سرکاری اسکول کم اور نجی اسکولوں کی تعداد بڑھنے لگی
20 ہزار پرائیویٹ اسکولوں میں سے12ہزار رجسٹرڈاور8ہزارغیررجسٹرڈہیں، ڈائریکٹریٹ آف انسپکشن پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن
صوبہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کی کمی اور زوال پذیر معیار تعلیم کے باعث نجی اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
کراچی میں نجی اسکولوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا پرائیویٹ اسکول شہرمیں کھل رہا ہے جس کے باعث ہر گلی محلے میں نجی اسکول ضرور نظر آتا ہے پچھلے 5 سال میں صرف کراچی میں ڈیڑھ ہزار نئے نجی اسکولوں کی رجسٹریشن ہوئی ہے جس میں سب سے زیادہ اسکول سال 2014 میں 341 رجسٹرڈ کرائے گئے۔
ذرائع کے مطابق ڈائریکٹریٹ آف انسپکشن آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن کی جانب سے محکمہ تعلیم کو متعدد بار رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ اسکولوں کی اسکول شماری کرانے کے حوالے سے خط ارسال کیے جاچکے ہیں لیکن اسکے باوجود تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوسکی، ڈائریکٹریٹ آف انسپکشن آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن کے۔
ایک اندازے کے مطابق نجی اسکولوں کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے جس میں12 ہزار اسکول رجسٹرڈ اور 8 ہزار غیر رجسٹرڈ ہیں جبکہ نجی اسکولوں کی اسکول شماری کے لیے ورلڈ بینک کی معاونت لی جارہی ہے اور آئندہ 6 ماہ میں نجی اسکولوں کی نمبر شماری مکمل کرلی جائے گی۔
واضح رہے کہ محکمہ تعلیم سندھ کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ کی سالانہ رپورٹ 2016-17 کے مطابق سندھ میں اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی کل تعداد 90 لاکھ 59 ہزار ہے جن میں سرکاری اسکولوں میں42 لاکھ 29 ہزار اور دیگر سرکاری اسکولوں میں 11 لاکھ 98 ہزار، مدارس میں ساڑھے 3 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ نجی اسکولوں میں بچوں کے داخلوں کی تعداد 32 لاکھ 82 ہزار کے قریب ہے جن میں سے پری پرائمری میں 10 لاکھ 54 ہزار طلبہ، دیگر پرائمری اسکولوں میں 14 لاکھ 36 ہزار، مڈل اسکولوں میں7 لاکھ 73 ہزار، سکینڈری میں2 لاکھ 64 ہزار جبکہ ہائر سکینڈری میں 53 ہزار طلبہ وطالبات کا اندراج ہے۔
والدین کاکہنا ہے کہ سرکاری اسکولوں کی حالت زار اور پست معیار تعلیم کے باعث ہر سال گزرنے کے بعد جہاں تعلیم کا معیار بہتر ہونا چاہیے تھا وہاں سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا مستقبل تاریک دکھائی دیتاہے سرکاری اور نجی اسکول میں زیر تعلیم بچوں کی تربیت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اسی لیے پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوررہا ہے۔
جامعہ کلاتھ کی رہائشی ایک بچے کی والدہ نے گفتگو میں کہا کہ سرکاری اسکول بنیادی سہولتوں بجلی ، پانی، چار دیواری، بیت الخلا تک سے محروم ہیں سرکاری اسکولوں میں بچوں کی صلاحیتوں کوتخلیقی سوچ فراہم کرنے کے بجائے زنگ لگ رہا ہے لہذا صاحب حیثیت والدین اس صورتحال میں کبھی بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکول نہیں بھیجیں گے بلکہ علاقے میں موجود ایک چھوٹے سے نجی اسکول میں پڑھانے کو فوقیت دیں گے انتہائی غریب لوگ ہی بحالت مجبوری اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھارہے ہیں ورنہ ہر شخص اپنے بچوں کو نجی اسکول میں تعلیم دلوانا چاہتا ہے۔
کراچی میں نجی اسکولوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا پرائیویٹ اسکول شہرمیں کھل رہا ہے جس کے باعث ہر گلی محلے میں نجی اسکول ضرور نظر آتا ہے پچھلے 5 سال میں صرف کراچی میں ڈیڑھ ہزار نئے نجی اسکولوں کی رجسٹریشن ہوئی ہے جس میں سب سے زیادہ اسکول سال 2014 میں 341 رجسٹرڈ کرائے گئے۔
ذرائع کے مطابق ڈائریکٹریٹ آف انسپکشن آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن کی جانب سے محکمہ تعلیم کو متعدد بار رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ اسکولوں کی اسکول شماری کرانے کے حوالے سے خط ارسال کیے جاچکے ہیں لیکن اسکے باوجود تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوسکی، ڈائریکٹریٹ آف انسپکشن آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن کے۔
ایک اندازے کے مطابق نجی اسکولوں کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے جس میں12 ہزار اسکول رجسٹرڈ اور 8 ہزار غیر رجسٹرڈ ہیں جبکہ نجی اسکولوں کی اسکول شماری کے لیے ورلڈ بینک کی معاونت لی جارہی ہے اور آئندہ 6 ماہ میں نجی اسکولوں کی نمبر شماری مکمل کرلی جائے گی۔
واضح رہے کہ محکمہ تعلیم سندھ کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ کی سالانہ رپورٹ 2016-17 کے مطابق سندھ میں اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی کل تعداد 90 لاکھ 59 ہزار ہے جن میں سرکاری اسکولوں میں42 لاکھ 29 ہزار اور دیگر سرکاری اسکولوں میں 11 لاکھ 98 ہزار، مدارس میں ساڑھے 3 لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ نجی اسکولوں میں بچوں کے داخلوں کی تعداد 32 لاکھ 82 ہزار کے قریب ہے جن میں سے پری پرائمری میں 10 لاکھ 54 ہزار طلبہ، دیگر پرائمری اسکولوں میں 14 لاکھ 36 ہزار، مڈل اسکولوں میں7 لاکھ 73 ہزار، سکینڈری میں2 لاکھ 64 ہزار جبکہ ہائر سکینڈری میں 53 ہزار طلبہ وطالبات کا اندراج ہے۔
والدین کاکہنا ہے کہ سرکاری اسکولوں کی حالت زار اور پست معیار تعلیم کے باعث ہر سال گزرنے کے بعد جہاں تعلیم کا معیار بہتر ہونا چاہیے تھا وہاں سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا مستقبل تاریک دکھائی دیتاہے سرکاری اور نجی اسکول میں زیر تعلیم بچوں کی تربیت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اسی لیے پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوررہا ہے۔
جامعہ کلاتھ کی رہائشی ایک بچے کی والدہ نے گفتگو میں کہا کہ سرکاری اسکول بنیادی سہولتوں بجلی ، پانی، چار دیواری، بیت الخلا تک سے محروم ہیں سرکاری اسکولوں میں بچوں کی صلاحیتوں کوتخلیقی سوچ فراہم کرنے کے بجائے زنگ لگ رہا ہے لہذا صاحب حیثیت والدین اس صورتحال میں کبھی بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکول نہیں بھیجیں گے بلکہ علاقے میں موجود ایک چھوٹے سے نجی اسکول میں پڑھانے کو فوقیت دیں گے انتہائی غریب لوگ ہی بحالت مجبوری اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھارہے ہیں ورنہ ہر شخص اپنے بچوں کو نجی اسکول میں تعلیم دلوانا چاہتا ہے۔