ڈونلڈ ٹرمپ ہر وقت زہر دیے جانے کے خوف کا شکار

باتیں دُہرانے کے عادی، یادداشت نہایت کم زور، نرگسیت میں مبتلا، عجیب وغریب عادتیں

مائیکل وولٹ کی کتاب ’’فائر اینڈ فیوری‘‘ کے انکشافات، تصنیف شایع ہونے کے بعد کی صورت حال۔ فوٹو: فائل

قلم کی طاقت واقعی ہتھیاروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کو جنگوں کے ذریعے قابو کرنے کے خواہش مند ڈونلڈ ٹرمپ، اپنے خلاف لکھی گئی ایک کتاب کا بوجھ بھی برداشت نہ کرسکے۔ اب ان کا جنونی رد عمل دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ جناب! دال میں کچھ تو کالا ہے، لیکن حیرت تو خود امریکیوں پر ہے، جو اس بات پر مصر ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں گذشتہ ایک سال سے پکنے والی پوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔

2017 میں صدارت کے منصب پر براجمان ہوتے ہی میڈیا اور صحافیوں کے خلاف ٹرمپی بیانات نے یہ تو باور کروا ہی دیا تھا کہ ٹرمپ اگر کسی طاقت سے خوف زدہ ہیں تو بس میڈیا کی طاقت سے۔ وہ برملا کہتے تھے کہ صحافی سب سے زیادہ بے ایمان افراد ہیں اور امریکا کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو پریس سے ہے۔

ان کا یہ خوف اس وقت حقیقت بن کر سر پر آن کھڑا ہو ا جب وائٹ ہاؤس کے رازوں کو بے نقاب کرنے والی مائیکل وولف کی تہلکہ انگیز کتاب ''فائر اینڈ فیوری، ان سائڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس'' منظر عام پر آئی۔ اس وقت سب کی زبانوں پر بس یہی سوالات ہیں کہ آخر یہ مائیکل وولف ہیں کون اور وائٹ ہاؤس تک ان کی رسائی کیسے ممکن ہوسکی؟ وولف برطانوی اخبار دی گارجین کے سابق کالم نویس ہیں، امریکا کے نام ور جریدوں میں ان کی اشاعتوں کی طویل فہرست موجود ہے۔

بااثر افراد کی رنگارنگ زندگیوں پر لکھنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ 2002 اور 2004 میں انہیں بہترین تحریر لکھنے پر نیشنل میگزین ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس جیسی عمارت، جہاں بنا اجازت پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہو، وہاں تک مائیکل وولف کی رسائی کیسے ممکن ہوئی؟ وہ کیسے وائٹ ہاؤس میں ایک طویل وقت گزار کر وہاں ایک ایک چیز کا جائزہ لیتے رہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مائیکل کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے خود ہی انہیں وائٹ ہاؤس میں رسائی کی خصوصی اجازت دی تھی۔ یہ اجازت نامہ مائیکل کے لیے کسی پاسپورٹ سے کم نہ تھا۔ مائیکل وولف بحیثیت کالم نگار ٹرمپ کو بے حد پسند تھے اور یہی پسندیدگی وولف کو وائٹ ہاؤس کے پراسرار رازوں تک لے گئی۔

ٹرمپ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ وولف ان کے ''کارناموں''کے بارے میں رطب اللسان ہو کر ایسی کتاب لکھیں گے جس سے دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کی عظمت کی معترف ہو جائے گی، لیکن ''افسوس'' ایسا کچھ نہ ہوا، وولف کے چنگھاڑتے اور سنسناتے الفاظ ٹرمپی امیدوں پر ایٹم بم بن کر گرے اور ان کی خواہشوں کو زمین بوس کرگئے۔ وائٹ ہاؤس میں گزارے وقت کے دوران وولف نے دو سو سے زائد ایسے لوگوں سے انٹرویو کیے جو ٹرمپ کے بے حد قریب تھے۔ ان انٹرویوز کا نچوڑ ہی اس کتاب کی تکمیل کا سبب بنا۔

مائیکل وولف نے گذشتہ سال دسمبر میں دی گارجین کو اپنی کتاب کے بارے میں آگاہ کیا اور واضح کیا کہ اس کتاب کا مقصد کسی کے ساتھ دشمنی نہیں بل کہ وہ دیانت داری کے ساتھ حقائق سامنے لانا چاہتے ہیں۔ سا تھ ہی انہوں نے دی گارجین کو یہ اجازت بھی دی کہ کتاب مارکیٹ میں آنے سے پہلے اس کے کچھ حصے شایع کردیے جائیں۔گارجین میں ان حصوں کی اشاعت کے ساتھ ہی ایک طوفان برپا ہو گیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے اس کتاب پر پابندی لگوانے کی کوششیں تو بہت کیں مگر وہ ناکام ہوئے ۔ مائیکل وولف نے کتاب پر پابندی عائد کیے جانے کے ڈر کے باعث معین کردہ وقت سے کئی دنوں پہلے ہی کتاب قارئین کے لیے، مارکیٹ میں پیش کردی۔

مصنف نے ''فائر اینڈ فیوری'' میں وائٹ ہاؤس کی پراسرار دیواروں سے پردے کھینچے ہیں اور جو راز افشا کیے ہیں انہوں نے امریکی قوم کے سامنے اپنے صدر کی اہلیت کے حوالے سے حیرت میں ڈوبے سوالات کھڑے کردیے۔ کتاب پڑھنے کے بعد امریکی صدر کی ذہنی حالت سے لے کر ان کی خارجہ پالیسیوں تک، ہر چیز مشکوک قرار پائی ہے۔ مائیکل وولف کا کہنا ہے کہ کتاب میں لکھی گئی ایک ایک بات کے ان کے پاس نا قابل تردید ثبوت موجود ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِصدارت کا پہلا سال مکمل ہونے سے قبل ہی، یہ تو ثابت کرگیا تھا کہ ٹرمپ کو ان کے کارنامے لے ڈوبیں گے، لیکن یہ برا وقت اتنی جلدی آنا تھا، اس کی امید نہیں تھی۔ اب ٹرمپ کتاب کے سرورق پر لگائی گئی اپنی تصویر کی مانند ہی منہہ سڑائے ٹوئٹ پر ٹوئٹ کرکے مغلظات بکے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے بس میں شاید اور کچھ ہے بھی نہیں۔ ٹرمپ تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے وولف کو کبھی وائٹ ہاؤس میں رسائی کی اجازت دی ہی نہیں اور نہ ان کو کوئی انٹرویو دیا ہے۔ نیز انہوں نے اس کتاب کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے، لیکن اب ان باتوں کا کیا فائدہ؟ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔

یوں تو پوری کتاب ہی انکشافات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی کے دل چسپ واقعات پر مشتمل ہے مگر انتخابات میں ٹرمپ کی صدارت کے اعلان کے بعد ان کا اور ان کی اہلیہ میلیانا ٹرمپ کا رد عمل کچھ زیادہ ہی حیران کن ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نہ تو انتخابات میں فتح کی امید تھی اور نہ ہی خواہش تھی بل کہ وہ تو شکست حاصل کرنے کے بعد، ایک میڈیا برانڈ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے تھے۔ ٹرمپ کبھی وائٹ ہاؤس میں رہنا ہی نہیں چاہتے تھے۔

لہٰذا جب نئے امریکی صدر کے طور پر ان کے نام کا اعلان ہوا، تو پہلے وہ بے حد حیران ہوئے پھر پریشان ہوگئے۔ ان کی بیٹی کے بقول ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے باپ نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ میلیانا تو بحیثیت صدر ٹرمپ کا نام سنتے ہی رو پڑیں (شاید انہیں یقین تھاکہ ان کے مزید برے دن شروع ہوچکے ہیں)۔ صدارت کی افتتاحی تقریب والے دن ڈونلڈ ٹرمپ سارا وقت بیوی پر چیختے چلاتے رہے، بیوی کے ساتھ ان کا لہجہ تیز اور الفاظ زہریلے تھے اور میلیانا آنکھوں میں ضبط بھرے اس تقریب میں شامل رہیں۔ ٹرمپ کو اس بات پر بھی بے حد غصہ تھا کہ میڈیا کی بہت سی مشہور شخصیات نے افتتاحی تقریب میں آنے سے انکار کردیا تھا، جسے وہ اپنی بے عزتی سے تعبیر کر رہے تھے۔

مائیکل وولف نے اس کتاب میں ٹرمپ کی شخصیت کا ایک انوکھا رخ پیش کیا ہے، جو اب تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ تھا۔ لکھتے ہیں کہ ٹرمپ کے معاون، قریبی دوست حتی کہ اہل ِ خانہ بھی انہیں صدارت کے لیے انتہائی غیرموزوں قرار دیتے ہیں۔ ان کے قریبی دوستوں کی رائے کے مطابق وہ بچکانہ ذہن کے مالک ہیں۔ ایک ہی بات کئی کئی بار دہرانے کے عادی اور انتہائی خراب یادداشت کے مالک ہیں۔ حتٰی کہ اپنے قریبی لوگوں کے نام تک بھول جاتے ہیں۔

نرگسیت میں مبتلا ٹرمپ کسی بھی معاملے پر یکسو رہنے کی صلاحیت سے بھی قطعی محروم ہیں۔ وولف لکھتے ہیں کہ ٹرمپ کا سب سے پسندیدہ کھیل دوستوں کی بیویوں کے ساتھ شب بسری کرنا ہے۔ وہ عجیب و غریب عادتوں کے مالک ہیں، خصوصاً بیڈ روم کی زندگی میں!! وہ بے لباس ہو کر بستر پر سونا پسند کرتے ہیں، اسی لیے بیڈ روم لاک کرنے کے معاملے پر سیکرٹ سروس سے متعدد بار ان کی بحث ہوئی، مگر ان کو بیڈ روم لاک کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ بقول مصنف، سیکرٹ سروس کا اصرار ہے کہ سیکیوریٹی کے پیش نظر انہیں ہر وقت امریکی صدر تک رسائی حاصل ہونا ضروری ہے، اور یہ بات ٹرمپ کو سخت ناگوار گزرتی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکی صدر اور ان کی اہلیہ کے استعمال میں دو الگ الگ بیڈ روم ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی خواب گاہ میں تین ٹی وی اسکرین لگوا رکھی ہیں، تاکہ وہ ایک وقت میں تین نیوز چینل دیکھ سکیں۔ صبح ساڑھے چھے بجے بیدار ہو کر ٹرمپ سب سے پہلے اپنی پسندیدہ چیز برگر کھاتے ہیں اور پھر گھنٹوں فوکس نیوز اور سی این این کی نشریات میں گُم رہتے ہیں۔ کھانے پینے کے دوران خوراک کے گرنے والے ذرات کی صفائی کی اجازت وہ کسی ملازم کو نہیں دیتے۔ وہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں زہر نہ دے دیا جائے، لہذا ان کی چیزوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں، خصوصاً ٹوتھ برش کو۔

مصنف مائکل وولف لکھتے ہیں کہ صدر کے قریبی مشیر ان کے صدارتی عہدے کے قابل ہونے پر خود ہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سفارتی اور مالیاتی امور پر ٹرمپ کی ذہنی صلاحیتیں صفر ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ، کتاب ان کی پیشہ وارانہ زندگی کے حوالے سے بھی انکشافات سے بھری ہوئی ہے۔ خصوصاً اسٹیو بینن سے منسوب بیانات نے تو تہلکہ مچا دیا ہے۔ اسٹیو بینن امریکی میڈیا کے ایگزیکٹیو، اہم سیاسی شخصیت، سابق بینکار اور بریٹ بارٹ نیوز کے سابق چئیرمین رہ چکے ہیں۔ جی ہاں! سابق اس لیے کہ کتاب کی اشاعت کے بعد وہ خود کو قصور وار تسلیم کرتے ہوئے بریٹ بارٹ نیوز سے بھی مستعفی ہوگئے ہیں۔

اسٹیو نے وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے چیف اسٹریٹجسٹ کے طور پر سات ماہ کام کیا اور پھر ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ سات ماہ تک اسٹیو کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے والے ٹرمپ کتاب کی اشاعت کے بعد، ان کے دشمن بن چکے ہیں۔ کتاب میں درج اسٹیوو کے بیانات کو پوری دنیا حیرت بھری آنکھوں سے پڑھ رہی ہے۔ ''فائر اینڈ فیوری'' کے بارے میں یہ تاثر کافی حد تک درست ہے کہ یہ کتاب زیادہ تر اسٹیوو بینن کے بیانات ہی پر مشتمل ہے۔ اسٹیوو کہتے ہیں کہ ٹرمپ ٹاور میں صدر کے خاندان کے چھے افراد اور روسی اہل کاروں کے درمیان ہونے والی خفیہ ملاقات، ریاست امریکا سے ان کی غداری کے مترادف ہے۔

سیاسی امور کے ماہرین کے مطابق یہ انکشاف اس کتاب کا سب سے خوف ناک حصہ ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کا تو پہلے ہی خیال تھا کہ ماسکو نے امریکی انتخابات کو ریپبلیکن کے حق میں موڑنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایف بی آئی کے سابق سربراہ رابرٹ مولر کا انتخاب ہوچکا ہے اور یہ تحقیقات ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ایسے وقت میں اسٹیوو کا کتاب میں کیا جانے والا انکشاف ٹرمپ کے لیے مصیبتوں کا نیا دروازہ کھولے گا اور ان کے گِرد تحقیقات کا دائرہ مزید کس دیا جائے گا۔ روسی سرزمین سے جُڑے ٹرمپ کے بھاری مالی فوائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ امریکیوں کو ٹرمپ کا روس کی طرف جھکاؤ ہمیشہ ناگوار ہی گزرتا ہے۔ کتاب میں مزید لکھا ہے کہ اسٹیوو کہتے ہیں کہ ٹرمپ صدارت سے قبل کئی بار روس جاچکے ہیں۔ ان دوروں کا مقصد پیوٹن سے ملاقات کے سوا کچھ نہیں تھا، مگر ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود ملاقات ہو نہ سکی۔

غرض یہ کہ روس میں ٹرمپ کا پھیلا کاروبار اور دل میں ماسکو کے لیے موجود نرم گوشہ امریکیوں کو کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔

امریکی صحافتی حلقوں میں اس کتاب کو ٹرمپ کے لیے مشکلات سے بھری ہوئی ایک کتاب گردانا جا رہا ہے۔ اس کا واضح اثر 2018 میں ہونے والی کیمپ ڈیوڈ میٹنگ پر پڑ سکتا ہے، جہاں اہم ریپبلیکن راہ نما مل کر نئے سال کے لیے قانون سازی کی ترجیحات طے کریں گے۔ بلاشبہہ کتاب کی اشاعت نے اسٹیوو بینن کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا دروازہ اسٹیوو پر بند ہوتے ہی ان کے قریبی اور قابل اعتبار ساتھیوں کا مجمع بھی چَھٹ گیا، نوکری بھی گئی اور ساکھ بھی خراب ہوئی۔

فائدہ پہنچانے والا حلقہ احباب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور اب وہ خود کو قصور وار قرار دیتے ہوئے معذرتیں پیش کر رہے ہیں، لیکن اس طرح وہ دوبارہ ٹرمپ کی قربت حاصل نہیں کرسکتے۔ حال ہی میں دیے گئے ایک بیان میں اسٹیوو کہتے ہیں،''ٹرمپ پر روس کے حوالے سے عائد کردہ الزامات کے بارے میں تو میں کب سے کہتا چلا آیا ہوں کہ ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ ٹرمپ کا بیٹا بھی اپنے والد کی طرح عظیم اور وفادار ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس نے کسی روسی اہل کار سے کوئی ملاقات نہیں کی۔'' ان بیانات کا ٹرمپ پر کوئی مثبت اثر نہیں ہورہا بل کہ وہ اسٹیوو کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتے ہوئے کہہ رہے ہیں،''اسٹیوو وائٹ ہاؤس سے نکالے جانے کے بعد پاگل ہوچکا ہے اور ہذیان بَک رہا ہے۔''

صدارت کے پہلے سات ماہ میں ٹرمپ کے تمام ایگزیکٹیو آرڈرز کے نفاذ کے پیچھے دماغ اسٹیوو کا ہی کار فرما ہوتا تھا۔ مسلم ممالک کے شہریوں پر عائد کی جانے والی سفری پابندیاں ہوں یا عالمی معاہدۂ پیرس سے امریکی علیحدگی کا فیصلہ، سب میں اسٹیوو کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ قومی معاملات میں ٹرمپ کی بیٹی اور داماد کی مداخلت بڑھنے تک اسٹیوو کو بھرپور قوت حاصل تھی، لیکن صدر کے خاندان کے سامنے ان کی طاقت کے غبارے سے ہوا نہایت تیزی سے نکل گئی۔ صدر کے اہل خانہ نے انہیں یہ احساس دلانا شروع کیا کہ بینن اپنے بیانات کے ذریعے میڈیا میں اوقات سے زیادہ جگہ بنا چکا ہے۔ پھر جب ٹائم میگزین کے سرورق پر اسٹیوو کی تصویر جگمگائی تو گویا ٹرمپ کے سر پر آسمان ٹوٹ پرا اور پھر بینن کو جلد ہی وائٹ ہاؤس سے گُڈ بائے کہہ دیا گیا۔

کتاب کی اشاعت کے بعد ٹرمپ کے داماد کا کہنا ہے، ''اسٹیوو بینن اسٹریٹجسٹ نہیں بل کہ موقع پرست آدمی ہے۔'' ٹرمپ کہہ رہے ہیں،''اس میں ایسی کوئی صلاحیت سرے سے تھی ہی نہیںکہ اسے وائٹ ہاؤس میں ڈال کر رکھا جاتا! سوائے میڈیا میں خودنمائی کی خواہش کے۔''


ذہنی صحت کے حوالے سے کتاب میں عائد الزامات کے جواب میں ٹرمپ نے چند روز قبل ایک اور ٹوئٹ میں کہا،''پوری زندگی میرے پاس دو بڑے اثاثے رہے ہیں۔ ایک تو میری ذہنی پختگی اور دوسرا میرا اسمارٹ ہونا۔ میں ایک کام یاب تاجر بھی رہا اور ایک مقبول ٹی وی اسٹار بھی۔'' پھر ٹرمپ نے اپنے مخصوص چِڑے ہوئے انداز میں لکھا،''مصنف مائیکل وولف ایک ہارا ہوا آدمی ہے، جس نے جھوٹ سے بھری ہوئی کتاب لکھ کر محض اس کی فروخت بڑھائی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے نِکَمّے اسٹیوو کو استعمال کیا ہے جو نوکری سے نکالے جانے کے بعد چِلّا رہا ہے۔ اس احمق اور نکمے اسٹیوو پر تو اب ہر سمت سے دھنکار پڑے گی۔''

کتاب میں لگائے گئے الزامات کے جواب میں ٹرمپ تو اپنی ''میں نہ مانوں'' ہی کی ہَٹ پر قائم ہیں مگر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ کے پاس ٹرمپ پر وار کرنے کے لیے ایک نیا ہتھیار آگیا ہے۔ اب دونوں کے درمیان ایٹمی جنگ کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ لفظوں کی جنگ بھی شروع ہوگئی ہے۔ شمالی کوریا میں حکومتی سر پرستی میں شایع ہونے والے ایک اخبار نے لکھا،''کتاب فائر اینڈ فیوری کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فروخت نے یہ ثابت کر دیا کہ پوری دنیا میں ٹرمپ مخالف جذبات کتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور یہ امر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ذلت کا باعث ہے۔'' اخبار نے مزید لکھا کہ یہ کتاب ٹرمپ کی سیاسی موت کی رنگین داستان ہے۔

اس وقت تو پوری دنیا بالخصوص امریکی قوم کی نظریں ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی صحت پر ہی مرکوز ہیں۔ قوم کو مطمئن کرنے کے لیے ٹرمپ صدارت کے بعد اپنا پہلا مکمل چیک اپ کروانے کے لیے رضامند ہو گئے ہیں۔ وہ خود کو ایک ذہین انسان قرار دیتے ہیں مگر امریکی عوام کو اب میڈیکل رپورٹوں کی صورت میں ثبوت درکار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ کے عملی اقدامات، ہر وقت ان کے بگڑے ہوئے تاثرات اور ٹوئٹس ان کی خراب ذہنی حالت ہی کے غماز ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے یہ واضح کردیا ہے کہ صدر کی ذہنی صحت کو جانچنے کا کوئی چیک اپ نہیں کیا جائے گا، جس سے امریکی عوام کے شکوک و شبہات دو سو فی صد بڑھ گئے ہیں۔ امریکی اخبارات لکھ رہے ہیں،''ہم جوہری دور میں رہ رہے ہیں ۔ ہماری بقا کا سارا دارو مدار صدر کی انگلی کے ایک اشارے پر ہے۔ بحیثیت امریکی ہمارا حق ہے کہ ہمیں صدر کی ذہنی صحت کے بارے میں ہر بات کا علم ہو اور کچھ بھی صیغہ راز نہ رکھا جائے۔''

گویا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مائیکل وولف کی کتاب فائر اینڈ فیوری نے امریکی سرزمین پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ آوازیں بلند ہونے لگی ہیں کہ اب امریکا کو ٹرمپ کی مزید ضرورت نہیں ہے۔ بعض امریکیوں کا کہنا ہے کہ اب تک آنے والے تمام امریکی صدور میں ٹرمپ واحد ہیں جو اس زمین سے جڑے ہوئے محسوس ہی نہیں ہوتے۔

5 جنوری کو منظرعام پر آنے والی کتاب فائر اینڈ فیوری کی چار دنوں کے اندر اندر ڈیڑھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ ایمازون کی ویب سائٹ پر یہ اس وقت بیسٹ سیلر کتاب ہے۔ اس کے ناشر ہنری ہالٹ کو ایک ملین سے زائد کاپیوں کی مزید اشاعت کا بھی آرڈر مل چکا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ وائٹ ہاؤس کی دیواروں کے یوں اچانک بول پڑنے سے صرف ٹرمپ اور اسٹیوو کی ہی نہیں بلکہ ناشر کی بھی زندگی بھی پوری طرح تبدیل ہوچکی ہے۔

نما مل کر نئے سال کے لیے قانون سازی کی ترجیحات طے کریں گے۔ بلاشبہہ کتاب کی اشاعت نے اسٹیوو بینن کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا دروازہ اسٹیوو پر بند ہوتے ہی ان کے قریبی اور قابل اعتبار ساتھیوں کا مجمع بھی چَھٹ گیا، نوکری بھی گئی اور ساکھ بھی خراب ہوئی۔ فائدہ پہنچانے والا حلقہ احباب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور اب وہ خود کو قصور وار قرار دیتے ہوئے معذرتیں پیش کر رہے ہیں، لیکن اس طرح وہ دوبارہ ٹرمپ کی قربت حاصل نہیں کرسکتے۔

حال ہی میں دیے گئے ایک بیان میں اسٹیوو کہتے ہیں،''ٹرمپ پر روس کے حوالے سے عائد کردہ الزامات کے بارے میں تو میں کب سے کہتا چلا آیا ہوں کہ ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ ٹرمپ کا بیٹا بھی اپنے والد کی طرح عظیم اور وفادار ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس نے کسی روسی اہل کار سے کوئی ملاقات نہیں کی۔'' ان بیانات کا ٹرمپ پر کوئی مثبت اثر نہیں ہورہا بل کہ وہ اسٹیوو کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتے ہوئے کہہ رہے ہیں،''اسٹیوو وائٹ ہاؤس سے نکالے جانے کے بعد پاگل ہوچکا ہے اور ہذیان بَک رہا ہے۔''

صدارت کے پہلے سات ماہ میں ٹرمپ کے تمام ایگزیکٹیو آرڈرز کے نفاذ کے پیچھے دماغ اسٹیوو کا ہی کار فرما ہوتا تھا۔ مسلم ممالک کے شہریوں پر عائد کی جانے والی سفری پابندیاں ہوں یا عالمی معاہدۂ پیرس سے امریکی علیحدگی کا فیصلہ، سب میں اسٹیوو کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ قومی معاملات میں ٹرمپ کی بیٹی اور داماد کی مداخلت بڑھنے تک اسٹیوو کو بھرپور قوت حاصل تھی، لیکن صدر کے خاندان کے سامنے ان کی طاقت کے غبارے سے ہوا نہایت تیزی سے نکل گئی۔ صدر کے اہل خانہ نے انہیں یہ احساس دلانا شروع کیا کہ بینن اپنے بیانات کے ذریعے میڈیا میں اوقات سے زیادہ جگہ بنا چکا ہے۔ پھر جب ٹائم میگزین کے سرورق پر اسٹیوو کی تصویر جگمگائی تو گویا ٹرمپ کے سر پر آسمان ٹوٹ پرا اور پھر بینن کو جلد ہی وائٹ ہاؤس سے گُڈ بائے کہہ دیا گیا۔

کتاب کی اشاعت کے بعد ٹرمپ کے داماد کا کہنا ہے، ''اسٹیوو بینن اسٹریٹجسٹ نہیں بل کہ موقع پرست آدمی ہے۔'' ٹرمپ کہہ رہے ہیں،''اس میں ایسی کوئی صلاحیت سرے سے تھی ہی نہیںکہ اسے وائٹ ہاؤس میں ڈال کر رکھا جاتا! سوائے میڈیا میں خودنمائی کی خواہش کے۔''

ذہنی صحت کے حوالے سے کتاب میں عائد الزامات کے جواب میں ٹرمپ نے چند روز قبل ایک اور ٹوئٹ میں کہا،''پوری زندگی میرے پاس دو بڑے اثاثے رہے ہیں۔ ایک تو میری ذہنی پختگی اور دوسرا میرا اسمارٹ ہونا۔ میں ایک کام یاب تاجر بھی رہا اور ایک مقبول ٹی وی اسٹار بھی۔'' پھر ٹرمپ نے اپنے مخصوص چِڑے ہوئے انداز میں لکھا،''مصنف مائیکل وولف ایک ہارا ہوا آدمی ہے، جس نے جھوٹ سے بھری ہوئی کتاب لکھ کر محض اس کی فروخت بڑھائی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے نِکَمّے اسٹیوو کو استعمال کیا ہے جو نوکری سے نکالے جانے کے بعد چِلّا رہا ہے۔ اس احمق اور نکمے اسٹیوو پر تو اب ہر سمت سے دھنکار پڑے گی۔''

کتاب میں لگائے گئے الزامات کے جواب میں ٹرمپ تو اپنی ''میں نہ مانوں'' ہی کی ہَٹ پر قائم ہیں مگر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ کے پاس ٹرمپ پر وار کرنے کے لیے ایک نیا ہتھیار آگیا ہے۔ اب دونوں کے درمیان ایٹمی جنگ کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ لفظوں کی جنگ بھی شروع ہوگئی ہے۔ شمالی کوریا میں حکومتی سر پرستی میں شایع ہونے والے ایک اخبار نے لکھا،''کتاب فائر اینڈ فیوری کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فروخت نے یہ ثابت کر دیا کہ پوری دنیا میں ٹرمپ مخالف جذبات کتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور یہ امر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ذلت کا باعث ہے۔'' اخبار نے مزید لکھا کہ یہ کتاب ٹرمپ کی سیاسی موت کی رنگین داستان ہے۔

اس وقت تو پوری دنیا بالخصوص امریکی قوم کی نظریں ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی صحت پر ہی مرکوز ہیں۔ قوم کو مطمئن کرنے کے لیے ٹرمپ صدارت کے بعد اپنا پہلا مکمل چیک اپ کروانے کے لیے رضامند ہو گئے ہیں۔ وہ خود کو ایک ذہین انسان قرار دیتے ہیں مگر امریکی عوام کو اب میڈیکل رپورٹوں کی صورت میں ثبوت درکار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ کے عملی اقدامات، ہر وقت ان کے بگڑے ہوئے تاثرات اور ٹوئٹس ان کی خراب ذہنی حالت ہی کے غماز ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے یہ واضح کردیا ہے کہ صدر کی ذہنی صحت کو جانچنے کا کوئی چیک اپ نہیں کیا جائے گا، جس سے امریکی عوام کے شکوک و شبہات دو سو فی صد بڑھ گئے ہیں۔ امریکی اخبارات لکھ رہے ہیں،''ہم جوہری دور میں رہ رہے ہیں ۔ ہماری بقا کا سارا دارو مدار صدر کی انگلی کے ایک اشارے پر ہے۔ بحیثیت امریکی ہمارا حق ہے کہ ہمیں صدر کی ذہنی صحت کے بارے میں ہر بات کا علم ہو اور کچھ بھی صیغہ راز نہ رکھا جائے۔''

گویا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مائیکل وولف کی کتاب فائر اینڈ فیوری نے امریکی سرزمین پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ آوازیں بلند ہونے لگی ہیں کہ اب امریکا کو ٹرمپ کی مزید ضرورت نہیں ہے۔ بعض امریکیوں کا کہنا ہے کہ اب تک آنے والے تمام امریکی صدور میں ٹرمپ واحد ہیں جو اس زمین سے جڑے ہوئے محسوس ہی نہیں ہوتے۔

5 جنوری کو منظرعام پر آنے والی کتاب فائر اینڈ فیوری کی چار دنوں کے اندر اندر ڈیڑھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ ایمازون کی ویب سائٹ پر یہ اس وقت بیسٹ سیلر کتاب ہے۔ اس کے ناشر ہنری ہالٹ کو ایک ملین سے زائد کاپیوں کی مزید اشاعت کا بھی آرڈر مل چکا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ وائٹ ہاؤس کی دیواروں کے یوں اچانک بول پڑنے سے صرف ٹرمپ اور اسٹیوو کی ہی نہیں بلکہ ناشر کی بھی زندگی بھی پوری طرح تبدیل ہوچکی ہے۔

ذہنی مریضوں کی حکومت، امریکا کی روایت

1776سے1974تک امریکی صدارت پر فائز رہنے والوں کی ذہنی صحت کے بارے میں تحقیق

شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونی ورسٹی میڈیکل سینٹر کے پروفیسر جوناتھن ڈیوڈ سن نے اپنے ساتھیوں کے اشتراک سے، سابق امریکی صدور کی ذہنی صحت پر 2006 میں ایک تحقیق کی۔ یہ تحقیق جرنل آف نروس اینڈ مینٹل ڈیزیز میں شایع ہوئی، جس میں 1776سے لے کر1974کے درمیانی عرصے میں، امریکا کی صدارتی کرسی پر براجمان ہونے والے صدور کی ذہنی صحت کا مطالعہ کیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد، اس تحقیق کو امریکی اخبارات میں بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔

تحقیق کے نتائج کے مطابق، اس عرصے کے دوران جو صدور امریکا پر حکومت کرتے رہے ان میں سے آدھے کسی نہ کسی ذہنی عارضے کا شکار تھے، جب کہ صدارتی معیار پر پورا اترنے والے صدور محض27فی صد تھے۔ 24فی صد صدور شدید ڈپریشن کے مریض تھے، ان میں جیمز میڈیسن، جان کوئینسی ایڈم، فرینکلن پیرس، کیلون کولج اور ابراہام لنکن شامل تھے۔

ابراہام لنکن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے قریبی دوست اور بہن کی وفات کے بعد اتنا ڈپریشن میں چلے گئے کہ ان کے ایک دوست نے اس ڈر سے انہیں کمرے میں بند کر کے رکھا کہ وہ خودکشی نہ کرلیں۔

مزید تحقیق کے مطابق 8 فی صد امریکی صدور اعلیٰ درجے کے اضطراب اور بے چینی کا شکار تھے، جن میں تھامس جیفرسن، یولیسیس ایس گرانٹ ، کولج اور وڈرو ولنسن شامل تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً آٹھ فی صد امریکی صدور کو شیزوفینیا کا مرض لاحق تھا، جن میں لنڈن جانسن اور تھیوروڈ روزویلٹ بھی شامل تھے۔ 8 فی صد صدور کثرت شراب نوشی کے عادی تھے۔ فرینکلن پیرس کی موت کا سبب یہی لَت بنی، گرانٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اتنی شراب پیتا تھا کہ ایک بار نشے میں دُھت ہو کر ملٹری پریڈ کے دوران گھوڑے سے ہی گر گیا۔

اس کے علاوہ نکسن ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا، حتی کہ ایک بات تو نکسن، اپنے دور کے اہم ترین، سوئز بحران کے متعلق گفتگو کے خواہش مند برطانوی وزیر اعظم سے فون پر بات کرنے کے بھی قابل نہ تھا۔ تحقیق کے مطابق تھامس جیفرسن، یولیسس ایس گرانٹ اور کیل وِن کولیج سماجی خوف کا شکار تھے، لوگوں کے درمیان جانے سے واضح گریز کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ولیم ہاورڈ ٹافٹ کو دوران نیند سانس لینے میں شدید دشواری تھی۔ اس جسمانی عارضے نے ان کی ذہنی صحت پر بھی نہایت منفی اثر ڈالا۔

تحقیق کے آخر میں مصنف انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ ان سب حقائق کے باوجود ہمارے پاس اب بھی امریکی صدور کی ذہنی صحت پرکھنے کا کوئی قابل اعتبار معیار موجود نہیں ہے۔
Load Next Story