21 ویں صدی کے دو تقاضے
آج بھی ہمارے ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جمہوریت جیسے مہذب نظام کو مسترد کرتے ہیں۔
وقت کا سفر جاری ہے اور ہم 21 ویں صدی کے اٹھارویں سال میں داخل ہو چکے ہیں۔ دنیا میں اقوام کی غالب اکثریت وقت کی رفتارکے تقاضوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ چلتے ہوئے ترقی کی منازل طے کررہی ہیں اور جمہوری نظام اور اس کے اداروں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ماحول کے تحفظ کو بھی ہر سطح پر یقینی بنا رہی ہیں ۔ ان ملکوں میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنے منشور کے ذریعے عوامی مسائل کو حل کرنے اور کروانے میں مصروف ہیں۔
ہم لیکن ہمیشہ کی طرح وقت کی رفتار سے بہت پیچھے چلنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ایک جمہوری نظام کے ذریعے معاشی، معاشرتی، سماجی، اقتصادی و ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کی بجائے اب تک لال بتی کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ پلوں کے نیچے سے پانی کتنی تیزی سے گزر رہا ہے۔ اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرنا ہمارا قومی وطیرہ بنتا چلا جارہا ہے۔
70 سالوں کے بعد بھی ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ ہماری ترقی کی سمت کیا ہے، جانا کدھر ہے، کون سا راستہ اختیار کرنا ہے، کون سا نظام ایسا ہے جو ہمیں، ہمارے معاشرے کو، ہماری آئندہ نسلوں کو بہتر زندگی کی ضمانت مہیا کر سکتا ہو۔ ایک ہجوم ہے جو دل و دماغ آنکھیں بند کیے بھاگا چلا جارہا ہے جانا کہاں ہے کسی کو پتہ نہیں۔ تجربے پہ تجربہ، سارے تجربات کرلیے پھر بھی سمت متعین نہ ہوسکی۔
دنیا کی پیشتر اقوام اپنے راستوں کا تعین کرکے آہستہ یا تیز رفتاری کے ساتھ اپنے منتخب کردہ راستوں کی جانب گامزن ہیں ۔ ہم نے لیکن ابھی تک اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کا شغل جاری رکھا ہوا ہے۔ حمایت ہے تو اندھی، مخالفت ہے تو تباہ کردو، برباد کردو، کیا خواندہ کیا نا خواندہ سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ بحث مباحثہ، اختلاف رائے کو برداشت کرنا، دوسروں کا نکتہ نظر سننا غرض کہ ہر مہذب رویہ ترک کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اقوام کی ایک لمبی فہرست ہے جو ہماری نظروں کے سامنے ان 70 سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جس کے 5 بڑے شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ طویل خشک سالیاں، پے در پے سیلاب، شدید گرمی، پانی کی قلت جو موجود وہ آلودہ ترین، فصلوں میں تنزلی، سمندری مداخلت کے باعث لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین بنجر اور ان سب عوامل کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات اور ان سے شدید متاثر ہونے والے لوگوں کا کوئی اندازہ ہے کسی کو؟
کسی دانشور مذہبی یا سیاسی رہنما کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے کہ وہ دن بدن بڑھتے ہوئے موسمیاتی و ماحولیاتی خطرات کو روک سکے؟ اور یہ تو ابتدا ہے، عالمی تحقیقی رپورٹیں تو آنے والے وقتوں کے بارے میں انتہائی خوفناک صورتحال بتا رہی ہیں ہے کسی کو کوئی ادراک؟ یہ ایجنڈا تو کیا سوچ میں بھی شامل نہیں ہے۔ اگر ہے تو یہ کہ کسی بھی طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے، عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نہ کرپائے اور جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری روایت پروان چڑھتی رہیں تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ وہ نظام جس کو اپنا کر اقوام نے ترقی کی وہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
رہی عوام کی بات تو انھیں ایک مخصوص عمل کے ذریعے اس قدر غیر جمہوری رویوں کا حامل بنا دیا گیا ہے کہ وہ اس جانب توجہ دینے کے لیے آمادہ ہی نہیں۔ نعرہ کرپشن کے نام پر عوام کے ذہنوں کوکرپٹ کرنے کا عمل جاری ہے۔
اعلیٰ عدالتوں کا حکم ہے کہ درختوں کو نہ کاٹو، ہم بلا روک ٹوک درخت کاٹ رہے ہیں، حکم دیا جاتا ہے کہ سمندر کو آلودہ نہ کرو، بے دریغ صنعتی اور گھریلوں فضلہ سمندر میں پھینک رہے ہیں اور اسی آلودہ پانی سے حاصل ہونے والی آبی حیات استعمال کررہے ہیں۔ صاف پانی کے ذخائر زہریلے پانی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ملک میں صرف 15 سے 18 فیصد لوگوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔
ملک میں موجود 80 فیصد بیماریوں کا تعلق آلودہ پانی کے استعمال سے ہے، اگر ملکی اور غیر ملکی تحقیقی رپورٹوں کے اعداد و شمار کا اوسط نکالا جائے تو سالانہ تقریباً 10 سے 11 لاکھ افراد آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہے کوئی مذہبی، سماجی یا سیاسی رہنما جو ان کے لیے دھرنا دے۔
جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویے فروغ دینے والوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح عوام کے اصل اور بنیادی مسائل سامنے نہیں آنے دیتے کیونکہ وہ خود اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ انتہائی منافقت کے ساتھ مغربی اقوام کی مثالیں دینے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان ملکوں نے جمہوری نظام میں ہی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ ان معاشروں نے من حیث القوم رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر ووٹوں کے تقدس او راحترام کو یقین بنایا ہے۔
آج دنیا کے پیشتر معاشرے اور ان کی حکومتیں جمہوری نظام میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات کوکم سے کم کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے نصیب میں لیکن اس حوالے سے المیے ہی المیے ہیں۔ 70 سال قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ان برسوں میں وہ ہر قسم کے تجربات سے فارغ ہو کر اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کو سامنے رکھ کر ترقی کرتے، آگے بڑھتے اور اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ و مستحکم ملک دینے کے لیے اپنے اہداف مقرر کرلیتے ہیں، ہم نے مگر اپنے لیے جہنم کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔
21 ویں صدی کے اٹھارہویں سال میں کیا ہم سوچنے اور غوروفکر کرنے پر آمادہ ہیں کہ اس نئی صدی کے تقاضے کیا ہیں اور وقت کا ارتقا ہم سے کن رویوں اور اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ شاید ہم کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ کس راہ پر چلنا ہے اور کون سی راہ اختیار کرنی ہے۔
آج بھی ہمارے ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جمہوریت جیسے مہذب نظام کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں نسلی، مذہبی، مسلکی، قومی، صنفی اور طبقاتی بنیادوں پر تفریق جائز ہے اور شہری مساوی حقوق کا حق دار نہیں ہے، حکومت جمہور کی نہیں بلکہ آمر کی ہونی چاہیے۔ اسی طرح کے لوگوں کی بڑی تعداد جن میں ہمارے دانش ور، بیورو کریٹ، منصف، صحافی اور سیاستدان شامل ہیں یہ رائے رکھتے ہیں کہ ماحول کا تحفظ محض ایک نعرہ اور موسمیاتی تبدیلی ایک ڈھونگ ہے۔
ہم اگر وقت سے نہ ٹکراتے اور ارتقائی عمل کی مزاحمت نہ کرتے تو یہ بات بہت پہلے جان چکے ہوتے کہ آج کا جدید عہد بالخصوص 21 ویں صدی میں ہر طرح کے امتیازات سے پاک جمہوریت اور قدرتی ماحول کے تحفظ کے تصور سے جو بھی ملک یا قوم انحراف کرے گی فنا اس کا مقدر ٹہرے گی کیونکہ یہ دونوں چیزیں کرئہ ارض پر موجود تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں اور یہی زندگی اور زندہ رہنے کی ضمانت ہے۔