پورے عالم کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والاشاہین ایم ایم عالم
’’بنگلا دیشی فوج کا کمانڈر انچیف بننے کے بجائے پاکستان کا ادنی سپاہی کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہوں‘‘
لاہور:
قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں، جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں۔
یہ دن فرزندان وطن سے دھرتی ماں کی حفاظت کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن میدان جنگ کا رخ کرتے ہیں ،آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن کی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا جب بھارت نے اپنی خباثت سے مجبور ہو کر 6 ستمبر 1965ء کو پاکستان پر شب خون مارا۔ بھارتی فوجیوں کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور ناشتے میں لاہور کے ''پائے'' کھائیں گے۔ لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ سویا ہوا شیر بھی شیر ہی ہوتا ہے۔ انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں بھی جرات و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں قائم کی گئیں کہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ ان ہی مثالوں میں ایک نام ایئر کموڈور(ر)ایم ایم عالم (محمد محمود عالم) کا بھی ہے۔ 6 اور 7ستمبر کو بھارت نے زمینی کے ساتھ زور دار فضائی حملے بھی کئے۔
پاک فضائیہ کے حوالہ سے سرگودھا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جہاں ایئر فورس کی ایک بہت بڑی بیس بھی ہے اور بھارت بہرحال اس بات سے آگاہ تھا۔ اسی لئے بھارت کی طرف سے سرگودھا کو ہی فضائی حملہ کا نشانہ بنایا گیا۔ 6 ستمبر کو جب بھارتی طیاروں نے حملہ کیا تو پہلے دن ایم ایم عالم نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے F-86سیبر سے بھارتی فضائیہ کے 2 طیاروں کو مار گرایا جبکہ 3 کو زبردست نقصان پہنچایا۔ 6 ستمبر کے حملہ میں ناکامی پر ہزیمت خوردہ بھارت نے 7ستمبر کی سہ پہر مزید طاقت کے ساتھ سرگودھا پر فضائی حملہ کر دیا۔
لیکن ایئر فورس کے فضائی سرفروش ایم ایم عالم نے اپنی بہادری کے وہ جوہر دکھائے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ ایم ایم عالم نے 30سکینڈ میں 4اورایک منٹ سے بھی کم عرصہ میں5 بھارتی ہنٹر گرا کر بین الاقوامی فضائی تاریخ کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا جو آج تک کوئی دوسرا پائلٹ نہیں توڑ سکا۔
اس جنگ میں انھوں نے مجموعی طور پر 9 طیارے مار گرائے اور 2 کو نقصان پہنچایا۔ یہ ایم ایم عالم جیسے سرفروش ہی تھے جن کی وجہ سے 17دنوں کے اس جنگ میں پی اے ایف نے مجموعی طور پر 35طیاروں کو فضائی اور 43کو زمین پر تباہ کیا اور 32طیاروں کو طیارہ شکن گنوں نے نشانہ بنایا۔ اس طرح مجمو عی طورپر بھارت کے 110طیارے تباہ ہو ئے اور پاکستان کے صرف 19 طیارے اپنے ملک پر قربان ہوئے۔
محمد محمود عالم 6جولائی 1935ء میں بھارتی شہر کولکتہ میں پیدا ہوئے۔ عظیم فضائی سرفروش کا تعلق صوبہ بہار کے ایک خاص مقام ''بہار شریف'' سے تھا۔ یہ علاقہ بطور خاص بزرگان دین اور اولیاء اللہ کا مسکن تصور کیا جاتا ہے۔ آپ ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ آپ کے آباء و اجداد شمالی افغانستان سے صدیوں پہلے نقل مکانی کرکے بہار شریف میں آباد ہوگئے تھے۔ ایم ایم عالم نے کولکتہ میں مسلمانوں کے علاقہ میں قائم ایک اردو میڈیم برٹش اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
تاہم قیام پاکستان کے بعد ان کے اہل خانہ نے کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے، تو ڈھاکہ منتقل ہونے کے بعد وہاں کے ایک مشہور ادارے نیو گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ ابھی فرسٹ ایئر سائنس کے طالبعلم تھے کہ ایئر فورس میں شامل ہونے اور پائلٹ بننے کا شوق اعصاب پر ایسا سوار ہوا کہ تعلیم ترک کر کے پاک فضائیہ میں ملازمت کر لی۔ اکتوبر 1953ء میں انھوں نے پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کر لیا تھا۔ 30سال پاک فضائیہ میں خدمات سرانجام دینے والے عالمی شہرت یافتہ ہواباز کو 1982ء میں جبری ریٹائر کر دیا گیا۔
ایم ایم عالم فائٹر لیڈر اسکول میں انسٹرکٹر،3 اسکوارڈنز کے کمانڈنگ آفیسر، ڈائریکٹر آف آپریشنز ریسرچ اور فضائی ہیڈکوارٹر میں بطور اسسٹنٹ چیف آف ائیر اسٹاف فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انھوں نے حکومت شام کی درخواست پر5 سال شامی ایئر فورس کی تربیت کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ محمد محمود عالم ایک سچے اور کھرے مسلمان تھے، جنہوں نے جہاد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا۔ انھوں نے جہاد کشمیر میں عملی طور پر حصہ لیا اور بارہا مرتبہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے جنگی معرکے بھی لڑے، لیکن شہادت پھر بھی ان کو نہ مل سکی۔
شہادت کی یہی تمنا 1982ء میں انھیں سر زمین افغانستان لے گئی۔ جہاں انھوں نے انتہائی دشوار گزار علاقوں اور نامساعد موسمی صعوبتوں کے باوجود ہمت و حوصلے کے وہ ریکارڈ قائم کیے کہ سوویت یونین کا افغانستان فتح کرنے کا خواب تنکوںکی طرح بکھر گیا۔ یہ وہ عظیم پاکستانی اور بہادر مسلمان تھے جن کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بنگلا دیشی فوج کا کمانڈر انچیف بننے کی پیشکش ہوئی لیکن انھوں نے یہ کہتے ہوئے پیش کش ٹھکرا دی کہ وہ اول و آخر پاکستانی ہیں۔ بنگلا دیشی فوج کا کمانڈر انچیف بننے کے بجائے پاکستان کا ادنیٰ سپاہی کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔
عالمی ریکارڈ یافتہ ہوا باز ایم ایم عالم کتاب سے محبت کرنے والی عظیم شخصیت تھی۔کتابیں پڑھنے کا انھیں بے حد شوق تھا۔ ہر اتوار کے روز وہ مختلف موضوعات پر اچھی کتابوں کی خرید وفروخت کے لئے مقامی کتب خانوں پر گھنٹوں صرف کرتے۔ چکلالہ ایئربیس راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ پر تقریباً 4 ہزار کتابوں کی بہترین کولیکشن موجود تھی۔ جو بھی انھیں ملنے جاتا تو وہ اسے ایک کتاب کا تحفہ ضرور دیتے۔ وہ اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے جنہوں نے آرمی میں شمولیت اختیار کی حالانکہ ان کے والد انھیں سی ایس پی افسر بنانا چاہتے تھے۔
6 ستمبر2010ء کو ایم ایم عالم نے ایک قومی اخبار سے دوران گفتگو بتایا کہ ''بچپن سے ہی وہ خود کو آرمی کا حصہ تصور کرتے تھے۔ مجھے آرمی جوائن کرنے کا جنون تھا اسی لئے میں نے بچپن سے ہی خود کو لڑنے اور دشمنوں کو مارنے کی تربیت دی۔ تحریک آزادی میں مسلمانوں کے قتل عام پر میں بہت زیادہ کڑھتا اور یہی کچھ دشمنوں کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت میں نے اس کام لئے باقاعدہ ایک چاقو بھی خرید لیا تھا۔
میں اس نظریہ کے تحت جوان ہوا کہ بھارت کو تقسیم ہونا ہی پڑے گا۔'' پاکستان کے بد سے بدترین ہوتے حالات کے باوجود ایم ایم عالم ملک کے روشن مستقبل کی امید رکھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ''پاکستان کے تمام مسائل کا حل بہت آسان ہے بس اس ملک کو اچھی قیادت کی ضرورت ہے۔ قوم ایک اور جناحؒ کی منتظر ہے۔ کسی کو تو ملک بچانے کیلئے جاگنا ہی پڑے گا کیونکہ پاکستان اسی طرح نہیں چل سکتا جس طرح اس وقت چلایا جا رہا ہے۔'' مشرقی اور مغربی پاکستان کی جدائی کے بارے میں ایم ایم عالم کا کہنا تھا کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر بنگلا دیش، پاکستان کا حصہ رہتا تو یہ سٹرٹیجک لوکیشن بہت بڑا سرمایہ ہوتی۔
ایم ایم عالم اپنے 11بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ اسی وجہ سے والد کی وفات کے بعد سارے خاندان کی ذمے داری ان کے کندھوں پر آن پڑی اور انہی ذمے داریوں نے عالم کو اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے کا کبھی موقع ہی نہیں دیا اور وہ کنوارے ہی رہے۔ ایم ایم عالم نے بتایا کہ ''جب ان کے والد کی وفات ہوئی تو اس وقت ان کی منگنی ہو چکی تھی۔ پھر چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے ایم ایم عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت میں نے سوچا کہ میرے لئے کون سی چیز زیادہ اہمیت رکھتی ہے، میری موجودہ فیملی یا آنے والی فیملی(یعنی شادی) تو پھر میں نے اپنی موجودہ فیملی کو ترجیح دیتے ہوئے منگنی توڑ دی۔''
دفاع وطن کے حوالے سے عظیم خدمات سر انجام دینے پر ایم ایم عالم کو دو مرتبہ ستارہ جرات سے نوازا گیا اور حکومت کی طرف سے لاہور میں ایک معروف شاہراہ (ایم ایم عالم روڈ) کو بھی ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ جنون کی حد تک وطن سے محبت کرنے والا یہ عظیم سرفروش آج ہم میں نہیں رہا، لیکن اس کی بہادری کی مثالیں رہتی دنیا تک زندہ رہیں گی۔
قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں، جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں۔
یہ دن فرزندان وطن سے دھرتی ماں کی حفاظت کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن میدان جنگ کا رخ کرتے ہیں ،آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن کی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا جب بھارت نے اپنی خباثت سے مجبور ہو کر 6 ستمبر 1965ء کو پاکستان پر شب خون مارا۔ بھارتی فوجیوں کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور ناشتے میں لاہور کے ''پائے'' کھائیں گے۔ لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ سویا ہوا شیر بھی شیر ہی ہوتا ہے۔ انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں بھی جرات و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں قائم کی گئیں کہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ ان ہی مثالوں میں ایک نام ایئر کموڈور(ر)ایم ایم عالم (محمد محمود عالم) کا بھی ہے۔ 6 اور 7ستمبر کو بھارت نے زمینی کے ساتھ زور دار فضائی حملے بھی کئے۔
پاک فضائیہ کے حوالہ سے سرگودھا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جہاں ایئر فورس کی ایک بہت بڑی بیس بھی ہے اور بھارت بہرحال اس بات سے آگاہ تھا۔ اسی لئے بھارت کی طرف سے سرگودھا کو ہی فضائی حملہ کا نشانہ بنایا گیا۔ 6 ستمبر کو جب بھارتی طیاروں نے حملہ کیا تو پہلے دن ایم ایم عالم نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے F-86سیبر سے بھارتی فضائیہ کے 2 طیاروں کو مار گرایا جبکہ 3 کو زبردست نقصان پہنچایا۔ 6 ستمبر کے حملہ میں ناکامی پر ہزیمت خوردہ بھارت نے 7ستمبر کی سہ پہر مزید طاقت کے ساتھ سرگودھا پر فضائی حملہ کر دیا۔
لیکن ایئر فورس کے فضائی سرفروش ایم ایم عالم نے اپنی بہادری کے وہ جوہر دکھائے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ ایم ایم عالم نے 30سکینڈ میں 4اورایک منٹ سے بھی کم عرصہ میں5 بھارتی ہنٹر گرا کر بین الاقوامی فضائی تاریخ کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا جو آج تک کوئی دوسرا پائلٹ نہیں توڑ سکا۔
اس جنگ میں انھوں نے مجموعی طور پر 9 طیارے مار گرائے اور 2 کو نقصان پہنچایا۔ یہ ایم ایم عالم جیسے سرفروش ہی تھے جن کی وجہ سے 17دنوں کے اس جنگ میں پی اے ایف نے مجموعی طور پر 35طیاروں کو فضائی اور 43کو زمین پر تباہ کیا اور 32طیاروں کو طیارہ شکن گنوں نے نشانہ بنایا۔ اس طرح مجمو عی طورپر بھارت کے 110طیارے تباہ ہو ئے اور پاکستان کے صرف 19 طیارے اپنے ملک پر قربان ہوئے۔
محمد محمود عالم 6جولائی 1935ء میں بھارتی شہر کولکتہ میں پیدا ہوئے۔ عظیم فضائی سرفروش کا تعلق صوبہ بہار کے ایک خاص مقام ''بہار شریف'' سے تھا۔ یہ علاقہ بطور خاص بزرگان دین اور اولیاء اللہ کا مسکن تصور کیا جاتا ہے۔ آپ ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ آپ کے آباء و اجداد شمالی افغانستان سے صدیوں پہلے نقل مکانی کرکے بہار شریف میں آباد ہوگئے تھے۔ ایم ایم عالم نے کولکتہ میں مسلمانوں کے علاقہ میں قائم ایک اردو میڈیم برٹش اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
تاہم قیام پاکستان کے بعد ان کے اہل خانہ نے کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ ان کے والد سرکاری ملازم تھے، تو ڈھاکہ منتقل ہونے کے بعد وہاں کے ایک مشہور ادارے نیو گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ ابھی فرسٹ ایئر سائنس کے طالبعلم تھے کہ ایئر فورس میں شامل ہونے اور پائلٹ بننے کا شوق اعصاب پر ایسا سوار ہوا کہ تعلیم ترک کر کے پاک فضائیہ میں ملازمت کر لی۔ اکتوبر 1953ء میں انھوں نے پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کر لیا تھا۔ 30سال پاک فضائیہ میں خدمات سرانجام دینے والے عالمی شہرت یافتہ ہواباز کو 1982ء میں جبری ریٹائر کر دیا گیا۔
ایم ایم عالم فائٹر لیڈر اسکول میں انسٹرکٹر،3 اسکوارڈنز کے کمانڈنگ آفیسر، ڈائریکٹر آف آپریشنز ریسرچ اور فضائی ہیڈکوارٹر میں بطور اسسٹنٹ چیف آف ائیر اسٹاف فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انھوں نے حکومت شام کی درخواست پر5 سال شامی ایئر فورس کی تربیت کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ محمد محمود عالم ایک سچے اور کھرے مسلمان تھے، جنہوں نے جہاد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا۔ انھوں نے جہاد کشمیر میں عملی طور پر حصہ لیا اور بارہا مرتبہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سے جنگی معرکے بھی لڑے، لیکن شہادت پھر بھی ان کو نہ مل سکی۔
شہادت کی یہی تمنا 1982ء میں انھیں سر زمین افغانستان لے گئی۔ جہاں انھوں نے انتہائی دشوار گزار علاقوں اور نامساعد موسمی صعوبتوں کے باوجود ہمت و حوصلے کے وہ ریکارڈ قائم کیے کہ سوویت یونین کا افغانستان فتح کرنے کا خواب تنکوںکی طرح بکھر گیا۔ یہ وہ عظیم پاکستانی اور بہادر مسلمان تھے جن کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بنگلا دیشی فوج کا کمانڈر انچیف بننے کی پیشکش ہوئی لیکن انھوں نے یہ کہتے ہوئے پیش کش ٹھکرا دی کہ وہ اول و آخر پاکستانی ہیں۔ بنگلا دیشی فوج کا کمانڈر انچیف بننے کے بجائے پاکستان کا ادنیٰ سپاہی کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔
عالمی ریکارڈ یافتہ ہوا باز ایم ایم عالم کتاب سے محبت کرنے والی عظیم شخصیت تھی۔کتابیں پڑھنے کا انھیں بے حد شوق تھا۔ ہر اتوار کے روز وہ مختلف موضوعات پر اچھی کتابوں کی خرید وفروخت کے لئے مقامی کتب خانوں پر گھنٹوں صرف کرتے۔ چکلالہ ایئربیس راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ پر تقریباً 4 ہزار کتابوں کی بہترین کولیکشن موجود تھی۔ جو بھی انھیں ملنے جاتا تو وہ اسے ایک کتاب کا تحفہ ضرور دیتے۔ وہ اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے جنہوں نے آرمی میں شمولیت اختیار کی حالانکہ ان کے والد انھیں سی ایس پی افسر بنانا چاہتے تھے۔
6 ستمبر2010ء کو ایم ایم عالم نے ایک قومی اخبار سے دوران گفتگو بتایا کہ ''بچپن سے ہی وہ خود کو آرمی کا حصہ تصور کرتے تھے۔ مجھے آرمی جوائن کرنے کا جنون تھا اسی لئے میں نے بچپن سے ہی خود کو لڑنے اور دشمنوں کو مارنے کی تربیت دی۔ تحریک آزادی میں مسلمانوں کے قتل عام پر میں بہت زیادہ کڑھتا اور یہی کچھ دشمنوں کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت میں نے اس کام لئے باقاعدہ ایک چاقو بھی خرید لیا تھا۔
میں اس نظریہ کے تحت جوان ہوا کہ بھارت کو تقسیم ہونا ہی پڑے گا۔'' پاکستان کے بد سے بدترین ہوتے حالات کے باوجود ایم ایم عالم ملک کے روشن مستقبل کی امید رکھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ''پاکستان کے تمام مسائل کا حل بہت آسان ہے بس اس ملک کو اچھی قیادت کی ضرورت ہے۔ قوم ایک اور جناحؒ کی منتظر ہے۔ کسی کو تو ملک بچانے کیلئے جاگنا ہی پڑے گا کیونکہ پاکستان اسی طرح نہیں چل سکتا جس طرح اس وقت چلایا جا رہا ہے۔'' مشرقی اور مغربی پاکستان کی جدائی کے بارے میں ایم ایم عالم کا کہنا تھا کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر بنگلا دیش، پاکستان کا حصہ رہتا تو یہ سٹرٹیجک لوکیشن بہت بڑا سرمایہ ہوتی۔
ایم ایم عالم اپنے 11بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ اسی وجہ سے والد کی وفات کے بعد سارے خاندان کی ذمے داری ان کے کندھوں پر آن پڑی اور انہی ذمے داریوں نے عالم کو اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے کا کبھی موقع ہی نہیں دیا اور وہ کنوارے ہی رہے۔ ایم ایم عالم نے بتایا کہ ''جب ان کے والد کی وفات ہوئی تو اس وقت ان کی منگنی ہو چکی تھی۔ پھر چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے ایم ایم عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت میں نے سوچا کہ میرے لئے کون سی چیز زیادہ اہمیت رکھتی ہے، میری موجودہ فیملی یا آنے والی فیملی(یعنی شادی) تو پھر میں نے اپنی موجودہ فیملی کو ترجیح دیتے ہوئے منگنی توڑ دی۔''
دفاع وطن کے حوالے سے عظیم خدمات سر انجام دینے پر ایم ایم عالم کو دو مرتبہ ستارہ جرات سے نوازا گیا اور حکومت کی طرف سے لاہور میں ایک معروف شاہراہ (ایم ایم عالم روڈ) کو بھی ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ جنون کی حد تک وطن سے محبت کرنے والا یہ عظیم سرفروش آج ہم میں نہیں رہا، لیکن اس کی بہادری کی مثالیں رہتی دنیا تک زندہ رہیں گی۔