بے حس پولیس کے سامنے گڑگڑاتے بوڑھے والدین
12سالہ بچے کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ظالم کئی ماہ گزرنے کے باوجود پکڑے نہ جا سکے۔
معاشرتی بے حسی کے باعث آئے روز معصوم بچوں کے ریپ کے بعد ان کا وحشیانہ انداز میں قتل معمول بن چکا ہے، کوئی دن نہیں گزرتا کہ کسی نہ کسی علاقہ سے بچوں سے زیادتی کے بعد ان کی مسخ شدہ نعشیں نہ ملیں۔
ایسے ہی ظلم کا ایک پہاڑ بھلوال کے رہائشی محمد نذیر کے سر پر ٹوٹا۔ محمد نذیر ایک محنت کش انسان ہے جو اپنے بارہ سالہ بیٹے علی رضا اور بیوی کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو دھکا لگا رہا تھا۔ بعض اوقات تنگ دستی حد سے بڑھ جاتی، گھر کے یہ حالات ننھے علی رضا سے پوشیدہ نہ تھے اور وہ اکثر اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کا سوچتا،لیکن اسے سمجھ نہ آتی کہ وہ کیا کرے؟
آخر کار اس نے ایک حل سوچ ہی لیا وہ یہ کہ سکول سے آنے کے بعد وہ شام تک ہوم ورک وغیرہ کرتا اور رات کو جب دوسرے بچے گرم لحافوں میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر سردی انجوائے کرتے ہوئے ٹیلی ویژن دیکھتے تو اس وقت علی رضا نے گلیوں میں گرم انڈے بیچنے شروع کر دئے۔
12 سالہ علی کا خواب تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آفیسر بن کر اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بنے۔ لیکن اس کا یہ خواب صرف خواب ہی ثابت ہوا ،علی رضا کو سرد راتوں میں انڈے بیچتے ابھی تیسرا ہی دن تھا کہ اس کے والدین پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ محمد نذیر اپنے بیٹے کی تلاش میں سارے شہر کی گلیاں چھانتا رہا لیکن اسے اپنے بیٹے کی کچھ خبر نہ ہوئی۔محمد نذیر کے ساتھ اہل محلہ بھی علی رضا کی تلاش میں لگ گئے۔ اگلی صبح نذیر اور اس کی بیوی پر قیامت بن کر ٹوٹی کیوں کہ ان کے بیٹے کی نعش ویرانے سے ملی تھی، جس کو نامعلوم افراد نے زیادتی کے بعد بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا تھا ۔
پولیس نے 14 نومبر 2017 کو قتل کی واردات کا مقدمہ تو درج کر لیا لیکن اپنی روایتی سستی، نااہلی، کام چوری کی وجہ سے اصل ملزمان کو گرفتار کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ علی رضا کسی ایم این اے، کسی وزیر مشیر یا لین لارڈ کا بیٹا تو تھا نہیں کہ پولیس قاتلوں کی گرفتاری کا تردد کرتی۔
غریب محنت کش محمد نذیر بیٹے کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے تھانے کے چکر لگا لگا کر تھک گیا لیکن شنوائی نہ ہوئی۔آخر امید کی کرن اس وقت جاگی جب محمد نذیر کو معلوم ہوا کہ 6 جنوری کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کوٹ مومن میں جلسہ کرنے کے لئے آرہے ہیں، جس پر محمد نذیر کوٹ مومن چلا آیا، لیکن کسی نے اسے نواز شریف کے پاس نہ جانے دیا جس پر وہ اپنی بے بسی پر خون کے آنسو پیتے ہوئے ناکام و نامراد گھر لوٹ گئے۔
کوٹ مومن میں تو کسی نے اس کی نہ سنی لیکن یہ خبر جب وزیر اعلی پنجاب تک پہنچی تو انہوں نے مقتول علی رضا کے والدین کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے محمد نذیر اور ڈی پی او سرگودھا کو لاہور طلب کر لیا ۔اس موقع پر وزیراعلی شہباز شریف نے متعلقہ کیس کے شواہد بروقت پنجاب فرائزک سائنس ایجنسی کو نہ بھجوانے پر پولیس حکام کی سخت سرزنش کرتے ہوئے ڈی ایس پی سلیم وڑائچ ، ایس ایچ او فاروق حسنات اور تفتیشی افسر سب انسپکٹر فخر عباس کو فوری طور پر معطل کرنے کے احکامات جاری کئے جب کہ مقتول علی رضا کے والدین کے لئے دس لاکھ روپے کا اعلان کرتے ہوئے محمد نذیر کو یقین دلایا کہ اس کے بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کر کے اسے انصاف دلایا جائے گا۔
اس موقع پر محمد نذیر کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی سے بھی انصاف کی امید نہیں تھی، مگر وزیراعلی میاں شہباز شریف ہمارے لئے فرشتہ ثابت ہوئے ہیں اب ہمیں امید ہے کہ ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔ اس سلسلہ میں آر پی او ڈاکٹر اختر عباس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جبکہ ڈی پی او سہیل چوہدری کا کہنا ہے کہ قاتلوں سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔
ایسے ہی ظلم کا ایک پہاڑ بھلوال کے رہائشی محمد نذیر کے سر پر ٹوٹا۔ محمد نذیر ایک محنت کش انسان ہے جو اپنے بارہ سالہ بیٹے علی رضا اور بیوی کے ساتھ زندگی کی گاڑی کو دھکا لگا رہا تھا۔ بعض اوقات تنگ دستی حد سے بڑھ جاتی، گھر کے یہ حالات ننھے علی رضا سے پوشیدہ نہ تھے اور وہ اکثر اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کا سوچتا،لیکن اسے سمجھ نہ آتی کہ وہ کیا کرے؟
آخر کار اس نے ایک حل سوچ ہی لیا وہ یہ کہ سکول سے آنے کے بعد وہ شام تک ہوم ورک وغیرہ کرتا اور رات کو جب دوسرے بچے گرم لحافوں میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر سردی انجوائے کرتے ہوئے ٹیلی ویژن دیکھتے تو اس وقت علی رضا نے گلیوں میں گرم انڈے بیچنے شروع کر دئے۔
12 سالہ علی کا خواب تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آفیسر بن کر اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بنے۔ لیکن اس کا یہ خواب صرف خواب ہی ثابت ہوا ،علی رضا کو سرد راتوں میں انڈے بیچتے ابھی تیسرا ہی دن تھا کہ اس کے والدین پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ محمد نذیر اپنے بیٹے کی تلاش میں سارے شہر کی گلیاں چھانتا رہا لیکن اسے اپنے بیٹے کی کچھ خبر نہ ہوئی۔محمد نذیر کے ساتھ اہل محلہ بھی علی رضا کی تلاش میں لگ گئے۔ اگلی صبح نذیر اور اس کی بیوی پر قیامت بن کر ٹوٹی کیوں کہ ان کے بیٹے کی نعش ویرانے سے ملی تھی، جس کو نامعلوم افراد نے زیادتی کے بعد بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا تھا ۔
پولیس نے 14 نومبر 2017 کو قتل کی واردات کا مقدمہ تو درج کر لیا لیکن اپنی روایتی سستی، نااہلی، کام چوری کی وجہ سے اصل ملزمان کو گرفتار کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ علی رضا کسی ایم این اے، کسی وزیر مشیر یا لین لارڈ کا بیٹا تو تھا نہیں کہ پولیس قاتلوں کی گرفتاری کا تردد کرتی۔
غریب محنت کش محمد نذیر بیٹے کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے تھانے کے چکر لگا لگا کر تھک گیا لیکن شنوائی نہ ہوئی۔آخر امید کی کرن اس وقت جاگی جب محمد نذیر کو معلوم ہوا کہ 6 جنوری کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کوٹ مومن میں جلسہ کرنے کے لئے آرہے ہیں، جس پر محمد نذیر کوٹ مومن چلا آیا، لیکن کسی نے اسے نواز شریف کے پاس نہ جانے دیا جس پر وہ اپنی بے بسی پر خون کے آنسو پیتے ہوئے ناکام و نامراد گھر لوٹ گئے۔
کوٹ مومن میں تو کسی نے اس کی نہ سنی لیکن یہ خبر جب وزیر اعلی پنجاب تک پہنچی تو انہوں نے مقتول علی رضا کے والدین کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے محمد نذیر اور ڈی پی او سرگودھا کو لاہور طلب کر لیا ۔اس موقع پر وزیراعلی شہباز شریف نے متعلقہ کیس کے شواہد بروقت پنجاب فرائزک سائنس ایجنسی کو نہ بھجوانے پر پولیس حکام کی سخت سرزنش کرتے ہوئے ڈی ایس پی سلیم وڑائچ ، ایس ایچ او فاروق حسنات اور تفتیشی افسر سب انسپکٹر فخر عباس کو فوری طور پر معطل کرنے کے احکامات جاری کئے جب کہ مقتول علی رضا کے والدین کے لئے دس لاکھ روپے کا اعلان کرتے ہوئے محمد نذیر کو یقین دلایا کہ اس کے بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کر کے اسے انصاف دلایا جائے گا۔
اس موقع پر محمد نذیر کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی سے بھی انصاف کی امید نہیں تھی، مگر وزیراعلی میاں شہباز شریف ہمارے لئے فرشتہ ثابت ہوئے ہیں اب ہمیں امید ہے کہ ہمیں انصاف ضرور ملے گا۔ اس سلسلہ میں آر پی او ڈاکٹر اختر عباس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جبکہ ڈی پی او سہیل چوہدری کا کہنا ہے کہ قاتلوں سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔