امریکا بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ دہشت گردی کیلیے ہے ایکسپریس فورم
بھارت کے ذریعے یا امریکا خود پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے، ماریہ سلطان
ملک کے معروف تجزیہ کاروں نے امریکا، بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کو پاکستان کا گھیرا تنگ کرنے، افغانستان میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے اور اسلامی دنیا میں فرقہ واریت، دہشت گردی اور انارکی کی راہیں ہموار کرنے کی سازش قراردیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو خارجہ پالیسی میں استحکام لانے اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار ساؤتھ ایشین اسٹرٹیجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ کی چیئرپرسن معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر ماریہ سلطان، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنسزکے بانی چیئرمین و پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان اور اسٹرٹیجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر آمنہ افضل نے ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 4 مختلف ایشوز پر تعلقات استوارکرنے کی پالیسی بنائی ہے۔ اس میں دفاعی معاہدے، دفاعی پیداوار، دفاعی صلاحیت کی بہتری اور دفاعی معاملات کو درست کرنا ہے،د فاعی تجارت، لاجسٹک سپورٹ، لاجسٹک کمیونیکیشن ، مشترکہ دفاعی تعاون، بحرہند میں امریکا کو رسائی، ایٹمی کلب میں بھارت کو شامل کرنا، بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی ، سیٹلائٹ اور خلائی پروگرام ، ثقافتی معاہدے بھی پالیسی کاحصہ ہیں، بھارت امریکا مشترکہ دفاع، بندرگاہیں، مشترکہ ایکشن اور مشترکہ تعاون میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
امریکا بھارتی فوج کوتربیت دے گا جس میں ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے، اس پالیسی پرگزشتہ 17 سال سے عمل جاری ہے، جماعۃ الدعوۃ پر پاپندی، کشمیر، افغانستان اور افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کی راہیں ہموارکرنا بھی پالیسی کا حصہ ہے، بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کو آسان نہ سمجھا جائے، اگر یہ مان لیا گیا تو یہی کام امریکا کشمیر میں بھی کرے گا، اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ امریکی چھتری میں ہوا ہے اور یہ کشمیر کیلیے انتہائی نقصان دہ ہے، اس وقت ہمیں واضح اور فعال خارجہ پالیسی بنانا ہوگی۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ قومی بیانیہ بہت اہم ہے تاہم اگر یہ 17 سال پہلے ہوجاتا تو ہمیں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ نہ لڑنا پڑتی، یہ بیانیہ اجتہادکی ایک نئی قسم ہے، اس وقت ہم پر مسلکی جنگ ٹھونسنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں آپس میں لڑانے کیلیے فرقہ واریت کا سہارا لیا جا رہا ہے ، شیعہ، سنی کے بعد اب بریلوی مکتبہ فکر کو بھی شدت پسند بنانے کی سازش کی جا رہی ہے، انھوں نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے امریکا کے پاس 4 آپشن ہیں۔
ایک پاکستان پر خود حملہ کر دے، دوسرا یہ کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لائی جائے، داعش کو سپورٹ کر کے حملے بڑھائے جائیں، تیسرا یہ کہ بریلوی مکتبہ فکر کو مشتعل کیا جائے اور چوتھا یہ آپشن ہے کہ بھارت کے ذریعے پاکستان پر حملہ کرایا جائے، انھوں نے کہا اسے اسٹرٹٰجک اسٹرائیک کا نام دیا جا سکتا ہے تاہم حملے کے بعد جنگ کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ پاکستان جواب میں صرف یہی کرے۔ یہ روایتی جنگ ہے، ایسی جنگ خطے میں عدم استحکام کے ساتھ ساتھ خود امریکا کیلیے بھی نقصان د ہ ہوسکتی ہے تاہم بھارت سے کوئی بعید نہیں ہے وہ یہ حملہ کر سکتا ہے، ہمیں تیار رہنا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان نے کہاکہ امریکی فوج اور حکومت اگرچہ افغانستان سے متعلق پاکستان کے کردارکو اہمیت دیتی ہیں لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ کبھی خوش نہیں ہوئی، انھوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکا کی جانب سے پاکستان پر متعدد بار دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائدکیا جا چکا ہے، پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ انڈیا، امریکا اور اسرائیل گٹھ جوڑ کے توڑ کیلیے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے خاص طور پر اسلامی ممالک کے بننے والے حالیہ دفاعی اتحاد کو موثر بنانے کیلیے کردار ادا کریں۔
آمنہ افضل نے کہا کہ ایٹمی طاقت کے باعث پاکستان کو دنیا میں اہم مقام حاصل ہے، پاکستان سی پیک کے تحت اپنی معیشت کو بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے، اب یہ بات انڈیا کیلیے قابل قبول نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ بھارت خطے میں چوہدراہٹ قائم رکھنے کیلیے پاکستان اور چین کے مقابلے میں امریکا اور اسرائیل کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار ساؤتھ ایشین اسٹرٹیجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ کی چیئرپرسن معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر ماریہ سلطان، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنسزکے بانی چیئرمین و پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان اور اسٹرٹیجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر آمنہ افضل نے ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 4 مختلف ایشوز پر تعلقات استوارکرنے کی پالیسی بنائی ہے۔ اس میں دفاعی معاہدے، دفاعی پیداوار، دفاعی صلاحیت کی بہتری اور دفاعی معاملات کو درست کرنا ہے،د فاعی تجارت، لاجسٹک سپورٹ، لاجسٹک کمیونیکیشن ، مشترکہ دفاعی تعاون، بحرہند میں امریکا کو رسائی، ایٹمی کلب میں بھارت کو شامل کرنا، بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی ، سیٹلائٹ اور خلائی پروگرام ، ثقافتی معاہدے بھی پالیسی کاحصہ ہیں، بھارت امریکا مشترکہ دفاع، بندرگاہیں، مشترکہ ایکشن اور مشترکہ تعاون میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
امریکا بھارتی فوج کوتربیت دے گا جس میں ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے، اس پالیسی پرگزشتہ 17 سال سے عمل جاری ہے، جماعۃ الدعوۃ پر پاپندی، کشمیر، افغانستان اور افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کی راہیں ہموارکرنا بھی پالیسی کا حصہ ہے، بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کو آسان نہ سمجھا جائے، اگر یہ مان لیا گیا تو یہی کام امریکا کشمیر میں بھی کرے گا، اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ امریکی چھتری میں ہوا ہے اور یہ کشمیر کیلیے انتہائی نقصان دہ ہے، اس وقت ہمیں واضح اور فعال خارجہ پالیسی بنانا ہوگی۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ قومی بیانیہ بہت اہم ہے تاہم اگر یہ 17 سال پہلے ہوجاتا تو ہمیں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ نہ لڑنا پڑتی، یہ بیانیہ اجتہادکی ایک نئی قسم ہے، اس وقت ہم پر مسلکی جنگ ٹھونسنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں آپس میں لڑانے کیلیے فرقہ واریت کا سہارا لیا جا رہا ہے ، شیعہ، سنی کے بعد اب بریلوی مکتبہ فکر کو بھی شدت پسند بنانے کی سازش کی جا رہی ہے، انھوں نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے امریکا کے پاس 4 آپشن ہیں۔
ایک پاکستان پر خود حملہ کر دے، دوسرا یہ کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لائی جائے، داعش کو سپورٹ کر کے حملے بڑھائے جائیں، تیسرا یہ کہ بریلوی مکتبہ فکر کو مشتعل کیا جائے اور چوتھا یہ آپشن ہے کہ بھارت کے ذریعے پاکستان پر حملہ کرایا جائے، انھوں نے کہا اسے اسٹرٹٰجک اسٹرائیک کا نام دیا جا سکتا ہے تاہم حملے کے بعد جنگ کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ پاکستان جواب میں صرف یہی کرے۔ یہ روایتی جنگ ہے، ایسی جنگ خطے میں عدم استحکام کے ساتھ ساتھ خود امریکا کیلیے بھی نقصان د ہ ہوسکتی ہے تاہم بھارت سے کوئی بعید نہیں ہے وہ یہ حملہ کر سکتا ہے، ہمیں تیار رہنا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان نے کہاکہ امریکی فوج اور حکومت اگرچہ افغانستان سے متعلق پاکستان کے کردارکو اہمیت دیتی ہیں لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ کبھی خوش نہیں ہوئی، انھوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکا کی جانب سے پاکستان پر متعدد بار دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائدکیا جا چکا ہے، پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ انڈیا، امریکا اور اسرائیل گٹھ جوڑ کے توڑ کیلیے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے خاص طور پر اسلامی ممالک کے بننے والے حالیہ دفاعی اتحاد کو موثر بنانے کیلیے کردار ادا کریں۔
آمنہ افضل نے کہا کہ ایٹمی طاقت کے باعث پاکستان کو دنیا میں اہم مقام حاصل ہے، پاکستان سی پیک کے تحت اپنی معیشت کو بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے، اب یہ بات انڈیا کیلیے قابل قبول نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ بھارت خطے میں چوہدراہٹ قائم رکھنے کیلیے پاکستان اور چین کے مقابلے میں امریکا اور اسرائیل کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں کر رہا ہے۔