بہیمانہ جرائم کی شرح میں تشویشناک اضافہ
مختلف شہروں اور قصبوں میں کم عمر بچوں‘ بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں
پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں کم عمر بچوں' بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں' گزشتہ دنوں لاہور کے ہمسایہ شہر قصور میں ننھی بچی زینب کے وحشیانہ قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا' اسی دوران خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں ایک معصوم بچی کو زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
ان دونوں ظالمانہ اور وحشیانہ وارداتوں کے مجرم تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آ سکے' اس سے ہمارے پولیس سسٹم کی خامیاں کھل کر سامنے آ گئی ہیں' ان خبروں پر تبصرے تاحال جاری ہیں' اسی دوران کراچی سے لاہور آنے والی ٹرین میں ایک مسافر خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ منظر عام پر آ گیا' اخباری اطلاع کے مطابق اس واقعے کا مبینہ ملزم ریلوے ملازم ہی ہے' اس واقعے میں ملوث مبینہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس واقعے کی اصل حقیقت کا پتہ تو تحقیقات کے بعد ہی چلے گا لیکن قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں سفاکانہ اور بہیمانہ جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے' سفاک قاتل معصوم بچوں' بچیوں اور خواتین کو زیادہ ٹارگٹ کرتے ہیں اور انھیں بڑی ہی بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایسے سفاک قاتل قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ اس قسم کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس سسٹم میں ہنگامی اور دور رس اثرات کی حامل تبدیلیاں لانا لازم ہے' خصوصاً پولیس کے انٹیلی جنس سسٹم اور انویسٹی گیشن سسٹم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
ان دونوں ظالمانہ اور وحشیانہ وارداتوں کے مجرم تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آ سکے' اس سے ہمارے پولیس سسٹم کی خامیاں کھل کر سامنے آ گئی ہیں' ان خبروں پر تبصرے تاحال جاری ہیں' اسی دوران کراچی سے لاہور آنے والی ٹرین میں ایک مسافر خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ منظر عام پر آ گیا' اخباری اطلاع کے مطابق اس واقعے کا مبینہ ملزم ریلوے ملازم ہی ہے' اس واقعے میں ملوث مبینہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس واقعے کی اصل حقیقت کا پتہ تو تحقیقات کے بعد ہی چلے گا لیکن قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں سفاکانہ اور بہیمانہ جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے' سفاک قاتل معصوم بچوں' بچیوں اور خواتین کو زیادہ ٹارگٹ کرتے ہیں اور انھیں بڑی ہی بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایسے سفاک قاتل قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ اس قسم کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس سسٹم میں ہنگامی اور دور رس اثرات کی حامل تبدیلیاں لانا لازم ہے' خصوصاً پولیس کے انٹیلی جنس سسٹم اور انویسٹی گیشن سسٹم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔