میں کام کرکے بچے پال رہی تھی۔
چند روز قبل نسرین کا جواں سال بھائی نوید ڈاہر اپنی بہن کے گھر آیا اور اسے کہا کہ اب وہ ان کے ساتھ رہ کر کام کرے گا اور اپنے بھانجوں اور بھانجی کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گا۔ اس دوران ندیم نے کچھ عرصہ گارمنٹس کی دکان پر کام بھی کیا۔ چند روز قبل اس نے تھلی روڈ پر ہی اپنی دکان حاصل کرلی تھی کہ بدھ اور جمعرات کی سہ پہر اجمل ڈاہر، جو شاہی روڈ پر واقع پہلوان ہوٹل میں ملازم تھا۔
اچانک گھر آیا اور بغل سے بڑی چھری نکال کر بیوی کو قتل کرنے کے لیے حملہ آور ہوا، تیز دھار چھری کا پہلا وار لگتے ہی نسرین کی چیخیں نکل گئیں اور وہ جان بچانے کے لیے کمرے کی طرف دوڑی اور اندر سے کنڈی لگاتے ہوئے مدد کے لیے پکارنے اور رحم کی اپیل کرنے لگی مگر سنگ دل قاتل پر خون سوار تھا، اس نے دروازہ توڑ دیا اس دوران ندیم بہن کی چیخیں سن کر پہنچ گیا اور بہنوئی کو پکڑا اور اسے منع کرنے لگا تو اس نے چھری کے پے در پے وار کرکے اسے قتل کردیا، نسرین بھائی کو زمین پر گرتا دیکھ کر گلی کی طرف بھاگی، قاتل بھی اس کے پیچھے گلی میں پہنچا اور اسے پکڑ کر قتل کرنا ہی چاہتا تھا کہ اس دوران اہل محلہ نے اجمل ڈاہر کو پکڑ کر چھری چھین لی اور یوں نسرین کی جان بچ گئی۔
لوگوں نے ملزم کو موقع پر پہنچنے والے ایس ایچ او تھانہ سی ڈویژن عثمان حیدر گجر اور اہل کاروں کے حوالے کردیا جب کہ ریسکیو 1122 کی ٹیم نے زخمی نسرین بی بی کو موقع پر طبی امداد دینے کے بعد شیخ زید اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ منتقل کردیا جہاں طبی امداد ملنے کے باعث اس کی جان بچ گئی۔ ملزم نے میڈیا کو بتایا کہ اسے بیوی سے محبت تھی مگر اس کی بیوی کسی اور سے محبت کرتی تھی جو مجھ سے برداشت نہیں ہوئی اور غصہ آگیا اس لیے اسے قتل کرنے کا مصمم ارادہ کرکے آیا تھا لیکن اس کی زندگی کے دن باقی تھے، وہ بچ گئی، ندیم کو مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، وہ شریف نوجوان تھا، بے گناہ مارا گیا۔ موقع پر موجود اہل علاقہ نے نسرین بی بی پر بدچلنی کے الزام کو یک سر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاتون ہے، لوگوں کے کپڑے اور برتن دھو دھو کر گزر اوقات کررہی ہے، اس کا شوہر نشے کا عادی ہے، گھر خرچ نہیں دیتا تھا اور بیوی پر ناجائز شبہ کرتا تھا۔
پولیس نے مقتول ندیم کے بہنوئی امداد حسین شاہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ہے جس کے باعث ملزم کو جیل اور عدالت سے یقیناً موت کی سزا کا حکم بھی سنا دیا جائے گا لیکن یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اسے پھانسی پر لٹکایا جائے گا یا بہر سے دیگر مقدمات کی طرح فریقین کے وارثوں کے درمیان راضی نامہ ہو جائے گا، سزائے موت ہونے پر بھائی سے محروم ہونے والی بہن کی طرح معصوم بچے ماموں کی جدائی کے بعد باپ کے سائے سے محروم زندگی گزاریں گے، راضی نامہ ہوا بھی تو کون کس سے معافی مانگے اور کون کسے کس بنیاد پر معاف کرے گا، پیار محبت کی ڈور میں بندھے خونی اور کاغذی رشتے کیا ایک بار پھر جڑ سکیں گے؟ اگر اس کا جواب نہیں میں ہے تو پھر ہمیں ایسا گھنائونا فعل کرنے سے قبل سوچنا اور خود کو روکنا ہے۔