ورلڈ الیون کا دورۂ پاکستان بزرگ کھلاڑیوں کی آمد سے انٹرنیشنل ہاکی بحال ہوگی
ایک وقت تھا جب پاکستان ہاکی ٹیم کی اصل پہچان اس کا غیر معمولی کھیل تھا۔
ورلڈ ہاکی الیون کراچی میں جلوہ گر ہونے کے بعد اب لاہور میں موجود ہے اور ماضی کے سٹار انٹرنیشنل کھلاڑی آج نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں سیریز کے دوسرے اور آخری میچ میں ایکشن میں دکھائی دینے کے لیے تیار ہیں۔
ایک عشرہ کے بعد کسی انٹرنیشنل ٹیم کا پاکستان آنا خوش آئند ضرور ہے لیکن اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو مہمان ٹیم میں شامل زیادہ تر کھلاڑی ادھیڑ عمر ہیں ، جرمنی کے پال لیٹجن کی عمر تو اس وقت 70 سال سے بھی زیادہ ہے، بعض حلقوں کی جانب سے یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ بزرگ پلیئرز پر مشتمل ورلڈ الیون کو پاکستان بلانے کا ملکی ہاکی کو تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، البتہ فیڈریشن کے ایک عہدیدار کی ان غیر پلیئرز کے ساتھ دوستی مزید پکی اور گہری ضرور ہوگی۔
ناقدین کے مطابق یہ سراسر وقت اور ملکی پیسے کا ضیاع ہے، پاکستان آئندہ ماہ عمان میں چار ملکی ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہا ہے، بہترہوتا اس ایونٹ کی میزبانی دیار غیر کی بجائے پاکستان میں کی جاتی۔ اسی طرح پانچ غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ 6 قومی پلیئرز کو بھی ہال آف فیم میں شامل کیا گیا ہے، ان ناموں پر بھی کھل کر تنقید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس لسٹ کی تیاری کیسے ہوئی؟ اس کے انتخاب اور معیار کا طریقہ کار کیا تھا؟
ہال آف فیم میں میکسیکو اولمپکس 1968 کی فاتح ٹیم کے کپتان طارق عزیز، لاس اینجلس اولمپکس1984ء کی گولڈ میڈلسٹ ٹیم کے قائد منظور جونیئر، خالد محمود کے ساتھ رشید جونیئر، حنیف خان، منظورالحسن، رشید الحسن، شاہد علی خان، منصور احمد اور سہیل عباس جیسے ممتاز کھلاڑیوں کا فہرست میں شامل نہ ہونا کئی سوالوں کو جنم ضرور دیتا ہے۔
اگر فیڈریشن بلاوجہ کروڑوں روپے شاہانہ انداز میں خرچ کر ہی رہی ہے تو ہال آف فیم فہرست میں شامل اولیمپئنز کی تعداد 6سے بڑھا کر 10 سے12تک بھی کی جا سکتی تھی، ماضی کے عظیم کھلاڑیوں پر مزید 20 سے30 لاکھ روپے خرچ کر کے پی ایچ ایف کے خزانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہو جانی تھی۔ ناقدین کی رائے میں بلاشبہ شہباز سینئر دنیائے ہاکی کا بڑا نام ہیں،جب وہ ہال آف فیم تقریب کا انعقاد خود ہی کر رہے ہیں توانہوں نے اپنا ہی نام کیوں اور کیسے فہرست میں شامل کر لیا۔
اس وقت سابق ہاکی اولمپئنز پر مشتمل ایک دھڑا پی ایچ ایف کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے اور فیڈریشن کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی کر رہا ہے، تاہم اس دھڑے کے بعض اولمپئنز کو جب ہال آف فیم میں شامل کیا گیا تو وہ سب اختلافات بھول کر ایوارڈز اور5 لاکھ روپے کی خطیر رقم وصول کرنے کے لیے کراچی جا پہچے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پلیئرز نے اپنی خود داری اور اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا۔ سچ ہے کہ پیسے میں بڑی طاقت ہے اور کوئی بھی آسانی سے ہاتھ آئی ہوئی بڑی رقم سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔
ایک وقت تھا جب پاکستان ہاکی ٹیم کی اصل پہچان اس کا غیر معمولی کھیل تھا، گرین شرٹس عالمی میدانوں میں اترتے تو حریف ٹیموں کے کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور وہ مقابلہ کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے، یہ وقت وقت کی بات ہے اور شاید وہ وقت اب قومی کھیل کے ساتھ نہیں رہا، اب ملکی ہاکی کی پہچان انٹرنیشنل ایونٹس میں پے در پے ناکامیاں، ہر ٹور کے بعد کوچز، سلیکشن کمیٹیوں کی تبدیلی، مالی کرپشن کے الزامات، خواتین پلیئرز کو ہراساں کرنے کے واقعات، نیب کیسز اور نت نئے تنازعات ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں جن کھلاڑیوں کے غیر معمولی کھیل کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی ہاکی کی پہچان ہوئی، وہی گزشتہ 2عشروں سے ہاکی کی تباہی وبربادی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور انہیں پلیئرز کی دولت و اقتدار کی ہوس، من مانیوں، اپنوں کو نوازنے کی پالیسیوں اور ناتجربہ کاریوں کی بدولت وینٹی لیٹر پر موجود قومی کھیل اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے۔
ان مایوسیوں کے حالات میں بھی گرین شرٹس کا چار سال کے بعد ورلڈکپ کیلئے کوالیفائی کرنا اور ورلڈالیون کا پاکستان میں آنا خوش آئند ہے،اگر ماضی کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو زندہ دلوں کے شہر لاہور کو ہاکی ورلڈ کپ 1990ء کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
پاکستان سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو2-1 سے زیر کرنے میں کامیاب رہا، 23فروری کو نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں شیڈول فائنل مقابلے میں گرین شرٹس کا ٹاکرا ہالینڈ سے تھا، عالمی کپ کے ٹائٹل مقابلے کو دیکھنے کے لیے عوام میں اس قدر جوش وخروش تھا کہ شائقین کا ٹھاٹھے مارتا سمندر سٹیڈیم کی طرف امڈ آیا، 70ہزار سے بھی زائد گنجائش کے اسٹیڈیم کا یہ عالم تھا کہ جتنے تماشائی سٹیڈیم کے اندر تھے، اس سے کہیں زیادہ باہر موجود تھے، جو تماشائی ہاکی سٹیڈیم کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، ان کی خوشی قابل دید تھی۔
میچ کے دوران تماشائیوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، پورے مقابلے کے دوران فضا پاکستان زندہ باد، پاکستان ہاکی ٹیم پائندہ باد کے فلک بوس نعروں سے گونجتی رہی، سابق اولمپئنز اور شائقین نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں شیڈول اس فائنل مقابلے کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ورلڈکپ کے بعد بھی انٹرنیشنل ٹیموں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔
پاکستان کو آخری انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی کا موقع دسمبر 2004ء کی ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کے دوران حاصل ہوا۔ بعد ازاں حکومت اور کھیلوں کے ارباب اختیار کی نالاکیوں اور من مانیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل ایونٹس پاکستان سے روٹھتے ہی چلے گئے۔
3مارچ 2009ء کو لبرٹی کے مقام پر بعض شدت پسندوں کی طرف سے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ نے پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی پر کاری ضرب لگائی،کرکٹ کے ساتھ ساتھ اس کا براہ راست منفی اثر ہاکی اور دوسرے کھیلوں پر بھی پڑا اور عالمی ٹیموں نے پاکستان آنے سے صاف صاف انکار کر دیا۔ اب ورلڈ الیون کا دورہ پاکستان تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا، امید کی جانا چاہیے کہ مستقبل میں مزید انٹرنیشنل ٹیمیں بھی آ کر سنسان اور ویران پاکستانی گراؤنڈز آباد کریں گی۔
ایک عشرہ کے بعد کسی انٹرنیشنل ٹیم کا پاکستان آنا خوش آئند ضرور ہے لیکن اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو مہمان ٹیم میں شامل زیادہ تر کھلاڑی ادھیڑ عمر ہیں ، جرمنی کے پال لیٹجن کی عمر تو اس وقت 70 سال سے بھی زیادہ ہے، بعض حلقوں کی جانب سے یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ بزرگ پلیئرز پر مشتمل ورلڈ الیون کو پاکستان بلانے کا ملکی ہاکی کو تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، البتہ فیڈریشن کے ایک عہدیدار کی ان غیر پلیئرز کے ساتھ دوستی مزید پکی اور گہری ضرور ہوگی۔
ناقدین کے مطابق یہ سراسر وقت اور ملکی پیسے کا ضیاع ہے، پاکستان آئندہ ماہ عمان میں چار ملکی ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہا ہے، بہترہوتا اس ایونٹ کی میزبانی دیار غیر کی بجائے پاکستان میں کی جاتی۔ اسی طرح پانچ غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ 6 قومی پلیئرز کو بھی ہال آف فیم میں شامل کیا گیا ہے، ان ناموں پر بھی کھل کر تنقید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس لسٹ کی تیاری کیسے ہوئی؟ اس کے انتخاب اور معیار کا طریقہ کار کیا تھا؟
ہال آف فیم میں میکسیکو اولمپکس 1968 کی فاتح ٹیم کے کپتان طارق عزیز، لاس اینجلس اولمپکس1984ء کی گولڈ میڈلسٹ ٹیم کے قائد منظور جونیئر، خالد محمود کے ساتھ رشید جونیئر، حنیف خان، منظورالحسن، رشید الحسن، شاہد علی خان، منصور احمد اور سہیل عباس جیسے ممتاز کھلاڑیوں کا فہرست میں شامل نہ ہونا کئی سوالوں کو جنم ضرور دیتا ہے۔
اگر فیڈریشن بلاوجہ کروڑوں روپے شاہانہ انداز میں خرچ کر ہی رہی ہے تو ہال آف فیم فہرست میں شامل اولیمپئنز کی تعداد 6سے بڑھا کر 10 سے12تک بھی کی جا سکتی تھی، ماضی کے عظیم کھلاڑیوں پر مزید 20 سے30 لاکھ روپے خرچ کر کے پی ایچ ایف کے خزانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہو جانی تھی۔ ناقدین کی رائے میں بلاشبہ شہباز سینئر دنیائے ہاکی کا بڑا نام ہیں،جب وہ ہال آف فیم تقریب کا انعقاد خود ہی کر رہے ہیں توانہوں نے اپنا ہی نام کیوں اور کیسے فہرست میں شامل کر لیا۔
اس وقت سابق ہاکی اولمپئنز پر مشتمل ایک دھڑا پی ایچ ایف کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے اور فیڈریشن کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی کر رہا ہے، تاہم اس دھڑے کے بعض اولمپئنز کو جب ہال آف فیم میں شامل کیا گیا تو وہ سب اختلافات بھول کر ایوارڈز اور5 لاکھ روپے کی خطیر رقم وصول کرنے کے لیے کراچی جا پہچے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پلیئرز نے اپنی خود داری اور اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا۔ سچ ہے کہ پیسے میں بڑی طاقت ہے اور کوئی بھی آسانی سے ہاتھ آئی ہوئی بڑی رقم سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔
ایک وقت تھا جب پاکستان ہاکی ٹیم کی اصل پہچان اس کا غیر معمولی کھیل تھا، گرین شرٹس عالمی میدانوں میں اترتے تو حریف ٹیموں کے کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور وہ مقابلہ کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے، یہ وقت وقت کی بات ہے اور شاید وہ وقت اب قومی کھیل کے ساتھ نہیں رہا، اب ملکی ہاکی کی پہچان انٹرنیشنل ایونٹس میں پے در پے ناکامیاں، ہر ٹور کے بعد کوچز، سلیکشن کمیٹیوں کی تبدیلی، مالی کرپشن کے الزامات، خواتین پلیئرز کو ہراساں کرنے کے واقعات، نیب کیسز اور نت نئے تنازعات ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں جن کھلاڑیوں کے غیر معمولی کھیل کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی ہاکی کی پہچان ہوئی، وہی گزشتہ 2عشروں سے ہاکی کی تباہی وبربادی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور انہیں پلیئرز کی دولت و اقتدار کی ہوس، من مانیوں، اپنوں کو نوازنے کی پالیسیوں اور ناتجربہ کاریوں کی بدولت وینٹی لیٹر پر موجود قومی کھیل اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے۔
ان مایوسیوں کے حالات میں بھی گرین شرٹس کا چار سال کے بعد ورلڈکپ کیلئے کوالیفائی کرنا اور ورلڈالیون کا پاکستان میں آنا خوش آئند ہے،اگر ماضی کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو زندہ دلوں کے شہر لاہور کو ہاکی ورلڈ کپ 1990ء کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
پاکستان سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو2-1 سے زیر کرنے میں کامیاب رہا، 23فروری کو نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں شیڈول فائنل مقابلے میں گرین شرٹس کا ٹاکرا ہالینڈ سے تھا، عالمی کپ کے ٹائٹل مقابلے کو دیکھنے کے لیے عوام میں اس قدر جوش وخروش تھا کہ شائقین کا ٹھاٹھے مارتا سمندر سٹیڈیم کی طرف امڈ آیا، 70ہزار سے بھی زائد گنجائش کے اسٹیڈیم کا یہ عالم تھا کہ جتنے تماشائی سٹیڈیم کے اندر تھے، اس سے کہیں زیادہ باہر موجود تھے، جو تماشائی ہاکی سٹیڈیم کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، ان کی خوشی قابل دید تھی۔
میچ کے دوران تماشائیوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، پورے مقابلے کے دوران فضا پاکستان زندہ باد، پاکستان ہاکی ٹیم پائندہ باد کے فلک بوس نعروں سے گونجتی رہی، سابق اولمپئنز اور شائقین نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں شیڈول اس فائنل مقابلے کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ورلڈکپ کے بعد بھی انٹرنیشنل ٹیموں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔
پاکستان کو آخری انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی کا موقع دسمبر 2004ء کی ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کے دوران حاصل ہوا۔ بعد ازاں حکومت اور کھیلوں کے ارباب اختیار کی نالاکیوں اور من مانیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل ایونٹس پاکستان سے روٹھتے ہی چلے گئے۔
3مارچ 2009ء کو لبرٹی کے مقام پر بعض شدت پسندوں کی طرف سے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ نے پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی پر کاری ضرب لگائی،کرکٹ کے ساتھ ساتھ اس کا براہ راست منفی اثر ہاکی اور دوسرے کھیلوں پر بھی پڑا اور عالمی ٹیموں نے پاکستان آنے سے صاف صاف انکار کر دیا۔ اب ورلڈ الیون کا دورہ پاکستان تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا، امید کی جانا چاہیے کہ مستقبل میں مزید انٹرنیشنل ٹیمیں بھی آ کر سنسان اور ویران پاکستانی گراؤنڈز آباد کریں گی۔