گڈ اور بیڈ گورننس کا مسئلہ
حقائق سے آنکھیں چرانے کا وقت نہیں، کارپوریٹ گورننس کی ضرورت ہے۔
اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ ملکی سیاست کو جس دباؤ، کشیدگی، اضطراب، کشمکش اور کثیر جہتی چیلنجز کا سامنا ہے، اس کا ایک بنیادی سبب ''گڈ اور بیڈ گورننس''کا مسئلہ بھی ہے۔
میڈیا کی آزادی، پرشور اور بے ہنگم کوریج نے بھی اطلاعاتی محاذ پر ایک سیاسی، سماجی اور اخلاقی فشار implosion کی فضا پیدا کی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک مجرمانہ وارداتوں کے پہاڑ تلے دب گیا ہے اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں، انسانیت پر وحشت غالب آئی ہے، بہیمانہ وارداتوں کے ملزم گرفتار نہیں ہوپارہے، عجیب بے بسی ہے، زیادتی کے واقعات ایک نہیں سیکڑوں وارداتوں میں سے چند منظرعام پر آئے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے تفتیش و تعاقب میں کوئی بریک تھرو نہیں کرسکے۔
امریکا کے عظیم دانشور صدر تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ ''تاریخ عمومی طور پر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بری حکمرانی کیا ہوتی ہے۔'' مشکل یہ بھی ہے کہ اچھی و بری حکمرانی کا ایک جداگانہ تصور بھی مروج ہے، کہا جاتا ہے کہ مقامی انتظامیہ موثر ہو تو اچھی حکمرانی نعمت ہوتی ہے جب کہ غیر موثر انتظامیہ مسائل و بحران کو دعوت دیتی ہے، یہی ملکی صورتحال کا دردناک منظرنامہ ہے۔
بادی النظر میں حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں میں الزامات، جوابی الزامات، دشنام طرازی اور اب معذرت کرنے، استعفے لینے یا دینے کی آشفتہ بیانی ہورہی ہے، سماجی و معاشی مسائل کے انبار لگے ہیں، امور مملکت میں جمود کی کیفیت سوہان روح بن چکی ہے، عالمی خطرات کے بادل سروں پر منڈلا رہے ہیں، داخلی صورتحال بھی گمبھیر ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں پر اس وقت شدید خطرات ہیں، ہمارے دشمن پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، اپوزیشن کی سیاست انتشار، دھرنوں اور ملک کو تقسیم کرنے کی ہے۔ جرائم کی پیچیدہ صورتحال سے نہ صرف پولیس سٹرکچر اور اداروں کے فنکشنل ہونے کی مؤثریت مضمحل نظر آتی ہے بلکہ دوسری طرف سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، سیاسی رہنماؤں کے بیانات میں تلخی اور مخاصمانہ زہر گھل رہا ہے۔
گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کی بالادستی کی بحث رہی، ایک طرف عمران خان اور شیخ رشید اور دوسرے اراکین اسمبلی نے ایوان زیریں کے لیے جو نازیبا زبان استعمال کی اس کے مضمرات اور فال آؤٹ کی زد میں مال روڈ لاہورکے متحدہ اپوزیشن کے جلسہ کی کامیابی اور ناکامی پر بھی پڑا، عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری پارلیمنٹ پر لعنت بھیجے جانے والی صورتحال سے سخت دباؤ کا شکار ہوگئے اور ان کے لیے متحدہ اپوزیشن کو ماڈل ٹاؤن سانحہ کے شہدا کے لیے انصاف کے حصول کے لیے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو دوبارہ ساتھ ملانے کے لیے تیشہ فرہاد لے کر سیاسی خودکشی کے اس واقعہ کا ازالہ ایک ہائی پروفائل ٹاسک بن گیا ہے۔
نواز شریف نے جلسوں کا آغاز کردیا ہے، ن لیگ ہری پور جلسہ کی کامیابی پر نازاں ہے، ادھر مارچ میں سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کو اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کے سرگرم ہونے کے اشارے ملے ہیں، تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق ان جماعتوں کے اندرونی اختلافات کے باعث اس مقصد میں کامیابی کے امکانات پر غور ہورہا ہے، کشمکش عروج پر ہے، شنید ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی الگ الگ حکمت عملی کی وجہ سے ن لیگ کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔
ایک انگریزی اخبار نے آیندہ سینٹ الیکشن سیاسی جماعتوں سے وابستہ سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ اور نئے سینیٹرز کے انتخابات کا شماریاتی جائزہ سیاسی افق پر پیش کردیا ہے، جب کہ اپوزیشن کے دباؤ کا توڑ کرنے کے لیے ن لیگ نے بھی سیاسی مہم شروع کی ہے، عمران خان کا کہنا ہے کہ نوازشریف نااہلی فیصلہ کے خلاف جلسوں سے عدلیہ پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں، ایک خبر کے مطابق حافظ سعید پر پابندیوں کا جائزہ لینے اقوام متحدہ کی ٹیم پاکستان آرہی ہے۔
جرم و انصاف کے وسیع تر تناظر میں سپریم کورٹ نے قصور کی معصوم مقتولہ زینب کے قاتل کو 72 گھنٹے میں گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے کئی معاملات پر ازخود نوٹس لینے اور چھٹی کے روز بھی مقدمات سننے سے فراہمی انصاف کے عمل میں تیزی کا عندیہ ملتا ہے، دوسری طرف نقیب اللہ کے اہل خانہ کو لینے کے لیے پولیس ٹیم ٹانک سے جنوبی وزیرستان روانہ ہوگئی ہے، جب کہ راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔
دریں اثنا کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا مقصود ساہیوال کا رہائشی نکلا، میت آبائی گاؤں میں پہنچنے پر کہرام مچ گیا، ورثا نے شدید احتجاج کیا اور اعلیٰ حکام سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کردیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو میں معافی مانگ کر گھر چلا جاؤں گا، تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ کسی غیر آئینی طریقے سے حکومت کے خاتمے کے حامی نہیں۔
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ لاہور میں اپوزیشن جماعتوں سے کوئی الائنس نہیں کیا، تمام جماعتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئی تھیں۔ ادھر سوئی بلوچستان میں سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ پھٹنے کے باعث زخمی ہونے والے 3 افرادکوشیخ زید اسپتال منتقل کردیا گیا۔ بلوچستان کی نئی سیاسی صورتحال بھی آیندہ کیا کروٹ لے گی اس کا بھی بہتوں کو انتظار ہے۔
تاہم حقائق سے آنکھیں چرانے کا وقت نہیں، کارپوریٹ گورننس کی ضرورت ہے اور اس کے لیے قیادت کا بحران ختم کرنا اولین قومی ترجیح ہونی چاہیے، قوم کو یہ پیغام نہیں جانا چاہیے کہ مصائب کم کرنے اور چیلنجز کا مقابہ کرنے کے بجائے حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں، ملکی حالات کتنے ہی مخدوش ہوں ملکی سیاسی قیادت آزمائشوں میں اپنے جوہر دکھاتی ہے، قوم کو بھی سیاسی، مذہبی اور دینی اتحاد کے لیے آگے بڑھنا ہوگا، مفسدانہ پروپیگنڈہ اور انتہاپسندی و دہشتگردی کے عفریت سے مل کر نمٹنا ہوگا۔
حضورؐ کے اسوہ حسنہ کی عملی تعبیر کا وقت ہے، وطن عزیز کو بانی پاکستان محمد علی جناح کی سوچ اور ان کے افکار و احکامات پر عمل کرکے مسائل کے گردان سے نکالا جاسکتا ہے، اسلام امن کا دین ہے، اس کے پیروکاروں کو ان قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہونا چاہیے جو ریاستی رٹ کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور خطے کو آگ اور خون کے سمندر میں ڈبونا چاہتے ہیں، اہل اقتدار میڈیا کی طاقت سے نہ گھبرائیں، پاکستان ماضی کا اسیر نہیں رہا، وقت بدل چکا ہے، میڈیا کی چنگھاڑ چشم کشا ہے۔
عشروں کے تساہل، تجاہل عارفانہ اور عوام دشمن پالیسیوں کے باعث فرد اور ریاست کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنے کا کام اسٹیک ہولڈرز کی ذمے داری ہے۔ عدلیہ، میڈیا، سول سوسائٹی اور 21 کروڑ عوام ریلیف اور آسودگی کے منتظر ہیں، ملک ہنگاموں، جلاؤ گھیراؤ، بدامنی، قتل وغارت اور لاحاصل ایجی ٹیشن کا متحمل نہیں ہوسکتا، کسی جانب سے یہ آواز آئی تھی کہ پاکستان کو کسی ڈیگال، ناصر، سوئیکارنو، ماؤزے تنگ، فیڈل کاسترو، نیلسن منڈیلا کی ضرورت ہے۔کوئی چراغ لے کر سامنے آئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شعر طعنہ بن جائے،
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ
کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ
میڈیا کی آزادی، پرشور اور بے ہنگم کوریج نے بھی اطلاعاتی محاذ پر ایک سیاسی، سماجی اور اخلاقی فشار implosion کی فضا پیدا کی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک مجرمانہ وارداتوں کے پہاڑ تلے دب گیا ہے اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں، انسانیت پر وحشت غالب آئی ہے، بہیمانہ وارداتوں کے ملزم گرفتار نہیں ہوپارہے، عجیب بے بسی ہے، زیادتی کے واقعات ایک نہیں سیکڑوں وارداتوں میں سے چند منظرعام پر آئے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے تفتیش و تعاقب میں کوئی بریک تھرو نہیں کرسکے۔
امریکا کے عظیم دانشور صدر تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ ''تاریخ عمومی طور پر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بری حکمرانی کیا ہوتی ہے۔'' مشکل یہ بھی ہے کہ اچھی و بری حکمرانی کا ایک جداگانہ تصور بھی مروج ہے، کہا جاتا ہے کہ مقامی انتظامیہ موثر ہو تو اچھی حکمرانی نعمت ہوتی ہے جب کہ غیر موثر انتظامیہ مسائل و بحران کو دعوت دیتی ہے، یہی ملکی صورتحال کا دردناک منظرنامہ ہے۔
بادی النظر میں حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں میں الزامات، جوابی الزامات، دشنام طرازی اور اب معذرت کرنے، استعفے لینے یا دینے کی آشفتہ بیانی ہورہی ہے، سماجی و معاشی مسائل کے انبار لگے ہیں، امور مملکت میں جمود کی کیفیت سوہان روح بن چکی ہے، عالمی خطرات کے بادل سروں پر منڈلا رہے ہیں، داخلی صورتحال بھی گمبھیر ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں پر اس وقت شدید خطرات ہیں، ہمارے دشمن پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، اپوزیشن کی سیاست انتشار، دھرنوں اور ملک کو تقسیم کرنے کی ہے۔ جرائم کی پیچیدہ صورتحال سے نہ صرف پولیس سٹرکچر اور اداروں کے فنکشنل ہونے کی مؤثریت مضمحل نظر آتی ہے بلکہ دوسری طرف سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، سیاسی رہنماؤں کے بیانات میں تلخی اور مخاصمانہ زہر گھل رہا ہے۔
گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کی بالادستی کی بحث رہی، ایک طرف عمران خان اور شیخ رشید اور دوسرے اراکین اسمبلی نے ایوان زیریں کے لیے جو نازیبا زبان استعمال کی اس کے مضمرات اور فال آؤٹ کی زد میں مال روڈ لاہورکے متحدہ اپوزیشن کے جلسہ کی کامیابی اور ناکامی پر بھی پڑا، عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری پارلیمنٹ پر لعنت بھیجے جانے والی صورتحال سے سخت دباؤ کا شکار ہوگئے اور ان کے لیے متحدہ اپوزیشن کو ماڈل ٹاؤن سانحہ کے شہدا کے لیے انصاف کے حصول کے لیے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو دوبارہ ساتھ ملانے کے لیے تیشہ فرہاد لے کر سیاسی خودکشی کے اس واقعہ کا ازالہ ایک ہائی پروفائل ٹاسک بن گیا ہے۔
نواز شریف نے جلسوں کا آغاز کردیا ہے، ن لیگ ہری پور جلسہ کی کامیابی پر نازاں ہے، ادھر مارچ میں سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کو اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کے سرگرم ہونے کے اشارے ملے ہیں، تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق ان جماعتوں کے اندرونی اختلافات کے باعث اس مقصد میں کامیابی کے امکانات پر غور ہورہا ہے، کشمکش عروج پر ہے، شنید ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی الگ الگ حکمت عملی کی وجہ سے ن لیگ کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔
ایک انگریزی اخبار نے آیندہ سینٹ الیکشن سیاسی جماعتوں سے وابستہ سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ اور نئے سینیٹرز کے انتخابات کا شماریاتی جائزہ سیاسی افق پر پیش کردیا ہے، جب کہ اپوزیشن کے دباؤ کا توڑ کرنے کے لیے ن لیگ نے بھی سیاسی مہم شروع کی ہے، عمران خان کا کہنا ہے کہ نوازشریف نااہلی فیصلہ کے خلاف جلسوں سے عدلیہ پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں، ایک خبر کے مطابق حافظ سعید پر پابندیوں کا جائزہ لینے اقوام متحدہ کی ٹیم پاکستان آرہی ہے۔
جرم و انصاف کے وسیع تر تناظر میں سپریم کورٹ نے قصور کی معصوم مقتولہ زینب کے قاتل کو 72 گھنٹے میں گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے کئی معاملات پر ازخود نوٹس لینے اور چھٹی کے روز بھی مقدمات سننے سے فراہمی انصاف کے عمل میں تیزی کا عندیہ ملتا ہے، دوسری طرف نقیب اللہ کے اہل خانہ کو لینے کے لیے پولیس ٹیم ٹانک سے جنوبی وزیرستان روانہ ہوگئی ہے، جب کہ راؤ انوار نے تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔
دریں اثنا کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا مقصود ساہیوال کا رہائشی نکلا، میت آبائی گاؤں میں پہنچنے پر کہرام مچ گیا، ورثا نے شدید احتجاج کیا اور اعلیٰ حکام سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کردیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو میں معافی مانگ کر گھر چلا جاؤں گا، تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ کسی غیر آئینی طریقے سے حکومت کے خاتمے کے حامی نہیں۔
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ لاہور میں اپوزیشن جماعتوں سے کوئی الائنس نہیں کیا، تمام جماعتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئی تھیں۔ ادھر سوئی بلوچستان میں سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ پھٹنے کے باعث زخمی ہونے والے 3 افرادکوشیخ زید اسپتال منتقل کردیا گیا۔ بلوچستان کی نئی سیاسی صورتحال بھی آیندہ کیا کروٹ لے گی اس کا بھی بہتوں کو انتظار ہے۔
تاہم حقائق سے آنکھیں چرانے کا وقت نہیں، کارپوریٹ گورننس کی ضرورت ہے اور اس کے لیے قیادت کا بحران ختم کرنا اولین قومی ترجیح ہونی چاہیے، قوم کو یہ پیغام نہیں جانا چاہیے کہ مصائب کم کرنے اور چیلنجز کا مقابہ کرنے کے بجائے حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں، ملکی حالات کتنے ہی مخدوش ہوں ملکی سیاسی قیادت آزمائشوں میں اپنے جوہر دکھاتی ہے، قوم کو بھی سیاسی، مذہبی اور دینی اتحاد کے لیے آگے بڑھنا ہوگا، مفسدانہ پروپیگنڈہ اور انتہاپسندی و دہشتگردی کے عفریت سے مل کر نمٹنا ہوگا۔
حضورؐ کے اسوہ حسنہ کی عملی تعبیر کا وقت ہے، وطن عزیز کو بانی پاکستان محمد علی جناح کی سوچ اور ان کے افکار و احکامات پر عمل کرکے مسائل کے گردان سے نکالا جاسکتا ہے، اسلام امن کا دین ہے، اس کے پیروکاروں کو ان قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہونا چاہیے جو ریاستی رٹ کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور خطے کو آگ اور خون کے سمندر میں ڈبونا چاہتے ہیں، اہل اقتدار میڈیا کی طاقت سے نہ گھبرائیں، پاکستان ماضی کا اسیر نہیں رہا، وقت بدل چکا ہے، میڈیا کی چنگھاڑ چشم کشا ہے۔
عشروں کے تساہل، تجاہل عارفانہ اور عوام دشمن پالیسیوں کے باعث فرد اور ریاست کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنے کا کام اسٹیک ہولڈرز کی ذمے داری ہے۔ عدلیہ، میڈیا، سول سوسائٹی اور 21 کروڑ عوام ریلیف اور آسودگی کے منتظر ہیں، ملک ہنگاموں، جلاؤ گھیراؤ، بدامنی، قتل وغارت اور لاحاصل ایجی ٹیشن کا متحمل نہیں ہوسکتا، کسی جانب سے یہ آواز آئی تھی کہ پاکستان کو کسی ڈیگال، ناصر، سوئیکارنو، ماؤزے تنگ، فیڈل کاسترو، نیلسن منڈیلا کی ضرورت ہے۔کوئی چراغ لے کر سامنے آئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شعر طعنہ بن جائے،
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ
کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ