عوام کی فکری تربیت کا معاملہ
سیاسی قیادتیں اپنی کوتاہ بینی اور معروضیت مخالف سوچ کے سبب عوام کی فکری اورشعور تربیت کرنے میں ناکام ہیں۔
جنسی ہوس اور جنونیت ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ اس مرض میں مختلف عوامل کے باعث مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ معاملہ صرف جنسی ہوس وجنونیت تک محدود نہیں ہے، بلکہ قتل جیسا سفاکانہ عمل بھی اب بچوں کا کھیل بن گیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کی بے بصیرتی اور غفلت کے علاوہ ان میں فیصلہ سازی کی اہلیت واستعداد کافقدان ہے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین عوام کودرپیش مشکلات و مسائل سے بے نیاز اپنے مخصوص مفادات کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے فرسودہ انتظامی ڈھانچے کی تطہیراور تشکیل نو جیسے مراحل طے نہیں ہو پا رہے۔ نتیجتاً مسائل ومعاملات پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔
نظم حکمرانی کا بحران، انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی، کرمنل جسٹس سسٹم کا وقت وحالات سے مطابقت نہ کھانا اور نوآبادیاتی تھانہ کلچرکے تسلسل پر سیاسی قیادتوں کا اصرار، وہ کلیدی اسباب ہیں، جومعاشرے کو فکری جمود، انتشار اور ہیجان میں مبتلا کرکے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، مگر علما (جن میں دینی اور دنیاوی دونوں شامل ہیں)، سول سوسائٹی اور سیاسی قیادتیں اپنی کوتاہ بینی اور معروضیت مخالف سوچ کے سبب عوام کی فکری اورشعور تربیت کرنے میں ناکام ہیں۔
یہاں دیگر عوامل سے صرف نظرکرتے ہوئے، معاشرے کی فکری تربیت میں مساجدکے پیش اماموں اور اسکولوںکے اساتذہ کے کردار پرگفتگوکرنا چاہئیں گے۔ کیونکہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیش اماموں کا اپنے علاقے کے عوام کے ساتھ دن میں پانچ مرتبہ واسطہ پڑتا ہے، جب کہ اسکول اساتذہ نوعمر بچوں کی ذہنی تربیت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میںیہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مولوی کاکام صرف پنجگانہ نمازکی امامت اور بچوں کو قرآن مجید پڑھانا ہے۔اسی طرح اسکول اساتذہ کی بھی کوئی خاص سماجی حیثیت نہیں ہے۔
دراصل یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو کہیں اور روزگار نہیں ملتا، وہ تدریس کے شعبے میں آتے ہیں۔ اسی طرح پیش اماموں کے بارے میں بھی یہ تصور ہے کہ ان کاخاندانی پس منظر غربت، افلاس اور پسماندگی ہے۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جو بچہ کند ذہن ہو، اسے مولوی بنادو، کچھ نہ کچھ کماکھالے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان دونوں پیشوں سے وابستہ افراد کی سماجی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا سماجی تشکیلات اور فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں ہے۔
اس صورت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جن اداروں میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں عصری سماجی علوم کی تدریس کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔ جن چند روایتی سماجی علوم کوتدریس کا حصہ بنایا جاتا ہے، ان کا نصاب فرسودہ ہے۔جس کی وجہ سے دینی مدارس سے فارغ التحصیل افراد کی اکثریت عصری سماجی واقتصادی مسائل و معالات کے بارے میں واجبی سے بھی کم علم رکھتے ہیں ۔ چونکہ ہمارے یہاں حکومتی سطح (صوبائی اور ضلع) پر بھی پیش اماموں کو سماجی معاملات کے بارے میں آگہی دینے کے لیے کسی قسم کی Orientation کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ ان کا روزانہ کی بنیاد پر رابط یعنی Interactionمحض روایتی دینی گفتگو سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔
طویل عرصے سے جمعے کا وعظ معروضیت سے عاری چند رٹی رٹائی حکایات کے دہرائے جانے، مختلف عقائد کے ماننے والوں کی تکفیر اور بعض غیر متعلقہ امور کے اظہار کا ذریعہ بنا ہوا ہے، جب کہ جمعہ کے وعظ کا اصل مقصد نمازیوں کو مختلف دینی اور دنیاوی امور سے آگہی دینا قرار پایا تھا، مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ ایک تو مولوی کا سماجی علم محدودہوتا ہے، دوسرے سماج میں اس کا مقام صرف نمازکی امامت اور بچوں کو قرآن مجید پڑھانے تک تصورکرلیا گیا ہے۔اس لیے نمازیوں کی سماجی امور میں فکری تربیت کے کردار کو نظر اندازکیا جاتا ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پیش امام صاحبان، جو روزانہ پانچ مرتبہ عوام کے ساتھ روابط(Interaction)میں آتے ہیں،اگر وہ کمیونٹی کے روز مرہ معاملات و مسائل پرگفتگو کریں اور ان کی دینی قواعد وضوابط کی روشنی میں رہنمائی کریں، تو زیادہ مثبت اور دیر پا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مثلاً پانی کے حالیہ بحران کے دور میں اس کا مناسب استعمال کس طرح ممکن ہے؟ تقریبات اور دعوتوں وغیرہ میں کھانے کے زیاں سے اجتناب کیوں ضروری ہے؟ دین اشیائے خورونوش کے زیاں کے بارے میں کیا موقف رکھتا ہے؟ ماحولیات کے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں، ان سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے؟
اشیائے صرف میں ملاوٹ، گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے کیا سماجی نقصانات ہیںاور مذہب اس بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟بچوں کوپولیوکے قطرے نہ پلانے کے ان کی صحت پرکیانقصانات متوقع ہیں؟ اس کے علاوہ نمازیوں کو روزمرہ کے سماجی، معاشی،خانگی اور نفسیاتی امور کے بارے میں دینی تعلیمات کی روشنی میں معلومات بہم پہنچانے سے ان کے سماجی شعور میں اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا کمیونٹی کی فکری تربیت میں مساجد اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، بشرطیکہ انھیںاس ذمے داری کے لیے تیارکیا جائے۔
دوسرا انسٹیٹوشن مکتب، مدرسہ یا اسکول ہے، جو بچوں کی ذہنی، فکری اور سماجی تربیت کا اہم ترین ادارہ ہے۔ یہاں بچے چار سے پانچ برس کی عمر میں آتے ہیں اور سن بلوغت میں پہنچ کر فارغ ہوتے ہیں ۔ تعلیمی نصاب کی تدریس کے ساتھ بچوں اور بچیوں کی ذہنی، نفسیاتی، ثقافتی اورسماجی تربیت بھی اسکولوں اور اساتذہ کی ذمے داریوں میں شامل ہے، مگر اسکول اور اساتذہ یہ ذمے داری پوری نہیں کررہے۔ ان اسباب پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔
قیام پاکستان کے وقت زیادہ تر پرائمری اور سیکنڈری اسکول صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی چلتے تھے۔ ان میں پڑھایا جانے والے نصاب کی تدوین و تیاری وفاقی حکومت کیا کرتی تھی، جب کہ اساتذہ کی تقرری اور تعیناتی صوبائی حکومتیں کیا کرتی تھیں۔ پرائمری اسکولوں کے لیے PTC، مڈل اسکولوں کے لیے CT جب کہ ہائی اسکولوں کے اساتذہ کی بھرتی کے لیے B.Edکی سند ضروری ہواکرتی ہے، مگر جنرل ضیا کے دور سے جب نجی شعبے میں اندھا دھند تعلیمی اداروں کی بھر مار شروع ہوئی اور سرکاری اسکولوں میں سفارش اور رشوت تقرری کا معیار ٹہرا تو نظام تعلیم مکمل طور پر زمیں بوس ہوگیا۔حالانکہ ان سے پہلے کے ادوار میں بھی درج بالا اسناد کے کورسز میں ایسے موضوعات کو شامل نہیں کیا جاتا تھا، جو بچے کی فکری اورسماجی نشوونما کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔
مختصراً عرض یہ ہے کہ اسکولوں میں آٹھویں جماعت سے بارھویں جماعت تک حفظان صحت کے مضمون کو لازمی قرار دیا جائے، جس میں جنسی جبلت کے بارے میں مثبت معلومات فراہم کی جائیں، تاکہ نوجوانی کی حدود میں داخل ہونے والے بچوں اور بچیوں کی ذہنی اورفکری تربیت ہوسکے اور انھیں دیگر جبلتوں کی طرح اس جبلت کے بارے میں مثبت معلومات حاصل ہوسکیں۔
PTC،CTاور B.Edکے نصاب میںجدید تحقیق پر مبنی بچوں کی سماجی، ثقافتی اورنفسیاتی تربیت کے موضوعات شامل کیے جائیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی Orientation کا مناسب بندوبست ہو۔ یہ کوشش کی جائے کہ سرکاری اور نجی شعبے کا ہر استاد/استانی ہر تین برس بعد Orientation پروگراموں میں شریک ہو، جن کے ماڈیولز (Modules) حسب ضرورت تبدیل کیے جائیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسکولوں میں بچوں اور بچیوں کی ذہنی تربیت، مساجد میں تمام عمر اور تمام طبقات کی فکری تربیت اور اساتذہ اور پیش امام صاحبان کی وقتاًفوقتاً اورینٹیشن کے ذریعے کمیونٹیز کو شعوری تربیت دے کر متحرک کیا جاسکتا ہے۔جس سے بیشتر نفسیاتی امراض جو کریہہ جرائم کی شکل اختیارکرلیتے ہیں،ان پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے، مگر کلیدی کردار سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ جو عوام کو موبلائز کرنے کی صلاحیت بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، مگر سوال پھر وہیں پہ آکر رک جاتا ہے کہ فیوڈل مائنڈسیٹ رکھنے والی سیاسی قیادتیں اور قبائلی ذہن رکھنے والی مذہبی قیادتیں،کیا اس قدر وسیع القلبی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرسکیں گی کہ معاشرے کو درست سمت میں آگے بڑھایا جاسکے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین عوام کودرپیش مشکلات و مسائل سے بے نیاز اپنے مخصوص مفادات کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں۔ جس کی وجہ سے فرسودہ انتظامی ڈھانچے کی تطہیراور تشکیل نو جیسے مراحل طے نہیں ہو پا رہے۔ نتیجتاً مسائل ومعاملات پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔
نظم حکمرانی کا بحران، انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی، کرمنل جسٹس سسٹم کا وقت وحالات سے مطابقت نہ کھانا اور نوآبادیاتی تھانہ کلچرکے تسلسل پر سیاسی قیادتوں کا اصرار، وہ کلیدی اسباب ہیں، جومعاشرے کو فکری جمود، انتشار اور ہیجان میں مبتلا کرکے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، مگر علما (جن میں دینی اور دنیاوی دونوں شامل ہیں)، سول سوسائٹی اور سیاسی قیادتیں اپنی کوتاہ بینی اور معروضیت مخالف سوچ کے سبب عوام کی فکری اورشعور تربیت کرنے میں ناکام ہیں۔
یہاں دیگر عوامل سے صرف نظرکرتے ہوئے، معاشرے کی فکری تربیت میں مساجدکے پیش اماموں اور اسکولوںکے اساتذہ کے کردار پرگفتگوکرنا چاہئیں گے۔ کیونکہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیش اماموں کا اپنے علاقے کے عوام کے ساتھ دن میں پانچ مرتبہ واسطہ پڑتا ہے، جب کہ اسکول اساتذہ نوعمر بچوں کی ذہنی تربیت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے میںیہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مولوی کاکام صرف پنجگانہ نمازکی امامت اور بچوں کو قرآن مجید پڑھانا ہے۔اسی طرح اسکول اساتذہ کی بھی کوئی خاص سماجی حیثیت نہیں ہے۔
دراصل یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو کہیں اور روزگار نہیں ملتا، وہ تدریس کے شعبے میں آتے ہیں۔ اسی طرح پیش اماموں کے بارے میں بھی یہ تصور ہے کہ ان کاخاندانی پس منظر غربت، افلاس اور پسماندگی ہے۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جو بچہ کند ذہن ہو، اسے مولوی بنادو، کچھ نہ کچھ کماکھالے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان دونوں پیشوں سے وابستہ افراد کی سماجی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا سماجی تشکیلات اور فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں ہے۔
اس صورت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جن اداروں میں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں عصری سماجی علوم کی تدریس کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔ جن چند روایتی سماجی علوم کوتدریس کا حصہ بنایا جاتا ہے، ان کا نصاب فرسودہ ہے۔جس کی وجہ سے دینی مدارس سے فارغ التحصیل افراد کی اکثریت عصری سماجی واقتصادی مسائل و معالات کے بارے میں واجبی سے بھی کم علم رکھتے ہیں ۔ چونکہ ہمارے یہاں حکومتی سطح (صوبائی اور ضلع) پر بھی پیش اماموں کو سماجی معاملات کے بارے میں آگہی دینے کے لیے کسی قسم کی Orientation کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ ان کا روزانہ کی بنیاد پر رابط یعنی Interactionمحض روایتی دینی گفتگو سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔
طویل عرصے سے جمعے کا وعظ معروضیت سے عاری چند رٹی رٹائی حکایات کے دہرائے جانے، مختلف عقائد کے ماننے والوں کی تکفیر اور بعض غیر متعلقہ امور کے اظہار کا ذریعہ بنا ہوا ہے، جب کہ جمعہ کے وعظ کا اصل مقصد نمازیوں کو مختلف دینی اور دنیاوی امور سے آگہی دینا قرار پایا تھا، مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ ایک تو مولوی کا سماجی علم محدودہوتا ہے، دوسرے سماج میں اس کا مقام صرف نمازکی امامت اور بچوں کو قرآن مجید پڑھانے تک تصورکرلیا گیا ہے۔اس لیے نمازیوں کی سماجی امور میں فکری تربیت کے کردار کو نظر اندازکیا جاتا ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پیش امام صاحبان، جو روزانہ پانچ مرتبہ عوام کے ساتھ روابط(Interaction)میں آتے ہیں،اگر وہ کمیونٹی کے روز مرہ معاملات و مسائل پرگفتگو کریں اور ان کی دینی قواعد وضوابط کی روشنی میں رہنمائی کریں، تو زیادہ مثبت اور دیر پا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مثلاً پانی کے حالیہ بحران کے دور میں اس کا مناسب استعمال کس طرح ممکن ہے؟ تقریبات اور دعوتوں وغیرہ میں کھانے کے زیاں سے اجتناب کیوں ضروری ہے؟ دین اشیائے خورونوش کے زیاں کے بارے میں کیا موقف رکھتا ہے؟ ماحولیات کے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں، ان سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے؟
اشیائے صرف میں ملاوٹ، گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے کیا سماجی نقصانات ہیںاور مذہب اس بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟بچوں کوپولیوکے قطرے نہ پلانے کے ان کی صحت پرکیانقصانات متوقع ہیں؟ اس کے علاوہ نمازیوں کو روزمرہ کے سماجی، معاشی،خانگی اور نفسیاتی امور کے بارے میں دینی تعلیمات کی روشنی میں معلومات بہم پہنچانے سے ان کے سماجی شعور میں اضافہ ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا کمیونٹی کی فکری تربیت میں مساجد اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، بشرطیکہ انھیںاس ذمے داری کے لیے تیارکیا جائے۔
دوسرا انسٹیٹوشن مکتب، مدرسہ یا اسکول ہے، جو بچوں کی ذہنی، فکری اور سماجی تربیت کا اہم ترین ادارہ ہے۔ یہاں بچے چار سے پانچ برس کی عمر میں آتے ہیں اور سن بلوغت میں پہنچ کر فارغ ہوتے ہیں ۔ تعلیمی نصاب کی تدریس کے ساتھ بچوں اور بچیوں کی ذہنی، نفسیاتی، ثقافتی اورسماجی تربیت بھی اسکولوں اور اساتذہ کی ذمے داریوں میں شامل ہے، مگر اسکول اور اساتذہ یہ ذمے داری پوری نہیں کررہے۔ ان اسباب پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔
قیام پاکستان کے وقت زیادہ تر پرائمری اور سیکنڈری اسکول صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی چلتے تھے۔ ان میں پڑھایا جانے والے نصاب کی تدوین و تیاری وفاقی حکومت کیا کرتی تھی، جب کہ اساتذہ کی تقرری اور تعیناتی صوبائی حکومتیں کیا کرتی تھیں۔ پرائمری اسکولوں کے لیے PTC، مڈل اسکولوں کے لیے CT جب کہ ہائی اسکولوں کے اساتذہ کی بھرتی کے لیے B.Edکی سند ضروری ہواکرتی ہے، مگر جنرل ضیا کے دور سے جب نجی شعبے میں اندھا دھند تعلیمی اداروں کی بھر مار شروع ہوئی اور سرکاری اسکولوں میں سفارش اور رشوت تقرری کا معیار ٹہرا تو نظام تعلیم مکمل طور پر زمیں بوس ہوگیا۔حالانکہ ان سے پہلے کے ادوار میں بھی درج بالا اسناد کے کورسز میں ایسے موضوعات کو شامل نہیں کیا جاتا تھا، جو بچے کی فکری اورسماجی نشوونما کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔
مختصراً عرض یہ ہے کہ اسکولوں میں آٹھویں جماعت سے بارھویں جماعت تک حفظان صحت کے مضمون کو لازمی قرار دیا جائے، جس میں جنسی جبلت کے بارے میں مثبت معلومات فراہم کی جائیں، تاکہ نوجوانی کی حدود میں داخل ہونے والے بچوں اور بچیوں کی ذہنی اورفکری تربیت ہوسکے اور انھیں دیگر جبلتوں کی طرح اس جبلت کے بارے میں مثبت معلومات حاصل ہوسکیں۔
PTC،CTاور B.Edکے نصاب میںجدید تحقیق پر مبنی بچوں کی سماجی، ثقافتی اورنفسیاتی تربیت کے موضوعات شامل کیے جائیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی Orientation کا مناسب بندوبست ہو۔ یہ کوشش کی جائے کہ سرکاری اور نجی شعبے کا ہر استاد/استانی ہر تین برس بعد Orientation پروگراموں میں شریک ہو، جن کے ماڈیولز (Modules) حسب ضرورت تبدیل کیے جائیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسکولوں میں بچوں اور بچیوں کی ذہنی تربیت، مساجد میں تمام عمر اور تمام طبقات کی فکری تربیت اور اساتذہ اور پیش امام صاحبان کی وقتاًفوقتاً اورینٹیشن کے ذریعے کمیونٹیز کو شعوری تربیت دے کر متحرک کیا جاسکتا ہے۔جس سے بیشتر نفسیاتی امراض جو کریہہ جرائم کی شکل اختیارکرلیتے ہیں،ان پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے، مگر کلیدی کردار سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ جو عوام کو موبلائز کرنے کی صلاحیت بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، مگر سوال پھر وہیں پہ آکر رک جاتا ہے کہ فیوڈل مائنڈسیٹ رکھنے والی سیاسی قیادتیں اور قبائلی ذہن رکھنے والی مذہبی قیادتیں،کیا اس قدر وسیع القلبی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرسکیں گی کہ معاشرے کو درست سمت میں آگے بڑھایا جاسکے۔