عدلیہ اور اسے درپیش چیلنجز

عدلیہ کے ادارے کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ایک فوری انصاف کی فراہمی ہے

عدلیہ کے ادارے کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ایک فوری انصاف کی فراہمی ہے۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ہفتے کو لاہور ہائیکورٹ بار کے زیراہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دیں گے' آئین اور قانون کی حکمرانی رہے گی' عدلیہ جمہوریت کی محافظ ہے اور اپنی ذمے داریاں پوری کرے گی اگر کوئی پہلو تہی کی گئی تو عوام کا ہاتھ اور ہمارا گریبان ہو گا' عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کا کام فتنہ ختم کرنا ہے' ریاست جیسے جیسے طاقتور ہو رہی ہے عوام کے حقوق میں مداخلت بڑھ رہی ہے' شہریوں کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے عدلیہ اپنا کام کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے آئین' قانون' عدلیہ کے فرائض' لیڈر شپ کی خوبیاں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بالکل صائب باتیں کرتے ہوئے جن امور کی نشاندہی کی اس کا اظہار وہ اس سے پیشتر بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ عدلیہ آئین' قانون اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔

حکمران طبقے سمیت شہریوں کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے وہ اس امید پر دادرسی کے لیے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں کہ انھیں انصاف ملے گا اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ازالہ ہو سکے گا۔ باتیں تو سب ہی دل کو بھانے والی کرتے ہیں مگر عملی طور پر صورت حال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔

محترم چیف جسٹس صاحب نے بالکل صائب کہا کہ انصاف کرنا کسی پر احسان نہیں ہماری ذمے داری ہے' پوری دیانتداری قابلیت اور قانون کے مطابق انصاف کرتے رہیں گے' کسی جج کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں' قومیں علم، لیڈر شپ اور مضبوط عدلیہ سے ترقی کرتی ہیں۔ یقیناً لوگوں کو عدالتوں سے انصاف بھی ملا اور ان کے حقوق چھیننے اور ظلم کرنے والوں کو سزائیں ملی لیکن اگر شہریوں کو فوری انصاف کی فراہمی اور انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں میں برس ہا برس سے دھکے کھانے والوں کی شرح نکالی جائے تو آج بھی شہریوں کی کثیر تعداد دادرسی کے لیے عدالتوں کے باہر پریشان دکھائی دیتی ہے۔

عدلیہ کے فیصلہ پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا جاتا آ رہا ہے' نظریہ ضرورت کی ایجاد بھی عدلیہ ہی سے منسوب ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف حکومت سے نااہلی کے بعد عدلیہ کے فیصلے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔


چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملکی ترقی کے لیے تعلیم' ایماندار قیادت اور مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت پر زور دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جج نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں' ملکی ترقی اور انصاف کے حصول کے لیے مضبوط اور ایسی عدلیہ کا ہونا ناگزیر ہے جس پر حکمران طبقے سمیت عام شہریوں کو اعتماد ہو' انھیں یقین ہو کہ عدلیہ کسی دباؤ یا لالچ میں آئے بغیر انھیں ان کے حقوق دلائے گی۔

چیلنجز قوموں کی زندگی میں آتے رہتے ہیں لیکن ان کو حل کرنا ایماندار لیڈر شپ اور مضبوط ریاستی اداروں کا کام ہے۔ جہاں ریاست اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے شہریوں کے حقوق میں بے جا مداخلت کرنے لگے تو وہاں عدلیہ اپنا کردار ادا کرتی اور ریاستی جبر کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ اس وقت شہریوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہاں وہ ملکی قیادت نہیں بلکہ عدلیہ کے مرہون منت ہے۔

عدلیہ کے ادارے کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ایک فوری انصاف کی فراہمی ہے' کسی سائل کو بالخصوص دیوانی مقدمات میں انصاف کے حصول کے لیے کئی برسوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پنشنرز ایک عرصے سے انصاف کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں جس کا ذکر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کرتے ہوئے کہا کہ انھیں پنشن کیس سن کر شرم آئی جس میں ادارہ ملازم کو 472 روپے پنشن دے رہا ہے۔

نئی نسل عدلیہ کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے' وقت آ گیا ہے کہ ججز عدلیہ کے ادارے میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور اس کی اوور ہالنگ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس مقصد کے لیے کمیشن قائم کریں جو پارلیمنٹ کے تعاون سے انصاف کی فوری فراہمی' آئین و قانون اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے۔

 
Load Next Story