بلوچستان میں حکومت کیسے تبدیل ہوئی
بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی بہت باتیں ہوئی مگر ابھی تک صوبائی سیاست و حکومت کو بھی قومی دھارے میں نہ لایا جاسکا
SIALKOT:
2 جنوری کو وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد صوبے میں شروع ہونے والا سیاسی طوفان نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے انتخاب اور صوبائی کابینہ کی تشکیل کے بعد تھمنے لگی ہے۔ لیکن شروع سے اب تک متذکرہ غیر متوقع سیاسی تبدیلی کے متعلق سامنے آنے والی قیاس آرائیوں، سوالات اور خدشات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کے تحریک کا اہم کردار بلوچستان کے شورش زدہ ضلع آواران سے 544 ووٹ لے کر ایم پی اے منتخب ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنماء میر عبدالقدوس بزنجو تھے جنہیں اپنے ہم خیال دوستوں کے ہمراہ بظاہر تو نواب ثناء اللہ زہری سے مختلف معاملات میں اعتماد میں نہ لینے کا گلا تھا، لیکن بعض اطلاعات کے مطابق ترقیاتی فنڈز و ملازمتوں کی تقسیم اور بیوروکریسی میں تقرر و تبادلوں میں وزیراعلیٰ اور اکثر وزرا و ایم پی ایز میں عدم ہم آہنگی اختلافات کی وجہ بنے۔ ابتدا میں تحریکِ عدم اعتماد 14 ارکان اسمبلی نے پیش کی، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک ایک کرکے ق لیگ اور ن لیگ کے وزراء استعفے دے کر صوبائی حکومت سے الگ ہونے لگے جو بظاہر طے شدہ حکمت عملی بھی تھی۔ اس کے تحت نواب ثناء اللہ زہری پر دباؤ ڈالنا تھا۔ جبکہ دوسری جانب نواب ثناء اللہ زہری نے بھی باغی ارکان پر جوابی دباؤ ڈالنے کےلیے نہ صرف وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی اور معاون خصوصی برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن امان اللہ نوتیزئی کو برطرف کیا بلکہ باغی ارکان کے حلقوں میں بیوروکریسی میں بھی بڑے پیمانے پر نئے تقرر تبادلے کرکے اکثر منحرف ارکان اسمبلی کی سیکیورٹی بھی واپس لے لی۔
65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کےلیے باغی ارکان کو 33 ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن ان کی جانب سے 40 ایم پی ایز کی حمایت کا دعویٰ کیا گیا، جن میں ن لیگ کی سب سے اہم اتحادی جماعت نیشنل پارٹی کے رہنماء میر خالد لانگو بھی شامل تھے جنہیں خزانہ کرپشن اسکینڈل کے تحت سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعد 25 مئی 2016 کو گرفتار کیا گیا جو تاحال نیب کی تحویل میں اپنی رہائشگاہ میں زیر حراست ہیں۔ عدم اعتماد کی اس تحریک کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والے سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی (مینگل)، سابق وفاقی وزیر اسرار زہری کی جماعت بی این پی (عوامی)، مجلس وحدت المسلمین، جے یو آئی(ف) اور آزاد رکن اسمبلی طارق مگسی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ مرکز میں اہم اتحادی ہونے کے باوجود ن لیگ کی قیادت مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو بلوچستان میں ن لیگی وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے الگ نہ کرسکے جس کی ایک وجہ جے یو آئی (ف) کا صوبے میں ابتداء سے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا بھی تھا۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک صوبے میں سرگرم ایک سیاسی ٹرائیکا کی ایماء پر اچانک نمودار ہوا جس کے رابطے پی پی پی کے شریک چیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ہیں۔
خیال رہے کہ یکم مارچ 2017 کو عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں ن لیگ اور ق لیگ کے ایک درجن سے زائد وزراء اور ایم پی ایز نے آصف علی زرداری سے حب میں ملاقات کی تھی جن میں صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی شامل تھے۔ بعد ازاں ن لیگ کی مرکزی قیادت نے اس ملاقات کا نوٹس بھی لیا لیکن پھر بظاہر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کرنے سے محض ایک روز قبل یعنی 08 جنوری کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کوئٹہ تشریف لائے تو ن لیگ کے اکثر ارکان اسمبلی نے نہ صرف ان کا استقبال نہیں کیا بلکہ انہوں نے بارہا بلاوے کے باوجود وزیراعظم سے ملاقات سے بھی انکار کردیا۔ اسی روز جب وزیراعظم نے ن لیگ کے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا تو وہاں بھی محض 6 ارکان گئے۔ دوسری جانب اسی روز کراچی میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے پرسنل اسٹاف سیکرٹری ایوب قریشی کی تحقیقاتی اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر بھی سامنے آئی جن کے متعلق میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ وہ ماہانہ 60 کروڑ روپے رشوت اکٹھا کرکے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کو دیتے تھے لیکن نواب ثناء اللہ زہری کی استعفے کے کچھ روز بعد انہیں رہا کردیا گیا۔ 09 جنوری کو جب صوبائی اسمبلی کا مقررہ اجلاس شروع ہوا ہی تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا جس کی وجہ انہوں نے اکثریتی ارکان کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی بتایا۔
13 جنوری کو جب صوبائی اسمبلی میں نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ شروع ہوئی تو حیرت انگیز طور پر پشتونخوامیپ کے ایم پی اے منظور کاکڑ نے اپنے پارٹی کے نامزد امیدوار لیاقت آغا کی بجائے اپوزیشن ارکان، ن لیگ اور ق لیگ کے مشترکہ امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا جبکہ وزیراعلیٰ کے انتخاب سے خود کو دور رکھنے والی جماعت نیشنل پارٹی کے تین ایم پی ایز خالد لانگو، فتح بلیدی اور میر مجیب محمد حسنی نے بھی عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا۔ 65 رکنی ایوان میں 41 ووٹوں سے کامیابی کے بعد نومنتخب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے ہمراہ ان کے 14 رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھایا جن میں پشتونخوامیپ کے منحرف ایم پی اے منظور کاکڑ بھی شامل ہیں۔
اس سارے کھیل میں جہاں مختلف حلقوں نے خفیہ طاقتوں کی جانب سے سینیٹ انتخابات ملتوی کرانے، اسمبلی تحلیل کرانے یا پاکستان مسلم لیگ ن کو گرانے کا تاثر دیا وہیں ایک بات بالکل واضح ہوگئی کہ بلوچستان میں سیاسی اداروں کی بجائے افراد طاقتور ہیں جس کی زندہ مثال 65 رکنی ایوان میں 5 سیٹیں رکھنے والی ق لیگ کی جانب سے وزارت اعلیٰ کا نشست حاصل کرنا ہے جو کسی اچھنبے سے کم نہیں۔
صوبے میں جاری سیاسی بحران کے دوران مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ہمیشہ سے دو اہم باتیں کرتے رہے جس میں پہلی بات صوبے کی سیاست کا حلقوں کی بنیاد پر تشکیل اور دوسری بات قومی سیاسی جماعتوں کی جانب سے صوبے کی سیاست میں عدم دلچسپی کا عنصر تھا جس سے انکار ممکن نہیں۔ بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں تو بہت کی گئیں لیکن بدقسمتی سے ابھی تک صوبے کی سیاست اور حکومت کو بھی قومی دھارے میں نہ لایا جاسکا، جس کی ایک مثال حالیہ حکومتی تبدیلی ہے جو صوبے کی سیاست کا منفرد مگر قابل فکر پہلو ہے۔ بلوچستان میں اکثر حلقوں سے ہمیشہ ایک ہی سیاسی خاندان کے افراد الیکشن جیت کر اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں جو اختیارات ملنے کے بعد ترقیاتی فنڈز کو غلط استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے صوبے میں لوگ اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اس لیے جب تک سیاسی جماعتیں صوبے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا کر روایتی سیاسی خاندانوں کے خلاف متبادل امیدوار نہیں لاتے صوبے کی سیاست، معیشت اور معاشرت باقی ملک سے الگ تھلگ ہی رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
2 جنوری کو وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد صوبے میں شروع ہونے والا سیاسی طوفان نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے انتخاب اور صوبائی کابینہ کی تشکیل کے بعد تھمنے لگی ہے۔ لیکن شروع سے اب تک متذکرہ غیر متوقع سیاسی تبدیلی کے متعلق سامنے آنے والی قیاس آرائیوں، سوالات اور خدشات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
سابق وزیرِاعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کے تحریک کا اہم کردار بلوچستان کے شورش زدہ ضلع آواران سے 544 ووٹ لے کر ایم پی اے منتخب ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنماء میر عبدالقدوس بزنجو تھے جنہیں اپنے ہم خیال دوستوں کے ہمراہ بظاہر تو نواب ثناء اللہ زہری سے مختلف معاملات میں اعتماد میں نہ لینے کا گلا تھا، لیکن بعض اطلاعات کے مطابق ترقیاتی فنڈز و ملازمتوں کی تقسیم اور بیوروکریسی میں تقرر و تبادلوں میں وزیراعلیٰ اور اکثر وزرا و ایم پی ایز میں عدم ہم آہنگی اختلافات کی وجہ بنے۔ ابتدا میں تحریکِ عدم اعتماد 14 ارکان اسمبلی نے پیش کی، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک ایک کرکے ق لیگ اور ن لیگ کے وزراء استعفے دے کر صوبائی حکومت سے الگ ہونے لگے جو بظاہر طے شدہ حکمت عملی بھی تھی۔ اس کے تحت نواب ثناء اللہ زہری پر دباؤ ڈالنا تھا۔ جبکہ دوسری جانب نواب ثناء اللہ زہری نے بھی باغی ارکان پر جوابی دباؤ ڈالنے کےلیے نہ صرف وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی اور معاون خصوصی برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن امان اللہ نوتیزئی کو برطرف کیا بلکہ باغی ارکان کے حلقوں میں بیوروکریسی میں بھی بڑے پیمانے پر نئے تقرر تبادلے کرکے اکثر منحرف ارکان اسمبلی کی سیکیورٹی بھی واپس لے لی۔
65 رکنی بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کےلیے باغی ارکان کو 33 ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن ان کی جانب سے 40 ایم پی ایز کی حمایت کا دعویٰ کیا گیا، جن میں ن لیگ کی سب سے اہم اتحادی جماعت نیشنل پارٹی کے رہنماء میر خالد لانگو بھی شامل تھے جنہیں خزانہ کرپشن اسکینڈل کے تحت سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعد 25 مئی 2016 کو گرفتار کیا گیا جو تاحال نیب کی تحویل میں اپنی رہائشگاہ میں زیر حراست ہیں۔ عدم اعتماد کی اس تحریک کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والے سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی (مینگل)، سابق وفاقی وزیر اسرار زہری کی جماعت بی این پی (عوامی)، مجلس وحدت المسلمین، جے یو آئی(ف) اور آزاد رکن اسمبلی طارق مگسی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ مرکز میں اہم اتحادی ہونے کے باوجود ن لیگ کی قیادت مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو بلوچستان میں ن لیگی وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے الگ نہ کرسکے جس کی ایک وجہ جے یو آئی (ف) کا صوبے میں ابتداء سے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا بھی تھا۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک صوبے میں سرگرم ایک سیاسی ٹرائیکا کی ایماء پر اچانک نمودار ہوا جس کے رابطے پی پی پی کے شریک چیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ہیں۔
خیال رہے کہ یکم مارچ 2017 کو عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں ن لیگ اور ق لیگ کے ایک درجن سے زائد وزراء اور ایم پی ایز نے آصف علی زرداری سے حب میں ملاقات کی تھی جن میں صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی شامل تھے۔ بعد ازاں ن لیگ کی مرکزی قیادت نے اس ملاقات کا نوٹس بھی لیا لیکن پھر بظاہر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کرنے سے محض ایک روز قبل یعنی 08 جنوری کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کوئٹہ تشریف لائے تو ن لیگ کے اکثر ارکان اسمبلی نے نہ صرف ان کا استقبال نہیں کیا بلکہ انہوں نے بارہا بلاوے کے باوجود وزیراعظم سے ملاقات سے بھی انکار کردیا۔ اسی روز جب وزیراعظم نے ن لیگ کے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا تو وہاں بھی محض 6 ارکان گئے۔ دوسری جانب اسی روز کراچی میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے پرسنل اسٹاف سیکرٹری ایوب قریشی کی تحقیقاتی اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر بھی سامنے آئی جن کے متعلق میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ وہ ماہانہ 60 کروڑ روپے رشوت اکٹھا کرکے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کو دیتے تھے لیکن نواب ثناء اللہ زہری کی استعفے کے کچھ روز بعد انہیں رہا کردیا گیا۔ 09 جنوری کو جب صوبائی اسمبلی کا مقررہ اجلاس شروع ہوا ہی تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا جس کی وجہ انہوں نے اکثریتی ارکان کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی بتایا۔
13 جنوری کو جب صوبائی اسمبلی میں نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ شروع ہوئی تو حیرت انگیز طور پر پشتونخوامیپ کے ایم پی اے منظور کاکڑ نے اپنے پارٹی کے نامزد امیدوار لیاقت آغا کی بجائے اپوزیشن ارکان، ن لیگ اور ق لیگ کے مشترکہ امیدوار میر عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا جبکہ وزیراعلیٰ کے انتخاب سے خود کو دور رکھنے والی جماعت نیشنل پارٹی کے تین ایم پی ایز خالد لانگو، فتح بلیدی اور میر مجیب محمد حسنی نے بھی عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا۔ 65 رکنی ایوان میں 41 ووٹوں سے کامیابی کے بعد نومنتخب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے ہمراہ ان کے 14 رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھایا جن میں پشتونخوامیپ کے منحرف ایم پی اے منظور کاکڑ بھی شامل ہیں۔
اس سارے کھیل میں جہاں مختلف حلقوں نے خفیہ طاقتوں کی جانب سے سینیٹ انتخابات ملتوی کرانے، اسمبلی تحلیل کرانے یا پاکستان مسلم لیگ ن کو گرانے کا تاثر دیا وہیں ایک بات بالکل واضح ہوگئی کہ بلوچستان میں سیاسی اداروں کی بجائے افراد طاقتور ہیں جس کی زندہ مثال 65 رکنی ایوان میں 5 سیٹیں رکھنے والی ق لیگ کی جانب سے وزارت اعلیٰ کا نشست حاصل کرنا ہے جو کسی اچھنبے سے کم نہیں۔
صوبے میں جاری سیاسی بحران کے دوران مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ہمیشہ سے دو اہم باتیں کرتے رہے جس میں پہلی بات صوبے کی سیاست کا حلقوں کی بنیاد پر تشکیل اور دوسری بات قومی سیاسی جماعتوں کی جانب سے صوبے کی سیاست میں عدم دلچسپی کا عنصر تھا جس سے انکار ممکن نہیں۔ بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں تو بہت کی گئیں لیکن بدقسمتی سے ابھی تک صوبے کی سیاست اور حکومت کو بھی قومی دھارے میں نہ لایا جاسکا، جس کی ایک مثال حالیہ حکومتی تبدیلی ہے جو صوبے کی سیاست کا منفرد مگر قابل فکر پہلو ہے۔ بلوچستان میں اکثر حلقوں سے ہمیشہ ایک ہی سیاسی خاندان کے افراد الیکشن جیت کر اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں جو اختیارات ملنے کے بعد ترقیاتی فنڈز کو غلط استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے صوبے میں لوگ اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اس لیے جب تک سیاسی جماعتیں صوبے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا کر روایتی سیاسی خاندانوں کے خلاف متبادل امیدوار نہیں لاتے صوبے کی سیاست، معیشت اور معاشرت باقی ملک سے الگ تھلگ ہی رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔