سول بالا دستی میں سب سے بڑی رکاوٹ
امریکا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سویلین بالادستی کے حربے جھانسے کے طور پر تو استعمال کرسکتا ہے، حقیقت میں نہیں۔
BERLIN:
وقت موجود میں مخمصہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی جو سن پچاس کی دہائی سے قائم ہے جاری رہ پائے گی یا ختم ہوجائے گی۔ اس دفعہ چیلنج بہت بڑا ہے۔ پہلے چیلنج چھوٹے صوبوں سے آتے تھے اور اس پر قابو پا لیا جاتا تھا۔ اس دفعہ چیلنج بڑے صوبے سے ہے جو پاکستان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ جو صوبہ اسٹیبلشمنٹ کا گڑھ ہے، وہیں سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مزاحمت کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہے نا حیرت کی بات۔ اس مزاحمت کے لیے تو دنیا مدت سے انتظار کر رہی تھی۔
اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہاں سویلین بالادستی کیوں قائم نہ ہو سکی۔ اس اہم ترین پہیلی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا جب پاکستان وجود میں آیا تو اس کے کرتا دھرتائوں نے اسے امریکی مفادات کی آماجگاہ بنا دیا۔ کیوں کہ برٹش سامراج سے آزادی حاصل کرنی تھی اس لیے سامراج کو یہ یقین دلانا ضروری تھا کہ پاکستان سامراجی مفادات کے خلاف نہیں جائے گا بلکہ سوویت یونین کے خلاف جس سے سامراج کو خطرہ تھا اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنے گا۔ کیونکہ اس کے بغیر آزادی نہیں مل سکتی تھی۔
یہی کچھ بھارت نے بھی کیا لیکن سویلین بالادستی کی قیمت پر نہیں۔ یہ بات نئی نسل کو تو سرے سے پتہ ہی نہیں بلکہ پرانی نسل بھی بھولتی جا رہی ہے کہ ہم نے انگریز سے مسلح جدوجہد کرکے آزادی نہیں حاصل کی تھی بلکہ انگریز نے اپنی رضا مندی اور مفادات کے تحت ہمیں اور ہندوئوں کو مسلح جدوجہد کیے بغیر آزادی دی تاکہ برصغیر میں مدتوں تک اسی کے مفادات محفوظ رہ سکیں، اور ایسا ہی ہوا۔
یہ اور بات ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے لیکن یہ ہندو مسلم فرقہ وارانہ اختلافات کا نتیجہ تھے۔ لیکن ان فسادات کا فائدہ بھی انگریز اور اس کے بعد امریکی سامراج کو ہوا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خون کی ایک گہری لکیر حائل ہوگئی جس کے نتیجے میں دونوں ملک ایک دوسرے کے آج تک دشمن ہیں۔ تقسیم کا مقصود بھی یہی تھا کہ دونوں ملک آزاد تو ہوں لیکن ایک دوسرے کے دوست نہ بن سکیں۔ تصور کریں کہ یہ دونوں ملک دوست ہوتے تو کیا ہوتا۔
برصغیر کے تقسیم ہونے کی صورت میں مسلمان بادشاہ گر ہوتے اور ان کا اثرو رسوخ مشرق وسطیٰ سے مشرق بعید تک پھیلا ہوتا کیوں کہ ان کے ساتھ نیچ ذات کے ہندو، سکھ، عیسائی بھی مل جاتے۔ برصغیر کو متحد رکھنے کے لیے کئی تجاویز بھی سامنے آئیں لیکن وہ آخری وقت میں پس پردہ سازشوں کی وجہ سے ناکام ہوگئیں۔ کیونکہ انگریز سمجھتا تھا کہ مسلمان اپنی بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کی وجہ سے ایک وقت آئے گا کہ مسلمان عددی اعتبار سے برصغیر میں بالادست قوت بن جائیں گے۔
سامراج کے نزدیک پاکستان کی اہمیت کی وجہ اس کا محل وقوع تھا جس کی سرحدیں چین، روس، ایران اور افغانستان کے ذریعے سینٹرل ایشیا سے ملتی تھیں۔ اس محل وقوع کی وجہ سے پاکستان اور اس کے عوام مسلسل آزمائشوں، بربادیوں، آفات سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے ہی آج تک سویلین بالادستی سے محروم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آمریت یا لولی لنگڑی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ جب کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے جس پر مغربی دنیا ناز کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا شاہکار، جس نے سوشلزم، کمیونزم کے آگے بند باندھ دیا۔ اس لیے ضروری تھا کہ بھارت میں مسلسل جمہوریت رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی مارشل لاء نہ لگے۔پاکستان کی سویلین بالادستی حاصل نہ کرنے کی مقامی و بیرونی وجوہات ہیں۔
مقامی وجوہات میں پاکستان کا جاگیردار طبقہ اور سرداری و قبائلی نظام ہے جس سے قدامت پرستی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ ان کا خاتمہ امریکی مفادات کے لیے زہر قاتل ہے۔ اسی طرح تیس لاکھ افغان مہاجرین قدامت پرستی کا سمندر ہیں۔ جہاں یہ دہشت گرد آکر چھپ جاتے ہیں اور ہم بار بار امریکا کے سامنے گڑگڑا رہے ہیں کہ وہ افغان مہاجرین کو واپس لے جائے۔
آج ہمیں وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ذریعے پہلی مرتبہ پتہ چلا ہے کہ ہمارے مہمان نہیں بلکہ امریکی مہمان ہیں جو ہماری سرزمین پر امریکا کی زور زبردستی سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ قدامت پرستی پاکستان میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے امریکا کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ بیرونی وجوہات میں خود امریکا اور عرب بادشاہتیں ہیں جو پاکستان میں سویلین بالا دستی کی راہ میں پہاڑ جیسی رکاوٹ ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک تمام امریکی مفادات پاکستان میں سویلین بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے پورے ہوئے۔ ایک لمحہ کے لیے تصور کریں کہ اگر پاکستان میں سویلین بالادستی ہوتی تو پاکستان امریکی مفادات کا گڑھ بن سکتا تھا۔ اس وقت پاکستان میں سویلین بالادستی نہ ہونے کا سب سے بڑا بینیفشری امریکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ جس نے بھی سویلین بالادستی کی کوشش کی اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔
ٹریلین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا امریکا بھی پاکستان میں سویلین بالادستی چاہتا ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کی تاریخ کو مزید گھنگالنا ہوگا۔ پاکستان ابتدا سے ہی سوویت یونین کے خلاف سیٹو سنٹو معاہدے میں شامل ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سویلین بالادستی چاہتے تھے ان کا کیا انجام ہوا۔ وہ بھی ہمارے سامنے۔
سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان امریکا کے مفادات ویسے کے ویسے ہی ہیں تو سویلین بالادستی کیسے ممکن ہوگی۔ امریکا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سویلین بالادستی کے حربے جھانسے کے طور پر تو استعمال کرسکتا ہے، حقیقت میں نہیں۔ ابھی امریکا نے ایران سے دو دو ہاتھ کرنے ہیں۔ شام میں اس کا ارادہ مستقل قیام کا ہے۔ نئی افغان پالیسی کیا رنگ دکھائے گی اس کا حقیقی معنوں میں پتہ اگلے کچھ عرصے میں لگ جائے گا۔ ان سب کاموں کے لیے امریکا کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے۔ میاں نواز شریف ان سادہ لوح خیر خواہوں سے خبردار رہیں جو انھیں سویلین بالادستی کے سبز باغ دکھاکر اسٹیبلشمنٹ سے لڑانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
٭... 8 سے 18 فروری سانحہ ماڈل ٹائون اہم مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
وقت موجود میں مخمصہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی جو سن پچاس کی دہائی سے قائم ہے جاری رہ پائے گی یا ختم ہوجائے گی۔ اس دفعہ چیلنج بہت بڑا ہے۔ پہلے چیلنج چھوٹے صوبوں سے آتے تھے اور اس پر قابو پا لیا جاتا تھا۔ اس دفعہ چیلنج بڑے صوبے سے ہے جو پاکستان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ جو صوبہ اسٹیبلشمنٹ کا گڑھ ہے، وہیں سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مزاحمت کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہے نا حیرت کی بات۔ اس مزاحمت کے لیے تو دنیا مدت سے انتظار کر رہی تھی۔
اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہاں سویلین بالادستی کیوں قائم نہ ہو سکی۔ اس اہم ترین پہیلی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا جب پاکستان وجود میں آیا تو اس کے کرتا دھرتائوں نے اسے امریکی مفادات کی آماجگاہ بنا دیا۔ کیوں کہ برٹش سامراج سے آزادی حاصل کرنی تھی اس لیے سامراج کو یہ یقین دلانا ضروری تھا کہ پاکستان سامراجی مفادات کے خلاف نہیں جائے گا بلکہ سوویت یونین کے خلاف جس سے سامراج کو خطرہ تھا اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنے گا۔ کیونکہ اس کے بغیر آزادی نہیں مل سکتی تھی۔
یہی کچھ بھارت نے بھی کیا لیکن سویلین بالادستی کی قیمت پر نہیں۔ یہ بات نئی نسل کو تو سرے سے پتہ ہی نہیں بلکہ پرانی نسل بھی بھولتی جا رہی ہے کہ ہم نے انگریز سے مسلح جدوجہد کرکے آزادی نہیں حاصل کی تھی بلکہ انگریز نے اپنی رضا مندی اور مفادات کے تحت ہمیں اور ہندوئوں کو مسلح جدوجہد کیے بغیر آزادی دی تاکہ برصغیر میں مدتوں تک اسی کے مفادات محفوظ رہ سکیں، اور ایسا ہی ہوا۔
یہ اور بات ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے لیکن یہ ہندو مسلم فرقہ وارانہ اختلافات کا نتیجہ تھے۔ لیکن ان فسادات کا فائدہ بھی انگریز اور اس کے بعد امریکی سامراج کو ہوا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان خون کی ایک گہری لکیر حائل ہوگئی جس کے نتیجے میں دونوں ملک ایک دوسرے کے آج تک دشمن ہیں۔ تقسیم کا مقصود بھی یہی تھا کہ دونوں ملک آزاد تو ہوں لیکن ایک دوسرے کے دوست نہ بن سکیں۔ تصور کریں کہ یہ دونوں ملک دوست ہوتے تو کیا ہوتا۔
برصغیر کے تقسیم ہونے کی صورت میں مسلمان بادشاہ گر ہوتے اور ان کا اثرو رسوخ مشرق وسطیٰ سے مشرق بعید تک پھیلا ہوتا کیوں کہ ان کے ساتھ نیچ ذات کے ہندو، سکھ، عیسائی بھی مل جاتے۔ برصغیر کو متحد رکھنے کے لیے کئی تجاویز بھی سامنے آئیں لیکن وہ آخری وقت میں پس پردہ سازشوں کی وجہ سے ناکام ہوگئیں۔ کیونکہ انگریز سمجھتا تھا کہ مسلمان اپنی بڑھتی ہوئی شرح پیدائش کی وجہ سے ایک وقت آئے گا کہ مسلمان عددی اعتبار سے برصغیر میں بالادست قوت بن جائیں گے۔
سامراج کے نزدیک پاکستان کی اہمیت کی وجہ اس کا محل وقوع تھا جس کی سرحدیں چین، روس، ایران اور افغانستان کے ذریعے سینٹرل ایشیا سے ملتی تھیں۔ اس محل وقوع کی وجہ سے پاکستان اور اس کے عوام مسلسل آزمائشوں، بربادیوں، آفات سے گزر رہے ہیں۔ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے ہی آج تک سویلین بالادستی سے محروم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آمریت یا لولی لنگڑی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ جب کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے جس پر مغربی دنیا ناز کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا شاہکار، جس نے سوشلزم، کمیونزم کے آگے بند باندھ دیا۔ اس لیے ضروری تھا کہ بھارت میں مسلسل جمہوریت رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی مارشل لاء نہ لگے۔پاکستان کی سویلین بالادستی حاصل نہ کرنے کی مقامی و بیرونی وجوہات ہیں۔
مقامی وجوہات میں پاکستان کا جاگیردار طبقہ اور سرداری و قبائلی نظام ہے جس سے قدامت پرستی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ ان کا خاتمہ امریکی مفادات کے لیے زہر قاتل ہے۔ اسی طرح تیس لاکھ افغان مہاجرین قدامت پرستی کا سمندر ہیں۔ جہاں یہ دہشت گرد آکر چھپ جاتے ہیں اور ہم بار بار امریکا کے سامنے گڑگڑا رہے ہیں کہ وہ افغان مہاجرین کو واپس لے جائے۔
آج ہمیں وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ذریعے پہلی مرتبہ پتہ چلا ہے کہ ہمارے مہمان نہیں بلکہ امریکی مہمان ہیں جو ہماری سرزمین پر امریکا کی زور زبردستی سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ قدامت پرستی پاکستان میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے امریکا کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ بیرونی وجوہات میں خود امریکا اور عرب بادشاہتیں ہیں جو پاکستان میں سویلین بالا دستی کی راہ میں پہاڑ جیسی رکاوٹ ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اب تک تمام امریکی مفادات پاکستان میں سویلین بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے پورے ہوئے۔ ایک لمحہ کے لیے تصور کریں کہ اگر پاکستان میں سویلین بالادستی ہوتی تو پاکستان امریکی مفادات کا گڑھ بن سکتا تھا۔ اس وقت پاکستان میں سویلین بالادستی نہ ہونے کا سب سے بڑا بینیفشری امریکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ جس نے بھی سویلین بالادستی کی کوشش کی اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔
ٹریلین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا امریکا بھی پاکستان میں سویلین بالادستی چاہتا ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کی تاریخ کو مزید گھنگالنا ہوگا۔ پاکستان ابتدا سے ہی سوویت یونین کے خلاف سیٹو سنٹو معاہدے میں شامل ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سویلین بالادستی چاہتے تھے ان کا کیا انجام ہوا۔ وہ بھی ہمارے سامنے۔
سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان امریکا کے مفادات ویسے کے ویسے ہی ہیں تو سویلین بالادستی کیسے ممکن ہوگی۔ امریکا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سویلین بالادستی کے حربے جھانسے کے طور پر تو استعمال کرسکتا ہے، حقیقت میں نہیں۔ ابھی امریکا نے ایران سے دو دو ہاتھ کرنے ہیں۔ شام میں اس کا ارادہ مستقل قیام کا ہے۔ نئی افغان پالیسی کیا رنگ دکھائے گی اس کا حقیقی معنوں میں پتہ اگلے کچھ عرصے میں لگ جائے گا۔ ان سب کاموں کے لیے امریکا کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے۔ میاں نواز شریف ان سادہ لوح خیر خواہوں سے خبردار رہیں جو انھیں سویلین بالادستی کے سبز باغ دکھاکر اسٹیبلشمنٹ سے لڑانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
٭... 8 سے 18 فروری سانحہ ماڈل ٹائون اہم مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997