قومی کرکٹ ٹیم دفاعی خول میں واپس آگئی

ویلنگٹن سے ویلنگٹن تک مسلسل ناکامیوں کا سفر۔

بیٹسمین خاص طور پر ٹاپ آرڈر بری طرح فلاپ ہوئی،اوپننگ جوڑی کے ناکام تجربات سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

ISLAMABAD:
نیوزی لینڈکے لیے مشکل کنڈیشنز میں کھیلی جانے والی بیشتر سیریز میں گرین شرٹس مشکلات کا شکار رہے ہیں لیکن انگلینڈ میں چیمپئنز ٹرافی فتح کے بعد شائقین اس خوش فہمی میں تھے کہ فتوحات کا تسلسل برقرار نہ بھی برقرار رہا تو کم از کم ٹیم لڑتی ضرور نظر آئے گی۔

ویلنگٹن میں کھیلے گئے پہلے میچ میں ناکامی ہوئی تو امیدیں باندھی گئیں کہ تیز ہواؤں اور خراب موسم کی وجہ سے پریشان مہمان ٹیم اگلے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی،دوسری،تیسری، چوتھی اور پھر ویلنگٹن میں ہی پانچویں شکست تک ٹاپ آرڈر کی فارم میں واپسی اور ٹیم کی جانب کم بیک کا انتظار ختم نہ ہوا اور سیریز ختم ہوگئی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ پہنچتے ہی پاکستانی کرکٹرز کی صلاحیتوں کوزنگ کیسے لگ گیا،انٹرنیشنل کرکٹ کا وسیع تجربہ رکھنے والے ہیڈ کوچ مکی آرتھر،بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور،بولنگ کوچ اظہر محمود ایک عرصہ سے ٹیم کے ساتھ اور گزشتہ دورہ نیوزی میں درپیش آنے والے مسائل سے بھی آگاہ تھے،اس وقت سکواڈ کا انتخاب کرنے والے چیف سلیکٹر انضمام الحق ہی نے حالیہ ٹور کے لیے کمبی نیشن بنایا۔ پاکستان کی ون ڈے سیریز میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہوم ورک کمزور ہونے کی وجہ سے کھلاڑی ذہنی اور جسمانی طور پر نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز کے لیے تیار نہیں تھے۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں غیر ملکی لیگز میں قومی کرکٹرز کی مخالفت کرتے ہوئے ان میں کارکردگی کی بنیاد پر سلیکشن نہ کرنے کے دعوے کرنے والے چیف سلیکٹر انضمام الحق خود پی ایس ایل اور ٹی 10کا حصہ بن گئے۔ پی سی بی نے دھڑا، دھڑ کیریبیئن لیگ اور بی پی ایل کے لیے این اوسی جاری کئے،اس دوران بیشتر قومی کرکٹرز نے صرف ایک ہفتے تک ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں شرکت کی بھی وہ ٹی ٹوئنٹی تھا۔

دورۂ نیوزی لینڈ کی تیاری کے لیے قذافی سٹیڈیم میں مختصر کیمپ لگانے کے بعد ٹیم روانہ ہوگئی،تسلسل کے ساتھ ایشیائی کنڈیشنز میں لوباؤنس والی پچز پر سری لنکا کے خلاف سیریز اور لیگز کے دوران شاندار کارکردگی دکھانے والے پاکستانی کرکٹرز کو وہاں ایک ہفتہ قبل پہنچنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا، مہمان ٹیم پیس، باؤنس اور سوئنگ تو ایک طرف مچل سینٹر اور ٹوڈ ایسٹل جیسے کلب سطح کے سپنرز کو بھی ڈھنگ سے نہ کھیل پائی، بیٹسمین خاص طور پر ٹاپ آرڈر بری طرح فلاپ ہوئی،اوپننگ جوڑی کے ناکام تجربات سے کچھ حاصل نہ ہوا، فخرزمان کی 2اننگز کے سوا پوری سیریز میں کسی کی جانب سے مزاحمت نظر نہیں آئی۔

تجربہ کار اظہرعلی ہی بے بسی کی تصویر بن گئے تو امام الحق،فہیم اشرف اور عمرامین سے کیا توقع کی جاسکتی تھی،2017کے بہترین بیٹسمین بابر اعظم نے نئے سال کا بدترین آغاز کیا،صرف ایک بار ڈبل فیگر میں داخل ہونے والے نوجوان کرکٹر کو مسلسل ناکامیوں کی دلدل سے نکالنے کی کوئی تدبیر نہیں کی گئی،اگر اوپنرز مسلسل ناکام ہورہے تھے تو بابر اعظم کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کرکے فارم میں آنے کا موقع دیا جاسکتا تھا لیکن کسی نے فکر تک نہیں کی اور وہ ہربار منہ لٹکائے پویلین واپس لوٹ آئے،محمد حفیظ نے ایک اننگز اپنے لئے۔


دوسری ٹیم کے لیے کھیلی لیکن دیگر میچز میں ٹیم کی مشکلات بڑھاکر پویلین لوٹ گئے، شعیب ملک قطعی طور پر سینئر کا حق ادا نہیں کرپائے،خوش آئند بات یہ ہے کہ حارث سہیل نے مشکل کنڈیشنز میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، شاداب خان، ایک جارحانہ اننگز کھیلنے والے حسن علی اور ٹیل اینڈرز فہیم اشرف، عامر یامین کی جرأت مندانہ بیٹنگ نے ثابت کیا کہ کنڈیشنز کا اتنا قصور نہیں تھا بلکہ گرین شرٹس کے ذہنوں پر سوار خوف کی وجہ سے کیویز آدھی جنگ میدان میں اترنے سے قبل ہی جیت چکے ہوتے تھے۔

میزبان بولرز ہوم کنڈیشنز کا بہترین استعمال کرتے ہیں یہ سب کو معلوم تھا جواب میں پاکستان کی حکمت عملی کیا تھی،کسی کی سمجھ میں نہیں آسکی،بیٹسمین 20گیندیں کھیل کر صرف 2رنز بنائے تو حریف کپتان کو تسلی اور بولرز کا حوصلہ جوان ہوتا ہے، اگر وکٹ بھی مل جائے تو سونے پر سہاگہ ہے،پاکستانی کی بیٹنگ لائن نے اسی طرح کی معاونت سے کیویز کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔

مسلسل جدید اور جارحانہ کرکٹ کا راگ الاپنے والے مکی آرتھر نے کسی کو بھی یہ سبق نہیں پڑھایا کہ جوابی حملہ نہ کرو تومیزبان بولرز میچ میں واپسی کا راستہ نہیں دیتے،پاکستانی بیٹسمین اگر چاہتے تو مارٹن گپٹل اورکین ولیمسن کی چند اچھی اننگز سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے،شاداب خان اور حارث سہیل نے پانچویں ون ڈے میں ٹاپ اور مڈل آرڈر کی تباہی کے بعد سنگلز، ڈبلز لیتے ہوئے بھی 6کی اوسط برقرار رکھتے ہوئے نامی گرامی بیٹسمینوں کو شرمندہ کیا ہے،اگر سینئرز بھی دفاعی خول سے باہر نکل کر اسی طرح کی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے تو شاید سیریز کا نتیجہ مختلف ہوتا۔

بیٹنگ لائن کی تباہی نے اپنی جگہ ٹیم کی ناکامیوں میں حصہ ڈالا، دوسری طرف بولرز بھی توقعات پر پورا اترنے میںناکام رہے،تجربہ کار محمد عامر نے خاص طور پر مایوس کیا،کیوی بیٹسمین جب بھی حاوی ہوئے۔ بولرز مہلک ہتھیاروں سے اٹیک کرنے کے بجائے دفاعی حکمت عملی اختیار کرتے نظر آئے۔ حسن علی نے اگر وکٹیں حاصل بھی تو رنز نہ روک پائے، شاداب خان کو بھی مختلف کنڈیشنز میں لائن اور لینتھ سیٹ کرنے میں دشواری کا سامنا رہا،رومان رئیس کی کارکردگی میں بھی تسلسل کی کمی محسوس ہوئی۔

پاکستان کی ناقص پلاننگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نئی گیند کرانے کے لیے بھی مختلف جوڑیوں کی آزمائش جاری رہی۔ بی پی ایل میں شرکت کے دوران انجرڈ ہونے والے جنید خان کی کمی محسوس ہوئی۔ وہاب ریاض سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں،کیوی کنڈیشنز میں میڈیم پیسرز پر انحصار کرنے والی پاکستان ٹیم میںسپیڈسٹارز کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں کی بے خوف کرکٹ نے روشنی کی کرن ضرور دکھائی ہے لیکن ورلڈکپ 2019ء کی تیاری کے لیے اسی نوعیت کا مزید ٹیلنٹ تلاش کرتے ہوئے چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھڑانا ہوگی۔

 
Load Next Story