معروف ڈرامہ نگار منو بھائی لاہور میں سپردخاک

منو بھائی کئی روز سے پھیپڑوں کے مرض میں مبتلا تھے

منو بھائی کی نماز جنازہ آج بعد نماز عصر لاہور میں ادا کی گئی ۔ فوٹوفائل

مشہور ادیب اور ڈراما نگار منیر احمد قریشی عرف منو بھائی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق منو بھائی کئی روز سے پھیپڑوں کے مرض میں مبتلا تھے، آج صبح طبیعت زیادہ بگڑنے پر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان کی نماز جنازہ آج بعد نماز عصر لاہور میں ادا کرنے کے بعد مقامی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔

منیر احمد قریشی نے 6 فروری 1933 کو وزیر آباد میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے، کتابوں کی جلد سازی اور کتابت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دادا سے ہی ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، یوسف زلیخا کے قصے اور الف لیلیٰ کی کہانیاں سنیں، جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔

وزیرآباد سے 1947 میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک) آ گئے جہاں شفقت تنویر مرزا، منظور عارف اور عنایت الہی سے ان کی دوستی ہوئی۔ منیر احمد قریشی کو منو بھائی کا نام بھی احمد ندیم قاسمی نے دیا۔


7 جولائی 1970 کو اردو اخبار میں ان کا پہلا کالم شائع ہوا ۔ جس کے بعد انہوں نے مختلف اخبارات میں ہزاروں کالم لکھے۔ غربت، عدم مساوات، سرمایہ دارانہ نظام، خواتین کا استحصال اور عام آدمی کے مسائل منو بھائی کے کالموں کے موضوعات تھے۔

ڈرامہ نگاری بھی منو بھائی کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لیے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر جیسےلازوال ڈرامے تحریر کیے۔

منو بھائی کے انتقال پر وزیرا علیٰ پنجاب شہباز شریف نے ان کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی اور اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ منو بھائی اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے تھے، انہوں نے اردو کالم نویسی کو اختراعی جہت عطا کی، منو بھائی کی ادبی و صحافتی خدمات ناقابل فراموش ہیں ، ان کی ادب اور صحافت کے لیے خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔

Load Next Story