ساری دنیا کو مسلمان بنانے کا آسان طریقہ 

لاؤڈ اسپیکر تو موجود تھا کلمۂ حق پہنچانے میں کوئی دشواری تو تھی نہیں اس لیے دن رات لوگوں کو راہ راست دکھانے لگا۔


Saad Ulllah Jaan Baraq January 21, 2018
[email protected]

میں مسلمان ہو ں اور اس لیے مسلمان ہوں کہ ایک مسلمان ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا۔ ماں باپ اس لیے مسلمان تھے کہ مسلمان خاندان میں سے تھے اور خاندان اس لیے مسلمان تھا کہ مسلمان گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اس لیے مسلمان تھا کہ مسلمان علاقے میں تھا اور علاقہ اس لیے مسلمان تھا کہ مسلمان ضلعے میں تھا۔

ضلع اس لیے مسلمان تھا کہ مسلمان صوبے میں تھا اور صوبہ اس لیے مسلمان تھا کہ مسلمان ملک کا صوبہ تھا۔ جب میں کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تو خیال آیا کہ میں بے شک الحمد اللہ مسلمان ہوں لیکن اس میں میرا کیا کمال ہے۔ کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ مادر زاد پدر زاد مسلمان کے علاوہ میں خود بھی مسلمان کہلانے کے لائق بن جاؤ ں کہ موجودہ مسلمانی تو میرے والدین میرے خاندان گاؤں علاقے اور ملک کی دین ہے اور اس کا سارا کریڈٹ ان کو چلا جاتا ہے۔ تو پھر میں خود تو کچھ نہیں ہوا نا؟

مجھے خود کچھ ہونا چاہیے۔ یا کم از کم دوسروں کی دی ہوئی مسلمانی میں اپنی طرف سے بھی کچھ اضافہ ہونا چاہیے۔ یہ تو کوئی کار نامہ نہیں ہوا کہ میں دوسروں سے لیے ہوئے پر گزارہ کر رہا ہوں ایسا تو حیوانات نباتات اور جمادات بھی کرتے ہیں کہ جو ہوتے ہیں وہی کے وہی رہ جاتے ہیں۔ پرندے بھی چر جگ کر اسی حالت میں زندگی کر جاتے ہیں اور اپنے جیسے انڈے بچے دے کر فنا ہو جاتے ہیں۔ آخر میں کوئی سنگ و خشت تو نہیں ہوں انسان ہوں اور کچھ نہ ارتقا تو مجھے کرنا چاہیے۔

جیسے تیسے کرکے ہونے سے تو نہ ہونا بہتر ہے۔ جس طرح میرے جسم، میرے لباس، طرز زندگی، زبان سوچ میں تبدیلی آئی ہے ارد گرد کی دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے پہلے سے بہتر ہو گیا ہے۔ ہم پیدل سفر کرتے تھے والدین تانگے پر آتے جاتے تھے پھر بچپن میں ہم ریلوے اور بسوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور آج موٹر کار یا ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ باہر کچھ بہت ساری تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ لیکن ان سب تبدیلیوں کے خلاف خود میرے اندر کیا ترقی ہوئی ہے؟ اتنا ہی اور ایسا ہی اب بھی مسلمان ہوں جتنا اور جیسا والدین خاندان اور ملک نے بنایا۔

اس غرض کے لیے میں نے عبادات شروع کیں لیکن عبادات تو سب کرتے ہیں دوسروں کو راہ راست پر لانے کے لیے وعظ و نصیحت اور تبلیغ کرنا چاہی تو یہ بھی تو سب کرتے ہیں تو پھر میں ایسا کیا کروں جو ''دیے ہوئے'' اور ''لیے ہوئے'' پر اضافہ ہو۔ سوچا دنیاوی معاملات کو بالکل تیاگ کر تبلیغ دین میں لگ جاؤں' سو لگ گیا کہ لگا ہی رہا کافی مطمئن تھا۔ لوگوں کو پند و نصیحت اور وعظ و تبلیغ کرکے بڑی خوشی حاصل ہوتی تھی اور یہ سوچ کر بڑا مطمئن تھا کہ میں جو کچھ کرتا تھا دوسرے بھی وہی کرتے تھے لیکن پھر اچانک کچھ ہوا؟ کیسے ہوا؟

یہ مجھے پتہ نہیں لیکن ہوا اور ہوا یہ کہ سب کچھ ویسے ہی تھا ہزاروں لوگوں کو میں نے نیکیوں کی تلقین کی لیکن وہ بھی تو سب کے سب مادرزاد مسلمان تھے اور میری ہی طرح دوسروں کو مسلمان بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ جب سب ہی وہی کررہے تھے تو اس میں میرا کمال کیا ہوا اور یہ دیکھ کر تو بہت دکھ ہوا کہ میں اتنے عرصے میں کس ایک شخص کو بھی راہ راست پر نہ لا سکا کیونکہ وہ دوسروں کو راہ راست پر لانے میں اتنے مصروف تھے کہ اپنے لیے وقت ہی نہیں نکال پا رہے تھے۔

مجھے کچھ اور کرنا چاہیے؟ یہ سوچتے ہوئے آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ انفرادی سطح پر تو کچھ نہیں کر سکا اب اجتماعی طور پر کچھ کروں گا۔ اس غرض کے لیے کچھ زمین کا بندوبست کیا ایک مسجد کی تعمیر شروع کی سڑک پر چارپائی ڈال کر چندے کا بورڈ لگایا اور زیر تعمیر مسجد میں لاؤڈ اسپیکر لگا کر چندہ اکٹھا کرنے لگا۔ کچھ ہی دنوں میں مسجد تیار ہو گئی تو دل میں بڑی خوشی محسوس کرنے لگا کہ ہاں اب کچھ کرنے لگا ہوں۔

لاؤڈ اسپیکر تو موجود تھا کلمۂ حق پہنچانے میں کوئی دشواری تو تھی نہیں اس لیے دن رات لوگوں کو راہ راست دکھانے لگا۔ یہ کام اچھا لگا تو میں نے اپنی دوسری سرگرمیاں کم کردیں اور زیادہ سے زیادہ وقت لاوڈ اسپیکر کو دینے لگا۔ یہ اچھا ہوا کہ ایک چھوٹا مائیک بھی ایجاد کر لیا تھا یہ ایجادات کرنے والے لوگ بھی بڑے کام کے ہوتے ہیں کاش یہ کفار کلمہ بھی پڑھ لیتے تو دوزخ کا ایندھن بننے سے بچ جاتے۔ پھر میں نے ایسے لوگوں کی رہنمائی کے لیے جو لاوڈ اسپیکر کی پہنچ سے دور تھے تحریری طور پر بھی تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔

اخباروں میں، رسالوں میں، کتابوں میں دین حق کی دعوت دینے لگا۔ اس یقین کے ساتھ کہ ہاں اب کچھ بات ہوئی، نتائج بڑے حوصلہ افزا نکلے۔ ہماری طرح اور بھی بہت سارے لوگ اس کام میں لگ گئے اور ایک دوسرے کو را حق پر چلنے اور اعمال صالح کرنے کی تلقین کرنے لگے۔ لیکن اچانک میں نے دیکھا کہ خود میرے گھر کے لوگ اولادیں اور محلے والے پہلے سے بھی زیادہ حرام خور بد اعمال اور گمراہ ہو گئے ہیں حالانکہ سب سے میری تلقین کی وجہ سے داڑھیاں بھی رکھ لی تھیں اور نیکی کی تلقین بھی کرتے تھے، نماز روزہ بھی اداکرتے تھے لیکن معاملات میں بدستور بے ایمانیاں رشوت خوریاں اور حرام خوریاں کرتے تھے۔

پہلے میں نے اپنی بیوی بچوں کو بُرا بھلا کہا اور پھر محلے والوں کو بھی ٹوکنے لگا کچھ عرصہ تو وہ خاموشی سے سن لیتے تھے لیکن پھر محلے کے ایک گستاخ شخص نے ذرا بھی میرے مرتبے اورعمر کا لحاظ کیے بغیر پلٹ کر جواب دیتے ہوئے کہا کہ تم خود بھی تو یہی کرتے ہو دھندہ تو دھندہ ہوتا ہے۔

واقعی جب اس نے بتایا تو مجھے بھی خیال آیا کہ میں نے مسجد کے پہلومیں جو کریانے کی دکان ڈالی تھی وہاں جاکر میں خالص دکاندار بن جاتا تھا اور وہ تمام کام کرتا تھا جو دکانداری میں ہوتا ہے اور اسی دکان میں جب میں مصروف ہوتا تھا تو اپنے بیٹوں کو پارٹ ٹائم بٹھاتا تھا وہ ساتھ میں پڑھتے بیٹھتے تھے اور وقت کا تقاضا تھا کہ میں کچھ دے دلاکر ان کو پاس کراتا تھا کہ وہ کچھ بن کر رہیں پھر میں ان کو نوکریاں بھی دلوائیں جو ظاہر ہے کہ مفت میں تو ملتی نہیں تھیں۔

ایک کو ڈاکٹر بنانے کے لیے میڈیکل کالج کی سیٹ خریدنا پڑی تھی اور دوسرے کو انجینئر بنانے کے لیے اور پھر سب نے مل کر چھوٹے کو ٹھیکیدار بھی بنایا تھا۔ لیکن یہ سب تو عام سی بات تھی معاشرہ ہی ایسا ہے کہ آپ کو روم میں رومی بن کر رہنا پڑتا ہے ہاں اگر معاشرہ اور نظام درست ہو جائے تو؟

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔