میانہ روی زندگی کی روشن راہ

’’ کسی قوم کی عداوت و دشمنی تمہیں راہ اعتدال سے نہ ہٹا دے، عدل و انصاف کا دامن تھامے رہو۔ یہی تقویٰ سے قریب ہے۔‘‘


خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ نے امت محمدیؐ کو امت وسط بنایا ہے اور اس کے لیے اس کو تین امتیازی اوصاف عطا فرمائے ہیں، یعنی عظمت، کمال اور اعتدال۔

وسط کا لفظ اپنے اندر کمال، بہتری اور اعتدال میں تینوں اوصاف کے معانی سموئے ہوئے ہے۔ وسط کا لفظ افراط و تفریط سے پاک بالکل درمیان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی میانہ روی اور اعتدال۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس کا پورا نظام معتدل ہے، اور اس کے تمام امور اعتدال پر قائم ہیں۔ اس کے اعتقادات میں اعتدال، اعمال و عبادات میں اعتدال، معاشرت و تمدن میں اعتدال، اقتصادیات و سیاسیات میں اعتدال، معاملات و تعلیمات میں اعتدال۔ ال غرض اس کے تمام امور نقطۂ اعتدال پر قائم ہیں۔

٭ اعتقادات میں اعتدال
اعتقادات میں اعتدال توحید و رسالت ہے یعنی اللہ کو ذات و صفات میں لاشریک اور یکتا سمجھنا، اور رسول اکرمؐ کو تمام انسانوں سے افضل و برتر اور اعلیٰ معیار پر رکھنا۔

٭ عبادات و اعمال میں اعتدال
عبادات و اعمال میں بھی اعتدال کا وصف نمایاں ہے اور یہی وصف اس امت کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہاں نہ عیسائیوں کے مانند غلو ہے اور نہ ہی یہودیوں کی طرح تقصیر۔ نبی کریم ﷺ نے غلو یعنی جتنے کام کا شرعی حکم ہے، اس سے زیادتی کو رد فرمایا ہے۔ چناں چہ نبی کریم ﷺ نے ان صحابہ کرامؓ پر بھی نکیر فرمائی جن میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں رات بھر قیام کروں گا۔

دوسرے نے کہا تھا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی افطار نہیں کروں گا، اور تیسرے نے کہا تھا کہ میں شادی ہی نہیں کروں گا۔ چوں کہ یہ کام سنت و شریعت کے مطابق نہ تھے اور غلو فی الدین کے زمرے میں آتے تھے اس لیے رسول اکرم ﷺ نے اس کی نکیر اور تردید فرمائی۔ عبادات و اعمال میں اعتدال اپنانے کے سلسلے میں ہمیں کتب احادیث میں '' باب القصد فی العمل'' کا مستقل باب اور عنوان ملتا ہے۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ دینی امور کے ساتھ دنیوی امور میں بھی میانہ روی اور اعتدال مطلوب ہی نہیں بل کہ ازحد ضروری ہے۔

٭ معاملات و تعلقات میں اعتدال
معاملات میں اعتدال پر یہ آیت واضح دلالت کرتی ہے، مفہوم : '' کسی قوم کی عداوت و دشمنی تمہیں راہ اعتدال سے نہ ہٹا دے، عدل و انصاف کا دامن تھامے رہو۔ یہی تقویٰ سے قریب ہے۔'' کیوں کہ عموماً دشمنی میں انسان سے دامن اعتدال چھوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح تعلقات یعنی آپس میں میل جول، دوستی و دشمنی، بغض و محبت اور تعلق میں اعتدال کی سب سے جامع ہدایت ہمیں ترمذی شریف کی اس حدیث مبارکہ میں ملتی ہے۔

مفہوم : '' اپنے دشمن سے بغض و دشمنی بھی دائرے میں رہ کر کرو، ممکن ہے کسی دن وہ تمہارا دوست ہوجائے۔'' عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ آدمی دوستی و دشمنی میں اعتدال پر قائم نہیں رہ پاتا۔ جب کسی سے دوستی کرنے پر آتا ہے تو ایسی ٹوٹ کر کرتا ہے کہ وہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتی، اور دوست کی تمام عیوب و نقائص ہیچ نظر آتے ہیں۔ اور جب ٹوٹتی ہے تو تسبیح کے دانوں کی طرح دونوں بکھر جاتے ہیں، اور ایک دوسرے سے حد درجہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح جب عداوت کرنے پر آتے ہیں تو حیوانیت کا لبادہ اوڑھ کر ایک دوسرے کے جان کے درپے ہو جاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں، اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ دوسرے کی تمام تر خوبیاں آنکھوں میں تنکے کی ماند کھٹکنے لگتی ہیں۔

٭ بول چال میں اعتدال
بول چال میں اعتدال کی روشنی اس حدیث سے ملتی ہے کہ '' ساری مصیبت بولنے میں ہے۔'' آج کل لوگوں میں اپنی قابلیت و شیخی بگھارنے اور اپنی علمیت کا مرض عام ہوگیا ہے۔ نہ بڑوں کا پاس و لحاظ، نہ آداب گفت گو کا خیال، حالاں کہ رسول اکرم ﷺ نے ضرورت کے مطابق اچھی بات کہنے اور بلاضرورت گفت گو سے اجتناب کرنے اور خاموش رہنے والے کی حق میں یہ دعا فرمائی ہے، مفہوم: '' اللہ رحم کرے اس شخص پر جو اگر بھلی بات کہے تو فائدہ میں رہے اور اگر خاموشی اختیار کرے تو سلامت رہے۔'' اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ سے بھی بول چال میں اعتدال اپنانے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ '' جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔'' اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گفت گو کو اچھی اور ضروری باتوں تک محدود رکھا جائے اور بلا ضرورت گفت گو سے اجتناب کیا جائے۔

٭ انفاق میں اعتدال
انفاق میں اسراف اور بخل سے بچ کر اعتدال پر رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم:

'' خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔'' جب کہ قرآن مجید میں حکم ہوا ہے، مفہوم: '' نہ اپنا ہاتھ کنجوسی میں اپنی گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ پورے کشادہ دست ہوجاؤ کہ پہلی صور ت میں ملامت زدہ اور دوسری صورت میں حسرت زدہ ہوکر بیٹھ جاؤ۔''

سورہ فرقان میں اللہ کے نیک بندوں کے منجملہ اوصاف میں ان کی صفت یہ بھی ذکر کی گئی ہے کہ '' او ر وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل، بل کہ دونوں کے بیچ کی راہ اپناتے ہیں۔''

آپ ﷺ کی پوری زندگی اعتدال کا محور و مرکز ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے، مفہوم: '' جب دو کاموں میں اختیار دیا گیا ہو، تو آپؐ نے ان میں آسان کو اپنایا۔''

اعتدال اور میانہ روی میں ہی فائدہ ہے اور نقصان کا کوئی پہلو نہیں۔ اگر آج ہم اعتدال کو اپنی زندگی کا اصول بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے کی بہت سی خرابیاں تھوڑی ہی مدت میں نیست و نابود نہ ہوجائیں۔آئیے سچے دل سے عہد کریں کہ ہم زندگی کے ہر موڑ پر اعتدال اور میانہ روی سے کام لیں گے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو راہ اعتدال پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں