نئے سفر کی شروعات

پانچ برسوں کے دوران عوام کے متوسط طبقے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ یومیہ اجرت پرکام کرنے والے مزدور کی حالت پہلے۔۔۔


Editorial March 23, 2013
پانچ برسوں کے دوران عوام کے متوسط طبقے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کی حالت پہلے سے بھی خراب رہی۔ فوٹو: فائل

KARACHI: ملک نئے انتخابات کی طرف جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔ پولنگ کے لیے 11مئی کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ آج سے کاغذات نامزدگی کی وصولی شروع ہو گی جو 29 مارچ تک جاری رہے گی۔ انتخابی مہم کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف سے 21 روز دیئے گئے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بہت پہلے انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں۔

یوں جمہوریت نے پانچ برس پورے کر لیے۔ اس موقع پر اگر موجودہ حکومت کے پانچ سالہ دور پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو ہم دیکھیں گے کہ ملک کی معیشت مسلسل روبہ زوال رہی اور گرانی فزوں تر۔ کئی سال تک 60' 62 روپے پر رکا رہنے والا امریکی ڈالر قلانچیں بھرتا سو روپے کے لگ بھگ پہنچ گیا۔ یہی حال پٹرول اور ڈیزل کا ہوا۔ توانائی کے بحران نے ملکی معیشت پر انتہائی مضر اثرات مرتب کیے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں اندرونی اور بیرونی مالیاتی اداروں کے قرض کے حجم میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

ان پانچ برسوں میں توانائی کے لیے حکومت نے جو کوششیں کیں، وہ اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں لیکن ان کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکے۔ بیروزگاری کی شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ لاقانونیت اور دہشت گردی نے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں صورتحال انتہائی خراب رہی۔ ان پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تو جمہوری حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی قابل رشک نہیں کہی جا سکتی۔

تقریباً تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہی ہیں، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق مرکزی حکومت میں شامل رہیں۔ خبیر پختونخوا میں اے این پی کے ساتھ پیپلز پارٹی اتحادی رہی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم اتحادی رہی۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی کچھ عرصہ قبل تک مرکز میں حکومت کے اتحاد ی تھے جب کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں بر سر اقتدار ہے۔ یوں گزشتہ پانچ سال کی ناکامیوں میں ان سب جماعتوں کا اپنے اپنے دائرہ کار میں حصہ موجود ہے۔

پانچ برسوں کے دوران عوام کے متوسط طبقے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کی حالت پہلے سے بھی خراب رہی۔ مہنگائی اور افراط زر نے محدود آمدنی والے طبقات کی زندگی کو زیادہ مشکل بنا دیا۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ گزشتہ روز محکمہ شماریات نے قیمتوں کا ہفتہ وار حساس عشاریہ جاری کیا ہے جس کے مطابق افراط زر میں ایک ہفتے کے دوران 0.15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ محض ایک ہفتے میں ہونے والا اضافہ ہے جب کہ افراط زر اور گرانی میں اضافے کا رجحان مسلسل پانچ سال جاری رہا ہے اور مارکیٹ کا یہ حال ہے کہ آپ کوئی بھی چیز خریدنے جائیں اس کے نرخ میں پہلے کی نسبت لازماً کچھ نہ کچھ اضافہ پائیں گے۔

ہفتہ وار پرائس انڈیکس میں جو جمعے کو جاری کیا گیا بتایا گیا ہے کہ افراط زر کا سب سے زیادہ بوجھ سب سے کم آمدنی والے طبقے پر پڑا ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق یہ اعداد و شمار ملک کے 17 اہم شہروں کی 53 مارکیٹوں سے اکٹھے کیے گئے جن میں 53 مختلف اشیاء کی قیمتوں میں ایک ہفتے کے دوران ہونے والے اضافے کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 53 میں سے 13 اشیاء کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ مزید تفصیل کے مطابق اشیائے خوردنی میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ صرف پیاز کے نرخوں میں، جو کہ کچن میں روزانہ استعمال ہوتا ہے، 22.62 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ چائے' آلو، پھل فروٹ' سبزیوں اور گوشت وغیرہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔

بعض زود رنج لوگ تو موجودہ حکومت کو مہنگائی کے طوفان کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ اندرون ملک زیادہ خرابی توانائی کے بحران سے ہوئی جس کے حل کے لیے بعض فروعی اقدامات تو بلاشبہ نظر آئے مگر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا کہ جس سے ہمارے ''قومی گرڈ'' میں توانائی کے ذخیرے کا اضافہ ممکن ہو سکتا۔ توانائی کے اس بحران کے سب سے زیادہ مضر اثرات ہماری انڈسٹری پر نظر آئے۔ بے شمار چھوٹی صنعتیں اول تو بند ہو گئیں اور وہاں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کش بیروزگاری کی دلدل میں جا گرے۔ جرائم میں اضافے کی بنیادی وجوہ میں بیروزگاری کا درجہ بلند تر ہے۔

اس کے علاوہ بعض صنعت کاروں نے اپنی قیمتی مشینری کو بیرون ملکوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مقام حیرت و استعجاب ہے کہ منتقلی کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ملک وہی رہا جو ہمارے اپنے جسد کا مشرقی بازو تھا اور جسے اس وقت کے مغربی پاکستان کے طاقتور طبقوں نے ملکی معیشت پر بوجھ قرار دے کر سر سے اتار پھینکا تھا۔ آنے والی حکومت کو ملکی معیشت کو بہتر بنانے کا چیلنچ درپیش ہو گا۔ عجیب بات یہ کہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس کو ایسا معاشی نظام نہیں ہے جس کے بل بوتے پر وہ ملک کو مالی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب تک سیاسی جماعتوں کا سارا زور جوڑ توڑ پر ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں کامیابی کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں اور ملک کی معیشت ان کی ترجیحات میں بہت نچلی سطح پر ہے۔ عام انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ملکی معیشت کے حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔ پاکستان عالمی سرمایہ کاروں کے لیے کشش کھو رہا ہے۔ امن و امان کی خراب صورتحال، توانائی کے بحران اور مستحکم معاشی نظام نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ یہاں آنے سے کترا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس ایسا پروگرام ہونا چاہیے جس سے داخلی اور بیرونی سطح پر یہ پیغام جائے کہ عام انتخابات میں کوئی بھی جماعت کامیاب ہو، ملک کے نظام میں بہتری آئے گی، اس سے ہی ملک مستحکم ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں