والدین نعمتِ عظیم
اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آیا جائے۔
والدین درحقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کا وجود والدین کے رہین منت ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِِ سلوک کا حکم دیا، جب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک مت کہو۔
قرآن حکیم میں والدین کے ساتھ اس وقت خصوصی حُسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔ کیوں کہ اس عمر میں انسان عموما چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا والدین کو ان حالات میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت اور توقع ہوتی ہے۔
جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو والدین اپنی نیند کی پروا کیے بغیر اپنے لخت جگر کی نیند کی پروا کرتے ہیں۔ اپنی بیماری کی پروا کیے بغیر رات کے اندھیرے میں بھی اپنے لخت جگر کو اٹھا کر اسے سلانے کی کوشش کرتے ہیں، جو بھی ان کے بس میں ہوتا ہے، وہ اپنے لخت جگر کو ہر طرح کا آرام پہنچاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے بھی ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھ دیا۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا اگر جنت چاہیے تو اپنے والدین کی خدمت کرو' والدین جو حکم دیں ان کو بجا لاؤ، ان کے سامنے اُف تک نہ کرو، ان کے استقبال کے لیے کھڑے رہو۔ جس طرح کئی مقامات پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایۂ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو اِن کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی، کہ اے میرے رب میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما، جس طرح کہ انہوں نے مجھے پالا یعنی میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا۔
والدین اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے۔ یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کے بعد باپ ہی کی شخصیت ہے جو اولاد کی حفاظت اور پرورش و پرداخت میں اثر انداز ہوتی ہے، اس کو تعلیم و تربیت دینے میں اور اس کو ہر طرح سے نکھارنے میں باپ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اس کے خون پسینے کمائی اولاد کے لیے صرف ہوتی ہے، اسی طرح اولاد کے غم اور ان کی خوشی کو محسوس باپ ہی کرتا ہے۔ ماں کے بعد باپ بھی اپنی زندگی کا انمول حصہ اولاد کی نذر کردیتا ہے۔
اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایمان کی حالت میں میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ ماں اور پھر باپ یہ دونوں اس دنیا میں نہایت قیمتی جوہر ہیں اور جنت میں داخل ہونے کے اسباب بھی ہیں، انسان کی بدنصیبی اس سے بڑھ کے اور کیا ہوگی کہ اسے اپنے باپ کی محبت میں ڈراما نظر آنے لگے اور اپنے ہی بچے اپنے باپ کی برائیاں کرنے لگیں تو قیامت کو برپا ہونے کے لیے اس سے بہتر وقت کیا مل سکتا ہے۔
باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے، ماں باپ کے سامنے اونچا مت بولو ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں نیچا کر دے گا، والدین کے سامنے نظریں جھکا کے رکھو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں بلند رکھے، باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ باکمال ہوسکو، ماں باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت سے گرا دیں گے۔ باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش ان کی تربیت کے سلسلے میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو۔ ایک موقع پر ایک صحابیؓ آپ ﷺ کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے موقع پر میں کیا کروں۔ آپ ﷺ نے جواب دیا تُو اور تیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے۔
آج کے پُرفتن دور میں والدین کی ناقدری وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ والدین کی نافرمانی عام سی بات ہوگئی۔ والدین کے ساتھ بدسلوکی اس حد تک عام ہوگئی کہ والدین کو گھر سے باہر نکالا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اولڈ ہاؤسیز کی کثرت ہورہی ہے۔
آپ ﷺ نے جو علامات قیامت بیان کی تھیں کہ قرب قیامت میں والدین کی نافرمانی عام ہوگی۔ قرآن مجید کی رو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہیں کروگے نیکی تک نہیں پہنچ سکو گے، تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تمہاری اصل و بنیاد ہے اور تم اس کی شاخ ہو، اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا، پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردے تو اس وقت تم یہ خیال کرو کہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرو اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : اللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھا دیا جائے، تو اس کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لیے خوش خبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمائیں گے۔ اس لیے اپنے ماں باپ کی بہت خدمت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرماں برداری کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائی کرنے والا بنائے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک ایک نہایت بنیادی حق اور اہم ترین فریضہ ہے، اسی طرح ان کی خدمت و فرماں برداری بھی ایک بہترین اطاعت ہے یہی وجہ ہے کہ رب العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد عبیر خان
قرآن حکیم میں والدین کے ساتھ اس وقت خصوصی حُسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔ کیوں کہ اس عمر میں انسان عموما چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا والدین کو ان حالات میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت اور توقع ہوتی ہے۔
جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو والدین اپنی نیند کی پروا کیے بغیر اپنے لخت جگر کی نیند کی پروا کرتے ہیں۔ اپنی بیماری کی پروا کیے بغیر رات کے اندھیرے میں بھی اپنے لخت جگر کو اٹھا کر اسے سلانے کی کوشش کرتے ہیں، جو بھی ان کے بس میں ہوتا ہے، وہ اپنے لخت جگر کو ہر طرح کا آرام پہنچاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے بھی ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھ دیا۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا اگر جنت چاہیے تو اپنے والدین کی خدمت کرو' والدین جو حکم دیں ان کو بجا لاؤ، ان کے سامنے اُف تک نہ کرو، ان کے استقبال کے لیے کھڑے رہو۔ جس طرح کئی مقامات پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایۂ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو اِن کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی، کہ اے میرے رب میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما، جس طرح کہ انہوں نے مجھے پالا یعنی میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا۔
والدین اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے۔ یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کے بعد باپ ہی کی شخصیت ہے جو اولاد کی حفاظت اور پرورش و پرداخت میں اثر انداز ہوتی ہے، اس کو تعلیم و تربیت دینے میں اور اس کو ہر طرح سے نکھارنے میں باپ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اس کے خون پسینے کمائی اولاد کے لیے صرف ہوتی ہے، اسی طرح اولاد کے غم اور ان کی خوشی کو محسوس باپ ہی کرتا ہے۔ ماں کے بعد باپ بھی اپنی زندگی کا انمول حصہ اولاد کی نذر کردیتا ہے۔
اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایمان کی حالت میں میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ ماں اور پھر باپ یہ دونوں اس دنیا میں نہایت قیمتی جوہر ہیں اور جنت میں داخل ہونے کے اسباب بھی ہیں، انسان کی بدنصیبی اس سے بڑھ کے اور کیا ہوگی کہ اسے اپنے باپ کی محبت میں ڈراما نظر آنے لگے اور اپنے ہی بچے اپنے باپ کی برائیاں کرنے لگیں تو قیامت کو برپا ہونے کے لیے اس سے بہتر وقت کیا مل سکتا ہے۔
باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے، ماں باپ کے سامنے اونچا مت بولو ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں نیچا کر دے گا، والدین کے سامنے نظریں جھکا کے رکھو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں بلند رکھے، باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ باکمال ہوسکو، ماں باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ اللہ تعالیٰ تمہیں جنت سے گرا دیں گے۔ باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش ان کی تربیت کے سلسلے میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو۔ ایک موقع پر ایک صحابیؓ آپ ﷺ کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے موقع پر میں کیا کروں۔ آپ ﷺ نے جواب دیا تُو اور تیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے۔
آج کے پُرفتن دور میں والدین کی ناقدری وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ والدین کی نافرمانی عام سی بات ہوگئی۔ والدین کے ساتھ بدسلوکی اس حد تک عام ہوگئی کہ والدین کو گھر سے باہر نکالا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اولڈ ہاؤسیز کی کثرت ہورہی ہے۔
آپ ﷺ نے جو علامات قیامت بیان کی تھیں کہ قرب قیامت میں والدین کی نافرمانی عام ہوگی۔ قرآن مجید کی رو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہیں کروگے نیکی تک نہیں پہنچ سکو گے، تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تمہاری اصل و بنیاد ہے اور تم اس کی شاخ ہو، اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا، پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردے تو اس وقت تم یہ خیال کرو کہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرو اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : اللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھا دیا جائے، تو اس کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور رشتے داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لیے خوش خبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمائیں گے۔ اس لیے اپنے ماں باپ کی بہت خدمت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرماں برداری کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائی کرنے والا بنائے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک ایک نہایت بنیادی حق اور اہم ترین فریضہ ہے، اسی طرح ان کی خدمت و فرماں برداری بھی ایک بہترین اطاعت ہے یہی وجہ ہے کہ رب العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد عبیر خان