الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعظم کیلئے جسٹس ر میرہزارکھوسو کےنام کی منظوری دے دی
پیپلز پارٹی کی جانب سے نگراں وزیر اعظم کے لئے داکٹر عشرت حسین کے علاوہ ان کا بھی نام تجویز کیا گیا تھا۔
ISLAMABAD:
الیکشن کمیشن نے نگراں وزیر اعظم کے لئے سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس (ر) میر ہزار کھوسو خان کے نام کی منظوری دے دی ہے۔
اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے اجلاس میں دوسرے دن بھی نگراں وزیر اعظم کے لئے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد ، جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار کھوسو ، ڈاکٹر عشرت حسین اور رسول بخش پلیجو کے ناموں پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں باہمی اتفاق رائے کہ بعد نگراں وزیر وزیر اعظم کے لئے سابق چیف جسٹس وفاقی شریعت کورٹ جسٹس (ر) میر ہزار کھوسو کے نام پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔
مشاورت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف الیکشن کمیشن فخرالدین جی ابراہیم نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے ہمیں چار نام بھیجے تھے جن میں جسٹس ناصر اسلم زاہد ، عشرت حسین ،میر ہزار خان کھوسو اور رسول بخش پلیجو شامل ہیں، ہم گذشتہ روز سے ان ناموں پر مشاورت کررہے ہیں جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم ہونا چاہئے، ان کا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کثرت رائے سے ہوا ہے۔
3 ستمبر 1929 کو بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے ایک ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے میر ہزار خان کھوسو نے سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن جبکہ کراچی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1977 میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے آخری ایام میں میر ہزار کھوسو کو بلوچستان ہائی کورٹ کا عارضی جج بنایا گیا تھا تاہم جنرل ضیاءالحق نے انہیں مستقل کیا اور 1991 میں وہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جس کے بعد انہیں وفاقی شرعی عدالت کا جج بنایا گیا اور 1992 میں نواز شریف نے انہیں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے نگراں وزیر اعظم کے لئے ڈاکٹر عشرت حسین کے علاوہ ان کا بھی نام تجویز کیا گیا تھا۔ تاہم وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے بعد پارلیمانی کمیٹی میں بھی کسی نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے آئین کے تحت معاملہ الیکشن کمیشن میں گیا تھا جہاں ان کے نام پر اتفاق کرلیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کا اجلاس سندھ سے کمیشن کے رکن روشن عیسانی کی غیر حاضری اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی طبیعت کی ناسازی کی بنا پر کسی بھی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوگیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے نگراں وزیر اعظم کے لئے سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس (ر) میر ہزار کھوسو خان کے نام کی منظوری دے دی ہے۔
اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے اجلاس میں دوسرے دن بھی نگراں وزیر اعظم کے لئے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد ، جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار کھوسو ، ڈاکٹر عشرت حسین اور رسول بخش پلیجو کے ناموں پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں باہمی اتفاق رائے کہ بعد نگراں وزیر وزیر اعظم کے لئے سابق چیف جسٹس وفاقی شریعت کورٹ جسٹس (ر) میر ہزار کھوسو کے نام پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔
مشاورت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف الیکشن کمیشن فخرالدین جی ابراہیم نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے ہمیں چار نام بھیجے تھے جن میں جسٹس ناصر اسلم زاہد ، عشرت حسین ،میر ہزار خان کھوسو اور رسول بخش پلیجو شامل ہیں، ہم گذشتہ روز سے ان ناموں پر مشاورت کررہے ہیں جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم ہونا چاہئے، ان کا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کثرت رائے سے ہوا ہے۔
3 ستمبر 1929 کو بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے ایک ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے میر ہزار خان کھوسو نے سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن جبکہ کراچی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1977 میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے آخری ایام میں میر ہزار کھوسو کو بلوچستان ہائی کورٹ کا عارضی جج بنایا گیا تھا تاہم جنرل ضیاءالحق نے انہیں مستقل کیا اور 1991 میں وہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جس کے بعد انہیں وفاقی شرعی عدالت کا جج بنایا گیا اور 1992 میں نواز شریف نے انہیں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے نگراں وزیر اعظم کے لئے ڈاکٹر عشرت حسین کے علاوہ ان کا بھی نام تجویز کیا گیا تھا۔ تاہم وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے بعد پارلیمانی کمیٹی میں بھی کسی نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے آئین کے تحت معاملہ الیکشن کمیشن میں گیا تھا جہاں ان کے نام پر اتفاق کرلیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کا اجلاس سندھ سے کمیشن کے رکن روشن عیسانی کی غیر حاضری اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی طبیعت کی ناسازی کی بنا پر کسی بھی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوگیا تھا۔