اپنے آپ کو ڈھونڈنا ہوگا

تاریخ میں وہ قومیں آگے بڑھتی اورترقی کرتی ہیں جن کے ہاں نئے افکار اور نظریات پیداہوتے رہتے ہیں۔۔۔


Aftab Ahmed Khanzada March 24, 2013

399 ق م میں اہل ایتھنز کی ایک جیوری کے سامنے جو 500 آدمیوں پر مشتمل تھی تین اشخاص نے جن میں ایک خطیب لائیکن ،ایک معمولی شاعر ملیٹس اور ایک با اثر لیڈر انائیٹس تھا سقراط پر دو الزام لگائے ایک یہ کہ وہ ایتھنزکے دیوتاؤں کا قائل نہیں بلکہ نئے دیوتاؤں کو مانتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑتا ہے ۔

سقراط نے جیوری کے سامنے اپنی آخری تقریر کرتے ہوئے کہا مجھے موت کی ذرا برابر پرواہ نہیں بلکہ صرف ایک بات کی فکر اور بہت بڑی فکر ہے کہ مجھ سے کوئی برا اور نا پاک فعل سر زد نہ ہونے پائے میرے دوست میں بھی انسان ہوں اوردوسرے انسانوں کی طرح گو شت اور خون کا بنا ہوا ہوں نہ کہ پتھر اور لکڑی کا جیسا ہومر نے کہا ہے میں بھی صاحب اولاد ہوں میں دیوتاؤں کو مانتا ہوں اور اس سے برتر اوربلند ترمعنی میں جیسے میرے مدعی مانتے ہیں میں اپنا مقدمہ خدا پر اور تم لوگوں پر چھوڑتاہوں، تم جیسا اپنے لیے اور میرے لیے بہتر سمجھو ،ویسا فیصلہ کرواؤ، اہل ایتھنزکئی وجوہ سے مجھے اس کا رنج نہیں کہ تم نے کثرت رائے سے مجھے مجرم قرار دیا مجھے پہلے ہی اس کی توقع تھی بلکہ اس بات پر تعجب ہے کہ آراء قریب قریب برابر ہیں کیونکہ میرا خیال تھا کہ میرے خلاف بہت بڑی اکثریت ہوگی۔

مگر یہاں یہ صورت ہے کہ اگر 30 رائے ادھر کی ادھر ہوگئی ہوتیں تو میں چھوڑ دیاجاتا اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ملیٹس کے مقابلے میں تو میں بری ہوہی گیا اگر ایتھنز میں یہ قانون ہوتا جیسا کہ دوسرے شہروں میں ہے کہ کسی سنگین مقدمے کا فیصلہ ایک دن میں نہیں ہونا چاہیے تو غالباً میں تمہیں یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتا مگر میں اتنے بڑے بڑے الزاموں کو دم بھر میں رد نہیں کرسکتا۔ البتہ چونکہ مجھے یقین ہے کہ میں نے کسی اورکے ساتھ برائی نہیں کی اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے ساتھ برائی کروں، میں یہ تسلیم نہیں کروں گا کہ میں کسی برے سلوک کا مستحق ہوں اور اپنے لیے کوئی سزا تجویزکروں گا آخر کیوں کروں اسی لیے کہ میں سزائے موت سے جو ملیٹس نے تجویز کی ہے۔

ڈرتا ہوں جب مجھے یہ نہیں معلوم کہ موت اچھی چیز ہے یا بری تو میں کوئی ایسی سزا کیوں تجویز کروں جو یقینا بری ہوکیا قید پسند کروں، مجھے کیا پڑی ہے کہ میں جیل میں رہوں، مجسٹریٹ کی اورگیارہ حاکموں کی غلامی پسند کروں یا جرمانہ اور قید تا ادائیگی جرمانہ کی سزا ہونی چاہیے اسی پر بھی وہی اعتراض ہے مجھے جیل میں سڑنا پڑے گا اس لیے کہ روپیہ تو میرے پاس ہے نہیں کہ جر مانہ ادا کروں اور اگر جلا وطنی تجویزکروں، ممکن ہے تم یہ ہی سزا مقررکرو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ مجھے زندگی کی محبت نے اندھا کر دیا ہے اور میں اس قدر بے عقل نہیں ہوں کہ جب تم لوگ جو میرے ہم وطن ہو میری گفتگو برداشت نہیں کرسکتے اور سخت مضر اور قابل نفرت سمجھ کر مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو تو میں یہ توقع کروں کہ دوسرے میری باتوں کو برداشت کرلیں گے۔

نہیں اے اہل ایتھنز یہ تو کچھ زیادہ قرین قیاس نہیں اور وہ بھی کیا زندگی ہوگی کہ میں اس بڑھاپے میں شہر شہر مارا پھروں، میرا خطاب تم سب سے نہیں ہے بلکہ صرف ان لوگوں سے ہے جنھوں نے میرے لیے سزائے موت تجویز کی ہے اور مجھے ان سے ایک بات اور کہنی ہے تم سمجھتے ہو مجھے اس لیے سزا ہوئی ہے کہ مجھے ایسے الفاظ کہنے نہیں آتے جن کی بدولت میں رہا ہوجاتا۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کہ وہ کمی جو میری سزا کا باعث ہوئی الفاظ کی کمی نہ تھی التبہ نہ مجھ میں اتنی جرأت اور بے باکی تھی اور نہ میری یہ خواہش تھی کہ تم سے اس طرح خطاب کروں جس طرح تم پسند کرتے ہو یعنی تمہارے آگے روؤ ں اورگڑگڑاؤں اور وہ باتیں کہوں جو تم دوسروں سے سننے کے عادی ہو اور جو میرے خیال میں میری شان کے خلاف ہے ۔

تمہارے انداز میں تقریر کرکے زندہ رہنے سے تو میں یہ اچھا سمجھتا ہوں کہ اپنے انداز میں تقریرکروں اور ما ر ڈالا جاؤں، دشواری میرے دوستوں موت سے بچنے میں نہیں بلکہ بدی سے بچنے میں ہے اس لیے کہ اس کی رفتار موت سے زیادہ تیز ہے میں بو ڑھا اورسست قدم ہوں اورمجھے آہستہ چلنے والی چیز یعنی موت نے پکڑ لیا ہے اور میر ے مدعی تیز اور چست ہیں اور انہیں تیز رو چیز یعنی بدی نے پکڑ لیا ہے ۔ میرے دوستوں اب اگر تم یہ سمجھو کہ مرنے کے بعد کسی قسم کاشعور باقی نہیں رہتا بلکہ ایک گہری نیند ہوتی ہے جس میں خواب تک خلل انداز نہیں ہوتا تو پھر موت کا کیا کہنا اگر موت ایسی چیز ہے تو میں کہتا ہوں کہ مرنے میں سراسر فائدہ ہے۔

اس لیے کہ پھر توازل سے ابد تک صرف ایک ہی رات ہے لیکن اگر موت کسی دوسری جگہ کا سفر ہے جہاں لوگوں کے قول کے مطابق سب گزری ہوئی روحیں رہتی ہیں تو اے میرے دوستوں اور منصفو اس سے اچھی اور کیا چیز ہوسکتی ہے، اگر واقع مسافر عالم اسفل میں پہنچ کر اس دنیا کے مدعیان انصاف کے پنجے سے چھوٹ جاتا ہے اور سچے منصفوں کو پالیتا ہے جو وہاں دادرسی کرتے ہیں تو ایسا سفرواقعی کرنے کے لائق ہے کون شخص دل سے نہ چاہتا ہوکہ اسے آرفیس ، بیو زئیس ،ہے سیڈ اور ہومر سے باتیں کرنے کا موقع ملے۔ اگر یہ سچ ہے تو میں ایک بار نہیں ہزار بار مرنے کو تیار ہوں مجھے تو پیلمیٹریس اورٹیلا من کے بیٹے اجے کس اور دوسرے سورماؤں سے جو غیر منصفانہ فیصلوں کی بنا پر مارے گئے ملنے اور باتیں کرنے سے انتہائی دلچسپی ہوگی اور اپنی تکلیف کا ان کی تکلیف سے مقابلہ کر نے میں بہت لطف آئے گا ۔

اے منصفو کسی شخص کے لیے اس سے بڑھ کر کیا بات ہوسکتی ہے کہ وہ ٹرائے کی عظیم الشان مہم کے رہنمااودیسیں ، سیفس اور بے شمار دوسرے مردوں اورعورتوں کا امتحان لے کیا ٹھکانہ ہے اس خوشی کا جو ان سے گفتگو کرنے اور سوالات پوچھنے سے حاصل ہوگی۔ دوسری دنیا میں لوگ کسی شخص کو سوالات پوچھنے کے جرم میں قتل نہیں کرتے ہونگے ہرگز نہیں کرتے ہونگے کیونکہ وہ صرف ہم سے زیادہ خوش دل بلکہ لافانی بھی ہونگے، اگر لوگوں کا کہنا سچ ہے اس لیے۔ اے منصفو موت سے نہ گھبراؤ اور یقین جانو کہ نیک آدمی پر کوئی مصیبت نہیں آسکتی۔

میں ایک عنایت کا خواستگار ہوں جب میرے بیٹے بڑے ہوجائیں تو اے دوستو ! انہیں سزا دینا اور اس طرح ستانا جیسے میں نے تمہیں ستایا اگر وہ دولت یا کسی اور چیز کو نیکی سے بڑھ کر سمجھیں تو انہیں جھڑکنا جیسا کہ میں نے تمہیں جھڑکا وہ اس چیز کی پرواہ نہیں کرتے جس کی پروا کرنی چاہیے اور اپنے دل میں سمجھتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں اگر تم یہ کرو گے تو میرے اور میرے بیٹوں کے ساتھ عین انصاف ہوگا رخصت کا وقت آگیا ہے اور اب ہم اپنی اپنی راہ جاتے ہیں میں مرنے کے لیے اور تم جینے کے لیے دونوں میں کیا چیز بہتر ہے یہ خدا ہی جانتا ہے ۔ سقراط کی ساری زندگی اور ساری حکمت کا نچوڑ ہے اپنے آپ کو پہچانو اور نیکی علم کا نام ہے ۔

تاریخ میں وہ قومیں آگے بڑھتی اورترقی کرتی ہیں جن کے ہاں نئے افکار اور نظریات پیداہوتے رہتے ہیں تاکہ وہ بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرسکیں جہاں روایت پسندی اورقدامت پرستی افکار و خیالات کو فرسودہ کردیتی ہے ایسے معاشرے تاریخ کو بار بار دہراتے ہیں۔ پاکستانی سما ج کے سلسلہ میں ہمیں یہ ہی نظر آتا ہے کہ اس میں جدید حالات و تقاضوں کا چیلنج قبول کر نے کے لیے فکری تحریک نہیں اٹھ رہی ہے اور انتہا پسندی ، رجعت پسندی نے سو چ کی تمام راہوں کو بند کردیا ہے۔ آخر نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی ہم ابھی تک ان ہی مسائل کا شکارکیوں ہیں اب ہمیں اپنی قومی شناخت کی اس بنیاد کو ڈھونڈ نکالنا ہوگا جو جہل پسندی کی برف تلے کہیں دفن ہے۔ پاکستانی سماج میں سوال کرنا ہمیشہ ہی سے قابل مذمت رہا ہے۔

سوالات پر قدغن لگا کر منافقوں، انتہا پسندوں اور بہروپیوں نے ہماری آزادی سلب کر لی اور اسے چیلنج کر نے والوں کے لیے ماضی میں قید و بند اور موت کی سزائیں دی گئیں زبردستی لاگو کیے گئے اس کلچر میں سوال کر نے والے حساس ذہن کو قدم قدم پر خطرات کا سامنا ہے لیکن چند انتہا پسند سوچ رکھنے والوں کا یہ جبر سوالات کو ختم نہیں کرسکتا، ہمارا ساڑھے پانچ ہزار سال پرانا شاندار اورعظیم الشان ماضی ہے ۔ جس میں آپ کو آزادی رواداری ، روشن خیالی جا بجا ملے گی ۔ ہماری تاریخ قابل فخر ہے ہم دنیاکی عظیم تہذیب کے رکھوالے ہیں ہمارا ایک تاریخی وجود ہے۔ بس ہمیں اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا اپنے آپ کو ڈھو نڈنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔