عوام جاگ اٹھے

ایسے حالات میں انسان خواہ مخواہ قنوطیت کا شکار ہوجاتا ہے۔


January 21, 2018
جلال کے گھر سے تھوڑا آگے، سامنے کی طرف بیرک نما گھر میں کسی بقال کی دکان تھی۔ فوٹو : فائل

عزیزنہ سن
ترجمہ:کرنل (ر) مسعود اختر شیخ


اس دفعہ جلال نے قید بڑی مشکل سے کاٹی تھی۔ قید کے دن تو خدا خدا کرکے ختم ہوگئے، مگر جیل سے نکلتے ہی شہر بدر ہوکر ملک کے اس دور دراز حصے کے ایک چھوٹے سے قصبے میں تنہائی کے دن بسر کرنا اسے سخت ناگوار گزرا۔ بڑی مدت کے بعد جب اسے دوبارہ دارالحکومت لوٹ آنے کی اجازت ملی تو وہ اس پر رونق شہر میں بھی اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس کرنے لگا۔ بے چارے کی بیوی قید ہی کے دنوں میں اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔

ایسے حالات میں انسان خواہ مخواہ قنوطیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ خاص کر جب پلے پیسہ بھی نہ ہو اور دو وقت کے کھانے سے بھی لاچار ہو۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ اب سیاست سے کنارہ کش ہوکر کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے کم از کم پیٹ تو پالا جاسکے۔ سب سے پہلی ضرورت سر چھپانے کے لیے کسی ٹھکانے کی تھی۔ شہر کے مرکز میں مکانوں کے کرائے آسمان سے باتیں کررہے تھے۔ مرکز تو درکنار، شہر کے مضافات میں بھی کرائے کا مکان لینا جلال کی حیثیت سے باہر تھا۔ اسے خوب یاد تھا کہ جیل جانے سے پہلے کتنی دفعہ مکان کا کرایہ ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے قرقی والوں نے اس کی ٹوٹی پھوٹی، ٹائپ مشین اور پھٹی پرانی ذاتی اشیاء ضبط کرلی تھیں۔ اس میں اب ایسی بے عزتی برداشت کرنے کی سکت باقی نہ تھی۔ اسے یہ بات بھی بہت ناگوار گزرتی تھی کہ محلے والے اسے شک کی نگاہ سے یوں دیکھیں جیسے کسی دشمن کو یا بڑی عجیب الخلقت چیز کو دیکھا جاتا ہے۔

آخر بڑی تلاش کے بعد جلال کو ایک گھر مل ہی گیا۔ گھر کیا تھا، ڈیڑھ کمرے کی ایک جھگی تھی جو شہر سے دور، درجن بھر جھگیوں کے ایک محلے میں واقع تھی۔ یہاں سے پیدل چل کر شہر جانے میں دو گھنٹے لگتے تھے۔ اس محلے کی ایک خوبی جو اسے بہت پسند آئی یہ تھی کہ یہاں مکان ایک دوسرے سے دور دور تھے۔ جلال کے پاس سامان تو کچھ تھا نہیں، بس کتابوں سے بھرے دو پرانے صندوق اور چند پرانے کپڑے تھے۔ اس نے آتے ہی جھگی کی کھڑکیوں پر پردوں کے بجائے اخبار کے کاغذ چپکا دیئے۔ بڑا خوش تھا کہ اب یہاں یکسوئی سے اپنے لیے روزگار ڈھونڈ سکے گا۔

جلال کے گھر سے تھوڑا آگے، سامنے کی طرف بیرک نما گھر میں کسی بقال کی دکان تھی۔

تھوڑا اور آگے، چھپر کے نیچے ایک پھل والا بیٹھتا تھا۔ جلال اپنی تمام ضروریات یہیں سے حاصل کرتا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ان دونوں سے اس کی خاصی دوستی ہوگئی۔ دونوں پیسے کی تنگی، بکری کی کمی اور ا خراجات کی زیادتی کی شکایت کیا کرتے۔ دونوں کے پاس دن میں پانچ چھ گاہک آتے، مگر وہ بھی ایسے نہ ہوتے کہ ان کی کھال اتاری جا سکتی۔ بے چاروں کے پاس اتنا سرمایہ بھی نہ تھا کہ کہیں اور جاکر ذرا بڑی دکان کھول کر زیادہ پیسہ کماسکتے۔

جلال کو اس محلے میں آئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ بقال کی دکان کے ساتھ ہی ایک خوانچے والے نے آکر ڈیرہ ڈالا۔ وہ ہر روز دوپہر کے بعد یہاں آتا اور رات دیر تک ریوڑی، مونگ پھلی بیچتا رہتا۔ چند دن بعد اس کے برابر ہی میں ایک بھٹے والا آبیٹھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی اور دکانیں کھل گئیں۔ خوانچے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا۔ ادھر مٹھائی کی دکان کھل گئی ادھر موچی کی۔ ایک خوانچے والا حلوہ پوری بیچ رہا ہے تو دوسرا شربت۔ جھگیوں کا یہ مختصر سا محلہ کچھ ہی عرصے میں ایک بارونق بازار بن گیا۔ ایک بھنگی صبح سے شام تک دکانوں اور خوانچوں کے آگے پیچھے جھاڑو دیتا رہتا۔ پھر بقال اور پھل والے کی دکان کے درمیان ایک چائے کی دکان کھل گئی۔ محلے میں آنے جانے اور خرید و فروخت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ قرب و جوار میں جو جھگیاں عرصہ دراز سے خالی پڑی تھیں وہ بھی کرائے پر اٹھ گئیں۔

جلال اس محلے کو یوں بارونق ہوتا اور پھلتا پھولتا دیکھ کر بڑا خوش ہوتا۔ اسے صرف ایک افسوس تھا اور وہ یہ کہ ہزار تلاش کے باوجود ابھی تک اسے کوئی کام نہ مل سکا۔ کبھی کبھار کوئی شریف آدمی اسے ملازمت دینے پر آمادگی ظاہر بھی کرتا تو پولیس والے اسے فوراً جلال کے متعلق آگاہ کردیتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ جب اگلے روز جلال کام کی خاطر وہاں پہنچتا تو صاف جواب مل جاتا۔

چونکہ اس کے سارے دوست بھی اسی کی طرح قلاش تھے اس لیے کسی سے ادھار لینا بھی ممکن نہ تھا۔ البتہ ایک دوست نے جلال کو پیشکش کی کہ تم شہر میں میرے پاس آجاؤ۔ اگرچہ میرے پاس کمرہ تو ایک ہی ہے، مگر ہم دونوں اس میں گزارہ کرلیں گے۔ جلال نے جھگی کے کرائے سے جان چھڑانے کے خیال سے یہ پیشکش قبول تو کرلی، مگر شہر جاکر رہنے کے لیے اس محلے سے نکلنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ بقال، پھل والے اور چند دوسرے دکانداروں کا تھوڑا تھوڑا ادھار ہی جمع ہوکر اچھی خاصی رقم بن جاتی تھی۔ یہ ادھار چکائے بغیر بھلا وہ یہ محلہ کیسے چھوڑ سکتا تھا؟

ایک روز رات کے وقت جلال اپنے کمرے میں لیٹا یہی سوچ رہا تھا کہ گھر کی کون سی چیز ایسی ہے جسے بیچ کر ادھار چکایا جاسکے، کہ دروازے پر دستک ہوئی، ساتھ ہی بقال، پھل والا اور چائے والا تینوں اندر داخل ہوئے۔ جلال نے پہلے اپنے مہمانوں کی طرف دیکھا اور پھر اپنے تنگ دھڑنگ کمرے کو۔ اس کا سرندامت سے جھک گیا۔ بولا:

''آئیے آئیے۔ بھئی معاف کیجئے، میرے گھر میں آپ لوگوں کو پیش کرنے کے لیے کرسی ہے نہ میز، چائے ہے نہ کچھ اور۔''

بقال نے مسکرا کر کہا:

''کوئی بات نہیں جناب۔ ہم تو بس آپ کو کچھ پیش کرنے آئے تھے۔ ابھی چلے جائیں گے۔ لیجئے، یہ تھوڑی سی چینی ہے، یہ چائے ہے، یہ چند دوسری ضرورت کی چیزیں ہیں۔''

یہ کہتے ہوئے اس نے چند پیکٹ جلال کی طرف بڑھائے۔ جلال ڈر رہا تھا کہ شاید یہ لوگ اپنی رقم کا مطالبہ کرنے آئے ہیں، مگر ان کے پر خلوص تحائف نے اسے حیرت میں ڈال دیا۔ سوچنے لگا، خدا جانے یہ لوگ مجھ پر کیوں اتنے مہربان ہورہے ہیں۔

''جناب سنا ہے آپ یہاں سے تشریف لے جانے کا ارادہ کررہے ہیں۔ کیا یہ خبر سچ ہے؟'' پھل والے نے پوچھا۔

''جی ہاں'' اس نے جواب دیا۔

ان لوگوں کے آنے کا مقصد اب اس پر کھلا۔ اس نے قیافہ لگایا کہ جونہی ان قرض خواہوں کو میرے یہاں سے کھسکنے کی بھنک پڑی، بے چارے بھاگتے چلے آئے ہیں تاکہ اپنے پیسے تو وصول کرلیں۔ یہ سوچ کر اس نے پوچھا:

''مگر آپ لوگوں کو میرے جانے کی خبر کہاں سے ملی؟''

چائے والے نے بڑے پر معنی انداز میں جواب دیا:

''ہمیں بھی پتہ چل گیا ہے جناب۔ اور پتہ بھی بڑے معتبر ذرائع سے ملا ہے۔''

''لیکن آپ لوگ بالکل بے فکر رہیں۔ میں آپ سب کی پائی پائی ادا کرکے یہاں سے جاؤں گا۔''

اس پر چائے والے نے ذرا برہم ہوکر کہا:

''یہ آپ نے بڑی غلط بات کہہ دی، بھائی جان۔ کون مردود آپ سے پیسے مانگنے آیا ہے؟''

بقال: ''آخر ہماری رقم ہی کتنی ہے، جس کا ذکر کرکے آپ ہمیں شرمندہ کررہے ہیں؟''

پھل والا: ''مجھے تو اگر آپ سے کچھ لینا بھی ہے تو واللہ نہیں لوں گا۔ آپ لاکھ اصرار کریں صاحب، جب بھی نہیں لوں گا۔''

جلال: ''لیکن آخر کیوں؟''

پھل والا: ''جناب ہم آپ کے قدر دانوں میں سے ہیں۔ آپ نے ہم لوگوں کے لیے جو کچھ کیا ہے ہم اسے عمر بھر نہیں بھول سکتے۔''

جلال ان لوگوں کے خلوص سے اتنا متاثر ہوا کہ الفاظ اس کے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔

اس نے دل ہی دل میں سوچا:

''تو گویا یہ لوگ مجھے پہچانتے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ میں نے عوام کے لیے کچھ کیا ہے۔ افسوس میں نے قنوطیت میں مبتلا ہوکر کیوں سیاست سے کنارہ کشی کی۔ ایسے پر خلوص عوام سے پیچھا چھڑانا کہاں کی وطن پرستی ہے۔ ایسے لوگوں کو حالات کے دھارے پر اکیلا چھوڑ دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔''

وہ یہی سوچ رہا تھا کہ چائے والے نے پھر کہا:

''ہم آپ سے درخواست کرنے آئے ہیں کہ آپ یہاں سے جانے کا ارادہ ترک کردیں۔''

پھل والے نے بھی پر زور الفاظ میں یہی درخواست دہرائی۔

جلال: ''میں مجبور ہوں دوستو، مجھے جانا ہی پڑے گا کیونکہ اس مکان کا کرایہ ادا نہیں کرسکتا۔''

پھر اس نے مہمانوں سے مخاطب ہوکر کہا:

''آپ سب کا بہت شکریہ۔ میں آپ کے قیمتی جذبات کی قدر کرتا ہوں، اور ان سے بے حد متاثر ہوا ہوں لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی یہ مدد قبول نہیں کرسکتا۔''

تینوں نے پھر جلال کی منت سماجت شروع کردی۔

بقال: ''جناب ہم جانتے ہیں کہ یہ جھگی آپ جیسی ہستی کے شایان شان نہیں۔ اسی لیے ہم نے یہاں قریب ہی ایک دو منزلہ مکان کی بالائی منزل کرائے پر لی ہے۔ وہاں غسل خانہ بھی ہے۔''

چائے والا: ''ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ اسی محلے میں رہیں، ہم سے دور نہ جائیں۔'' جلال: ''لیکن آخر آپ لوگ مجھے روکنے پر کیوں اس قدر اصرار کررہے ہیں؟''

چائے والا: ''جناب یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ ہم لوگوں کی گزر ہی محض آپ کی وجہ سے ہورہی ہے۔ اس لیے آپ سے عرض کرتے ہیں کہ یہاں سے دور نہ جائیں۔''

جلال: ''لیکن میں تو آپ لوگوں سے کوئی خاص خریدو فروخت بھی نہیں کرتا۔''

بقال: ''جی ہاں۔ آپ کی خریدو فروخت تو واقعی کچھ زیادہ نہیں، لیکن ہماری تمام بکری آپ ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ آپ یہاں کیا آئے ہماری قسمت کے دروازے کھل گئے۔ آپ کے آنے سے پہلے میرے پاس دن بھر میں تین چار گاہک آیا کرتے تھے۔ آپ نے آکر اس محلے میں جان پھونک دی ہے۔ یہاں کی تمام رونق آپ ہی کی بدولت ہے۔ ذرا دیکھیے تو سہی اب کتنی دکانیں کھل گئی ہیں۔''

پھل والا: ''اگر آپ اس محلے سے چلے گئے تو یہ جگہ پھر پہلے کی طرح بے رونق ہوجائے گی۔ سب دکاندار اور خوانچے والے اپنا کاروبار بند کرکے چلے جائیں گے۔ پیچھے صرف ہم لوگ رہ جائیں گے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے فاقوں مرجائیں گے۔ ہم برباد ہوجائیں گے۔''

چائے والا: ''جناب ہمارے حال پر رحم کھائیے۔ اگر آپ یہاں سے چلے گئے تو ہم سب بھوکے مرجائیں گے۔ سب سے پہلے تو مجھی کو اپنی دکان بند کرنا پڑے گی۔''

جلال: ''آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ میں کیسے ہمیشہ کے لیے آپ لوگوں کے کندھوں پر بوجھ بن کر بیٹھا رہ سکتا ہوں۔ جب تک ہاتھ پاؤں میں طاقت ہے مجھے کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیے۔ آپ نے میری خدمات کا جو ذکر کیا ہے ان کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں، مگر میں تو عوام کا ایک معمولی سا خادم ہوں۔ میں نے ایسی کون سی بڑی خدمات سرانجام دی ہیں کہ آپ مجھے اتنی قربانی دے کر یہاں رکھنے پر مصر ہیں۔''

پھل والا: ''جناب اس سے بڑی اور کیا خدمت ہوگی کہ ہم سب آپ کی بدولت عزت کی روزی کمانے کے قابل ہوگئے ہیں۔ آپ کے اس جھگی میں آتے ہی ایک بھنگی اور ایک بوٹ پالش کرنے والا یہاں آپہنچے۔ یہ دونوں خفیہ پولیس کے آدمی ہیں جو بھیس بدل کر آپ کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے یہاں آئے تھے۔ پھر ان دونوں پر کنٹرول کرنے کے لیے مختلف بھیسوں میں چند اور پولیس والے یہاں آکر آباد ہوگئے۔''

بقال: ''شروع شروع میں یہ لوگ آپ کے بارے میں ہم سے آکر پوچھا کرتے تھے کہ یہ شخص چوبیس گھنٹوں میں کیا کیا کرتا ہے، کہاں کہاں جاتا ہے اور اسے ملنے کون کون آتا ہے۔''

پھل والا: ''ان سب کی وجہ سے ہماری دکانداری بڑھ گئی۔ بعد میں موچی، مٹھائی والا، ریوڑی مونگ پھلی بیچنے والا اور کئی دوسرے لوگ یہاں آبسے۔''

چائے والا: ''میں نے بھی چائے کی دکان کھول لی اور اب آپ کی بدولت اپنا اور بچوں کا پیٹ پال رہا ہوں۔ یہ لوگ صبح سے شام تک میری دکان میں بیٹھے تاش، کیرم وغیرہ کھیلتے رہتے ہیں۔ اگر ہر شخص پورے دن میں تین چار پیالیاں چائے پی لے تو اپنا دو وقت کا کھانا نکل آتا ہے۔''

جلال کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے حیران ہوکر پوچھا:

''تو کیا یہ سب لوگ خفیہ پولیس کے آدمی ہیں؟''

چائے والا: ''جناب پولیس والے بھی ہیں اور دوسرے بھی۔ یہ تو آپ جانتے ہیں نا، اگر کہیں دس آدمی جمع ہوں تو ان کے گرد پچاس آدمی اور اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ آپ یہاں سے چلے گئے تو آپ کے پیچھے پیچھے تمام پولیس والے بھی چلے جائیں گے۔ اور پھر ان کے جاتے ہی باقی لوگ بھی تتر بتر ہوجائیں گے۔ یہ محلہ پھر پہلے کی طرح سونا اور اجاڑ ہوجائے گا۔''

بقال: ''یعنی ہم لوگوں کا بیڑہ غرق ہوجائے گا۔''

پھل والا: ''اور کچھ نہیں تو کم از کم اتنا عرصہ یہاں رک جائیے کہ ہم کچھ سرمایہ جمع کرلیں جس سے شہر کے کسی آباد علاقے میں جاکر پیٹ پالنے کا کوئی اور بندوبست کرسکیں۔''

جلال نے سوچا اگر یہاں سے کہیں اور جاتا ہوں تو یقیناً یہی صورتحال وہاں بھی پیدا ہوجائے گی۔ چنانچہ اس نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا۔

''ٹھیک ہے، میں نہیں جاتا۔ یہیں رہوں گا۔ البتہ آپ یہ سب چیزیں واپس لے جائیے۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں۔''

یہ کہتے ہوئے اس نے بھرے ہوئے پیکٹ بقال کو واپس کردیئے۔

بقال نے جاتے جاتے پوچھا: ''تو جناب کیا میں یہ خوشخبری باقی لوگوں کو بھی سنادوں؟''

''ہاں، کہہ دو میں اب یہیں رہوں گا۔ لیکن مجھے اس کے بارے آپ لوگوں سے کچھ نہیں چاہیے، نہ مکان کا کرایہ، نہ ماہانہ خرچ، نہ چینی، نہ چائے۔''

تینوں مہمان جلال کو دعائیں دیتے جھگی سے باہر نکل گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں