توقیر انسانیت
انسان جب صرف اللہ کے آگے جھکتا ہے، تو اس میں خودداری کا وصف پیدا ہوتا ہے۔
عصرِ حاضر میں انسانی جان کی وہ حرمت ختم کی جارہی ہے جو اللہ کے رسول ؐ نے انسانوں کو عطا کی تھی۔
آپؐ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان کو بچانا پوری انسانیت
اللہ تعالی نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنایا۔ اللہ تعالی نے تما م انسانوں کو حضرت آدمؑ سے پیدا کیا اور اولادِ آدم کو عزت و تکریم عطا کی۔ اس عزت و تکریم کی بنیاد انسان کا شعور اور رشتوں کی تمیز ہے، جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کر دیتی ہے۔ انسان تمام مخلوقات سے اعلی اور افضل ہے۔ انسان کی تخلیق کا مقصدِ وحید یہی تھا کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت کرے۔ لیکن نبی کریم ؐ کی آمد سے قبل انسان مٹی اور پتھر کے بے جان بتوں کے آگے سجدہ ریز ہو چکا تھا۔
آپؐ کی بعثت انسانوں کے لیے اللہ تعالی کا احسان عظیم تھا۔ آپؐ نے انسانوں کو ان کے حقیقی خدا کے آگے سجدہ ریز کرکے انہیں حقیقی عزت و توقیر عطا کی۔ اس لیے کہ انسان اپنے سے کم تر کے آگے سر جھکا کر اپنا مقام کھو دیتا ہے۔ عقیدۂ توحید، انسان کو حقیقی عزت نفس عطا کرتا ہے۔ انسان جب صرف اللہ کے آگے جھکتا ہے، تو اس میں خودداری کا وصف پیدا ہوتا ہے۔ یہی وصف اس کی عزت و توقیر میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ عقیدہ انسان کو ہر قسم کی دنیاوی شرم ساری سے بچا لیتا ہے۔ انسان قیامت کے دن بھی شرم سار ہونے سے بچ جائے گا اور اسے کام یابی اور بلند درجات سے نواز کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ آپ ؐ نے انسانوں کو پہلا پیغام یہی دیا تھا کہ کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تم کام یاب ہو جاؤ گے۔
آپ ؐ کی بعثت سے قبل عرب کے جاہل معاشرے میں بیٹی کو بے عزتی کی نشانی اور معاشی بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ لہذا اس کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ آپ ؐ نے بیٹیوں کو جینے کا حق دیا اور حقیقی عزت اور توقیر عطا کی۔ آپؐ نے اس مومن کے لیے آخرت میں اپنے قرب کا اعلان کیا جو اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے بعد ان کو اپنے گھر سے رخصت کرتا ہے۔ آپؐ نے دنیا کی جن تین چیزوں کو پسند فرمایا ان میں نیک عورت بھی شامل ہے۔
آپؐ نے خواتین کو حقیقی معنی میں عزت عطا کی۔ ماں کی صورت میں جنت کو اس کو قدموں کی خاک بنا دیا۔ بیٹی کی صورت میں رحمت قرار دیا اور بیوی کی صورت میں اسے باعثِ راحت و سکون قرار دیا۔ اس کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے کو مومنوں میں سے سب سے بہتر قرار دیا۔ قرآن مجید میں مومن عورت اور مرد اعمال صالحہ کے لحاظ سے برابر اجر کے مستحق ہیں۔ آپ ؐ نے خواتین کو وراثت میں حصہ عطا کیا۔ نکاح کی صورت میں اس کی رائے کا احترام کیا۔
یہ عزت آپ ؐ نے صرف مسلمان عورتوں کو نہیں بل کہ غیر مسلم عورتوں کو بھی عطا کی۔ انسانوں نے معاشروں کو رنگ و نسل، زبان اور لہجے، ذات پات کے نظام پر قائم کیا اور انہی کو معیار فضیلت قرار دیا۔ قرآن حکیم نے عزت اور فضیلت کا معیار ایمان، علم، تقوی اور جہاد کو قرار دیا۔ قرآن مجید کی رو سے انسانوں میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ اسی آیت کی تشریح فرماتے ہوئے آپؐ نے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، اسی طرح کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدمؑ کو مٹی سے تخلیق کیا گیا تھا ۔
آپؐ کو معراج عطا کی گئی اور آپ ؐ سدرۃ المنتہی تک جا پہنچے۔ اس معراج کی تصدیق کرنے پر حضرت ابوبکر ؓ کو ''صدیق '' کا لقب عطا ہوا۔ مومنوں میں سے جو بھی معراج حاصل کرنا چاہتا ہے وہ نماز قائم کر کے معراج حاصل کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ نبی مکرم ﷺ نے نماز کو مومن کی معراج قرار دیا۔ ایسے لوگ جو جاہلیت کے زمانے میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتے تھے، آپؐ کی رفاقت اور صحبت نے انہیں عظیم الشان مقام عطا کیا، راہ زن راہ بر بن گئے۔ خون کے پیاسے، الفت و محبت کے خُوگر ہوگئے۔ اللہ ان سے راضی ہو جاتا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوجاتے ہیں۔ ان کے ایمان کو مثالی قرار دیا جاتا ہے اور ان کی طرح ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ انہیں دنیا کی زندگی میں ہی جنت کی بشارتیں دے دی جاتی ہیں۔ ان کے تذکروں سے قرآن کو سجایا جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ حضرت محمد ﷺ کی اتباع نہ کرتے تو انہیں یہ مقام کبھی حاصل نہ ہوتا۔
آپ ؐ نے انسانوں سے محبّت کی اور اپنی مثالی تعلیمات میں بعض انسانوں کو بڑی عزت دی ہے۔ آپ ؐ نے اُن لوگوں کے ہاتھوں کو بوسہ دیا جو محنت کر کے کماتے ہیں۔ ہاتھ سے کما کے کھانے والے کو اللہ کا دوست قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے ہمسائے کی عزت کرنی چاہیے اور جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔
آپؐ نے استاد اور سسر کو والد کا درجہ دیا یعنی ان کا احترام اس طرح کیا جائے جیسے اپنے والد کا احترام کیا جاتا ہے۔ آپؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ جو جوان کسی بوڑھے بزرگ کا اس کے بڑھاپے ہی کی وجہ سے ادب و احترام کرے گا تو اللہ تعالی اس جوان پر بڑھاپے کے وقت ایسے بندے مقرر کر دے گا جو اس وقت اس کا ادب و احترام کریں گے ۔
عصر حاضر میں انسانی جان کی وہ حرمت ختم کی جارہی ہے جو اللہ کے رسول ؐ نے انسانوں کو عطا کی تھی۔ آپؐ پر نازل ہونے والی مقدس کتاب میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا اور ایک انسان کی جان کو بچانا پوری انسانیت کی جان کو بچانے کے برابر قرار دیا گیا۔ دہشت گردی کے کسی واقعے میں سیکڑوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر انسانی جان کی حرمت اور عزت کو پامال کیا جاتا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا ممالک اور تنظیمیں معصوم شیر خوار بچوں اور عورتوں کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔
اگر اس دور کے انسان حقیقی معنوں میں انسانی جان کو حرمت اور عزت عطا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اللہ تعالی کے آخری رسول ؐ کے اسوۂ حسنہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور دہرے معیار کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس سیرت میں تو دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کی تعلیم موجود ہے۔
آج کے ہمارے اسلامی معاشروں میں بھی یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس مال و دولت زیادہ آجاتی ہے یا اسے کوئی اچھا عہدہ مل جاتا ہے تو وہ تکبّر کرنے لگ جاتا ہے۔ آپؐ کی تعلیمات میں تکبّر کی مذمت کی گئی ہے۔ آپؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ کسی آدمی کے لیے یہ شر ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ہر مسلمان کا سب کچھ مسلمان پر حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت و تکریم۔ تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ تکبّر کرنے والے ہلاک اور برباد ہوئے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔ جب کہ عاجزی کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
غرض آج اقوام عالم کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص اپنے رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اس ترقی یافتہ دور میں انسان کو اس کا صحیح مقام دینے میں کام یاب ہوئے ہیں یا نہیں ۔ اگر وہ صحیح معنوں میں انسان کو اس کا حقیقی مقام دینے میں مخلص ہیں تو وہ بلا تفریق مذہب و ملت، رنگ و نسل سیرۃ النبی ﷺ کی روشنی میں انسان کو عزت و توقیر عطا کرسکتے ہیں۔
آپؐ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان کو بچانا پوری انسانیت
کو بچانے کے مترادف قرار دیا
اللہ تعالی نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنایا۔ اللہ تعالی نے تما م انسانوں کو حضرت آدمؑ سے پیدا کیا اور اولادِ آدم کو عزت و تکریم عطا کی۔ اس عزت و تکریم کی بنیاد انسان کا شعور اور رشتوں کی تمیز ہے، جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کر دیتی ہے۔ انسان تمام مخلوقات سے اعلی اور افضل ہے۔ انسان کی تخلیق کا مقصدِ وحید یہی تھا کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت کرے۔ لیکن نبی کریم ؐ کی آمد سے قبل انسان مٹی اور پتھر کے بے جان بتوں کے آگے سجدہ ریز ہو چکا تھا۔
آپؐ کی بعثت انسانوں کے لیے اللہ تعالی کا احسان عظیم تھا۔ آپؐ نے انسانوں کو ان کے حقیقی خدا کے آگے سجدہ ریز کرکے انہیں حقیقی عزت و توقیر عطا کی۔ اس لیے کہ انسان اپنے سے کم تر کے آگے سر جھکا کر اپنا مقام کھو دیتا ہے۔ عقیدۂ توحید، انسان کو حقیقی عزت نفس عطا کرتا ہے۔ انسان جب صرف اللہ کے آگے جھکتا ہے، تو اس میں خودداری کا وصف پیدا ہوتا ہے۔ یہی وصف اس کی عزت و توقیر میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ عقیدہ انسان کو ہر قسم کی دنیاوی شرم ساری سے بچا لیتا ہے۔ انسان قیامت کے دن بھی شرم سار ہونے سے بچ جائے گا اور اسے کام یابی اور بلند درجات سے نواز کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ آپ ؐ نے انسانوں کو پہلا پیغام یہی دیا تھا کہ کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تم کام یاب ہو جاؤ گے۔
آپ ؐ کی بعثت سے قبل عرب کے جاہل معاشرے میں بیٹی کو بے عزتی کی نشانی اور معاشی بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ لہذا اس کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ آپ ؐ نے بیٹیوں کو جینے کا حق دیا اور حقیقی عزت اور توقیر عطا کی۔ آپؐ نے اس مومن کے لیے آخرت میں اپنے قرب کا اعلان کیا جو اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے بعد ان کو اپنے گھر سے رخصت کرتا ہے۔ آپؐ نے دنیا کی جن تین چیزوں کو پسند فرمایا ان میں نیک عورت بھی شامل ہے۔
آپؐ نے خواتین کو حقیقی معنی میں عزت عطا کی۔ ماں کی صورت میں جنت کو اس کو قدموں کی خاک بنا دیا۔ بیٹی کی صورت میں رحمت قرار دیا اور بیوی کی صورت میں اسے باعثِ راحت و سکون قرار دیا۔ اس کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے کو مومنوں میں سے سب سے بہتر قرار دیا۔ قرآن مجید میں مومن عورت اور مرد اعمال صالحہ کے لحاظ سے برابر اجر کے مستحق ہیں۔ آپ ؐ نے خواتین کو وراثت میں حصہ عطا کیا۔ نکاح کی صورت میں اس کی رائے کا احترام کیا۔
یہ عزت آپ ؐ نے صرف مسلمان عورتوں کو نہیں بل کہ غیر مسلم عورتوں کو بھی عطا کی۔ انسانوں نے معاشروں کو رنگ و نسل، زبان اور لہجے، ذات پات کے نظام پر قائم کیا اور انہی کو معیار فضیلت قرار دیا۔ قرآن حکیم نے عزت اور فضیلت کا معیار ایمان، علم، تقوی اور جہاد کو قرار دیا۔ قرآن مجید کی رو سے انسانوں میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ اسی آیت کی تشریح فرماتے ہوئے آپؐ نے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، اسی طرح کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدمؑ کو مٹی سے تخلیق کیا گیا تھا ۔
آپؐ کو معراج عطا کی گئی اور آپ ؐ سدرۃ المنتہی تک جا پہنچے۔ اس معراج کی تصدیق کرنے پر حضرت ابوبکر ؓ کو ''صدیق '' کا لقب عطا ہوا۔ مومنوں میں سے جو بھی معراج حاصل کرنا چاہتا ہے وہ نماز قائم کر کے معراج حاصل کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ نبی مکرم ﷺ نے نماز کو مومن کی معراج قرار دیا۔ ایسے لوگ جو جاہلیت کے زمانے میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتے تھے، آپؐ کی رفاقت اور صحبت نے انہیں عظیم الشان مقام عطا کیا، راہ زن راہ بر بن گئے۔ خون کے پیاسے، الفت و محبت کے خُوگر ہوگئے۔ اللہ ان سے راضی ہو جاتا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوجاتے ہیں۔ ان کے ایمان کو مثالی قرار دیا جاتا ہے اور ان کی طرح ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ انہیں دنیا کی زندگی میں ہی جنت کی بشارتیں دے دی جاتی ہیں۔ ان کے تذکروں سے قرآن کو سجایا جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ حضرت محمد ﷺ کی اتباع نہ کرتے تو انہیں یہ مقام کبھی حاصل نہ ہوتا۔
آپ ؐ نے انسانوں سے محبّت کی اور اپنی مثالی تعلیمات میں بعض انسانوں کو بڑی عزت دی ہے۔ آپ ؐ نے اُن لوگوں کے ہاتھوں کو بوسہ دیا جو محنت کر کے کماتے ہیں۔ ہاتھ سے کما کے کھانے والے کو اللہ کا دوست قرار دیا۔ آپؐ نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے ہمسائے کی عزت کرنی چاہیے اور جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔
آپؐ نے استاد اور سسر کو والد کا درجہ دیا یعنی ان کا احترام اس طرح کیا جائے جیسے اپنے والد کا احترام کیا جاتا ہے۔ آپؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ جو جوان کسی بوڑھے بزرگ کا اس کے بڑھاپے ہی کی وجہ سے ادب و احترام کرے گا تو اللہ تعالی اس جوان پر بڑھاپے کے وقت ایسے بندے مقرر کر دے گا جو اس وقت اس کا ادب و احترام کریں گے ۔
عصر حاضر میں انسانی جان کی وہ حرمت ختم کی جارہی ہے جو اللہ کے رسول ؐ نے انسانوں کو عطا کی تھی۔ آپؐ پر نازل ہونے والی مقدس کتاب میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا اور ایک انسان کی جان کو بچانا پوری انسانیت کی جان کو بچانے کے برابر قرار دیا گیا۔ دہشت گردی کے کسی واقعے میں سیکڑوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر انسانی جان کی حرمت اور عزت کو پامال کیا جاتا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا ممالک اور تنظیمیں معصوم شیر خوار بچوں اور عورتوں کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔
اگر اس دور کے انسان حقیقی معنوں میں انسانی جان کو حرمت اور عزت عطا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اللہ تعالی کے آخری رسول ؐ کے اسوۂ حسنہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور دہرے معیار کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس سیرت میں تو دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کی تعلیم موجود ہے۔
آج کے ہمارے اسلامی معاشروں میں بھی یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس مال و دولت زیادہ آجاتی ہے یا اسے کوئی اچھا عہدہ مل جاتا ہے تو وہ تکبّر کرنے لگ جاتا ہے۔ آپؐ کی تعلیمات میں تکبّر کی مذمت کی گئی ہے۔ آپؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ کسی آدمی کے لیے یہ شر ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ہر مسلمان کا سب کچھ مسلمان پر حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت و تکریم۔ تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ تکبّر کرنے والے ہلاک اور برباد ہوئے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔ جب کہ عاجزی کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
غرض آج اقوام عالم کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص اپنے رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اس ترقی یافتہ دور میں انسان کو اس کا صحیح مقام دینے میں کام یاب ہوئے ہیں یا نہیں ۔ اگر وہ صحیح معنوں میں انسان کو اس کا حقیقی مقام دینے میں مخلص ہیں تو وہ بلا تفریق مذہب و ملت، رنگ و نسل سیرۃ النبی ﷺ کی روشنی میں انسان کو عزت و توقیر عطا کرسکتے ہیں۔