بھارتاسرائیل اور امریکہ مل کر پاکستان کے گرد گھیرا ڈال رہے ہیں

دفاعی و خارجہ امور کے ماہرین کا ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال.

دفاعی و خارجہ امور کے ماہرین کا ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

امریکہ کی جانب سے یروشلم میں سفارتخانہ کھولنے کے اعلان کے بعد پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک میں شدید تشویش پائی جاتی ہے ،رہی سہی کسر امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف ٹویٹ دے کر نکال دی ہے جس سے خطہ میں عدم استحکام کی فضاپیداہوگئی ہے،ان دنوں امریکہ اور پاکستان کے مابین لفظی جنگ عروج پر ہے۔

امریکہ پاکستان کو ناقابل اعتبار کہتاہے کہ جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ اربوں ڈالر کانقصان اور ستر ہزار جانیں دینے کے باوجود بھی اگر ہم دوست نہیں تو پھر ہمیں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی ،امریکہ سے تعلقات کا ازسرنوجائزہ لینا ہوگا اور آزاد خارجہ پالیسی کے لیے خطے کے دوست ممالک سے مشاورت کرنا ہوگی،دوسری طرف اسرائیل اور بھارت آپس میں مختلف معاہدے کررہے ہیں۔مشرق وسطیٰ ، جنوبی ایشیاء،افغانستان میں امریکی ناکامی، داعش کی معاونت ، پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات، بھارتی چودھراہٹ کی خواہش ،کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل پر تبصرہ اور تجزیہ کے لیے روزنامہ ایکسپریس نے دفاعی، داخلی وخارجہ امور کے ماہرین کو فورم میں مدعو کیاجس کی روداد نذرقارئین ہے۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان، دفاعی تجزیہ نگار وچیئرپرسن سائوتھ ایشین سٹرٹیجک سٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ(ساسی یونیورسٹی)

امریکہ کی پاکستان کے بارے میں پالیسی کا مسئلہ انتہائی حساس اور اہم ہے اس کی بنیاد پر افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جاناہے ،اس وقت امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی آئی ہے تاہم اس کی شروعات 1999ء میں ہوچکی تھیں،امریکہ نے انڈیا کے ساتھ چار مختلف ایشوز پر تعلقات استوار کرنے کی پالیسی بنائی ہے اس میں دفاعی معاہدے ،دفاعی پیداوار، دفاعی صلاحیت کی بہتری اور دفاعی معاملات کو درست کرناہے ،دفاعی تجارت ، لاجسٹک سپورٹ،لاجسٹک کمیونی کیشن، مشترکہ دفاعی تعاون جیسے معاہدے شامل ہیں ،اسی طرح بحرہند میں امریکہ کو رسائی دینا ، ایٹمی کلب میں انڈیا کو شامل کرنا بھی شامل ہیں ،پالیسی کا چوتھا حصہ انڈیا کی میزائل ٹیکنالوجی ، سیٹلائٹ، خلائی پروگرام اور ثقافتی معاہدے ہیں،ہندوستان اور امریکہ مشترکہ دفاع، بندرگاہیں، مشترکہ ایکشن اور مشترکہ تعاون میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے ،امریکہ بھارتی فوج کوتربیت دے گا،ڈرون ٹیکنالوجی،کے استعمال کی تربیت بھی اس میں شامل کی گئی ہے ۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ خطہ میں امریکی پالیسی محض مفروضے یا راتوں رات نہیں بنائی گئی اس پر گزشتہ سترہ سال سے عمل جاری ہے، جماعت الدعوۃ پر پاپندی، کشمیر اور افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ کی راہیں ہموار کرنا بھی اس پالیسی کاحصہ ہے۔اس وقت افغانستان میں انڈیا امریکی سٹرٹیجک پارٹنر ہے،امریکہ اسے وہاں آگے کرنا چاہتاہے لیکن انڈیا اپنی فوج وہاں بھیجنے پر راضی نہیں ہے، امریکہ افغانستان میں گزشتہ سترہ سال سے نہ تو امن لاسکاہے، نہ کوئی معاہدہ کرپایاہے،نہ مسئلہ حل کرنے میں پیش رفت ہوسکی ہے،طویل جنگ کے باوجود ابھی تک کسی ایک طالبان گروپ نے بھی افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیاہے ۔اس وقت امریکی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو اس کا ذمہ دارٹھہرارہی ہے جبکہ امریکہ میں ایک دوسرہ گروہ ہے جو افغانستان میں موجود فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کو مسئلے کاحل سمجھتے ہوئے تعاون جاری رکھنے کا خواہش مندہے،امریکی فوج اور حکومت پاکستان کے حق میں جبکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے خلاف ہے ،سی آئی اے کا موقف ہے کہ افغان مسئلے کا ذمہ دار پاکستان ہے اور پاکستان پر دبائوڈال کر اس مسئلے کو حل کرایا جاسکتاہے،امریکہ خود افغانستان میں داعش کو تیار کرنے میں ملوث ہے جس کے ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں ، سترہ سال میں 183 ارب ڈالر اخراجات،70ہزار جانیں دینے کے بعد اب پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ کی تیاریاںکی جارہی ہیں اس کا آغاز افغانستان سے شروع کیا جاچکاہے جہاں پر امریکی ہیلی کاپٹرداعش کے جنگجوئوں کو جنوب سے شمال اور شمال سے جنوب میں منتقلی کرتے پائے گئے ہیںیہ دہشت گردی کو ختم کرنے کی بجائے دہشت گردوں کی معاونت کے مترادف ہے ،پاکستان کو اپنی سرحدیں محفوظ،اپنی سرزمین دوسروں کے خلاف جبکہ افغان سرزمین اپنے خلاف استعمال کرنے سے روکنا ہوگا، پشتون علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے اورپاکستان کو واضح کرنا ہے کہ پاکستان امن کے لیے ہرممکن کوشش کرے گا لیکن امریکی جنگ افغانستان میں جا کرنہیں لڑے گا۔


جہاں تک انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات کی بات ہے تو بلاشبہ اسرائیلی وزیراعظم کی انڈیا آمد بڑا فیصلہ ہے ۔اس دوران فریقین کے مابین ساٹھ سے زائد معاہدے ہوئے ہیں،ان میں حساس ٹیکنالوجی، عسکری معاونت، خلائی منصوبے،ماحولیاتی شعبہ جات اور زراعت کے منصوبے شامل ہیں اس سے پاکستان کو ماحولیاتی طورپر بھی نقصان ہوگا ،امریکہ اور اسرائیل کا تعاون نیا نہیں ہے یہ1960ء سے چل رہاہے دنیا میں امریکہ سے امداد لینے والا بڑا ملک اسرائیل ہے ،امریکہ سے دفاعی تعاون لینے والا بڑا ملک بھی اسرائیل ہی ہے ،حالیہ معاہدہ جات کا مقصد ہندستان کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا اور پاکستان کو معاشی طورپر نقصان پہنچاناہے ،یروشلم کوتسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کو آسان نہ سمجھاجائے اگر یہ مان لیا گیا تو یہی کام امریکہ کشمیر میںبھی کرے گا ۔اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ امریکی چھتری میں ہواہے اور یہ کشمیر کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے،اس وقت ہمیں واضح اورفعال خارجہ پالیسی بنانی ہوگی ،کشمیر کے مسئلے پر سنجیدگی سے بات کرنا ہوگی۔پاکستان نے حال ہی میں جو قومی بیانیہ پیش کیاہے یہ بہت اہم ہے تاہم اگر یہ فتویٰ سترہ سال پہلے آجاتا تو ہمیں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ نہ لڑنا پڑتی ،یہ بیانیہ اجتہاد کی ایک نئی قسم ہے جو مسلمانوں نے پس پشت ڈالا ہواتھا،اس وقت ہم پر مسلکی جنگ ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہمیں آپس میں لڑانے کے لیے فرقہ واریت کا سہارالیا جارہاہے ۔اس وقت اسلامی دنیا کو ایک بہتر پلیٹ فارم کی ضرورت ہے ، اقوام متحدہ ہمارے پہلے ہی خلاف ہے، او آئی سی غیرفعال ہوچکی ہے ، ایسے میں سعودی قیادت میں بننے والے اسلامی عسکری اتحاد کوکامیاب بنانے کی ضرورت ہے ، دیکھنے کی بات ہے کہ واچ لسٹ میں جن ممالک کو ڈالا گیا ان میں سعودی عرب، ایران، ترکی اور پاکستان سمیت یہ چار اسلامی ممالک ایسے ہیں جو اس وقت مسلم دنیا میں طاقت ور سمجھے جاتے ہیں امریکہ اور مغرب انہی ممالک کے خلاف سازشوں میں مشغول ہے ہمیں اس کاادراک کرناہوگا، اسلامی عسکری اتحاد کو نیٹو اتحاد کی شکل دی جائے اور اس میں تمام مسلم ممالک کو بلاتفریق شامل کیا جائے ۔سترہ سال بعد اگر امریکہ افغان مسئلے کا مذاکراتی حل نکالنے کی بات کرتاہے تو ہمیں شام اور یمن سمیت دیگر اسلامی ممالک کے مسائل کو باہمی مذاکرات سے حل کرنا چاہیے ،اس حوالے سے اسلامی عسکری اتحاد اچھا پلیٹ فارم بن سکتاہے جس سے اسلامی دنیا اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔

آمنہ افضل (ڈائریکٹر سٹرٹیجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد)

پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے اور پاکستان پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔امریکی فوج اور حکومت اگرچہ افغانستان سے متعلق پاکستان کے کردار کو اہمیت دیتی ہیں اور پاکستان کی قربانیوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ہر اچھے برے وقت میں پاکستان مخالف بیان بازی ہی کی ہے اور ان کی جانب سے ہمیشہ ''ڈومور''کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ امریکہ ہمیشہ پاکستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور پاکستان کی سرزمیں دہشت گردی کیلئے استعمال ہورہی ہے۔ امریکہ کے اس الزام پر پاکستان نے مختلف اوقات میں پاکستان بھر کے مختلف علاقہ جات میں ٹھوس آپریشنز کئے اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کابھی خاتمہ کیاگیایہی وجہ ہے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے اور دہشت گردوں کی حقیقی معنوں میں کمر توڑی گئی ہے ،دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستانی فوج اور عوام نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی مگر اس کے باجود امریکہ کی جانب سے ڈو مور کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکا کی جانب سے پاکستان پر متعدد بار دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا جا چکا ہے جس کے جواب میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور امریکہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پرڈالنے کے لیے بے بنیاد الزامات عائد نہ کرے کیونکہ ایسے الزامات سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو شدید نقصان اور خطے میں عدم استحکام کا خطرہ ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار پاکستان کی حکومت، فوج ، پارلیمان اور سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر امریکی صدر کے حالیہ بیانات اوربے بنیاد الزامات کا منہ توڑ جواب دیا ہے جس کے باعث وہ بیک فٹ پر چلے گئے اور معاملات کو سلجھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ امریکا اب افغانستان میں مذاکرات نہیں چاہتا بلکہ اب وہ افغانستان میںلڑاو اور حکومت کروکے تحت نئی گیم کھیلنے کیلئے بیٹھا ہے، امریکا افغانستان میں بیٹھ کر ایران، روس اور پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے،امریکہ کو افغانستان میں سیاسی،اخلاقی اور ملٹری سطح پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اب وہ اپنی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہرانا چاہتا ہے ۔امریکہ پر اب واضح کردینا چاہئے کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے اور دوسرے ملکوں میں بھی امن چاہتا ہے اب پاکستان کو کوئی طاقت مزید ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی۔ امریکہ دراصل انڈیا کو اس خطے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ بھارت کوچین کے مقابلے میں کھڑا کرسکے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اب امریکہ کے بعد اسرائیل نے بھی انڈیا کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنرشپ قائم کرنے کیلئے پلان تیار کیا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا دورہ انڈیا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے مابین مختلف شعبوں میں اہم معاہدے ہوئے ہیں۔ جس انداز میں انڈیا کے حکمران امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھا کر پاکستان پر دباو بڑھانا چاہتے ہیں پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ انڈیا ، امریکہ اور اسرائیل گٹھ جوڑ کے توڑ کیلئے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دے خاص طور پر اسلامی ممالک کی بننے والی حالیہ دفاعی اتحاد کو موثر بنانے کیلئے کردار ادا کریں۔

ڈاکٹر محمد عرفان ( پروفیسربین الاقوامی سلامی یونیورسٹی اسلام آباد)

پاکستان ایٹمی طاقت کا حامل ایک اہم اسلامی ملک ہے جس کے باعث دنیا میں پاکستان کو اہم مقام حاصل ہے ، پاکستان وہ ملک ہے جو اسلامی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا اور اسی نظریہ کے تحت ترقی کی ہے۔پاکستان کو روز اول سے ہی انڈیا نے تسلیم کرنے سے انکار کیا جبکہ پاکستان کی تیزی سے ترقی نے انڈیا کو پاکستان کا مزید دشمن بنایا ۔ پاکستان کے خلاف اقوام عالم میں سازشیں کیں لیکن پاکستان نے انڈیا کی چالوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔آج پاکستان ایٹمی ملک بھی ہے اور چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے تحت اپنی معیشت کو بھی مزید بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے ، اب یہ بات انڈیا کیلئے قابل قبول نہیں ہے کیو نکہ انڈیا کے دونوں اہم ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین اس کے مخالف ہیں، چین نے انڈیا کے مقابلے میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو ناکام بنایا ہے ، جس کے باعث اب انڈیا ،پاکستان اور چین کے مقابلے میں امریکہ اور اسرائیل کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں کررہاہے تاکہ وہ اس خطے میں امریکہ اسرائیل کی گٹھ جوڑ سے اپنی چودھراہٹ قائم کرسکے۔اسی پلان کے تحت اسرائیل کے ساتھ بھی معاہدے کئے جارہے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ خطہ اس وقت میدان جنگ بنا ہوا ہے ، ہر طرف اسلحہ اور جنگی سازوسامان کی خریداری کے معاہدے کئے جارہے ہیں،اگر ان کا استعمال ہو جائے تو خطے کی ماحول پر کیا اثر پڑے گا۔جرمن واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ خطہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بری طرح متاثر ہونے والے ملکوں میں سے سب سے آگے ہے۔اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ان تمام تر سرگرمیوں سے یہاں کا ماحول بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔پاکستان میں دہشتگردی سے متعلق مذہبی سکالرز کی جانب سے جو تازہ قومی بیانیہ سامنے آیا ہے یہ ایک انتہائی اہم قدم ہے، اگرچہ یہ قدم بہت پہلے اٹھانا چاہئے تھا لیکن دیر آید درست آید۔نیا قومی بیانیہ ایک کامیابی ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ تمام مسلم ممالک کیلئے بھی اہمیت کا حامل ہے۔
Load Next Story