تعلیم اور امورخانہ داری بیٹیوں کے لیے دونوں ہی ضروری
بچیاں کچھ پکانا شروع کریں تو تنقیدی الفاظ سے گریز کریں بلکہ جتنا ہوسکے ان کا حوصلہ بڑھائیں۔
'' نازنین ! کیا تمھیں بریانی بنانا آتی ہے ؟'' اس کی دوست نے بریانی اور کوک سے لطف اٹھاتے ہوئے اس سے پوچھا۔جسے سن کر وہ خوب ہنسی اور بولی:'' اف ! یہ پوچھو مجھے کیا بنانا آتا ہے ؟ ایک فرائی انڈا اور دوسرا چائے ۔''
اس بات پر اس کی دوست نے بھی قہقہ لگایا اور فخریہ انداز سے بولی:'' مجھے تو یہ بھی نہیں آتا۔'' اس طرح کی بہت سی باتیں جو بچیاں بہت ناز سے کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ میری امی تو مجھے کسی کام کو بھی ہاتھ نہیں لگانے دیتیں، میں تو ویسے بھی اکلوتی ہوں، مجھے کہاں یہ سب کرنا آتا ہے، میرے ہاتھوں پر تو سیاہ نشان پڑ جاتے ہیں، برتن تو دھونا دور کی بات ہے مجھے تو کچن میں جانا ہی بہت مشکل کام لگتا ہے، ارے یہ میرے بس کی بات نہیں ہے اور تو اور میرے یہ خوب صورت ناخن بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور ویسے بھی یہ ملازمائیں کس مرض کی دوا ہیں ۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بنتا جارہا ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو تعلیم تو دلارہی ہیں مگر انھیں امور خانہ داری سے دور رکھنے کی سعی بھی کرتی ہیں۔ باورچی خانے میں اکثر مائیں سارا دن کام کرتی ہیں اور بیٹیاں آرام طلبی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ بچیوں کو اگر بچپن سے ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنا سکھائے جائیں تو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں باورچی خانے میں سلیقے سے کام کرنے اور دوسرے گھریلو امور میں دل چسپی پیدا ہوجائے گی۔
مائوں کو چاہیے کہ باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے بیٹیوں کو بھی ساتھ رکھیں اور ان کے ذمے چھوٹے چھوٹے کام لگانا شروع کردیں۔ اگر آپ کھانا بنا رہی ہیں تو ان سے کہیے کہ آپ کو برتن اور مسالا جات کے ڈبے اٹھا کر دیتی جائیں۔ سبزی کی ٹوکریاں دھلنے کے لیے سنک پر رکھی ہیں تو وہ دھو دیں۔
باورچی خانے میں رکھی کرسیوں کو اچھی صاف کردیں ،شیلف کے برتنوں کو ترتیب لگادیں۔ اس سے یہ ہوگا ایک تو ان کو کام کرنے کی عادت ہوگی اور دوسرا ان کا ذہن گھریلو کاموں میں دل چسپی لینا شروع کردے گا۔ پڑھائی کے وقت ان کو اسکول کا کام اچھی طرح کرنے دیں جب فارغ ہوں یا چھٹی کا دن ہو تو ان کو ایسے ہی چھوٹے موٹے اور سہل کاموں کی ترغیب دیتی رہیں۔ ان سے ہلکا پھلکا سلاد ،رائتا بنوالیں، چاول بنا رہی ہوں تو پودینے کی چٹنی ان سے بنوائیں، لہسن اور مٹر چھیلنے کا کام تھما دیں۔
روٹی بنا رہی ہوں تو ساتھ ساتھ ان سے آلو کی بھجیا بنوالیں ۔ ساگودانہ بچیاں اسکول میں خانہ داری کے پیریڈ میں شوق سے بنا نا سکیھتی ہیں آپ گھر پر ان سے بنوا کر د یکھیں۔ کسٹرڈ پر جیلی کی سجاوٹ کرالیں ۔ شام کی چائے کے ساتھ پکوڑوں کا مسالا بنوالیں۔ صبح کے ناشتے کے لیے مکھن اور دہی بنانا سکھادیں۔
میز پر برتن لگانا سکھائیں اور مہمانوں کو کس طرح کھانا پیش کیا جاتا ہے اس پر بھی کچھ اشارے دیتی جائیں ۔کچھ دن بعد آپ محسوس کریں گی کہ وہ آپ کے کہے بغیر ہی باورچی خانے کی طرف بھاگتی چلی آئی ہیں اور اپنے شوق اور تجربے سے سبق سیکھ کر خودہی مختلف کاموں میں لگ جائیں گی ۔ اسی طرح وہ آپ کی زیر تربیت امور خانہ داری سیکھنا شروع کردیں گی۔ البتہ آپ کو ایک بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ کسی بھی کام میں مہارت حاصل کرلیناآسان نہیں ہوتا۔
بچیاں کچھ پکانا شروع کریں تو تنقیدی الفاظ سے گریز کریں بلکہ جتنا ہوسکے ان کا حوصلہ بڑھائیں ،کچھ مائیں یہ توقع کرتی ہیں کہ ان کی بیٹی کے ہاتھ میں بالکل ویسا ہی ذائقہ ہو جیسا ان کے ہاتھ میں ہے۔ آپ اسے پیار اور تحمل سے سمجھائیں پھر اس طرح وہ دھیرے دھیرے ذٓائقے دار کھانا بنانا سیکھ جائے گی۔
کمروں کی صفائی کرنے لگیں تو بچیوں کو بھی اس کام میں ساتھ رکھیں۔ الماریوں میں کپڑوں کو ترتیب سے رکھوائیں۔ کمرے کی بکھری چیزیں سمیٹ کر ان کی مطلوبہ جگہوں پر رکھوائیں۔ ابو اور بھائیوں کے دھلے ہوئے کپڑے ان کی الماریوں میں رکھوانے کے بعد بستر کی چادریں بھی ان کی مدد سے تبدیل کریں۔کمرا دھوتے ہوئے ان سے وائپر لگواتی جائیں۔ میز اور کھڑکیوں کی صفائی کا کام دے دیں ۔یہ سب کام ایک دن میں ہی کرنا ضروری نہیں ہیں بلکہ وقتا فوقتا اپنی بچیوں کی تربیت اور امورخانہ داری میں ماہر بنانے کے لیے ہفتے میں ایک بار ضرور کروائیں ۔
کپڑوں کی سلائی کرنے لگیں تو بچیوں کو بھی بٹن لگانا، ترپائی کرنا سکھائیں اور گڑیوں کے کپڑوں کی کٹائی کر دیں تاکہ وہ الٹی سیدھی سلائی کر کے تجربہ حاصل کریں۔ ڈرائنگ روم اور کمروں کے لیے چھوٹے چھوٹے کشن بنوا کر ان پر کڑھائی کے مختلف ڈیزائن بھی سکھا دیںتاکہ ان میں سلائی کے ساتھ ساتھ کڑھائی کا بھی شوق پیدا ہو ۔چائے دانی کی ٹکوزی بھی کاٹ کر دیں تاکہ وہ گھر میں استعمال ہونے والی چیزوں کی سلائی پر عبور حاصل کرلیں۔
پھر آہستہ آہستہ وہ سلائی میں ماہر ہو جائیںگی اور اپنی پسند کے کپڑے خود ہی سلائی کر نا شروع کردیں گی جس سے گھریلو اخراجات میں کمی بھی آئے گی۔ کپڑوں کی دھلائی کرنی ہو تو انھیں سمجھائیں کہ رنگ دار کپڑوں کو الگ الگ کرکے مشین میں ڈالنا ہے، پردے اور وزنی کمبل ایک ساتھ مشین میں دھلائی کے لیے نہیں ڈالنے، مہنگے اور ریشمی کپڑے کو مشین کی بجائے ہاتھ سے دھونے کو ترجیح دیں کیوں کہ اس طرح ان کی نفاست بھی برقرار رہے گی اور ان کا رنگ بھی خراب نہیں ہوگا۔
لڑکیاں چاہے پیشہ ورانہ زندگی میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرجائیں لیکن اگر وہ امور خانہ داری اور گھریلو معیشت سے واقف نہیں ہیں تو سمجھیں کہ ان کی تربیت میں بہت بڑی کمی رہ گئی ہے جس کا اندازہ والدین اوربالخصوص مائوں کو بعد میں ہوتا ہے ۔اس لیے ابتدائی عمر سے ہی بچیوں کو ان امور سے آ گاہی فراہم کی جائے تاکہ ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار انداز سے گزرے ۔
اس بات پر اس کی دوست نے بھی قہقہ لگایا اور فخریہ انداز سے بولی:'' مجھے تو یہ بھی نہیں آتا۔'' اس طرح کی بہت سی باتیں جو بچیاں بہت ناز سے کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ میری امی تو مجھے کسی کام کو بھی ہاتھ نہیں لگانے دیتیں، میں تو ویسے بھی اکلوتی ہوں، مجھے کہاں یہ سب کرنا آتا ہے، میرے ہاتھوں پر تو سیاہ نشان پڑ جاتے ہیں، برتن تو دھونا دور کی بات ہے مجھے تو کچن میں جانا ہی بہت مشکل کام لگتا ہے، ارے یہ میرے بس کی بات نہیں ہے اور تو اور میرے یہ خوب صورت ناخن بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور ویسے بھی یہ ملازمائیں کس مرض کی دوا ہیں ۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بنتا جارہا ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو تعلیم تو دلارہی ہیں مگر انھیں امور خانہ داری سے دور رکھنے کی سعی بھی کرتی ہیں۔ باورچی خانے میں اکثر مائیں سارا دن کام کرتی ہیں اور بیٹیاں آرام طلبی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ بچیوں کو اگر بچپن سے ہی چھوٹے چھوٹے کام کرنا سکھائے جائیں تو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں باورچی خانے میں سلیقے سے کام کرنے اور دوسرے گھریلو امور میں دل چسپی پیدا ہوجائے گی۔
مائوں کو چاہیے کہ باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے بیٹیوں کو بھی ساتھ رکھیں اور ان کے ذمے چھوٹے چھوٹے کام لگانا شروع کردیں۔ اگر آپ کھانا بنا رہی ہیں تو ان سے کہیے کہ آپ کو برتن اور مسالا جات کے ڈبے اٹھا کر دیتی جائیں۔ سبزی کی ٹوکریاں دھلنے کے لیے سنک پر رکھی ہیں تو وہ دھو دیں۔
باورچی خانے میں رکھی کرسیوں کو اچھی صاف کردیں ،شیلف کے برتنوں کو ترتیب لگادیں۔ اس سے یہ ہوگا ایک تو ان کو کام کرنے کی عادت ہوگی اور دوسرا ان کا ذہن گھریلو کاموں میں دل چسپی لینا شروع کردے گا۔ پڑھائی کے وقت ان کو اسکول کا کام اچھی طرح کرنے دیں جب فارغ ہوں یا چھٹی کا دن ہو تو ان کو ایسے ہی چھوٹے موٹے اور سہل کاموں کی ترغیب دیتی رہیں۔ ان سے ہلکا پھلکا سلاد ،رائتا بنوالیں، چاول بنا رہی ہوں تو پودینے کی چٹنی ان سے بنوائیں، لہسن اور مٹر چھیلنے کا کام تھما دیں۔
روٹی بنا رہی ہوں تو ساتھ ساتھ ان سے آلو کی بھجیا بنوالیں ۔ ساگودانہ بچیاں اسکول میں خانہ داری کے پیریڈ میں شوق سے بنا نا سکیھتی ہیں آپ گھر پر ان سے بنوا کر د یکھیں۔ کسٹرڈ پر جیلی کی سجاوٹ کرالیں ۔ شام کی چائے کے ساتھ پکوڑوں کا مسالا بنوالیں۔ صبح کے ناشتے کے لیے مکھن اور دہی بنانا سکھادیں۔
میز پر برتن لگانا سکھائیں اور مہمانوں کو کس طرح کھانا پیش کیا جاتا ہے اس پر بھی کچھ اشارے دیتی جائیں ۔کچھ دن بعد آپ محسوس کریں گی کہ وہ آپ کے کہے بغیر ہی باورچی خانے کی طرف بھاگتی چلی آئی ہیں اور اپنے شوق اور تجربے سے سبق سیکھ کر خودہی مختلف کاموں میں لگ جائیں گی ۔ اسی طرح وہ آپ کی زیر تربیت امور خانہ داری سیکھنا شروع کردیں گی۔ البتہ آپ کو ایک بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ کسی بھی کام میں مہارت حاصل کرلیناآسان نہیں ہوتا۔
بچیاں کچھ پکانا شروع کریں تو تنقیدی الفاظ سے گریز کریں بلکہ جتنا ہوسکے ان کا حوصلہ بڑھائیں ،کچھ مائیں یہ توقع کرتی ہیں کہ ان کی بیٹی کے ہاتھ میں بالکل ویسا ہی ذائقہ ہو جیسا ان کے ہاتھ میں ہے۔ آپ اسے پیار اور تحمل سے سمجھائیں پھر اس طرح وہ دھیرے دھیرے ذٓائقے دار کھانا بنانا سیکھ جائے گی۔
کمروں کی صفائی کرنے لگیں تو بچیوں کو بھی اس کام میں ساتھ رکھیں۔ الماریوں میں کپڑوں کو ترتیب سے رکھوائیں۔ کمرے کی بکھری چیزیں سمیٹ کر ان کی مطلوبہ جگہوں پر رکھوائیں۔ ابو اور بھائیوں کے دھلے ہوئے کپڑے ان کی الماریوں میں رکھوانے کے بعد بستر کی چادریں بھی ان کی مدد سے تبدیل کریں۔کمرا دھوتے ہوئے ان سے وائپر لگواتی جائیں۔ میز اور کھڑکیوں کی صفائی کا کام دے دیں ۔یہ سب کام ایک دن میں ہی کرنا ضروری نہیں ہیں بلکہ وقتا فوقتا اپنی بچیوں کی تربیت اور امورخانہ داری میں ماہر بنانے کے لیے ہفتے میں ایک بار ضرور کروائیں ۔
کپڑوں کی سلائی کرنے لگیں تو بچیوں کو بھی بٹن لگانا، ترپائی کرنا سکھائیں اور گڑیوں کے کپڑوں کی کٹائی کر دیں تاکہ وہ الٹی سیدھی سلائی کر کے تجربہ حاصل کریں۔ ڈرائنگ روم اور کمروں کے لیے چھوٹے چھوٹے کشن بنوا کر ان پر کڑھائی کے مختلف ڈیزائن بھی سکھا دیںتاکہ ان میں سلائی کے ساتھ ساتھ کڑھائی کا بھی شوق پیدا ہو ۔چائے دانی کی ٹکوزی بھی کاٹ کر دیں تاکہ وہ گھر میں استعمال ہونے والی چیزوں کی سلائی پر عبور حاصل کرلیں۔
پھر آہستہ آہستہ وہ سلائی میں ماہر ہو جائیںگی اور اپنی پسند کے کپڑے خود ہی سلائی کر نا شروع کردیں گی جس سے گھریلو اخراجات میں کمی بھی آئے گی۔ کپڑوں کی دھلائی کرنی ہو تو انھیں سمجھائیں کہ رنگ دار کپڑوں کو الگ الگ کرکے مشین میں ڈالنا ہے، پردے اور وزنی کمبل ایک ساتھ مشین میں دھلائی کے لیے نہیں ڈالنے، مہنگے اور ریشمی کپڑے کو مشین کی بجائے ہاتھ سے دھونے کو ترجیح دیں کیوں کہ اس طرح ان کی نفاست بھی برقرار رہے گی اور ان کا رنگ بھی خراب نہیں ہوگا۔
لڑکیاں چاہے پیشہ ورانہ زندگی میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرجائیں لیکن اگر وہ امور خانہ داری اور گھریلو معیشت سے واقف نہیں ہیں تو سمجھیں کہ ان کی تربیت میں بہت بڑی کمی رہ گئی ہے جس کا اندازہ والدین اوربالخصوص مائوں کو بعد میں ہوتا ہے ۔اس لیے ابتدائی عمر سے ہی بچیوں کو ان امور سے آ گاہی فراہم کی جائے تاکہ ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار انداز سے گزرے ۔