قومی مفاد
اہلیت چھوڑدیجیے۔ کیا ہمیں ادراک بھی ہے کہ تینوں ملک ملکرہمیں کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
KARACHI:
اسرائیلی وزیراعظم کاہندوستان کاحالیہ سرکاری دورہ بے حداہم ہے۔خصوصاًاس علاقے کے لیے جس میں پاکستان واقع ہے۔نیتن یاہوچنددن پہلے تقریباًایک ہفتہ کے لیے ہندوستان آیا۔اس کے ساتھ اسرائیل کی تاریخ کاسب سے بڑا وفد تھا جس میں130لوگ شامل تھے۔یہ دفاع سے لے کرپانی،زراعت اوردیگرشعبوں کے سرکردہ افراد تھے۔
بہت کم لوگوں کواندازہ ہے کہ کسی بھی اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ تقریباًایک دہائی کے بعدوقوع پذیرہوا۔اس کی بنیاد، ہندوستانی وزیراعظم کاچھ ماہ قبل اسرائیل کاسرکاری دورہ تھا۔ کسی بھی ہندوستانی وزیراعظم کے لیے یہ پہلاموقعہ تھاکہ وہ سرکاری طورپراسرائیل گیاہو۔
پاکستان میں اس کاردِعمل سطحی تھاکہ دونوں ملکوں کے گٹھ جوڑسے نپٹناجانتے ہیں۔یہ بھی کہ یہ سب کچھ ہماری سالمیت کے خلاف اتحادبننے کی طرف جارحانہ قدم ہے۔ اس ردِعمل سے کوئی لینادینا نہیں۔مگرچندبنیادی سوالات ضرورذہن میں آتے ہیں۔پہلی بات تویہ کہ ہم یعنی مسلمان اس درجہ جذباتی کیوں ہیں۔دوم،ہم جذبات کی بنیادپر اپنے قومی مفادکوپسِ پشت کیوں ڈال دیتے ہیں۔ تیسرا، کیا ہمیں واقعی علم ہے کہ بطورملک،ہماری بین الاقوامی ساکھ اور استطاعت کیاہے۔
اس کے علاوہ کئی ضمنی معاملات ذہن میں ضروراُٹھتے ہیں۔مگرانکو ِقلمبند کرنامشکل ہے۔ ہم معاملات کو ایک جنونی کیفیت سے دیکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ لفاظی اورخوش فہمی کی وہ تاریخ ہے،جس سے کوئی ہمیں باہرنکلنے ہی نہیں دے رہا۔محض ایک صدی پہلے کی بات ہے۔ جب یہ فتویٰ آیا کہ ہندوستان دارلحرب ہے لہذامسلمانوں کویہاں سے ہجرت کرکے افغانستان چلے جاناچاہیے۔مسلمانوں کی کثیرتعدادنے اس پرعمل بھی کیا۔اپنی جائیداد اونے پونے فروخت کرکے افغانستان کی طرف چل پڑے۔
افغانستان کی حکومت نے ایک بھی خاندان کوملک میں نہیں گھسنے دیا۔ مجبوراًواپس آناپڑا۔ہزاروں مسلمان خاندان برباد ہوگئے۔ المیہ یہ بھی تھاکہ جس جس صاحب نے انھیںملک ترک کرکے افغانستان جانے کامشورہ دیاتھا،کسی نے بھی بربادی کی ذمے داری قبول نہیں کی۔اس جذباتی فیصلے نے ہماری ایک نسل کوبربادکردیا۔ سمجھ سے باہرہے کہ آج بھی ہم اتنے ہی جذباتی کیوں ہیں،جتنے صدیوں پہلے تھے۔ شائد اس میں بڑھاواآچکاہے۔
قومی مفادات پرغورکریں۔اسرائیل کوہم تسلیم نہیں کرتے حالانکہ جن مسلمان ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کی جنگیں ہوئی ہیں،وہ ممالک بھی اسرائیل سے صلح کرچکے ہیں، اسے تسلیم کرچکے ہیں۔اُردن اورمصر مسلمان ممالک ہیں۔انھوں نے اپنی سرزمین پربیش قیمت فیکٹریاں لگائی ہیں۔جوخام مال اسرائیل سے منگواتی ہیں۔نتیجے میں ان کا تیارشدہ مال امریکا اوریورپ کی منڈیوں میں کوٹے سے استثناء حاصل کرلیتاہے۔ٹیکس بھی واجبی سے رہ جاتے ہیں۔شائدآپ تسلیم نہ کریں۔
کئی پاکستانی تاجروں نے بھی اُردن میں ایسی فیکٹریاں لگارکھی ہیں جوتمام مال اسرائیل سے منگواتی ہیں۔اہم ترین بات یہ ہے کہ جن مسلم ملکوں کے ساتھ اسرائیل کی حددرجہ تلخی تھی،وہ بھی اس سے دوستی کر چکے ہیں۔موجودہ سعودی ولی عہدتویہاں تک فرماتے ہیں کہ ایران کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوںگے۔مگرہمارامسئلہ کیاہے۔کیاوجہ ہے کہ ہماراقومی مفادہے کہ اپنے دشمنوں کودوست بنایاجائے۔مگرہم ہر طریقے سے اسرائیل سے دوررہتے ہیں۔
کیاہندوستان بیوقوف ہے کہ اسرائیل کے ساتھ چار ارب ڈالرکی تجارت کررہاہے۔عسکری معاہدے کر رہا ہے۔ جدیدترین اسلحہ کم قیمت پرحاصل کررہاہے۔جواب دیجیے کہ ہمارااپناقومی مفادکس چیزمیں پوشیدہ ہے۔سطحی جذباتیت کے تحت ملکوں کودشمن بنانے میں یااپنے فائدے کے تحت ایک ایسی حکمتِ عملی بنانے میں،جس سے ہمارے مسائل کم ہوں۔
کیااسرائیل کے نہ ماننے سے وہ ملک ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے موجودہ وزیراعظم نے ہندوستان کے دورے میں کھل کرکہاہے کہ جب اسرائیل ہرجگہ ہماری مخالفت نہیں کرتاتوہماراملک ہرجگہ دشمنی کی روش پرکیوں گامزن ہے۔ یہ انتہائی سنجیدہ سوال ہے۔اسکاجواب ہمارے مقتدرطبقے نے بالکل نہیں دیا۔منفی عوامی ردِ عمل سے گھبراکرسب لوگ خاموش ہوگئے۔پہلے ہی اتنے مسائل ہیں کہ کوئی بھی نئے مسئلہ کاسامنا نہیں کرناچاہتا۔پرکیااس سے حقیقت تبدیل ہوجائیگی۔
کیافلسطینی حکومت نے پاکستان میں اپنے سفیر کو صرف اسلیے واپس نہیں بلایا تھاکہ اس نے حافظ سعیدکے ساتھ القدس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔کیایہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ۔لیکن نہیں،اس کے باوجودہم احتجاج کی روش جاری رکھیں گے۔بیت المقدس میںامریکی سفارت خانے کی منتقلی پرتقریریں کرینگے۔آہ وزاری کرینگے۔ترکی کا صدرایک نحیف سی کانفرنس کا انعقاد کریگا۔جذباتی تقریریں ہوںگی۔مگرترکی اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات برقراررکھے گا۔مگریہاں کوئی بھی نہیں کہہ سکتاکہ ہماراقومی مفاداسرائیل سے دشمنی کم کرنے یاختم کرنے میں ہے،نہ کے اسکوجذباتی تقریروں سے بڑھانے میں۔
اگربات فلسطینیوں کے ساتھ ظلم کی ہے۔ تو کیا کوئی دانشور بتاسکتاہے کہ سعودی عرب میں اقلیتی مسلک کے حقوق کیاہیں اوراسی طرح ایران میں کیاسلوک کیا جاتا ہے۔ترکی، کردوں کے ساتھ کیاکررہاہے۔شام کی خانہ جنگی میں فرقہ واریت کازہرکیونکرگھولاجارہاہے۔کوئی بھی دلیل پربات کرنے کے لیے تیارنہیں۔کسی لیڈریادانشورمیں اتنی ہمت نہیں کہ وہ خم ٹھونک کرکہہ سکے کہ پاکستان کاقومی مفاد، اسرائیل سے مسلسل دشمنی سے منسلک نہیں ہے۔
چلیے،سابقہ سطور کوتھوڑی دیرکے لیے بھول جائیے۔کیایہ سچ نہیں کہ عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ اَمرپختہ کردیاگیاہے کہ پاکستان ہرجگہ مسلمانوں کی مددکرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یروشلم میں پاکستان سے مددکرنے کوکہاجارہا تھا۔ سعودی عرب اورایران کی فوج سے مددنہیں مانگی جارہی تھی۔ ادھر تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ روزانہ ہندوستان بین الاقوامی سرحدپرشرانگیزی کرتاہے۔ہمارے شہری اورفوجی شہید ہوتے ہیں۔مگرایک بھی اسلامی ملک ہماری مددکااعلان نہیں کرتا۔
ہندوستان کی لفظی مذمت کرنے تک کی بھی جرات نہیں رکھتا۔سارے ممالک ہماری سادگی سے اپنافائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمارے لیے کسی کے پاس بھی کچھ نہیں ہے۔اس کے علاوہ ہماری اہلیت اوربین الاقوامی استطاعت کوبھی بڑھاچڑھاکراس طرح پیش کیاگیاہے جیسے ہم پوری دنیاکے لیے محورکی حیثیت رکھتے ہیں۔اگرآپ صرف پاکستان میں رہیں تویہ مفروضہ ٹھیک ہے۔مگرجیسے ہی مغربی ممالک کاسفرکرتے ہیں،چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ان کی ترقی کے سامنے ہمارے دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے۔
درست ہے،کہ ہماری عسکری طاقت شاندارہے،ہم ایک نیوکلیئرطاقت ہیں۔مگرپوری دنیاسے جنگ لڑنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اسرائیل اورامریکا اس وقت ہرلحاظ سے طاقتورترین ملک ہیں۔ہندوستان انتہائی مہارت سے ان کے نزدیک ہوچکاہے۔مگرہم آنکھیں بندکرکے تاریخی لوریاں سن رہے ہیں۔کوئی ہمیں یہ نہیں بتارہاکہ ان مضبوط ممالک کاہمارے متعلق بیانیہ مکمل طورپرمنفی ہے۔کیاہم اتنے مضبوط منفی بیانیے کے سامنے ایک پُرامن اورسنجیدہ بات کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
اہلیت چھوڑدیجیے۔ کیا ہمیں ادراک بھی ہے کہ تینوں ملک ملکرہمیں کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مگریہاں کوئی سنجیدگی سے معاملات کو جانچنے اور پرکھنے کی جرات نہیں رکھتا۔ہرایک کومالِ غنیمت میں اپنا حصہ چاہیے۔کوئی مشکل صورتحال آئی تو مقتدرطبقے کی اکثریت امریکا اور مغربی ممالک منتقل ہونے میں ایک پَل دیرنہیں کریگی۔باقی کروڑوں لوگ کیاکریں گے۔ ان کا کیاحال ہوگا۔اس کے متعلق کوئی بھی سوچنے یا بات کرنے کو تیارنہیں۔
اب اس موضوع کی طرف آتاہوں،جوانتہائی دقیق اورمشکل ہے۔وہ ہے دہشتگردی اورہمارا ملک۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ملک کو دہشتگردی نے بے انتہانقصان پہنچایاہے۔مگرکیایہ ایک المیہ نہیں کہ دہشتگردی سے نقصان اُٹھاکراس سے لڑنے کے باوجودہماری بین الاقوامی ساکھ ایک دہشت گردی پھیلانے والے ملک کی ہے۔
Perceptionصرف اورصرف یہی ہے کہ جہاں بھی ہمارے ملک کانام آتاہے،وہاں لوگوں کے ذہنوں میں دہشتگردی خودبخود عودکرآتی ہے۔بین لاقوامی کانفرنسوں اور فورمزپرہمیں شک کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔کوئی ہماری قربانیوں کوتسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں۔ایک دو ممالک، جواپنی ضرورتوں کے تحت ہماری لفظی مددکرتے ہیں،وہ بھی بندکمروں میں ہمیں دہشتگردی سے منسلک سمجھتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ ہماراعمومی رویہ بھی ہمارے قومی مفادات سے ٹکراتاہے۔اگرکوئی یہ کہے کہ ہمیں اپنے خلاف طاقتورملکوں کے اتحادکوبات چیت اورکامیاب سفارت کاری سے ختم کرناچاہیے توتمام لوگ اس کے خلاف باتیں کرنی شروع کردیںگے۔جوبھی حکومت یہ کرنے کی کوشش کریگی،اسے کٹہرے میں کھڑاکردیاجائیگا۔کوئی یہ مشورہ نہیں دے رہاکہ ہمسایوں سے لے کران تمام ملکوں سے اچھے تعلقات رکھیں،جن سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچ سکتی ہے۔مگریہاں کسی کے پاس حساس معاملات پربات کرنے کادل گردہ ہی نہیں ہے۔اس درجہ جذباتیت میں کوئی بھی جان خطرے میں نہیں ڈالناچاہتا،میں بھی نہیں۔