پانی کا اسراف روکا جائے

وطن عزیز کا شمار پانی کی کمی کا شکار ہونے والے سترہ ملکوں میں ہوتا ہے اور ہمارے ہاں پانی کی فی کس دستیابی کی شرح۔۔۔


Editorial March 23, 2013
وطن عزیز کا شمار پانی کی کمی کا شکار ہونے والے سترہ ملکوں میں ہوتا ہے اور ہمارے ہاں پانی کی فی کس دستیابی کی شرح خطرے کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

KARACHI: عالمی یوم آب زرعی ملک پاکستان میں بڑی خاموشی سے گزرگیا، پانی کرہ ارض پر بسنے والی تمام نوع حیات کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ تعلیم اور شعور و آگہی کی کمی کے باعث عوام تو اس مسئلے کی سنگینی سے تقریباً ناآشنا ہیں، انھیں اس بات کا قطعی فہم و ادارک نہیں کہ آنے والے چند برسوں میں پانی کی قلت شدید غذائی بحران پیدا کردے گی اور خدانخواستہ قحط کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔

جب کہ حکومتی سطح پر ہم اس سنگین مسئلے کا حل نکالنے کی منصوبہ بندی سے محروم نظر آتے ہیں، جب اقوام عالم کی متفقہ رائے یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے مستقبل میں دنیا کو پینے کے صاف پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے باعث افریقہ، ایشیا اور دنیا کے بعض علاقوں میں جنگیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہیں۔ بہتر طرز زندگی اور معاش کی تلاش میں گائوں سے شہروں میں نقل مکانی کے رجحان میں اضافے کے سبب دنیا بھر کے شہروں میں 114 ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے لیکن انھیں صاف پانی کی سہولت تک گھروں کے قریب میسر نہیں ہے۔ پاکستان میں آبادی اور وسائل کا توازن بگڑ چکا ہے۔

وطن عزیز کا شمار پانی کی کمی کا شکار ہونے والے سترہ ملکوں میں ہوتا ہے اور ہمارے ہاں پانی کی فی کس دستیابی کی شرح خطرے کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پانی کی دستیابی کی فی کس شرح 5600 کیوبک میٹر تھی جو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کے ناپائیدار استعمال کی وجہ سے گھٹ کر ایک ہزار کیوبک میٹر تک پہنچ چکی ہے۔ تینتیس برس بیت گئے، ہم کوئی نیا ڈیم نہیں بناسکے۔ لے دے کر جو آبی ذخائر ہیں ان کا احوال کچھ یوں ہے کہ سلٹ جمع ہونے سے منگلا، تربیلا اور چشمہ بیراج میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 32 فیصد کمی ہوچکی ہے۔

پاکستان کے دریاؤں سندھ، جہلم، چناب اور دیگر دریاؤں میں سالانہ جو پانی آتا اس کا صرف نو فیصد پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ دنیا میں پانی ذخیرہ کرنے کی اوسط صلاحیت چالیس فیصد ہے، پاکستان میں دریاؤں کا پانی صرف ایک ماہ تک اسٹور کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسال ہمیں سیلابوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہزاروں افراد جان سے جاتے ہیں، اربوں روپوں کا مالی نقصان ہوتا ہے اور لاکھوں بے گھر ہوجاتے ہیں۔ معیشت کی کمر توڑنے کے لیے سیلاب کا ایک وار ہی کافی ہوتا ہے، لیکن اسے ہم ''قدرتی آفت'' قرار دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں، حالانکہ سیلاب کے نقصانات کو دنیا بھر میں کم سے کم کرنے کے بہترین منصوبے بنائے جاچکے ہیں۔ ہم اپنے آبی وسائل کا 90 فیصد زرعی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

دریائوں کے بہائو میں مسلسل کمی آ رہی ہے جب کہ ہمارے پانی کا بڑا حصہ پرانے اور بوسیدہ نہری نظام کی وجہ سے کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہوجاتا ہے۔ عالمی تحقیق کار کہتے ہیں پانی کی کمی سے پاکستان کا زرعی نظام بری طرح مثاثر ہورہا جس کے باعث خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر گندم (ایک کلو، 1500 لیٹر)، چاول (ایک کلو، 2500 لیٹر) ایک کلو چینی (16 ہزار لیٹر پانی) اور گنا جیسی فصلیں شامل ہیں۔ جب کہ پانی کی شدید قلت کے پیش نظر اب ہمیں اپنی غذائوں میں بھی توازن پیدا کرنا ہوگا۔

پانی کے عالمی دن کے موقعے پر کسان بورڈ پاکستان کی کال پر کسانوں نے سیکڑوں مقامات پر انڈیا کی آبی جارحیت اور نئے ڈیم تعمیر نہ کرنے پر حکمرانوں کی بے حسی کے خلاف یوم سیاہ منایا، ریلیاں نکالیں اور گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرائے۔ ہر بات کا ذمے دار ''حکومت'' کو قرار دینا تو ہمارا محبوب مشغلہ بن چکا ہے، لیکن پاکستان کے شہروں میں بسنے والے متوسط اور خوشحال طبقے کے افراد کا طرز عمل بھی خاصا حوصلہ شکن ہے، کہیں ہم نلکے سے پائپ لگاکر اور پانی کی موٹر چلا کر گھروں کے در و دیواروں کو گھنٹوں دھوتے ہیں تو کہیں سیکڑوں گیلن میٹھا پانی ہم اپنی گاڑیوں کو دھونے دھلانے میں ضایع کررہے ہیں یا پھر اپنے وسیع و عریض لان میںسبزہ سینچنے کے لیے پائپ کے ذریعے پانی لگا کر بھول جاتے ہیں۔

اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوپاتا ہے جب گھر کے بالائی ٹینک کا پانی ہماری عدم توجہی کے سبب گلیوں اور سڑکوں پر بلاوجہ بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے، یوں لاکھوں روپے کی مالیت سے تیار کردہ نئی سڑک چند ماہ میں ٹوٹ پھوٹ اور شکستگی کا شکار ہوجاتی ہے اور ہم سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے حکومت کو کوسنے دے رہے ہوتے ہیں۔ کاش ہمیں بحیثیت مسلمان ہی یہ احساس ہوجائے کہ ہم رب کی عطاکردہ نعمت کا اسراف کرکے ناشکرے پن کا شکار نہ ہوں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہم تقریباً 30 لاکھ ایکڑ فٹ استعمال شدہ پانی جھیلوں، چشموں اور ندی نالوں میں بہا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا قدرتی آبی ماحول تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے لہٰذا ہمیں عوامی اور حکومتی سطح پر مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی سے کام لینا پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں