دو دہائیاں اور دو لمحے
یہ ریاست کی طاقت اور صحافت میں رزم آرائی کی انوکھی داستان تھی جس میں ریاست کی طاقت کو شکست ہوئی اور نہتے۔۔۔
یہ کالم نگار تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا سیکڑوں نگاہوں کا مرکز بنا گم سم، چپ چاپ زیر لب خدائے بلند و برتر کا شکر ادا کر رہا تھا جس کو اپنے خاص فضل و کرم سے دو دہائیوں بعد، کامل 20 سا ل 20 دن بعد اسے سر خرو کر دیا تھا۔3 مارچ 1993ء کو شروع ہونے والی کہانی کا آخری باب 23 مارچ 2013ء کو ایوان صدر کے مرکزی ہال میں ختم ہو رہا تھا۔ سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن کی آواز گونج رہی تھی ''انٹر نیوز ایجنسی نے مشرق وسطی میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا۔
بد ترین حالات میں تن تنہا، پاکستانی ریاست اور عوام کا موقف مثبت انداز میں ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کیا'' میں دھیرے دھیرے اسٹیج کی طرف بڑھ رہا تھا، صدر مملکت آصف زرداری بیرون ملک پاکستان کے لیے قابل قدر خدمات کے صلے میں تمغہ امتیاز دینے والے تھے۔ جس کے ساتھ ہی دو دہائیوں کے بعد ریاست، سیاست اور صحافت کی تکونی آویزش پر مبنی دلچسپ اور سبق آموز داستان اختتام پذیر ہو رہی تھی۔
اس کہانی کے دو مرکزی کردار اسٹیج پر آمنے سامنے تھے۔ آج مدعی اپنے ملزم کی خدمات کا اعتراف کر رہا تھا۔ دو دہائی قبل عائد کیے جانے والے الزامات کی از خود نفی کر رہا تھا۔ یہ کالم نگار سوچ رہا تھا کہ انٹر نیوز کا سارا کریڈٹ تو برادرم عدنان رحمت کا حق ہے۔ جس نے دن رات ایک کر کے پاکستان میں پہلی بار مکمل کمپیوٹرائیزڈ نیوز ایجنسی کی بنیاد رکھی اور فاصلاتی نیوز روم کی فلاسفی کو مجسم کر کے دکھایا جس کے معیار کو مدتیں گزرنے کے بعد آج تک کوئی نہیں چھو سکا ورنہ
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
تمام واقعات، مبسوط اور مربوط فلم کی طرح میری نگاہوں کے سامنے چل رہے تھے، اس کہانی کا مرکزی کردار مرحوم اظہر سہیل تھے، پھر ان سے آویزیش کا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا تھا کہ برادر مکرم جواد نظیر اور سید والا تبار عباس اطہر نے آخری لمحات میں 3 مارچ 1993ء کی شام مجھے سمجھانے بجھانے کے لیے دلائل کے انبار لگا دئیے تھے لیکن اس وقت کا شوریدہ سر نوجوان زمانے کی اونچ نیچ کیا سمجھتا، معاشی مجبوریوں کو کیا خاطر میں لاتا، وہ افغانستان کے کوہساروں میں مدتوں برسرپیکار رہا تھا۔
مہینوں سنگلاخ کوہ و دمن کی خاک چھانی تھی کہ جس کے لہجے میں کھردرا پن چار دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک ختم نہیں ہو سکا۔ مرحوم اظہر سہیل تو رب کے حضور پیش ہو چکے اور ہم سب اس منزل کو پانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں لیکن اس فساد میں سب سے بڑی قربانی تو برادرم فاروق فیصل خان اور ان کے اہل خانہ کو دینا پڑی تھی۔ راولپنڈی میں ان کے گھر کے باہر اسلام آباد پولیس نے مستقل چوکی بنا دی تھی اور انھیں 6 ماہ تک روپوش رہنا پڑا تھا۔ یہ میری زندگی کا ناقابل فراموش عرصہ ہے۔ جتنی بار بھی یاد کروں، اتنی بار ہی نیا اور تازہ نظر آتا ہے۔
مجھے اپنے سارے مہربان اور دوست یاد آ رہے تھے۔ ایک فلم دماغ میں چل رہی تھی جناب اسماعیل پٹیل، سید انور محمود، ملک فضل الرحمٰن، ایس کے محمود، اشفاق گوندل، رشید چوہدری، انور زاہد، بریگیڈئیر عجائب، مشاہد حسین سید، چوہدری شجاعت حسین، حکومتیں گرانے کا کھیل کھیلنے والے جاسوسی دنیا کے اساطیری کردار بریگیڈیئر امتیاز اور سب سے بڑھ کر جنرل حمید گل، خواجہ اعجاز سرور اور خندق کے ساتھی حسین حقانی نے اس ہائی پروفائل مقدمے میں اس کالم نگار کو حوصلہ دیا، ہمت بڑھائی حقائق کی روشنی میں تلخیوں سے روشناس کرایا اور اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کی تعداد تو سیکڑوں میں تھی کیسے کیسے مہربان چہرے سامنے گھوم رہے تھے۔ جناب سید سعود ساحر' نواز رضا' میاں سہیل اقبال باؤ' رشید خاں' ایوب ناصر' ندیم ملک 3 مارچ کی رات ہمارے ساتھ تھے۔
میرے دوست کالم نگار طارق چوہدری اب بھی کبھی یادیں کریدتے ہوئے 3 مارچ کی رات کا منظر نامہ مکمل تفصیلات کے ساتھ مصور کر دیتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس اور دیگر وفاقی ادارے ہمارے تعاقب میں تھے اور ہم لاہور میں منو بھائی' شاہین قریشی اور جواد نظیر کے زیراہتمام شاہانہ رہائش گاہوں میں زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لاہور کی صحافتی کہکشاں نے اپنے بازو و دل ہمارے لیے وا کر دئیے تھے۔
یہ ریاست کی طاقت اور صحافت میں رزم آرائی کی انوکھی داستان تھی جس میں ریاست کی طاقت کو شکست ہوئی اور نہتے قلم کار سرخرو ٹھہرے۔ اب تو مدتیں بیت چکیں اس لیے یہ حقیقت سامنے لانے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ جناب مجید نظامی تھے جنھوں نے لاہور ہائی کورٹ سے ہماری ضمانتوں کی توثیق کرائی تھی۔ اسلام آباد میں اپنی دو دہائیوں پر محیط پیشہ وارانہ زندگی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو اطمینان ہوتا ہے
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
ساری دنیا گھوما، درجنوں یونیورسٹیوں میں مدعو کیا گیا، میڈیا کانفرنسوں میں شریک ہوا لیکن صدر، وزیر اعظم یا سرکاری دورے کے لیے ہاتھ نہ پھیلایا آج تک کوئی سرکاری دورہ نہ کیا یہ منفرد اعزاز ہے جسے برادرِ کبیر قیصر بٹ ماننے کو تیار نہیں۔ برادر بزرگ سید انور محمود تو برس ہا برس وزارت اطلاعات و نشریات کے مختار کل رہے کہ وہ اپنا وزیر بھی خود منتخب کرتے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ مشکل حالات کے باوجود کبھی سرکاری مراعات حاصل کرنے کا خیال تک نہ آیا اور سب سے بڑھ کر برادرم محمد علی درانی کہ ان کی وزارت میں تمام اختیارات خود میرے پاس تھے۔ سیکڑوں بیرونی دوروں کے مواقع پیدا ہوئے اپنے درجنوں ساتھیوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں، فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر ہما علی ایسے معاملات کے عینی شاہد ہیں۔
اپنا تو یہ حال ہے کہ اگر برادرم محسن بیگ مداخلت نہ کرتے وزارت اطلاعات سے معاملات ایسے ہی چلتے رہتے، یہ تو سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جناب تیمور عظمت تھے جنھوں نے مشرق وسطی میں مضبوط ترین بھارتی لابی کی موجودگی کے باوجود انٹر نیوز، نیوز ایجنسی کی خدمات کا اعتراف اور ستائش کی ورنہ یہ کالم نگار تو برادرم محمد علی درانی کے دورِ وزارت میں بھی اپنی دنیا میںہی گم رہا۔ سرنگیں لگانے اور اقتدار کے ایوانوں میں راستے بنانے کے ماہرین سرکاری دوروں اور سرکاری انعام و کرام سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ہم اپنی فاقہ مستی میں مگن رہے۔
اب سوچتا ہوں کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا کہ تمام آلائشوں اور آلودگیوں سے بچا رہا۔ اپنے پیر و مرشد خواجہ غفور احمد کی نصیحتیں یاد رہیں یہ شوریدہ سر نوے کی دہائی کے آغاز پر اسلام آباد آ رہا تھا تو خواجہ صاحب نے ایک بند لفافہ الہی بخش سومرو کے نام دیا وہ اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے ان کی رہائش گاہ پر پہنچا خواجہ صاحب کا سلام پیش کیا۔ وہ منظر میرے قلب و ذہن پر رقم ہے۔ انھوں نے بصد احترام اس لفافے کو آنکھوں سے لگانے کے بعد رقعہ پڑھا اور مجھے گلے سے لگا لیا ''یہ آپ کا اپنا گھر ہے یہاں قیام فرمائیں'' یہ ادب و آداب، یہ طریق کار میں اس سے قطعاً نا آشنا تھا۔ اُن کا شکریہ ادا کر کے واپس آ گیا۔
خواجہ غفور احمد نے مجھے اسلام آباد روانہ کرتے ہوئے نصیحت کی تھی ''اپنی نجی زندگی کو پیشہ وارانہ معاملات اور مصروفیات سے الگ رکھنا کبھی کوئی پیچیدگی نہیں ہوگی'' اس نصیحت کو پلے باندھے رکھا اپنی دوستیوں اور تعلقات کو پیشہ وارانہ معاملات سے ہمیشہ الگ رکھا۔ آرزوئیں پالیں نہ ہاتھ پھیلایا کہ میرے آقا و مولا، تاجدار دو عالم ؐنے فرمایا تھا ''دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے''
اپنے ضمیر کی عدالت اور تاریخ کے کٹہرے میں سر بلند اور سرخرو کھڑا تھا اور صدر آصف علی زرداری اس بندہ ناتواں کو تمغہ امتیاز سے سرفراز فرما رہے تھے۔ کل کا مدعی آج اپنے ملزم کی کھلے دل سے ستائش کر رہا تھا اس کی خدمات کا اعتراف کر رہا تھا۔ صدرآصف علی زرداری واقعی لاجواب سیاست دان ہیں۔ دو دہائیوں کا طویل سفر دو لمحوں میں طے ہوا اور میں تالیوں کی گونج میں سر جھکائے اپنی نشست کی جانب گامزن تھا۔ دو دہائیوں پر محیط سفر کا اختتام ہو رہا تھا۔ میں کھلی آنکھوں سے خواب جیسا منظر دیکھ رہا تھا۔
بد ترین حالات میں تن تنہا، پاکستانی ریاست اور عوام کا موقف مثبت انداز میں ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کیا'' میں دھیرے دھیرے اسٹیج کی طرف بڑھ رہا تھا، صدر مملکت آصف زرداری بیرون ملک پاکستان کے لیے قابل قدر خدمات کے صلے میں تمغہ امتیاز دینے والے تھے۔ جس کے ساتھ ہی دو دہائیوں کے بعد ریاست، سیاست اور صحافت کی تکونی آویزش پر مبنی دلچسپ اور سبق آموز داستان اختتام پذیر ہو رہی تھی۔
اس کہانی کے دو مرکزی کردار اسٹیج پر آمنے سامنے تھے۔ آج مدعی اپنے ملزم کی خدمات کا اعتراف کر رہا تھا۔ دو دہائی قبل عائد کیے جانے والے الزامات کی از خود نفی کر رہا تھا۔ یہ کالم نگار سوچ رہا تھا کہ انٹر نیوز کا سارا کریڈٹ تو برادرم عدنان رحمت کا حق ہے۔ جس نے دن رات ایک کر کے پاکستان میں پہلی بار مکمل کمپیوٹرائیزڈ نیوز ایجنسی کی بنیاد رکھی اور فاصلاتی نیوز روم کی فلاسفی کو مجسم کر کے دکھایا جس کے معیار کو مدتیں گزرنے کے بعد آج تک کوئی نہیں چھو سکا ورنہ
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
تمام واقعات، مبسوط اور مربوط فلم کی طرح میری نگاہوں کے سامنے چل رہے تھے، اس کہانی کا مرکزی کردار مرحوم اظہر سہیل تھے، پھر ان سے آویزیش کا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا تھا کہ برادر مکرم جواد نظیر اور سید والا تبار عباس اطہر نے آخری لمحات میں 3 مارچ 1993ء کی شام مجھے سمجھانے بجھانے کے لیے دلائل کے انبار لگا دئیے تھے لیکن اس وقت کا شوریدہ سر نوجوان زمانے کی اونچ نیچ کیا سمجھتا، معاشی مجبوریوں کو کیا خاطر میں لاتا، وہ افغانستان کے کوہساروں میں مدتوں برسرپیکار رہا تھا۔
مہینوں سنگلاخ کوہ و دمن کی خاک چھانی تھی کہ جس کے لہجے میں کھردرا پن چار دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک ختم نہیں ہو سکا۔ مرحوم اظہر سہیل تو رب کے حضور پیش ہو چکے اور ہم سب اس منزل کو پانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں لیکن اس فساد میں سب سے بڑی قربانی تو برادرم فاروق فیصل خان اور ان کے اہل خانہ کو دینا پڑی تھی۔ راولپنڈی میں ان کے گھر کے باہر اسلام آباد پولیس نے مستقل چوکی بنا دی تھی اور انھیں 6 ماہ تک روپوش رہنا پڑا تھا۔ یہ میری زندگی کا ناقابل فراموش عرصہ ہے۔ جتنی بار بھی یاد کروں، اتنی بار ہی نیا اور تازہ نظر آتا ہے۔
مجھے اپنے سارے مہربان اور دوست یاد آ رہے تھے۔ ایک فلم دماغ میں چل رہی تھی جناب اسماعیل پٹیل، سید انور محمود، ملک فضل الرحمٰن، ایس کے محمود، اشفاق گوندل، رشید چوہدری، انور زاہد، بریگیڈئیر عجائب، مشاہد حسین سید، چوہدری شجاعت حسین، حکومتیں گرانے کا کھیل کھیلنے والے جاسوسی دنیا کے اساطیری کردار بریگیڈیئر امتیاز اور سب سے بڑھ کر جنرل حمید گل، خواجہ اعجاز سرور اور خندق کے ساتھی حسین حقانی نے اس ہائی پروفائل مقدمے میں اس کالم نگار کو حوصلہ دیا، ہمت بڑھائی حقائق کی روشنی میں تلخیوں سے روشناس کرایا اور اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کی تعداد تو سیکڑوں میں تھی کیسے کیسے مہربان چہرے سامنے گھوم رہے تھے۔ جناب سید سعود ساحر' نواز رضا' میاں سہیل اقبال باؤ' رشید خاں' ایوب ناصر' ندیم ملک 3 مارچ کی رات ہمارے ساتھ تھے۔
میرے دوست کالم نگار طارق چوہدری اب بھی کبھی یادیں کریدتے ہوئے 3 مارچ کی رات کا منظر نامہ مکمل تفصیلات کے ساتھ مصور کر دیتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس اور دیگر وفاقی ادارے ہمارے تعاقب میں تھے اور ہم لاہور میں منو بھائی' شاہین قریشی اور جواد نظیر کے زیراہتمام شاہانہ رہائش گاہوں میں زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لاہور کی صحافتی کہکشاں نے اپنے بازو و دل ہمارے لیے وا کر دئیے تھے۔
یہ ریاست کی طاقت اور صحافت میں رزم آرائی کی انوکھی داستان تھی جس میں ریاست کی طاقت کو شکست ہوئی اور نہتے قلم کار سرخرو ٹھہرے۔ اب تو مدتیں بیت چکیں اس لیے یہ حقیقت سامنے لانے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ جناب مجید نظامی تھے جنھوں نے لاہور ہائی کورٹ سے ہماری ضمانتوں کی توثیق کرائی تھی۔ اسلام آباد میں اپنی دو دہائیوں پر محیط پیشہ وارانہ زندگی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو اطمینان ہوتا ہے
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
ساری دنیا گھوما، درجنوں یونیورسٹیوں میں مدعو کیا گیا، میڈیا کانفرنسوں میں شریک ہوا لیکن صدر، وزیر اعظم یا سرکاری دورے کے لیے ہاتھ نہ پھیلایا آج تک کوئی سرکاری دورہ نہ کیا یہ منفرد اعزاز ہے جسے برادرِ کبیر قیصر بٹ ماننے کو تیار نہیں۔ برادر بزرگ سید انور محمود تو برس ہا برس وزارت اطلاعات و نشریات کے مختار کل رہے کہ وہ اپنا وزیر بھی خود منتخب کرتے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ مشکل حالات کے باوجود کبھی سرکاری مراعات حاصل کرنے کا خیال تک نہ آیا اور سب سے بڑھ کر برادرم محمد علی درانی کہ ان کی وزارت میں تمام اختیارات خود میرے پاس تھے۔ سیکڑوں بیرونی دوروں کے مواقع پیدا ہوئے اپنے درجنوں ساتھیوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں، فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر ہما علی ایسے معاملات کے عینی شاہد ہیں۔
اپنا تو یہ حال ہے کہ اگر برادرم محسن بیگ مداخلت نہ کرتے وزارت اطلاعات سے معاملات ایسے ہی چلتے رہتے، یہ تو سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جناب تیمور عظمت تھے جنھوں نے مشرق وسطی میں مضبوط ترین بھارتی لابی کی موجودگی کے باوجود انٹر نیوز، نیوز ایجنسی کی خدمات کا اعتراف اور ستائش کی ورنہ یہ کالم نگار تو برادرم محمد علی درانی کے دورِ وزارت میں بھی اپنی دنیا میںہی گم رہا۔ سرنگیں لگانے اور اقتدار کے ایوانوں میں راستے بنانے کے ماہرین سرکاری دوروں اور سرکاری انعام و کرام سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ہم اپنی فاقہ مستی میں مگن رہے۔
اب سوچتا ہوں کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا کہ تمام آلائشوں اور آلودگیوں سے بچا رہا۔ اپنے پیر و مرشد خواجہ غفور احمد کی نصیحتیں یاد رہیں یہ شوریدہ سر نوے کی دہائی کے آغاز پر اسلام آباد آ رہا تھا تو خواجہ صاحب نے ایک بند لفافہ الہی بخش سومرو کے نام دیا وہ اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے ان کی رہائش گاہ پر پہنچا خواجہ صاحب کا سلام پیش کیا۔ وہ منظر میرے قلب و ذہن پر رقم ہے۔ انھوں نے بصد احترام اس لفافے کو آنکھوں سے لگانے کے بعد رقعہ پڑھا اور مجھے گلے سے لگا لیا ''یہ آپ کا اپنا گھر ہے یہاں قیام فرمائیں'' یہ ادب و آداب، یہ طریق کار میں اس سے قطعاً نا آشنا تھا۔ اُن کا شکریہ ادا کر کے واپس آ گیا۔
خواجہ غفور احمد نے مجھے اسلام آباد روانہ کرتے ہوئے نصیحت کی تھی ''اپنی نجی زندگی کو پیشہ وارانہ معاملات اور مصروفیات سے الگ رکھنا کبھی کوئی پیچیدگی نہیں ہوگی'' اس نصیحت کو پلے باندھے رکھا اپنی دوستیوں اور تعلقات کو پیشہ وارانہ معاملات سے ہمیشہ الگ رکھا۔ آرزوئیں پالیں نہ ہاتھ پھیلایا کہ میرے آقا و مولا، تاجدار دو عالم ؐنے فرمایا تھا ''دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے''
اپنے ضمیر کی عدالت اور تاریخ کے کٹہرے میں سر بلند اور سرخرو کھڑا تھا اور صدر آصف علی زرداری اس بندہ ناتواں کو تمغہ امتیاز سے سرفراز فرما رہے تھے۔ کل کا مدعی آج اپنے ملزم کی کھلے دل سے ستائش کر رہا تھا اس کی خدمات کا اعتراف کر رہا تھا۔ صدرآصف علی زرداری واقعی لاجواب سیاست دان ہیں۔ دو دہائیوں کا طویل سفر دو لمحوں میں طے ہوا اور میں تالیوں کی گونج میں سر جھکائے اپنی نشست کی جانب گامزن تھا۔ دو دہائیوں پر محیط سفر کا اختتام ہو رہا تھا۔ میں کھلی آنکھوں سے خواب جیسا منظر دیکھ رہا تھا۔