پولیس نے بچی کے اغوا کے پہلے پانچ دن تک کچھ نہیں کیا والد زینب
پولیس صرف چائے پانی پی کر چلی جاتی تھی، محمد امین
MUZAFFARABAD:
قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کم سن زینب کے والد نے بتایا ہے کہ پولیس نے بچی کے اغوا کے پہلے پانچ دن تک کچھ نہیں کیا۔
اسلام آباد میں سینیٹ کمیٹی برائے داخلہ کا سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں قصور میں زینب اور مردان میں عاصمہ کیساتھ زیادتی و قتل کے واقعات کی مذمت کی گئی۔ اجلاس میں ننھی زینب کے والد محمد امین، والدہ اور پنجاب پولیس کے حکام بھی شریک ہوئے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی تفتیش مکمل کرنے کیلئے 72 گھنٹوں کی مہلت
مقتولہ زینب کے والد محمد امین نے سینٹ کمیٹی کو بتایا کہ میری بیٹی سپارہ پڑھنے جاتی تھی، 4 جنوری جمعرات کے روز واقعہ پیش آیا، میری بیٹی کے پاس اس روز پیسے بھی تھے، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت بچی کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، جس روز بچی اغوا ہوئی اسی رات ریسکیو ون فائیو پر کال کی، لیکن پولیس نے بچی کو ڈھونڈنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا، پولیس والے آتے تھے کینو کھاتے اور چائے پی کر چلے جاتے تھے، پولیس نے بچی کے اغوا کے پہلے پانچ دن تک کچھ بھی نہیں کیا، ہم نے سراغ رساں کتوں کو بلانے کا کہا اور خرچہ بھی دیا لیکن پولیس نے کتے نہیں بلائے۔
محمد امین نے بتایا کہ ہم نے اپنی فیملی کے کم سے کم 100 لوگوں کا ڈی این اے کروایا ہے جب کہ پولیس ہمارے پڑوسیوں اور آس پاس رہنے والوں کو تنگ کر رہی ہے، گرفتار کئے گئے لوگوں میں 3 مشکوک افراد عمر،آصف اور رانجھا شامل ہیں، پولیس نے بتایا ہے کہ گرفتار ملزمان کا زینب سے کوئی تعلق نہیں، قصور کی ایک اور بچی بھی اغوا ہوئی ہے جس کی رپورٹ درج نہیں کی گئی اور پولیس نے مغوی بچی کے والدین کو ڈرایا ہوا ہے۔
زینب کی والدہ نے روتے ہوئے دہائی دی کہ پولیس کہتی ہے زینب کا قاتل سیریل کلر ہے، وہ سیریل کلر بنا بھی تو پولیس کی چھوٹ کی وجہ سے ہے، جس نے میری بیٹی کے ساتھ ایسا کیا وہ درندے سے بھی زیادہ بڑھ کر ہے، مجھے لگتا ہے وہ غرق ہو گیا ہے، ملزم کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور اسے بس ایک بار ایک ماں کی عدالت میں لایا جائے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: قصور میں 8 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد لرزہ خیز قتل
انچارج انویسٹی گیشن ٹیم ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش نے بریفنگ میں بتایا کہ جولائی سے اب تک کی تحقیقات کے مطابق زینب کے علاوہ دیگر بچیوں عاصمہ، لائبہ، تہمینہ، نور فاطمہ، ایمان فاطمہ، ثنا کے ساتھ زیادتی ہوئی، 31 اکتوبر 2017 سے اب تک 696 ڈی این اے کیے گئے اور 692 لوگوں سے تحقیقات کی گئیں، 125 ڈی این اے کا رزلٹ ابھی تک نہیں آیا، زینب کا قاتل کل بھی پکڑا جا سکتا ہے اور کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں، یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے، ہم نے ایک ایسا ملزم بھی پکڑا جس نے ایک سال میں پچیس فون سمیں بدلیں، اس ملزم کا بھی ڈی این اے کروایا گیا ہے۔
ڈی آئی جی مردان نے عاصمہ قتل کیس کے بارے میں کمیٹی کو بتایا کہ 13 جنوری کو بچی عاصمہ اغوا ہوئی، پوسٹ مارٹم کروایا گیا جس سے پتہ چلا کہ گلا دبا کر قتل کیا گیا۔ ریپ، قتل اور انتقام کو مد نظر رکھ کر تحقیقات کی جا رہی ہیں، جیو فینسنگ بھی کی جارہی ہے اور تحقیقات کو ہر طرح سے آگے بڑھایا جا رہا ہے.
اجلاس میں زینب اور عاصمہ کے لیے دعا کرائی گئی اور واقعات کے خلاف قرارداد مذمت منظور کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بچوں کے ساتھ اغوا و زیادتی کے مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جائے، بچوں کے ساتھ ہونےوالے جرائم پر کمیشن قائم کیا جائے اور پولیس فوری مدد کے لیے ایک واٹس ایپ نمبر متعارف کروائے۔
اجلاس میں سینیٹر شاہی سید کی سربراہی میں ایک خصوصی ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی گئی جو پورے ملک میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرے گی۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ کمیٹی چار ہفتوں کی اندر رپورٹ پیش کرے گی اور ایسے جرائم کے اسباب اور سدباب کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔
قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کم سن زینب کے والد نے بتایا ہے کہ پولیس نے بچی کے اغوا کے پہلے پانچ دن تک کچھ نہیں کیا۔
اسلام آباد میں سینیٹ کمیٹی برائے داخلہ کا سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں قصور میں زینب اور مردان میں عاصمہ کیساتھ زیادتی و قتل کے واقعات کی مذمت کی گئی۔ اجلاس میں ننھی زینب کے والد محمد امین، والدہ اور پنجاب پولیس کے حکام بھی شریک ہوئے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی تفتیش مکمل کرنے کیلئے 72 گھنٹوں کی مہلت
مقتولہ زینب کے والد محمد امین نے سینٹ کمیٹی کو بتایا کہ میری بیٹی سپارہ پڑھنے جاتی تھی، 4 جنوری جمعرات کے روز واقعہ پیش آیا، میری بیٹی کے پاس اس روز پیسے بھی تھے، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت بچی کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، جس روز بچی اغوا ہوئی اسی رات ریسکیو ون فائیو پر کال کی، لیکن پولیس نے بچی کو ڈھونڈنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا، پولیس والے آتے تھے کینو کھاتے اور چائے پی کر چلے جاتے تھے، پولیس نے بچی کے اغوا کے پہلے پانچ دن تک کچھ بھی نہیں کیا، ہم نے سراغ رساں کتوں کو بلانے کا کہا اور خرچہ بھی دیا لیکن پولیس نے کتے نہیں بلائے۔
محمد امین نے بتایا کہ ہم نے اپنی فیملی کے کم سے کم 100 لوگوں کا ڈی این اے کروایا ہے جب کہ پولیس ہمارے پڑوسیوں اور آس پاس رہنے والوں کو تنگ کر رہی ہے، گرفتار کئے گئے لوگوں میں 3 مشکوک افراد عمر،آصف اور رانجھا شامل ہیں، پولیس نے بتایا ہے کہ گرفتار ملزمان کا زینب سے کوئی تعلق نہیں، قصور کی ایک اور بچی بھی اغوا ہوئی ہے جس کی رپورٹ درج نہیں کی گئی اور پولیس نے مغوی بچی کے والدین کو ڈرایا ہوا ہے۔
زینب کی والدہ نے روتے ہوئے دہائی دی کہ پولیس کہتی ہے زینب کا قاتل سیریل کلر ہے، وہ سیریل کلر بنا بھی تو پولیس کی چھوٹ کی وجہ سے ہے، جس نے میری بیٹی کے ساتھ ایسا کیا وہ درندے سے بھی زیادہ بڑھ کر ہے، مجھے لگتا ہے وہ غرق ہو گیا ہے، ملزم کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور اسے بس ایک بار ایک ماں کی عدالت میں لایا جائے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: قصور میں 8 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد لرزہ خیز قتل
انچارج انویسٹی گیشن ٹیم ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش نے بریفنگ میں بتایا کہ جولائی سے اب تک کی تحقیقات کے مطابق زینب کے علاوہ دیگر بچیوں عاصمہ، لائبہ، تہمینہ، نور فاطمہ، ایمان فاطمہ، ثنا کے ساتھ زیادتی ہوئی، 31 اکتوبر 2017 سے اب تک 696 ڈی این اے کیے گئے اور 692 لوگوں سے تحقیقات کی گئیں، 125 ڈی این اے کا رزلٹ ابھی تک نہیں آیا، زینب کا قاتل کل بھی پکڑا جا سکتا ہے اور کئی مہینے بھی لگ سکتے ہیں، یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے، ہم نے ایک ایسا ملزم بھی پکڑا جس نے ایک سال میں پچیس فون سمیں بدلیں، اس ملزم کا بھی ڈی این اے کروایا گیا ہے۔
ڈی آئی جی مردان نے عاصمہ قتل کیس کے بارے میں کمیٹی کو بتایا کہ 13 جنوری کو بچی عاصمہ اغوا ہوئی، پوسٹ مارٹم کروایا گیا جس سے پتہ چلا کہ گلا دبا کر قتل کیا گیا۔ ریپ، قتل اور انتقام کو مد نظر رکھ کر تحقیقات کی جا رہی ہیں، جیو فینسنگ بھی کی جارہی ہے اور تحقیقات کو ہر طرح سے آگے بڑھایا جا رہا ہے.
اجلاس میں زینب اور عاصمہ کے لیے دعا کرائی گئی اور واقعات کے خلاف قرارداد مذمت منظور کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بچوں کے ساتھ اغوا و زیادتی کے مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جائے، بچوں کے ساتھ ہونےوالے جرائم پر کمیشن قائم کیا جائے اور پولیس فوری مدد کے لیے ایک واٹس ایپ نمبر متعارف کروائے۔
اجلاس میں سینیٹر شاہی سید کی سربراہی میں ایک خصوصی ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی گئی جو پورے ملک میں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرے گی۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ کمیٹی چار ہفتوں کی اندر رپورٹ پیش کرے گی اور ایسے جرائم کے اسباب اور سدباب کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔