واٹر کمیشن نے پانی کے منصوبوں پر خرچ رقوم کا حساب طلب کرلیا

غیر فعال پلانٹس کی مرمت کی رقوم کن اکاؤنٹس میں بھیجی گئیں، سیکریٹری پبلک ہیلتھ کا800 اسکیمیں غیرفعال ہونے کااعتراف


Staff Reporter January 21, 2018
کراچی میں پانی کاکوئی مختصرمدتی منصوبہ نہیں،چیف سیکریٹری۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے حکومت سے پانی اور دیگر اسکیموں سے متعلق جاری کی جانے والی رقوم کا حساب طلب کرلیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں سپریم کورٹ کے جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن کی سماعت ہوئی چیف سیکریٹری، سیکریٹری آبپاشی، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو، ایم ڈی واٹر بورڈ سمیت دیگر حکام واٹر کمیشن کے روبرو پیش ہوئے۔

واٹر کمیشن کے روبرو درخواست گزار شہاب استو نے دلائل میں کہا کہ صوبے میں پانی کی2300 اسکیمیں بنائی گئیں جن میں سے 953 اسکیمیں فعال نہیں ہیں 539 اسکیموں کو فعال کرنے کے لیے منتخب کیا گیا 4.59 ارب روپے ان اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے 70 کروڑ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں 40 کروڑ روپے حال ہی میں جاری کیے گئے مگر 70 فیصد پانی کا مسئلہ جوں کا توں ہے نااہلی کے باعث اسکیمیں بند پڑی ہیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریماکس دیے میں یہاں فیصلے پر عملدرآمد کرانے آیا ہوں ایڈووکیٹ جنرل صاحب 2 دن کا وقت دیتا ہوں مانیٹرنگ کے لیے نہیں آیا مہلت دے رہا ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کریں میں مہلت دیتا ہوں کہ پیر تک پوزیشن واضح کریں ورنہ سخت کارروائی کی جائے گی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور خان نے کہا کہ پانی کا معاملہ اٹھانے پر سپریم کورٹ کے مشکور ہیں سندھ حکومت اقدامات کر رہی ہے اور مخلص ہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ بتائیں کہ اسکیمیں مکمل نہ کرنے اور کرپشن کا کون ذمے دار ہے کیا آپ نے ذمے داران کا کوئی تعین کیا بتایا جائے سندھ حکومت نے طویل اور مختصر مدتی کیا منصوبہ بندی کی ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے سیکریٹری پبلک ہیلتھ سے مکالمے میں کہا کہ میرے پاس 2 اختیار ہیں، توہین عدالت کی کارروائی اور معاملہ نیب بھیجنے کا آپ کون سا آپشن پسند کریں گے میں کاغذی کارروائی پر یقین نہیں رکھتا عملی کام بتایا جائے 25اسکیمیں تیار پڑی ہیں مگر فعال نہیں کون ذمے دار ہے۔

سیکریٹری پبلک ہیلتھ نے کہا کہ چیف انجنیئر اس کے ذمے دار ہیں پھر آپ کی کیا ذمے داری ہے رولز پڑھیں، کسی بھی غفلت کا ذمے دار سیکریٹری ہوتا ہے سیکریٹری پبلک ہیلتھ نے اعتراف کیا کہ 800 اسکیمیں غیر فعال ہیں کمرہ عدالت میں اس بات پر سیکریٹری پبلک ہیلتھ اور درخواست گزار شہاب اوستو میں تکرار ہوئی۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے سیکریٹری پبلک ہیلتھ کو ہدایت کی کہ پیر تک آپ وضاحت دیں کہ آپ نے کتنی اسکیمیوں کا خود دورہ کیا ایڈووکیٹ جنرل سندھ سیکریٹری پبلک ہیلتھ کو سمجھائیں اس رویے کو نظرانداز نہیں کرسکتے کمیشن سربراہ نے سیکریٹری پبلک ہیلتھ تمیز الدین کھیڑو کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ درست کام کریں گے یا پھر گھر جائیں گے اگر آپ کے رویے کی رپورٹ سپریم کورٹ گئی تو خطرناک ہوگا پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی اسکیمیوں میں بے قاعدگیوں کا ذمے دار سیکریٹری ہی تصور کیا جائے گا۔

شہاب اوستو نے کہا کہ اندورن سندھ 25 فلٹر پلانٹس تیار ہیں مگر چلائے نہیں جارہے یہ معاملہ نیب کو بھیجا جائے بدین، ٹنڈومحمد خان، نوشہروفیروز، بینظیر آباد سمیت دیگر اضلاع میں25 فلٹر پلانٹس تیار ہیں سندھ حکومت سے پوچھا جائے کہ ان پلانٹس سے شہریوں کو پانی فراہم کیوں نہیں کیا جارہا 44 اسپتالوں میں انسلیٹرز تک موجود نہیں اسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانا بڑا مسئلہ بن چکا ہے بیشتر بڑے اسپتالوں میں فضلہ ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں صاف پانی کے معیار کو جانچنے کے لیے صوبے میں کوئی میعاری لیباریٹری تک موجود نہیں۔

درخواست گزار شہاب اوستو نے دلائل میں کہا حیدر آباد میں 4 فلٹر پلانٹس ہیں سارے بند پڑے ہیں اگر یہ پلانٹس فعال کردیے جائیں تو شہریوں کو گٹر کا پانی نہ پینا پڑے ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی نے آج تک نہیں بتایا کہ پانی کی لائنوں میں سیوریج کا پانی کہاں سے شامل ہورہا ہے 200 ملین گیلن پانی سرے سے فلٹر ہی نہیں کیا جاتا کہاں کہاں پانی کی لائنیں سیوریج لائنوں سے ملی ہوئی ہیں نہیں بتایا جارہا پانی چور مافیا اور واٹر بورڈ کی آپس میں ملی بھگت ہے۔

کراچی میں 40کروڑ گیلن سیوریج کا پانی جمع ہوتا ہے کراچی کے 3 ٹریٹمنٹ پلانٹس اب بھی غیر فعال ہیں ان پلانٹس پرتعینات 230 ملازمین تنخواہ لے رہے ہیں معاملہ نیب کو بھیجا جائے ان 3 پلانٹس سے 15کروڑ گلین سیوریج کا پانی ٹریٹ کیا جا سکتا ہے اگر سندھ حکومت چاہے تو کراچی کے شہریوں کو ایک سال میں 100فیصد صاف پانی مہیا کرسکتی ہے 111 اسکیمیں2007 سے غیر فعال ہیں اور ان کی لاگت بڑھتی جا رہی ہے پی سی ون ایک لاٹری ہوتی ہے جہاں سب کا حصہ طے ہوتا ہے کیک کا تھوڑا سا حصہ عوام کو ملتا ہے اگر ان کا اختیار ہو تو پورا کیک کھا جائیں۔

کمیشن سربراہ نے کہا کہ اسکیموں کی بھر مار کے بجائے کم اسکیمیں بناکر منظم کام ہوسکتا ہے شہاب اوستو نے کہا کہ منچھر جھیل تباہ ہوچکی پورا سندھ بیمار پڑا ہے بیوروکریٹس کے بچے تو باہر رہتے ہیں غریب کہاں جائیں گے کب تک ایسا چلے گا کمیشن خود ان اسکیموں کا معائنہ کرسکتا ہے انگریز افسر اونٹ پر بیٹھ کر معائنہ کرتا تھا یہاں سیکریٹری60 لاکھ کی گاڑی میں آتا ہے مگر کہتا ہے کبھی معائنہ نہیں کیا سیکریٹری کی گاڑیاں عوام کے ٹیکس سے آتی ہیں یہ عوام کو جواب دہ ہیں۔

سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے کہا کہ کراچی میں ایک انسیلیٹر جناح اسپتال میں فعال ہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا پورے سندھ کے لیے ایک انسیلیٹر کافی ہے بتایا جائے کہ اسپتالوں کا فضلہ کیسے ٹھکانے لگایا جائے گا آپ نے ریاست میں ریاست بنا رکھی ہے کہیں کونسل، کہیں مئیر کا نظام بنا رکھا ہے اسپتالوں کے فضلے کو بھی سمندر میں ڈالا جارہا ہے اسپتال کے فضلے کو سمندر میں پھینکنا زیادہ خطرناک ہے سیکریٹری صحت نے کہا کہ کچھ فضلہ ایسا ہوتا ہے جیسے سمندر میں نہیں پھینکتے۔

کمیشن سربراہ نے استفسار کیا یہاں کوئی باقاعدہ ڈمپنگ سائٹ موجود ہے سیکریٹری صحت نے کہا کہ باقاعدہ کوئی ڈمپنگ سائٹ موجود نہیں کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ کیا انسانی زندگی کی قیمت 70 لاکھ سے زیادہ ہے سیکریٹری صحت نے کہا کہ مجھے اسپتالوں میں انسیلیٹر لگانے کے لیے ایک ارب روپے درکار ہیں کمیشن سربراہ نے کہا کہ لائٹس لگانے کے لیے7ارب روپے لگائے جارہے ہیں انسان زندہ ہوں گے تو روشنی دیکھیں گے۔

سیکریٹری صحت نے کہا کہ پی سی ون تیار کرنے میں تکنیکی مسائل ہوتے ہیں پی سی ون ٹھیک نہیں بنایا جاتا رقم زیادہ یا کم مقرر کردی جاتی ہے کمیشن سربراہ نے کہا کہ یہاں شہر کا کچرا تک نہیں اٹھایا جارہا کچرا اٹھانے والے ٹرک انتہائی خطرناک ہیں شہریوں میں خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں سیکریٹری صحت نے کہا کہ ایک انسیلیٹر 70 لاکھ میں لگتا ہے ایک ٹھیکیدار نے 30لاکھ کا بجٹ دیا جو ٹھیک نہیں تھا اس ٹھیکیدار کو انکار کرنے میں 6ماہ لگے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کیا ریاست کے اندر ریاست بنائی گئی ہے آج کل میڈیا سب کچھ دکھا رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے سیکریٹری صحت نے کہا کہ میں میڈیا کا مشکور ہوں میڈیا یہ بھی بتائے کہ میری ترقی 2008 سے رکی ہوئی ہے فضل اللہ پیچوہو کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہہ گونجنے لگے سیکریٹری صحت نے جواب دیا کہ خدا کی قسم ہم کام کررہے ہیں اور بہت کررہے ہیں ہمیں کریڈٹ بھی دیں عدالت میں موجود افراد نے سیکریٹری صحت کی باتوں پر قہقہہ لگایا کمیشن سربراہ نے کہا کہ آپ کام کررہے ہیں میں خود بھی آج بغیر بتائے اسپتالوں کا دورہ شروع کروں گا۔

کمیشن سربراہ نے چیف سیکریٹری سے کہا کہ بدقسمتی سے آپ کو وہ لوگ مشورے دے رہے ہیں جنھیں ان معاملات کا پتہ نہیں مسائل تو1947سے چل رہے ہیں مگر حل تو کرنے ہیں پھر یہ مت کہیے گا کہ نیب کو غلط ریفرنس بھیج دیا گیا حکومت مثبت کردار ادا کرے اور انھیں رکھے جو بہتر کام کرسکتے ہوں چیف سیکریٹری نے کہا کہ سندھ حکومت مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کریشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے کیا واٹر بورڈ کا چارج مئیر کراچی کو دیا گیا ہے۔

چیف سیکریٹری نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں کمیشن نے ریماکس دیے پھر میئر کراچی کو بھی نوٹس جاری ہونے چاہیے تھے کمیشن سربراہ نے استفسار کیا کہ ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی آپ نے کیا کام کیا ہاشم رضا زیدی نے کہا میرے آنے کے بعد 35 سے 40 فیصد کام میں بہتری آئی کمیشن نے کہا کہ یہ بتائیں کہ جو فلٹر پلانٹس بند ہیں ان کی مرمت کے پیسے کیسے دیے گئے کمیشن سربراہ نے ہاشم رضا کو تنبیہ کی ورنہ اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں گی۔

کمیشن سربراہ نے کہا کہ میں آج اسپتالوں اور واٹر بورڈ کا خود دورہ کروں گا چیف سیکریٹری نے کہا کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ ون نہیں چل سکتا ٹی پی ٹو کی زمین پر قبضہ ہوچکا ہے ٹی پی تھری کی مشینری نہیں ہے کچھ مشینری تھی جو گل سڑگئی کمیشن نے چیف سیکریٹری نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ غیر فعال پلانٹس کی مرمت کی رقوم کن اکاؤنٹس میں گئیں یہ اکاؤنٹس کون چلاتا رہا تمام تفصیلات پیر تک پیش کی جائیں۔

کمیشن نے ریمارکس دیے کہ چیف سیکریٹری آپ ہمارے ساتھ دورے کریں اور جائزہ لیں پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ ٹھیک کام کریں تو80 فیصد کام ٹھیک ہوسکتے ہیں کمیشن سربراہ نے آبزرویشن دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے چن چن کر افسران کو لگادیا جاتا ہے۔

کمیشن نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کراچی کے لیے مختصر مدتی کیا منصوبہ ہے چیف سیکریٹری نے اعتراف کیا کراچی سے متعلق پانی کے لیے کوئی مختصر مدتی منصوبہ (پلان) نہیں ہے کمیشن سربراہ نے ریماکس دیے سپریم کورٹ کو کراچی کی پلاننگ پر شدید تحفظات ہیں پانی بیچ کر اربوں روپے کمایا جا رہا ہے 35فیصد پانی ضایع ہورہا ہے سمجھ سے باہر ہے ،کمیشن نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ ڈی ایچ اے کا سیوریج کا فضلہ اور پانی کہاں جا رہا ہے۔

چیف سیکریٹری نے کہا کہ ڈی ایچ اے کا اپنا کوئی نظام نہیں کمیشن سربراہ نے کہا کہ ڈے ایچ اے میں50 کروڑ کا بنگلہ موجود ہے اور لیکن پانی اور سیوریج کا نظام تک نہیں، ڈی ایچ اے کے منصوبے فیز 9 میں شروع کیے جارہے ہیں مگر پانی اور سیوریج کا نظام تک نہیں جب پانی ہی نہیں دے سکتے تو ڈی ایچ اے کا نظام کیسے چل رہا ہے واٹر بورڈ نے جواب دیا یہ پانی بھی ہم ہی سے لے رہے ہیں کمیشن نے ریمارکس میں کہا کہ اگلی بار ڈی ایچ اے کے معاملے کو بھی اٹھائیں گے حیرت ہے ڈی ایچ اے کا نکاسی آب کا بھی اپنا کوئی نظام نہیں۔

کمیشن سربراہ نے ریماکس دیے کہ اگر ایسا کرنا ہے تو پورا واٹر بورڈ آؤٹ سورس کردیں کمیشن نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ مختصر مدتی پلان، طویل مدتی پلان بتائے جائیں کمیشن نے کراچی اور اندرون سندھ کے دورے کا بھی اعلان کیا کمیشن سربراہ نے اسکیموں کے لیے جاری کی جانے والی رقوم کا حساب طلب کرتے ہوئے سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی۔

عملی طور پر واٹر ٹریمنٹ کا کوئی کام نہیں ہورہا، کمیشن سربراہ

سپریم کورٹ کی جانب سے واٹر کمیشن کے مقرر نئے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے شیر شاہ میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ون کا دورہ کیا ان کے ہمراہ رجسٹرار واٹرکمیشن اور سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام موجود تھے جسٹس امیر ہانی مسلم نے پلانٹ کی مشینری اور عمارت کا تفصیلی دورہ کیا صفائی نہ ہونے پر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے واٹر بورڈ حکام پر برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ملازمین کی حاضری کا رجسٹر دیکھا کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ یہ تو نیا رجسٹر ہے لگتا ہے ابھی خریدا گیا ہے کیا عملہ حاضری بھی لگاتا ہے یا نہیں واٹر بورڈ کی گاڑیوں کی خستہ حالت پر کمیشن سربراہ واٹر بورڈ حکام پر برہم ہوگئے انھوں نے کہا کہ اگر عملہ ہے تو گاڑیوں کی صفائی کیوں نہیں ہوتی آپ تو کہتے ہیں منصوبے پر کام جاری ہے یہاں تو ایسی صورتحال نہیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ صنعتی سیوریج کا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر جانے کا کون ذمے دار ہے بظاہر صاف نظر آتا ہے کہ منصوبے پر کوئی عملی کام نہیں ہورہا کمیشن کے سربراہ نے واٹربورڈ حکام کو حکم دیا کہ پیر تک رپورٹ جمع کرائی جائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں