پاک سعودی تعلقات میں ایک نیا دور
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات نے دوبارہ بہتری کا سفر شروع کر دیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ پاک سعودی تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی۔ اگر تعلقات خراب نہیں ہوئے تھے تو ان میں گرم جوشی کم ہو گئی تھی۔ یمن کے مسئلہ پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں جس طرح کی بحث ہوئی اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مدد کرنی تھی یا نہیں۔ فوج بھیجنی تھی یا نہیں۔ لیکن اس طرح کھلے عام بحث درست نہیںتھی۔ سفارتکاری کا اصول ہے کہ دوست اور برادر ممالک کے ساتھ تعلقات کی ہانڈی بیچ چوراہے میں نہیں پھوڑی جاتی۔ اس کے بعد سرد مہری ایک فطری عمل تھا۔ سعودی عرب کی ناراضی بجا تھی۔
سعودی عرب کو پاکستان میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہے جو دیگر ممالک کو نہیں۔ پاکستان کے عوام سعودی عرب کے حق میں ہیں۔ جب کہ دیگر ممالک کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تو سب سے بڑی مشکل ہی یہ ہے کہ پاکستان کے اندر عوامی رائے عامہ امریکا کے حق میں نہیں ہے۔ لوگ امریکا کے خلاف ہیں۔ جب کہ دوسری طرف لوگ سعودی عرب کے حق میں ہیں۔ پاکستان کے عوام کے دل سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ حکمران بے شک سعودی عرب کے خلاف ہو جائیں لیکن عوام سعودی عرب کے حق میں تھے اور ہیں۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا پاکستان کی سفارتکاری میں سعودی عرب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ کئی مشکل مواقع میں سعودی عرب نے پس پردہ پاکستان کی بہت مدد کی ہے۔ پاکستان سے اسی محبت کی وجہ سے پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ سعودی شاہی خاندان کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ یہ تعلقات صرف شریف خاندان کے ساتھ نہیں ہیں۔ بلکہ بھٹو کے ساتھ بھی تھے اور پرویز مشرف کے ساتھ بھی تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ عالمی صف بندی میں سعودی عرب امریکا کے ساتھ ہے۔ لیکن شاید پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔
ایک طرف جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ٹوئٹ کیا۔ اور ایک ایسا ماحول بن گیا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایسے ماحول میں پاک سعودی تعاون کو فروغ دینے کے لیے سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد سعوی وزیر مواصلات ڈاکٹر ماجد عبداللہ کی قیادت میں پاکستان آیا۔ اس موقع پاک سعودی تعاون کو بڑھانے کے لیے مشترکہ اجلاس ہوئے۔ یہ درست ہے کہ اس اعلیٰ سطح کے سعودی وفد کو میڈیا میں وہ توجہ نہیں ملی جو امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز کے دورہ اسلام آباد کو کو ملی۔
یہ بات قابل ذکر ہے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمایندہ بھی ہیں۔ وہ اس سے پہلے نوے کی دہائی میں پاکستان میں بطور سیکنڈ سیکریٹری بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ ایلس ویلز کے آنے سے بات صاف تھی کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا خواہاں نہیں ہے کیونکہ وہ پاکستان مخالف کی شہرت رکھتی ہیں۔ ان کو بھیجنے کا مقصدہی یہ تھا کہ امریکا فی الحال تعلقات میں کوئی بہتری نہیں چاہتا۔
ایلس ویلز نے ٹرمپ کے موقف کا ہی اعادہ کیا۔ اسی لیے ایلس ویلز پاکستان کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی نے ملاقات نہیں کی۔ صرف سیکریٹری خارجہ نے ان سے ملاقات کی۔ نہ وزیر خارجہ ملے۔ نہ ہی کوئی اور ملا۔ وہ آئیں انھوں نے اپنی بات کی اور واپس چلی گئیں۔
دوسری طرف سعودی عرب کے اس اعلیٰ سطح کے وفد سے وزیر اعظم ملے، صدر مملکت ملے۔ اس موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے بنائے جانیو الے جوائنٹ کمیشن کا گیارھواں اجلاس بھی ہوا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہر شعبہ میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ پاکستان نے کیا کہا یہ اہم نہیں۔ ہم تو تعاون مانگ ہی رہے ہیں۔ پاکستان کو تو سعودی عرب کی ضرورت ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب کیا کہہ رہا ہے۔
میں اس موقع پر سعودی سفیر محترم نواف سعید المالکی جانب سے دئے گئے ایک پر تکلف عشائیہ مین شریک تھا۔ جس میں پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر وزیر تجارت ملک پرویز سمیت اعلی حکومتی عہدیداروں نے شرکت کی۔
اس موقع پر سعودی وفد کے سربراہ جناب ڈاکٹر ماجد عبداللہ الکساب نے دل کھول کر پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کا اعادہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب ہر شعبہ میں پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔ مجھے اس سے انداذہ ہوا کہ یہ دورہ کافی رکاوٹوں کے بعد ممکن ہوا۔ شاید تعلقات میں سرد مہری نے اسے روکا ہوا تھا۔ اور اس وفد کی آمد کا مطلب یہی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سرد مہری ختم ہو گئی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کی تاریخ پرانی ہے۔ اس میں نشیب و فراز کم ہے۔ تعاون کی ہی لمبی کہانی ہے۔ لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے جب ٹرمپ پاکستان کے خلاف ٹوئٹ کر رہے ہیں اور امریکا پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون ختم کر رہا ہے تو سعودی عرب بڑھا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عالمی صف بندی میں بھارت پاکستان کے خلاف متحرک ہے۔ امریکا کی گیم میں بھی پاکستان فٹ نظر نہیں آرہا۔ ایران اور بھارت کے درمیان چاہ بہار سے لے کر پاکستان مخالف تعاون کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ ابھی بھی ایران بھارت کے مال کو افغانستان میں راہداری فراہم کر رہا ہے۔ ایران اور بھارت کی ا سی حکمت عملی کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب افغان ٹریڈ کا حجم خطرناک حد تک گر رہا ہے۔ایسے میں ہمارے جو دوست ہمیں یہ سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب کر لینے چاہیے ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات نے دوبارہ بہتری کا سفر شروع کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس بار یہ سفر رکنے نہ پائے۔ بلکہ تعاون بڑھے۔ دشمن کو یہ پسند نہیں ہو گا۔ لیکن ہمیں دشمن کی ہر چال کو ناکام بنانا ہے۔
سعودی عرب کو پاکستان میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہے جو دیگر ممالک کو نہیں۔ پاکستان کے عوام سعودی عرب کے حق میں ہیں۔ جب کہ دیگر ممالک کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تو سب سے بڑی مشکل ہی یہ ہے کہ پاکستان کے اندر عوامی رائے عامہ امریکا کے حق میں نہیں ہے۔ لوگ امریکا کے خلاف ہیں۔ جب کہ دوسری طرف لوگ سعودی عرب کے حق میں ہیں۔ پاکستان کے عوام کے دل سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ حکمران بے شک سعودی عرب کے خلاف ہو جائیں لیکن عوام سعودی عرب کے حق میں تھے اور ہیں۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا پاکستان کی سفارتکاری میں سعودی عرب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ کئی مشکل مواقع میں سعودی عرب نے پس پردہ پاکستان کی بہت مدد کی ہے۔ پاکستان سے اسی محبت کی وجہ سے پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ سعودی شاہی خاندان کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ یہ تعلقات صرف شریف خاندان کے ساتھ نہیں ہیں۔ بلکہ بھٹو کے ساتھ بھی تھے اور پرویز مشرف کے ساتھ بھی تھے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ عالمی صف بندی میں سعودی عرب امریکا کے ساتھ ہے۔ لیکن شاید پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔
ایک طرف جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ٹوئٹ کیا۔ اور ایک ایسا ماحول بن گیا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایسے ماحول میں پاک سعودی تعاون کو فروغ دینے کے لیے سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد سعوی وزیر مواصلات ڈاکٹر ماجد عبداللہ کی قیادت میں پاکستان آیا۔ اس موقع پاک سعودی تعاون کو بڑھانے کے لیے مشترکہ اجلاس ہوئے۔ یہ درست ہے کہ اس اعلیٰ سطح کے سعودی وفد کو میڈیا میں وہ توجہ نہیں ملی جو امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز کے دورہ اسلام آباد کو کو ملی۔
یہ بات قابل ذکر ہے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمایندہ بھی ہیں۔ وہ اس سے پہلے نوے کی دہائی میں پاکستان میں بطور سیکنڈ سیکریٹری بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ ایلس ویلز کے آنے سے بات صاف تھی کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا خواہاں نہیں ہے کیونکہ وہ پاکستان مخالف کی شہرت رکھتی ہیں۔ ان کو بھیجنے کا مقصدہی یہ تھا کہ امریکا فی الحال تعلقات میں کوئی بہتری نہیں چاہتا۔
ایلس ویلز نے ٹرمپ کے موقف کا ہی اعادہ کیا۔ اسی لیے ایلس ویلز پاکستان کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی نے ملاقات نہیں کی۔ صرف سیکریٹری خارجہ نے ان سے ملاقات کی۔ نہ وزیر خارجہ ملے۔ نہ ہی کوئی اور ملا۔ وہ آئیں انھوں نے اپنی بات کی اور واپس چلی گئیں۔
دوسری طرف سعودی عرب کے اس اعلیٰ سطح کے وفد سے وزیر اعظم ملے، صدر مملکت ملے۔ اس موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے بنائے جانیو الے جوائنٹ کمیشن کا گیارھواں اجلاس بھی ہوا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہر شعبہ میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ پاکستان نے کیا کہا یہ اہم نہیں۔ ہم تو تعاون مانگ ہی رہے ہیں۔ پاکستان کو تو سعودی عرب کی ضرورت ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب کیا کہہ رہا ہے۔
میں اس موقع پر سعودی سفیر محترم نواف سعید المالکی جانب سے دئے گئے ایک پر تکلف عشائیہ مین شریک تھا۔ جس میں پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر وزیر تجارت ملک پرویز سمیت اعلی حکومتی عہدیداروں نے شرکت کی۔
اس موقع پر سعودی وفد کے سربراہ جناب ڈاکٹر ماجد عبداللہ الکساب نے دل کھول کر پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کا اعادہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب ہر شعبہ میں پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔ مجھے اس سے انداذہ ہوا کہ یہ دورہ کافی رکاوٹوں کے بعد ممکن ہوا۔ شاید تعلقات میں سرد مہری نے اسے روکا ہوا تھا۔ اور اس وفد کی آمد کا مطلب یہی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سرد مہری ختم ہو گئی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کی تاریخ پرانی ہے۔ اس میں نشیب و فراز کم ہے۔ تعاون کی ہی لمبی کہانی ہے۔ لیکن مجھے خوشی اس بات کی ہے جب ٹرمپ پاکستان کے خلاف ٹوئٹ کر رہے ہیں اور امریکا پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون ختم کر رہا ہے تو سعودی عرب بڑھا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عالمی صف بندی میں بھارت پاکستان کے خلاف متحرک ہے۔ امریکا کی گیم میں بھی پاکستان فٹ نظر نہیں آرہا۔ ایران اور بھارت کے درمیان چاہ بہار سے لے کر پاکستان مخالف تعاون کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ ابھی بھی ایران بھارت کے مال کو افغانستان میں راہداری فراہم کر رہا ہے۔ ایران اور بھارت کی ا سی حکمت عملی کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اب افغان ٹریڈ کا حجم خطرناک حد تک گر رہا ہے۔ایسے میں ہمارے جو دوست ہمیں یہ سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب کر لینے چاہیے ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات نے دوبارہ بہتری کا سفر شروع کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس بار یہ سفر رکنے نہ پائے۔ بلکہ تعاون بڑھے۔ دشمن کو یہ پسند نہیں ہو گا۔ لیکن ہمیں دشمن کی ہر چال کو ناکام بنانا ہے۔