الٰہی بخش کا ٹی ہاؤس

پاک ٹی ہاؤس اورکافی ہاؤس لاہور کے مال روڈ پر بیرون انارکلی بازار واقع ان دونوں چائے خانوں میں لاہور کے ادیب،۔۔۔


Saeed Parvez March 24, 2013

پاک ٹی ہاؤس لاہور کو تیسری بار بحال کردیا گیا۔اس بار یہ بحالی بذریعہ عطاء الحق قاسمی، شریف برادارن کے حصے میں آئی ہے۔ پاک ٹی ہاؤس کی بحالی پر خاصے کالم لکھے جاچکے ہیں۔ میں جس حوالے سے اس تاریخی ادبی بیٹھک کا ذکرکروں گا، وہ شاید میں ہی کرسکتا ہوں۔ یہ ذکر بہت اہم اور دلچسپ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

پاک ٹی ہاؤس اورکافی ہاؤس لاہور کے مال روڈ پر بیرون انارکلی بازار واقع ان دونوں چائے خانوں میں لاہور کے ادیب، شاعر، مصور، صحافی، سیاستدان بیٹھا کرتے تھے۔ کافی ہاؤس میں جو لوگ بیٹھتے تھے ان میں مولانا چراغ حسن حسرت، ساحر، فیض احمد فیض، شورش کاشمیری، ظہور الحسن ڈار، حبیب جالب، ریاض شاہد ،اداکار علاؤالدین طالش، اسلم پرویز ودیگر شامل تھے۔کافی ہاؤس سے دو قدم کے فاصلے پر پاک ٹی ہاؤس ہوتا تھا۔

وہاں خالصتاً ادیب شاعر ہی بیٹھتے تھے۔ یہاں مستقل بیٹھنے والوں میں انتظار حسین، نذیر ناجی، میرزا ادیب، عطاء الحق قاسمی، قتیل شفائی، منیر نیازی، سلیم شاہد، اسرار زیدی ودیگر شامل تھے۔ کافی ہاؤس تو بہت پہلے بند ہوگیا تھا اور اس کی بحالی کی طرف نہ کسی کا دھیان گیا اور نہ ہی اس کی بحالی آسان تھی، مگر پاک ٹی ہاؤس کے مالکان ادب نواز لوگ تھے اور ادیبوں شاعروں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، سو یہ پھر بحال ہوگیا۔

اب میں اس واقعے کی طرف آتا ہوں جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ یہ جنرل ایوب خان کا دور حکومت تھا۔ حبیب جالب کو مادر ملت کا ساتھ دینے کی پاداش میں اور مادر ملت کے جلسوں سے دور رکھنے کے لیے اقدام قتل کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ خیر اس جھوٹے مقدمے میں جالب صاحب کو لاہور ہائی کورٹ نے باعزت رہا کردیا۔ فیلڈ مارشل صاحب کا دور جاری تھا۔ اور حبیب جالب کا سچ بولنا اور لکھنا بھی جاری تھا۔ ایک اور بڑا واقعہ بھی اس دوران یہ ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو، ایوب حکومت سے نکل کر باہر آگئے اور وہ عوام میں خود کو بحال کرنے کی تگ و دو میں دن رات لگے ہوئے تھے۔

حبیب جالب صاحب سے ملاقات کے لیے بھی ذوالفقار علی بھٹو بڑے بے قرار تھے۔ اس کام کے لیے بھٹو صاحب نے جالب صاحب کے ایک دوست کی مدد لی اور پیغام بھجوایا۔ جالب صاحب اس وقت کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ جالب کے لیے بھٹو کا پیغام تھا کہ ''فلیٹیز ہوٹل آجاؤ'' جالب نے پیغام کا جواب دیا ''وزیروں سے میں نہیں ملتا، چاہے وہ سابقہ ہوں، مگر بھٹو اگر ملاقات چاہتے ہیں تو کافی ہاؤس آجائیں'' اور پھر بلا کا مردم شناس ذوالفقار علی بھٹو جالب سے ملنے کافی ہاؤس آگیا۔

بھٹو اور جالب کی ملاقات کا واقعہ سنانا بھی بہت ضروری تھا، کیونکہ وہ واقعہ جو میں سنانا چاہتا ہوں اس سے اس ملاقات والے واقعے کا گہرا تعلق ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ جالب کا سچ بولنا اور لکھنا بھی جاری تھا۔ 65 کی پاک و ہند جنگ ہوچکی تھی۔ جالب صاحب نے ایک نظم ''چھ ستمبر'' کے عنوان سے لکھی۔ جو ان کی شہرہ آفاق کتاب ''سرمقتل'' میں بھی شامل تھی۔ ''سر مقتل'' کے ستمبر 66 سے نومبر 66 تک آٹھ ایڈیشن شایع ہوئے۔کئی ایڈیشن پریس میں تھے کہ جنرل ایوب خان نے کتاب پر پابندی لگادی، پریس کو سیل کردیا اور کتاب کے پبلشر، مشہور مکتبہ کارواں کے مالک چوہدری عبدالحمید کو بھی گرفتار کرلیا۔

1967 کے اوائل میں روزنامہ نوائے وقت کے بانی ایڈیٹر حمید نظامی کی یاد میں ایک جلسہ وائی ایم سی اے لاہور میں ہوا۔ اس جلسے کی صدارت، عوام میں تیزی سے مقبول ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی۔ اس یادگار جلسے کے اسٹیج سیکریٹری تھے شورش کاشمیری۔ جلسے سے میاں محمد شفیع، ملک اسلم حیات اور حامد سرفراز ایڈووکیٹ نے خطاب کیا تھا اور حبیب جالب نے نظم ''چھ ستمبر'' سنائی۔ جلسے کے بعد حبیب جالب کو ڈیفنس آفس پاکستان رولز کے تحت گرفتار کرلیا گیا ۔ اس گرفتاری کے بعد لاہور کے چند ''سر پھرے'' ادیبوں شاعروں نے حبیب جالب کے کنبے کی امداد کے لیے فنڈ قائم کردیا۔ میں انھیں ''سر پھرے'' ادیب شاعر ہی کہوں گا کہ فیلڈ مارشل اور نواب کالا باغ کے دور حکومت میں کون عقل مند ہوگا جو ایک باغی شاعر کا ساتھ دیتا۔

جو خبر اس فنڈ کے بارے میں اخبارات میں شایع ہوئی میں اسے نقل کر رہا ہوں،ایک کالی خبر کی سرخی تھی ''حبیب جالب کے کنبے کی امداد کے لیے فنڈ'' اب خبر سنیے! ''لاہور، یکم مارچ (پ پ۱) لاہور کے شعراء، ادباء اور مصنفین نے حبیب جالب فنڈ قائم کیا ہے۔ یہ فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کل مقامی ادیبوں، شاعروں اور مصنفین کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس فنڈ سے حبیب جالب کے کنبے کی امداد کی جائے گی۔ اس ضمن میں مسٹر احمد مشتاق، مسٹر یوسف کامران، مسٹر شفقت تنویر مرزا اور مسٹر مسعود اللہ خان پر مشتمل چار رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ جس نے کل مسٹر حبیب جالب کے گھر امداد کی پہلی قسط پہنچا دی۔ کمیٹی نے مقامی ادباء، شعراء، صحافی اور مصنفین سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فنڈکے لیے اپنے عطیات براہ راست مسٹر حبیب جالب کے نام فردوس پارک سنت نگر لاہور کے پتے پر یا ''الٰہی بخش پاک ٹی ہاؤس لاہور'' کی معرفت ارسال کریں۔''

اخبارکی خبر پڑھ کر ذوالفقار علی بھٹو پاک ٹی ہاؤس پہنچے اورالٰہی بخش کے بارے میں پوچھا۔ الٰہی بخش بھاگتا ہوا آیا اور بھٹو صاحب سے کہا ''جی میں ہوں الٰہی بخش'' بھٹو صاحب نے الٰہی بخش سے ہاتھ ملایا اور اسے جالب فنڈ کے لیے ساڑھے چار سو روپے دیئے، کہتے ہیں الٰہی بخش نے کئی دن تک اپنے ہاتھ نہیں دھوئے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس سے ہاتھ ملایا تھا۔ یہ ''سر پھرا'' الٰہی بخش پاک ٹی ہاؤس کا ہیڈ بیرہ تھا اور حبیب جالب فنڈ کا سیکریٹری۔

الٰہی بخش کا پاک ٹی ہاؤس بحال ہوگیا۔ بہت اچھا ہوگیا، سنا ہے شاعروں، ادیبوں کی تصاویر پاک ٹی ہاؤس میں آویزاں کی گئی ہیں، ہوسکے تو شاعروں، ادیبوں کے محسن (اگر کسی شاعر ادیب کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے تو الٰہی بخش معاونت کرتا تھا) الٰہی بخش کی تصویر کاؤنٹر کے پیچھے دیوار پر لگا دی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔